میں نے اسلام کیوں قبول کیا؟

مصنف : ڈاکٹر قاسم

سلسلہ : من الظلمٰت الی النور

شمارہ : مارچ 2018

میرا پرانا نام پرمودکیسوانی تھا، میں گوہاٹی کایستھ گھرانے میں ۱۷ جنوری ۱۹۷۴ ؁ء کو شری ہنس راج کیسوانی کے گھر میں پیدا ہوا، ابتدائی تعلیم انگریزی میڈیم اسکول میں ہوئی، پھر گوہاٹی میں کمپیوٹر سائنس سے بی ایس سی کیا، اس کے بعد دہلی سے کمپیوٹر سائنس میں ایم ایس سی میں گولڈ میڈل حاصل کیا اور نیویارک میں کمپیوٹر سافٹ ویئر میں بی ایس ڈی کیا ، میرے بڑے بھائی ڈاکٹر ونودکیسوانی بہت اچھے سر جن ہیں، نیویارک میں رہتے ہیں، میرے والد سائنس کے لیکچر ر تھے ، میرے نیویارک کے قیام کے دوران ان کا انتقال ہوگیا تھا، اب آج کل میں امریکہ کی ایک سافٹ ویر کمپنی کی گڑگاواں برانچ کا ڈائرکٹر ہوں۔ 
مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایت کا کرشمہ دکھا کر اس زمین سے اوپر ایک الگ عالم میں ۶ فروری ۲۰۰۳ کو ہدایت سے نوازا ، میں نے ایسی جگہ اسلام قبول کیا کہ شاید پوری دنیا میں بس ہم دو لوگوں کے علاوہ کسی کو وہاں ہدایت نہ ملی ہو۔
سوال : کچھ کچھ تو ہم نے بھی سنا ہے، مگر آپ خود اپنی زبان سے واقعہ سنائیے؟
جواب : بچپن سے ہمارا گھرانہ ہندومذہبی گھرانہ تھا، پہلے ہمارے دادا اصل میں لکھنؤ کے رہنے والے تھے، وہ ملازمت کے سلسلہ میں گوہاٹی چلے گئے تھے اور وہیں پر مقیم ہوگئے، ہمارے گھرانہ میں اردو خصوصاََ لکھنؤ کی تہذیب کا خاصا اثر ایک عرصہ تک گوہاٹی میں رہنے کے باوجود تھا، انگریزی میڈیم اسکول میں پڑھ کر میرا مذہب سے تعلق ذرا کمزور پڑا، پھر دہلی میں کچھ ایسا ماحول ملا کہ وہاں مذہب کی بات کرنا تو گویا دیہاتی اور گنوار یا فنڈامنٹلسٹ (بنیاد پرست) ہونا سمجھا جاتاتھا، سونے پر سہاگا یہ ہوا کہ نیویارک میں ایم ڈی کرنے چلا گیا، وہاں تو مذہب اورخاص کر ہندو مذہب سے آستھا بالکل اٹھ گئی، میرے نیویارک کے قیام کے دوران ۱۱؍ ستمبر کا واقعہ پیش آیا، اس واقعہ سے ٹی وی، اخبارات اور ددوسرے میڈیا نے مسلمانوں کو دہشت گردی خصوصاََ (Islamic terrorism) اسلامی دہشت گردی کا بہت چرچا کیا ، میرے ذہن میں اس وقت مسلمانوں کے سلسلہ میں بس اتنی بات تھی کہ مسلمان پرانے زمانے کی داستانوں میں یقین رکھنے والی ایک بے حقیقت اور پسماندہ قوم ہے، مگر ۱۱؍ ستمبر کے بعد مسلمان کچھ ہیں، کیا ہیں، اسلام کیا ہے، کیوں اس کو ماننے والے ا س قدر اس سے تعلق رکھتے ہیں اور اتنی بڑی قربانیاں کیوں دیتے ہیں، خصوصاََ مسلمانوں اور اسلام سے دنیا کو کیا کیا خطرہ ہے اور یہ دنیا کے امن کے دشمن کس طرح ہیں ؟ اس طرح کے سوال عام طور پر پوری مغربی دنیا خصوصاََ امریکہ میں رہنے والوں کے دماغ میں اٹھ رہے تھے ۔