فٹ بال اور سیالکوٹ

مصنف : تنویر شہزاد

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : اگست 2014

 

سیالکوٹ میں سالانہ چالیس ملین فٹبال تیار کیے جاتے ہیں جبکہ ورلڈ کپ کے دوران ان کی تعداد ساٹھ ملین تک پہنچ جاتی ہے۔ مجموعی طور پر دنیا بھر میں ہاتھ سے بنے تقریباًستّر فیصد فٹبال پاکستان میں تیار کیے جاتے ہیں۔
فیفا کی درجہ بندی میں پاکستان 164 ویں نمبر پر آتا ہے لیکن ہاتھ سے بنے فٹبال کی پیداوار میں یہ پہلے نمبر پر ہے۔ رواں برس فٹبال کے ورلڈ کپ میں بھی پاکستان ہی کے تیار کردہ تین ہزار فٹبال استعمال ہوں گے۔ کھیلوں کا سامان بنانے کے حوالے سے مشہور پاکستانی شہر سیالکوٹ میں تو اس وقت جشن کا سا سماں نظر آ رہا ہے۔ اسی شہر کے نواح میں وہ فیکٹری موجود ہے، جس میں ورلڈ کپ کے مقابلوں کے لیے فٹ بال بنائے جا رہے ہیں۔
ایوان صنعت و تجارت سیالکوٹ کی دعوت پر پاکستان میں برازیل کے سفیر بھی نو جون کو سیالکوٹ پہنچے۔ انہیں سیالکوٹ کے شہریوں کی طرف سے علامتی طور پر ورلڈ کپ مقابلوں کے لیے تیار کردہ فٹ بال پیش کیا گیا۔ ایوان صنعت و تجارت سیالکوٹ کے صدر ڈاکٹر سرفراز بشیر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ فٹ بال آج کی دنیا کا مقبول ترین کھیل ہے اور عالمی مقابلوں کے لیے پاکستان کے بنے ہوئے فٹ بالوں کا انتخاب پاکستان کے سافٹ امیج کو اجاگر کرنے کا باعث بنے گا۔ انہیں خوشی ہے کہ سیالکوٹ کی بزنس کمیونٹی اپنی اعلیٰ کوالٹی کی مصنوعات کی وجہ سے دنیا بھر میں پاکستان کی ساکھ بہتر بنانے کا باعث بن رہی ہے۔ ان کے مطابق ‘برازوکا’ کی تیاری نے پاکستان کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔ ادھر سیالکوٹ کے اسکولوں، سرکاری اور غیر سرکاری اداروں اور تجارتی حلقوں کی طرف سے بھی اس حوالے سے خوشی کے اظہار کے لیے تقریبات منعقد کی گئیں۔
سیالکوٹ نہ صرف پاکستان کو سب سے زیادہ زر مبادلہ کما کر دینے والے شہروں میں شامل ہے بلکہ اس کا شمار پاکستان کے ایسے شہروں میں بھی ہوتا ہے، جہاں بسنے والوں کی فی کس آمدنی مک کے دیگر شہروں کی نسبت سب سے زیادہ ہے۔
سیالکوٹ سے وزیر آباد (اسلام آباد) جانے والی سڑک پر کوئی دس کلو میٹر کے فاصلے پر گرے کلر کی ایک وسیع و عریض عمارت آج کل لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے، یہ فارورڈ سپورٹس پرائیویٹ لیمیٹڈ کی وہ فیکٹری ہے، جس میں فیفا ورلڈ کپ کے لیے فٹ بال تیار کیے جا رہے ہیں۔ اس فیکٹری میں کام کرنے والے ایک کاریگر نے بتایا، ‘‘ فیکٹری میں جب یہ خبر پہنچی کہ ہمارے فٹ بال کو ورلڈ کپ کے لیے منظور کر لیا گیا ہے تو سب کو بہت خوشی ہوئی۔ اس کے بعد شکرانے کے نوافل ادا کیے گئے اور فیکٹری مالکان کی طرف سے ڈیڑھ ہزار ورکروں کے لیے شاندار ضیافت کا اہتمام بھی کیا گیا۔’’
ورلڈ کپ کے لیے فٹ بال بنانے والی فیکٹری کے مالک خواجہ مسعود اختر نے تعلیم توسول انجینیئرنگ کی حاصل کی لیکن یونیورسٹی سے فراغت کے بعد اپنے خاندان کے روایتی کاروبار سے منسلک ہو گئے۔ مسعود اختر کہتے ہیں کہ ان کی کمپنی اس سے پہلے کئی عالمی مقابلوں کے لیے فٹ بال تیار کرتی رہی ہے لیکن ان کے لیے اس اعزاز کا ملنا بہت خوشی کا باعث ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا،‘‘مشینی فٹ بال کی تیاری ایک مشکل کام تھا، اس میں کمپیوٹرز، سافٹ ویئر اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بہت زیادہ ہوتا ہے، پاکستان میں اس شعبے کے ماہرین بھی نہیں تھے، اس کے باوجود ہم نے محنت کی، اپنی ٹیم بنائی،کوالٹی پر کمپرومائز نہیں کیا اور اللہ کے فضل سے ہمیں کامیابی مل گئی۔’’
اس فیکٹری میں کئی قسم کے فٹ بال تیار کیے جا رہے ہیں، فٹ بال کی کوالٹی چیک کرنے کے لیے درجنوں ٹیسٹوں کی سہولت موجود ہے، یہ فیکٹری پاکستان فٹ بال ایسوسی ایشن کے علاوہ سیالکوٹ کے تمام فٹ بال کلبوں کی بھی معاونت کرتی ہے۔
فٹ بال بنانے والی ایک اور کمپنی کے جنرل مینجر محمد آصف نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اگرچہ عالمی کساد بازاری کی وجہ سے ملٹی نیشنلز کمپنیوں نے اس مرتبہ اپنے پرموشنل بجٹ کسی حد تک محدود کر رکھے ہیں لیکن اس کے باوجود ورلڈ کپ کے موقع پر انہیں کافی آرڈرز مل جاتے ہیں، ‘‘ آج کل تو سیالکوٹ کی ساری فیکٹریاں کام کر رہی ہیں اور اس علاقے کی اقتصادی صورتحال میں بہتری آ رہی ہے۔’’ان کے بقول مشینی فٹ بال کی تیاری کے باوجود ہاتھوں سے بنائے گئے فٹ بالوں کی سیل بھی جاری ہے۔ سیالکوٹ کے ایک شہری عثمان بٹ نے بتایا کہ فٹ بال ورلڈ کپ میں سیالکوٹ کے فٹ بالوں کا استعمال صرف سیالکوٹ کے لیے ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کے لیے فخر کا باعث ہے۔