ادھورے مرد، مکمل عورتیں

مصنف : ذیشان عثمانی

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : مئی 2022

ہمارے ملک کی بھی ایک ٹیگ لائن ہونی چاہئیے۔ "ادھورے لوگوں کا ملک"۔ ہم میں سے اکثرلوگ ادھورے ہوتے ہیں۔ ادھوری زندگی گزارتے ہیں، ادھورے رشتے نبھاتے ہیں، ادھورہ عشق کرتے ہیں، ادھورے کام کرتے ہیں، ادھورے خواب دیکھتے ہیں، ادھوری تعبیر پاتے ہیں، ادھورے گناہ کرتے ہیں، اور روتے پیٹتے ادھوری موت مر جاتے ہیں۔
ہمارے معاشرے کا مرد بالخصوص ادھورا ہوتا ہے۔ ڈرا ہوا، سہما ہوا، بے حوصلہ، انجانے خوف کا اسیر، اَن دیکھی زنجیروں کا قیدی، درد ناک راہوں کا مسافر اور جھوٹی تمناؤں کا امیدوار۔ اس کے باوجود بے چارہ پورا عذاب سہتا ہے، پورا الزام اپنے سر لیتا ہے اور پوری ذمہ داری اٹھاتا ہے۔ ایسا ممکن نہیں کہ عورت سلام کا جواب نہ دے اور مرد ہاتھ پکڑ لے۔ ہمارے مرد تو بہت ڈرپوک ہوتے ہیں۔ گناہ سے نہیں ڈرتے، گناہوں کے الزام سے ڈرتے ہیں۔ مگر جب بات آگے بڑھ جائے تو قصور سارے کا سارا بےچارے مرد پر۔ اور عورت تو جیسے بےزبان، جذبات سے عاری کوئی موم کی مورتی ہو کہ پتہ ہی نہ چلا اور کب پگھل گئی۔
مردوں کے برعکس عورتیں نہ صرف پوری مکمل ہوتی ہیں ، بلکہ مردوں کو مکمل کرنے اور ادھورہ چھوڑ جانے کا فن بھی جانتی ہیں . ان کے جذبات بھی مکمل ہوتے ہیں اوراحساسات بھی ، یہ محبت بھی مکمل کرتی ہیں اور نفرت بھی. عورتوں کے لئے محبت اور زندگی میں کوئی فرق نہیں ہوتا جبکہ مرد محبت ، زندگی ، معاش ، کام ، ایمان سبکو الگ الگ خانوں میں رکھتا ہے . 
تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے ایک ہاتھ سے تو ماتم ہوتا ہے۔ یہ ادھورا مرد اپنی مردانگی کا ڈھنڈورا پیٹنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑتے آخر انہیں مکمل تو عورت کی ذات ہی کرتی ہے۔
جس معاشرے کو نقاب پوش خاتون کے جینز اور ٹی شرٹ والے شوہر پر اعتراض نہیں اُسے داڑھی والے شخص کی بے پردہ عورت پر کمنٹس کا بھی کوئی حق نہیں۔
پیمانہ اگر صبر ہو تو ملکِ عزیز کے تمام مرد عورتیں اور عورتیں مرد قرار پائیں۔ اور سونے پہ سہاگہ جب ان ادھورے مردوں کی "پوری" غیرت جاگ جائے۔ اللہ کی پناہ۔
آپ کی بیٹی بس اسٹاپ پر کھڑی باتیں کر رہی تھی"۔ "آپ کی بہن نے برقع نہیں پہنا"، اور "آپکی بیوی کی تصویر فیس بک پر کیوں؟" اَجی آپ کی دینی غیرت کہاں مر گئی ہے ہمارے گھر ایسا ہوتا تو کشتے کے پشتے لگا دیتے۔پتہ نہیں لوگ چاہتے کیا ہیں۔ یہی کہ غریب کا گھر برباد ہو جائے؟ بلاوجہ اپنی پاکیزگی کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں۔ یہ نہیں دیکھتے کہ سامنے والے کی عمر کیا ہے؟ کن مسائل سے گزر رہا ہے؟ کن سوچوں میں مگن ہے؟ کون سی جنگ سے ہار کے لوٹا ہے؟ کون سا محاذ ہے جِس پہ جانا باقی ہے؟
عورت کو پاؤں کی جوتی بنا کر رکھو۔ کیوں بھائی، لے کر ہی کیوں آتے ہو کسی غریب کو اگر ایسے ہی اِرادے ہیں؟
مرد پیسہ لاتا ہے، کماتا ہے، تو۔ کیا وہ مالک ہو گیا۔ جسم کا، سوچ کا، اِرادوں کا، رُوح کا، گماں کا، اِمکان کا؟
مرد پیسے لاتا ہے مگر بچے پیسے نہیں کھاتے۔
مرد پیسے لاتا ہے مگر بچے پیسوں پہ نہیں سوتے۔مرد پیسے لاتا ہے مگر پیسوں سے راحت نہیں ملتی۔ نہ خوشی ملتی ہے۔ نہ اطمینان۔اِن پیسوں کو کھانا عورت بناتی ہے۔ اِن پیسوں کو گھر، خوشی، اطمینان، سکون اور بستر عورت بناتی ہے۔آپ کا نام نہاد’’مرد‘‘ تو روز آفس سے گالیاں، غیبت، بہتان، جھوٹ، ظلم اور حسد کھا کے آتا ہے۔ یہ عورت ہی ہے جو اُسے تسکین دیتی ہے۔ کھانا کھلاتی ہے۔ دوبارہ سے جوڑتی ہے اور صبح ’مرد‘ بنا کے بھیجتی ہے، جس اِسلام نے عورت کے اِستحصال کے درجنوں طریقے ختم کر کے اُسے نکاح کی حفاظت میں دیا۔ ہم مسلمان ایسے گئے گزرے کہ اسے جانور کے حقوق بھی نہ دیں۔ تف ہے ایسی مردانگی پر۔
یہ عورتیں زندگی میں اعراب کی مانند ہوتی ہیں۔ کوئی کومہ، تو کوئی سیمی کولون، خوش نصیب ہوتے ہیں وہ جن کے پاس کوئی فل اسٹاپ ہو کہ اِس کے آ جانے سے زندگی رُک جائے، تھوڑی دیر کو ہی سہی۔
 سلام ہے اِس ادھورے لوگوں کے ملک کی مکمل عورتوں پر۔جیتی رہیں اور خوش رہیں