اس زمانہ میں میڈیا سے تعلق رکھنے والا امریکہ کا آدمی کم از کم کسی داڑھی والے مسلمان سے خوف زدہ ہونے لگا تھا۔ میرے اسلام قبول کرنے سے چھ روز پہلے میں نیویارک میں تھا، اپنی بھتیجیوں کو ایک پارک میں لے کر گھومنے گیا تو وہاں ایک داڑھی والے مسلمان ملے، توفوراً بچہ میرے پاس آگیا اورڈر سے بولا، انکل اسامہ ہے، بچہ کے اس جملہ سے میری ذہنیت اور مغربی دنیا میں رہنے والے ہر آدمی کی کیفیت کو سمجھ سکتے ہیں۔ میں کمپنی کے کام سے ہیڈ آفس گیا تھا، ایرانڈیا سے میرا ٹکٹ تھا، مجھے دبئی سے کچھ آ فس کے لئے خریداری کرنی تھی اور ایک کمپنی کی شاخ کو دینا تھا۔ دوبئی پانچ روز قیام کرکے ۶ جنوری ۲۰۰۳ ؁ ء کو میں ایر انڈیا کے جہاز پر سوار ہوا، تقریباََ آخر تک میرے برابر والی سیٹ خالی رہی، بالکل اخیر میں ۲۰ منٹ پہلے آپ کے ابی میرے برابر والی سیٹ پر آئے، میں نے ان سے ہاتھ ملایا، ان سے تعارف حاصل کیا تو انھوں نے کلیم صدیقی اپنا نام بتایا۔ ان سے پتہ معلوم کیا تو انھوں نے بتایا کہ دہلی کے پاس رہتا ہوں، میں نے ان کا استقبال کیا اور چھیڑنے اور چٹکی لینے کے لئے ان سے کہا : ویر ی گڈ، بہت اچھا، میرا نام اسامہ ہے ۔ شاید ان کو میری بات پر ہنسی نہیں آئی، انھوں نے تعجب سے پوچھا کہ آپ کا نام اسامہ ہے ۔میں نے کہا کہ اصل میں چار پانچ روز پہلے نیویارک میں اپنے بھتیجے کو لے کر پارک میں گھومنے گیا تھا،وہاں ایک ڈاڑھی والے صاحب آگئے تو بچہ ڈر کر بھا گا اور بولا، انکل اسامہ ہے ۔مولانا صاحب نے مجھے بعد میں بتایا کہ آپ کا طنز سن کر ذراسی دیر کو میرا دل دکھا، مگر میں نے دل میں سوچا کہ تین گھنٹے ساتھ بیٹھنا ہے اگر اللہ نے لاج رکھی تو آج آپ کا نام اسامہ رکھ کر ہی جہاز سے اتریں گے ۔ 
جہاز کے پرواز کرنے سے پہلے میں نے اپنا تعارف کرایا اور مولانا صاحب سے تعارف معلوم کیا تو انھوں نے بتایاکہ وہ عجمان (یو اے ای) میں ایک عربی اور اسلامی سینٹر چلاتے ہیں میں نے ان سے کہا کہ پھر تو آپ مذہب کے بارے میں خوب جانتے ہوں گے ؟ میں بہت زمانے سے کسی مذہب کے جاننے والے سے باتیں کرنا چاہتا ہوں، اچھا رہے گا، آپ سے باتیں ہوجائیں گی۔ مولانا صاحب نے کہا : مذہب تو بڑی چیز ہے اس کے بارے میں سب کچھ جاننا تو بڑی بات ہے، البتہ جتنامیں جانتا ہوں آپ سے باتیں کر کے خوشی ہوگی۔
