پاکستانی کرنسی نوٹ کی کہانی

مصنف : نامعلوم

سلسلہ : معلومات عامہ

شمارہ : ستمبر 2014

آپ نے پاکستانی کرنسی نوٹ تو دیکھا ہوگالیکن اس نوٹ کو اس شکل میں آنے میں ایک لمبی کہانی پنہاں ہے۔آئیے آج ہم آپ کو اس کی تاریخ بیان کریں۔یکم اپریل 1948ء کو حکومت نے ایک پائی، آدھا آنہ، دو آنہ، پاؤ روپیہ، نصف روپیہ اور ایک روپیہ کے سات سکوں کا ایک سیٹ جاری کیا اور اس وقت کے وزیر خزانہ غلام محمد نے ایک خوبصورت تقریب میں یہ سیٹ بابائے قوم محمد علی جناح کی خدمت میں پیش کیا۔ پاکستان میں مالیاتی نظام کا باقاعدہ آغاز جولائی 1948ء میں کراچی میں اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے افتتاح سے ہوا۔ اس افتتاح کے بعد پاکستان میں نئے کرنسی نوٹوں کی تیاری اور پاکستان کے اپنے سیکیورٹی پرنٹنگ پریس کے قیام کے لئے کوششیں تیز کردی گئیں۔ ان کوششوں کے نتیجے میں درج ترتیب سے سکوں اور نوٹوں کا اب تک کا اجراء ہوتا رہا ہے۔یکم اکتوبر 1948کو حکومت پاکستان نے پانچ روپے، دس روپے اور سو روپے کے کرنسی نوٹ جاری کئے۔یہ نوٹ برطانیہ کی فرم میسرز ڈی لاروا اینڈ کمپنی میں طبع کئے گئے تھے۔یکم مارچ 1949ء کو حکومت پاکستان نے ایک اور دو روپے مالیت کے دو کرنسی نوٹ جاری کئے۔ ایک روپیہ پر وزارت داخلہ کے سیکرٹری وکٹر ٹرنر کے دستخط جبکہ دو روپے پر ‘‘پہلی مرتبہ’’ اسٹیٹ بینک کے گورنر زاہد حسین کے دستخط شائع ہوئے۔ اس سے قبل نوٹوں پر وزیر خزانہ غلام محمد کے دستخط شائع ہوتے تھے۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے یکم ستمبر 1957ء-04 کو پانچ روپے اور دس روپے کے نوٹ جاری کئے گئے۔

 سٹیٹ بنک نے 24 دسمبر 1957ء کو سو روپے مالیت کا نوٹ جاری کیا جس پر بابائے قوم محمد علی جناح کی تصویر پرنٹ تھی۔ اس کے دوسری طرف بادشاہی مسجد لاہور کی تصویر تھی۔ اس پر گورنر اسٹیٹ بنک عبدالقادر کے دستخط تھے۔پاکستان میں پہلی بار یکم جنوری 1961ء کو اعشاری سکے جاری کئے گئے جن کی وجہ سے ایک پائی، پیسہ، اکنی، دونی، چونی اور اٹھنی کی قانونی حیثیت ختم کرکے رفتہ رفتہ ایک، دو، پانچ، پچیس، پچاس پیسے کے سکے اور ایک روپیہ کا سکہ رائج ہوا۔12 جون 1964ء کو اسٹیٹ بنک نے پچاس روپے مالیت کا کرنسی نوٹ جاری کیا۔ اس نوٹ پر گورنر اسٹیٹ بنک شجاعت علی کے دستخط تھے۔7جون 1971کو پاکستان کی وزارت خزانہ نے اعلان کیا کہ چند ناگزیر وجوہات کی بنا پر ایک سو اور پانچ سو روپے کے نوٹوں کو غیر قانونی قرار دیا جارہا ہے، اس لئے عوام ایک سو اور پانچ سو کے نوٹوں کوبینکوں اور مقرر کردہ اداروں میں جمع کرواکر ان کی رسید لے لیں تاکہ بعد میں ان کے متبادل دوسرے نوٹ حاصل کرسکیں۔پاکستان کی تاریخ میں غالباً پہلی مرتبہ 25 دسمبر 1966کو حکومت نے چاندی اور سونے کے 100 اور 500 روپے کے دو یادگاری سکے جاری کئے، جو کہ وینزیلا میں تیار کئے گئے تھے۔20 جنوری 1982 کو حکومت پاکستان نے ایک روپیہ مالیت کا اور بعد ازاں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے پانچ، دس، پچاس اور ایک سو روپے مالیت کے چار نئے کرنسی نوٹ جاری کئے۔ جن کی ایک خاص بات تو یہ تھی کہ اس پر بنگالی زبان کی عبارتیں حذف کردی گئی تھیں اور دوسری یہ کہ ان کی پشت پر اردو میں ‘‘رزق حلال عین عبادت ہے’’ کی عبارت طبع تھی۔

 یکم اپریل 1986ء کو اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے پانچ سو روپے مالیت کا نیا کرنسی نوٹ جاری کردیا۔ 18 جولائی 1987کو اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے ایک ہزار روپے کا کرنسی نوٹ جاری کیا جو مالیت کے اعتبار سے اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا کرنسی نوٹ تھا۔اقوام متحدہ کی گولڈن جوبلی کے حوالے سے 29 جنوری 1996ء کو حکومت پاکستان نے ایک خصوصی سکہ جاری کیا، اس سکے کی پشت پر اقوام متحدہ کا لوگو اور پچاس کا ہندسہ کندہ تھا۔ 22 مارچ 1997ء کو حکومت نے پاکستان کی گولڈن جوبلی تقریبات کے حوالے سے پچاس روپے مالیت کا ایک خصوصی سکہ جاری کیا، اس سکے کی پشت پر پاکستان کا پرچم بنا تھا اور پچاس سالہ جشن آزادی پاکستان 1947ء تا 1997ء-04 کے حوالے ہی سے اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے پانچ روپے کا ایک خصوصی نوٹ جاری کیا جس کی پشت پر ملتان میں واقع شاہ رکن عالم کے مزار کی تصویر شائع کی گئی تھی۔26 مئی 2006ء کو اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی گورنر ڈاکٹر شمشاد اختر نے ملک کی تاریخ کے سب سے بڑے کرنسی نوٹ جو کہ پانچ ہزار مالیت کا تھا کے اجراء کا اعلان کیا۔ اسی روز دس روپے کا نیا نوٹ بھی جاری کیا گیا جس کا رنگ سبز جبکہ اس کی پشت پر باب خیبر کی تصویر شائع کی گئی تھی۔26 مئی 2006ء کو اسٹیٹ بنک کی طرف سے دس روپے مالیت کا یادگاری سکہ جاری کیا گیا اس کا رنگ سفید اور وزن 8.25 گرام تھا۔ اس کے بعد یکم اکتوبر2009کو عوامی جمہوریہ چین کے ساٹھویں جشن آزادی کے موقع پر دس روپے مالیت کا ایک یادگاری سکہ جاری کیا گیا۔ اس کی پشت پر پاکستان اور چین کے پرچموں کی تصویروں کے ساتھ ‘‘ساٹھ سالہ جشن آزادی عوامی جمہوریہ چین’’ اور ‘‘پاک چین دوستی زندہ باد’’ کی عبارت درج تھی۔