جہاز نے پرواز شروع کی اور میں نے باتوں کا سلسلہ جاری رکھا، میں نے مولانا صاحب سے سوال کیا کہ یہ بتائیے کہ مذہب والے کہتے ہیں کہ اس سنسار کو بنانے والا اور چلانے والا ایک بھگوان (اِیشور) ہے، وہ سنسار کو بنانے والا ہے وہی سنسار کے سارے کام چلارہا ہے اب تو سائنس کا زمانہ ہے ہر خیال کو ترکوں(دلیلوں ) پر پرکھا جانا ہے، آپ کے پاس اس کا کیا ثبوت ہے کہ وہ مالک ہے اور سنسار کا بنانے والا ہے ؟ مولانا صاحب نے کہا کہ آپ کمپیوٹر سائنس میں ڈاکٹر ہونے کے باوجود پرانے زمانہ کی ایک جاہل بڑھیا جیسی بات بھی نہیں سمجھتے، جس سے جب کسی آپ جیسے نے سوال کیا کہ ماں یہ بتا کہ اس سنسار کو بنانے والا اور چلانے والا کون ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ بیٹا اس سارے سنسار کو چلانے والا صرف اور صرف ایک مالک ہے، سوال کرنے والے نے پوچھا کہ ماں یہ بات آپ کس طرح کہتی ہیں ؟ اس نے جواب دیا کہ میرے چرخہ نے مجھے یہ بات بتائی ہے ۔ سوال کرنے والے نے معلوم کیا کہ کس طرح ؟ اس نے کہا کہ میں دیکھتی ہوں کہ میں چرخہ چلاتی ہوں تو چلتا ہے اور اگر رک جاتی ہوں تو رک جاتا ہے اور میں اکیلے چرخہ چلاتی ہوں تو چرخہ بھلی طرح چلتا ہے اور سوت کانتا ہے اور اگر ایک چھوٹے بچے نے سوت کی انٹی کو ہاتھ لگایا تو سوت الگ اور سارا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔ اس سے مجھے پتہ لگا کہ جب ایک چھوٹا سا چرخہ بغیر کسی کے چلائے نہیں چلتا تو یہ کائنات، سورج، چاند، دن رات، گرمی، برسات، سردی کاپورا چرخہ ضرور کوئی چلانے والا چلارہا ہے، ضرور اس کا چلانے والا کوئی ہے اوروہ اکیلا ہے، اس لئے کہ ذراسی بچی میرے چرخے پر انگلی لگادے تو ساراسوت کاتنے کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے، تو اگر ایک کے علاوہ کئی خداہوتے توکائنات کا نظام درہم برہم ہوجاتا۔
مولانا صاحب نے بتایا کہ قرآن حکیم نے اس حقیقت کو بیان کیا ہے کہ ایک خدا کے علاوہ کئی خدا ہوتے تو سرشٹی(کائنات ) میں جھگڑا اور فساد ہو جاتا لَوْ کَانَ فِیْھِمَاآلِھََۃٌ اِلاَّاللّٰہُ لَفَسَدَتَا (۱۷رکوع۲) ترجمہ: اگر ان دونوں(زمین وآسمان)میں اللہ کے علاوہ کوئی معبود ہوتے تو دونوں جھگڑ پڑتے۔
اگر کئی بھگوان ہوتے یا دیوی دیوتاؤں کو کچھ اختیار ہوتا تو روزآسمان زمین میں فساد رہتا، ایک کہتا کہ اب دن بڑا ہوگا دوسرا کہتا کہ نہیں چھوٹا ہوگا، ایک کہتا سردی ہوگی دوسرا کہتا کہ نہیں گرمی ہوگی، ایک کہتا کہ بارش ہوگی دوسرا کہتا کہ نہیں دھوپ نکلے گی، ایک نے اپنے اپاسک (پوجا کرنے والے) سے کسی چیز کا وعدہ کر لیا تو دوسرا اس کے خلاف کرنے کو کہتا، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ سنسار کا سارا نظام اتنے نظم وضبط کے ساتھ سلیقہ سے چل رہا ہے، یہ پورا نظام یہ بتارہا ہے کہ اس کا بنانے اور چلانے والا صرف اور صرف ایک مالک ہے ۔ 
مولانا صاحب نے کہا کہ اس اکیلے مالک نے ساری دنیا کے سردار انسان کی فطرت اور اس کے نیچر میں یہ خوبی رکھی ہے کہ کسی بنی ہوئی چیز کو دیکھ کر اس کے بنانے والے کو پہچانتا اور اس کی بڑائی کو سمجھتا ہے، آپ دیکھیں جب آپ کوئی اچھا کھانا کھاتے ہیں تو کھانے کے ذائقہ اور اچھائی سے زیادہ آپ کا ذہن اس طرف جاتا ہے کہ یہ کھانا کس نے بنایا ؟ کوئی اچھا سلا ہوا کپڑا دیکھتے ہیں تو فوراََ آپ کا سوال یہ ہوتا ہے کہ کس نے سیا ہے ؟ کوئی اچھی تعمیر دیکھتے ہیں تو فوراََ یہ خیال آتا ہے کہ یہ تعمیر کس نے کی؟ غرض کسی مصنوع سے انسان اس کے صانع کو اور مخلوق سے اس کے خالق کو پہچاننے کا فطری جذبہ رکھتا ہے، ایسے بڑے سنسار کی ایسی پیاری پیاری چیزیں، یہ ستاروں سے جگمگ آسمان، یہ چاند اور سورج، یہ دن اور رات، یہ زمین یہ پھل یہ پھول، یہ پہاڑ یہ سمندر، یہ جانور یہ پرندے، یہ پتنگے، یہ سب بتارہے ہیں اور آپ کا اور ہمارا دل و دماغ یہ خود کہہ رہا ہے کہ اس کا بنانے والا کوئی بڑا حکیم اور علیم خدا ہے ۔
مولانا صاحب کی اس سادہ مثال میں ایسی بڑی بات سمجھانے سے میں اندر سے بہت متاثر ہوا کہ یہ شخص مذہبی ہے مگر بڑے ترک (دلیل) کے ساتھ بات کرنے والا ہے۔ میں نے ان سے دوسرا سوال کیا کہ چلئے یہ بات تو میرا دل اندر سے کہتا ہے کہ سنسار کاکوئی بنانے والا اور چلانے والا ہے، ایشور اور خدا ضرور ہے، مگر یہ بات تو کسی بھی طرح ٹھیک نہیں لگتی ہے کہ گیتا کو مانو، قرآن کو مانو، بائبل کو مانو، اس نے انسان کو بدھی دی ہے، اپنی عقل سے سوچ لے اور مان لے۔ مولانا صاحب نے کہا کہ واہ جی واہ ڈاکٹر صاحب!آپ بھی خوب آدمی ہیں، واجپئی کو تو مانتے ہیں کہ بھارت کا کوئی چلانے والا ہے مگر بھارت کے سنودھان (آئین ) کو نہیں مانتے۔ جب اس کائنات اور دنیا کا کوئی مالک ہے تو پھر اس کا قانون ہونا بھی ضروری ہے۔ انسانوں کے لئے زندگی گذارنے کا وہ قانون جو اکیلے مالک نے اپنی طرف سے طے کیا ہے اس کو مذہب کہتے ہیں، اس طرح مذہب کو مانے بغیر مالک اور خدا کو ماننے کا کوئی تصور ہی نہیں۔
مولانا صاحب نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب آپ کے لئے سب سے ضروری بات سمجھنے کی یہ ہے کہ وہ مالک جس نے آپ کو اورسارے انسانوں کو پیدا کیا وہ اس دنیا کا اکیلا مالک اوربادشاہ ہے۔ جب وہ مالک اکیلا ہے تو وہ سچا قانون اور دین جو اس کی طرف سے بھیجا گیا ہے وہ بھی صرف ایک ہی ہوگا۔ انسان کو اللہ نے عقل دی ہے یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس اکیلے سچے دھرم کو معلوم کرکے اس کو مانے اور اس اللہ نے اپنی آخری کتاب میں یہ بات صاف بتائی ہے کہ وہ سچا دھرم اور دین صرف اسلام ہے اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَاللّٰہِ الْاِسْلاَمُجب سے آدمی پیدا ہوا ہے تب سے آج تک اسلام ہی اکیلا سچا دین ہے۔ جو انسان اس اکیلے سچے مالک کو اور اس کے بنائے ہوئے سچے دین اسلام کو نہ مانے، وہ اس دنیا میں غدار اور اسے اس سنسار کی کسی بھی چیز سے فائدہ اٹھانے کا اختیار نہیں۔اس کو اللہ کی زمین کی نیشنلٹی ہی نہیں ملے گی اور باغی یا غدار کی سزا پھانسی یا ہمیشہ کی جیل ہے۔ اس مالک کے یہاں بھی غیر ایمان والے کو ہمیشہ نرک کی جیل ہے اور اس دنیا میں بھی وہ جب چاہے سزادے سکتا ہے، ورنہ موت کے چیک پوسٹ پر جب اس دیش سے پر لوک کے دیش میں انسان جائے گا تو اللہ کا امیگریشن اسٹاف وہاں سب سے پہلے ایمان ہی کو چیک کر ے گا۔ یہ کہکر مولانا صاحب نے میرے ہاتھ پکڑلئے اورکہا کہ ڈاکٹر صاحب آپ میرے ساتھ سفر کررہے ہیں، یوں بھی میرا ایمان ہے کہ ہم سب ایک ماں باپ کی اولاد اور خونی رشتہ کے بھائی ہیں اور اب تو آپ میرے ہم سفر ہیں اور ہم سفر کا بڑا حق ہوتا ہے اس لئے آپ سے محبت کی بات کہتا ہوں کہ موت کا کچھ پتہ نہیں کہ کب آجائے اس لئے اس سے اچھا کوئی وقت نہیں ہوسکتا کہ آپ مسلمان ہوجائیے اور کلمہ پڑھ لیجئے۔
میں نے مولانا صاحب سے کہا کہ آپ کی باتیں تو مجھے بہت لوجک لگ رہی ہیں اور میں ضرور سوچوں گا مگر یہ دھرم بدلنا کوئی مذاق تھوڑی ہے کہ اتنی جلدی فیصلہ کر لیا جائے، مولاناْ صاحب نے کہا کہ یہ فیصلہ بہت جلدی کرنے کا ہے، ڈاکٹر صاحب آپ مجھے ستایئے نہیں، فوراََ کلمہ پڑھ لیجئے ۔
میں نے مولانا صاحب سے کہا کہ آپ مجھے وقت دیجئے، مولانا صاحب نے کہا وقت نکل چکا فوراََ کلمہ پڑھئے ۔ امریکہ کا ایک طیارہ کولمبیا جاتے ہوئے ابھی چار روز پہلے گر ا ہے، اگر ہمارا جہاز بھی اترتے ہوئے خدانہ کرے حادثہ کا شکار ہوگیا تو پھر کہا ں وقت رہے گا۔ دیر تک مولانا صاحب مجھے سمجھاتے رہے اور بار بار بیتاب ہوکر کہتے کہ دیر نہ کریں جلدی مسلمان ہوجائیں، نہ جانے آپ کی موت آجائے یا میں مرجاؤں۔
اسلام کے اکیلے سچے مذہب ہونے پر مولانا صاحب نے ہمارے ملک بھارت کے نظام حکومت کی مثال دی اور اب سے پہلے کے سارے وزیراعظموں کو بھی سچا بتا کر باجپئی جی کے زمانہ کے قانون کو ماننا ضروری بتاکر، میرے دل کو مطمئن کردیا۔
مرنے کے بعد کے سورگ اور نرک پر جب میں نے شک جتایا کہ مرنے کے بعد کس نے دیکھا ہے آدمی مرگیا گل سڑ گیا ؟ تو انھوں نے پہلے تو سچے نبی کی زبان اور سچے قرآن کی بات کہی، پھر ایک مچھلی کا قصہ مثال کے طور پر سنایا، جس سے میرا دل بہت مطمئن ہوا۔ میرے دل میں اچانک خیال آیا تو میں نے مولانا صاحب سے سوال کیا کہ اچھا یہ بتائیے کہ مسلمانوں کو اپنے دھرم اورمذہب کی باتوں پر جو وشواس اور یقین ہوتا ہے وہ ہم ہندوؤں کو کیوں نہیں ہوتا ؟ مولانا صاحب نے جواب دیا کہ یقین اور وشواس انسان کا سچ پر جمتا ہے، جھوٹ پر انسان کے اندر شک رہتا ہے، کیوں کہ قرآن اسلامی اصول، اس کو لانے والے آخری رسول اور ان کی زندگی (اتہاس) کے واسطہ سے ہمارے پاس بہت پکی سند کے ساتھ موجود ہے، اس لئے ہمیں اسلام کی ہر بات پر اندر سے یقین ہوتا ہے۔ اسلام اور قرآن ایسے سچے نبی کے واسطہ سے ہم تک پہنچا ہے جس کو دشمن بھی الصادق الا مین ( سچا اور ایماندار ) کہتے تھے بلکہ اس کا نام ہی سچا اور ایماندار ان لوگوں نے رکھ دیا تھا۔
میرے دل کو یہ بات بہت لگی، بار بار مولانا صاحب مجھ سے اسلام قبول کرنے اور مسلمان ہونے کے لئے کہتے، مگر دھرم بدلنا اتنا آسان کام نہیں تھا، جب وہ بار بار کہتے رہے تو میں جان بچا کر اٹھ کر پیشاب کے بہانے جہاز کے ٹائلیٹ میں چلا گیا،ٹائلیٹ سے واپس آکرمیں سیٹ پر واپس آنے کے بجائے ایک طرف کھڑا ہو کر دیر تک سوچتا رہا، کہ یہ آدمی میرا کوئی رشتہ دار نہیں، اس کو مجھ سے کچھ لالچ نہیں، ایسا پڑھا لکھا اور ترک سے بات کرتا ہے، میں ایک ڈاکٹر تعلیم یافتہ آدمی ہوں، جب میرا دل و دماغ سو فیصد اس کی باتوں سے مطمئن ہے، تو مجھے فیصلہ کرنے میں یہ سوچنا کہ سماج کیا کہے گا جہالت ہے۔ یہ نیا زمانہ ہے اور ہر آدمی کم از کم مجھ جیسا سائنس میں پی ایچ ڈی کرنے والا تو سو فیصد آزاد ہے اور میں نے فیصلہ کر لیا کہ مجھے اس سچے اور بھلے آدمی کی اس درد بھری پیشکش کو ٹھکرانا نہیں چاہئے۔
مولانا صاحب نے مجھے بتایا کہ دوبئی کے سفر میں وہ بہت دکھی تھے، آپ جب اٹھ کر گئے تو میں نے اپنے مالک سے تڑپ کر دعا کی کہ میرے اللہ ! جب آپ ہی دلوں کو پھیرنے والے ہیں، تو ان کا دل اسلام کے لئے کھول دیجئے ، آپ کے دل شکستہ بندے کا دل بہت دکھا ہوا ہے میرے اللہ ذرا ساخوش کر دیجئے۔
سوال : اس کے بعد کیا ہوا؟
جواب : اس کے بعد کیا ہوتا، فیصلہ اوپر سے ہوچکا تھا، بہت اعتماد اور عزم کے ساتھ میں سیٹ پر پہنچا، مجھے آج بھی اس عزم کا مزہ محسوس ہوتا ہے، جیسے کوئی سپہ سالار ایک دنیا فتح کرکے بیٹھا ہو۔ میں نے مولانا صاحب سے کہا مجھے مسلمان کر لیجئے ۔ مولانا صاحب نے میرے ہاتھ چوم لئے اور خوشی سے مجھے کلمہ پڑھایا، میرا اسلامی نام محمد قاسم رکھا اور مجھے بتایا کہ یہ اسلام اب آپ کی ملکیت نہیں بلکہ امانت ہے اور آپ قاسم ہیں ہمارے نبی کا ایک لقب قاسم تھا، اب سب تک پہنچانا ہے۔ جہاز میں اعلان ہوا کہ اب ہم دہلی پہنچ رہے ہیں، جہاز اترا، ہم دونوں اپنے ملک ایک مذہب کے ساتھ آسمان سے اترے۔ میں نے اپنے لگیج سے وہ مٹھائی کا ڈبہ نکال کر اور چاکلیٹ او ر بسکٹ نکال کر مولانا کو خوشی سے پیش کیا جو میں اپنے خاندانی دھرم گرو کے لئے لے کر آیا تھا اور خوشی خوشی میں گڑ گاؤں پہنچا۔
اس کے بعد ایک لطیفہ سناتا ہوں، مولانا صاحب کو پھلت جاکر یہ خیال آیا کہ مجھے پرمود کا نام اسامہ رکھنا تھا، انھوں نے مجھے فون کیا کہ غلطی سے میں نے آپ کا نام محمد قاسم رکھ دیا، آپ نے تو اپنا نام اسامہ رکھاتھا، آپ اپنا نام اسامہ رکھ لیں، میں نے کہا نہیں مولانا صاحب، اسامہ نام رکھ کر لوگ مجھے جینے نہیں دیں گے ، حضرت محمدصاحب کا ایک نام قاسم ہے وہ اسامہ سے بہت اچھا ہے، مولانا صاحب نے ہنس کر فون رکھ د یا۔
سوال : آپ نے قاسم نام رکھنے کا کیا حق ادا کیا؟
جواب : میں تو کچھ حق ادا نہیں کر پایا، البتہ میرے اکیلے بھائی امریکہ میں رہتے ہیں بڑے ڈاکٹر ہیں ان کے لئے ہدایت کی دعا کرنی شروع کی تھی، ستمبر میں ان کا خط آیا کہ وہ اپنے نرسنگ ہوم کی ایک نرس سے متاثر ہوکر مسلمان ہوگئے ہیں اور انھوں نے اس سے شادی بھی کر لی ہے، یہ ان کی دوسری شادی ہے ۔
سوال : آپ کی بھابھی کی طرف سے، مخالفت نہیں ہوئی؟
جواب : فون پر بات ہوتی رہتی ہے شروع شروع میں تو وہ بہت برہم تھیں، ہندوستان واپس آنا چاہ رہی تھیں، مگر اب یہ معلوم ہو کر حیرت ہوئی کہ اس مسلمان نرس کی خدمت اور اخلاق سے متاثر ہوکر وہ بھی مسلمان ہوگئی ہیں۔
سوال : واقعی آپ کی باتیں بڑے مزے کی ہیں، آپ کو اللہ نے زمین اور آسمان کے درمیان ہدایت نصیب فرمائی آپ نے شروع میں بتایا تھا کہ ہم دو آدمیوں کو یہ سعادت ملی، دوسراآدمی کون ہے؟
جواب : مولانا نے مجھے بتایا تھا کہ ان کے پیر مولانا علی میاں صاحب نے بھی جہاز میں کسی کو کلمہ پڑھوایا تھا۔
سوال : آپ نے اسلام کے مطالعے کے لئے کیا کیا ؟
جواب : میں نے گڑ گاؤں میں ایک مولانا صاحب سے رابطہ کیا روز رات کو ایک یا آدھے گھنٹہ کے لئے جاتا ہوں، اللہ کا شکر ہے کہ میں نے قرآن شریف پڑھ لیا ہے، جنازے کی نماز تک پوری نماز یا د ہوگئی ہے اور روزانہ کسی نہ کسی کتاب کو بھی پڑھتا ہوں۔
سوال : آپ کی شادی کا کیا ہوا؟
جواب : اللہ کا شکر ہے میرا رشتہ ایک دیندار مسلم پڑھے لکھے گھرانے میں ممبئی میں ہوگیا ہے۔
سوال : واقعی آپ کا بہت بہت شکریہ !ڈاکٹر صاحب، اخیر میں ارمغان کے واسطہ سے مسلمانوں کے لئے کوئی پیغام ؟
جواب : میرا پیغام تو بس یہ ہے کہ اسلام جب ایک سچائی ہے اور یہ سچائی جب سب کے لئے ہے تو اس کو سب تک پہنچنا

چاہئے، انسان تو سچائی کے سامنے بے بس ہوتا ہے ، اس کی مجبوری ہے کہ وہ سچائی کو قبول کرے

سوال: بہت بہت شکریہ، السلام علیکم ورحمۃ اللہِ وبرکاتہ

جواب: واقعی شکریہ تو آپ کا ہےکہ آپ نے مجھے عزت بخشی۔ واعلیکم السلام

بشکریہ : مستفاد از ماہنامہ ارمغان، مارچ 2005ئ