سوال ، جواب (جید علمائے کرام کے جوابات سے ماخوذ)

مصنف : سید عمر فاران بخاری

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : جولائی 2014

جواب : نیت دل کے ارادے کا نام ہے۔ زبان سے کہنا شرط نہیں، مگر زبان سے کہہ لینا مستحب ہے۔

(سید عمر فاران بخاری)

جواب : جس طرح نماز میں کلام کی نیت کی مگر بات نہ کی تو نماز فاسد نہ ہوگی۔ یوں ہی روزے میں توڑنے کی نیت سے روزہ نہیں ٹوٹے گا۔ جب تک توڑنے والی چیز نہ کرے ۔اور اگر رات میں روزہ کی نیت کی پھر پکا ارادہ کر لیا کہ نہیں رکھے گا تو وہ نیت جاتی رہی۔ اگر نئی نیت نہ کی اور دن بھر بھوکا پیاسا اور روزہ دار کی طرح رہا تو روزہ نہ ہوا۔ (در مختار وغیرہ)

(سید عمر فاران بخاری)

جواب : سحری کھانا بھی اصل میں نیت ہی ہے خواہ رمضان کے روزے کے لیے ہو یا کسی اور روزے کے لیے مگر جب سحری کھاتے وقت یہ ارادہ ہے کہ صبح کو روزہ نہ رکھوں گا۔ تو یہ سحری کھانا نیت نہیں ۔

(سید عمر فاران بخاری)

جوا ب :اس رات میں دعاؤں کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اکرم ﷺسے پوچھا کہ اگر مجھے شب قدر مل جائے تو میں اس میں کیا پڑھوں؟ آپ نے ارشاد فرمایا یہ پڑھا کرو۔ اَللّٰھْمَّ اِنَّکَ عَفْوٌّتْحِبّْ العَفوَ فَاعفْ عَنِّی۔

(سید عمر فاران بخاری)

جواب :روزہ کی حالت میں جان بوجھ کرکھانے پینے سے، نفسانی خواہش کوپوراکرنے یا جسم میں موجود منافذ (سوراخ)کے راستہ کسی دوا یا غذا کے معدے تک پہنچ جانیکی صورت میں روزہ ٹوٹ جاتاہے۔ویکسنگ،تھریڈنگ ،ہئیرکٹنگ وغیرہ اشیاء جن کاسائلہ نے تذکرہ کیاہے،ان سے روزہ تونہیں ٹوٹتاالبتہ خواتین کے لیے ان چیزوں کی عام حالات میں بھی ممانعت ہے۔اس لیے روزے میں اجتناب اور بھی ضروری ہے ۔

(سید عمر فاران بخاری)

جواب :کسی بھی کام کے عبادت ہونے کے لیے یہ ضابطہ ذہن میں رکھا جائے کہ وہ احکام اسی وقت، اسی کیفیت اورانہی شرائط کے ساتھ انجام دیا جائے جن کے ساتھ اس کا ثبوت شریعت مطہرہ میں ہو، اپنی طرف سے کسی خاص وقت میں، کسی خاص کیفیت یا خاص شرائط کے ساتھ کسی کام کی انجام دہی عبادت نہیں بلکہ بدعت ہوگی۔اسی ضابطہ کے پیش نظرشرعاً جن مواقع پر روزہ رکھنے کی ترغیب یا اجازت ہے ان مواقع پر توروزہ رکھنا عبادت ہوگا، لیکن جن مواقع یا ایام میں قرون اولیٰ سے روزہ رکھنے کا ثبوت نہیں ہے، ان ایام میں اس دن کی اہمیت کے پیش اگرہم اپنی طرف سے روزہ کااہتمام شروع کردیں تو شرعاً یہ روزہ بجائے عبادت کے بدعت کے زمرہ میں آئیگا۔چنانچہ خلفائے راشدین یا کسی اورصحابی کی شہادت یا وفات کے دن روزہ رکھنے کا ثبوت قرون اولیٰ میں ہمیں نہیں ملتااس لیے اس دن مخصوص نسبت کے ساتھ روزہ رکھنے کی اجازت بھی نہیں، البتہ اگرکسی کا عام معمول ہو روزہ رکھنے کا ہو اور اس دوران کوئی ایسا دن آجاتاہے تو وہ حسبِ معمول روزہ رکھ سکتا ہے، جس کا تعلق اس دن کے ساتھ نہیں ہوگا بلکہ اس کے معمول کا حصہ ہوگا۔

(سید عمر فاران بخاری)

جواب :روزہ کی حالت میں ٹوتھ پیسٹ کا استعمال کرنا، حلق میں اثرات جانے کے خطرے کی وجہ سے مکروہ ہے۔ اگر حلق میں ٹوتھ پیسٹ جائے گا تو روزہ فاسد ہوجائے گا، اس لیے روزہ کے دوران ٹوتھ پیسٹ استعمال نہ کیا جائے۔

(سید عمر فاران بخاری)

سوال : مجھے چند برسوں سے یہ مرض لاحق ہے کہ روزانہ وقتاً فوقتاً میرے دانتوں سے اچانک خون نکلنے لگتا ہے۔ اور یہ کبھی تھوک کی مقدار سے کم ہوتا ہے اور کبھی تھوک کی مقدار پر غالب ۔ ایسی صورتحال پورے دن کے عام اوقات میں عموماً جب کہ نیند سے بیداری کے وقت خصوصاً زیادہ پیش آتی ہے۔ جس وقت کہ نیم بیداری کا عالم ہوتا ہے، قویٰ پوری طرح متحرک نہیں ہوتے اور خون والا تھوک پیٹ میں چلے جانے کا قوی اندیشہ ہوتا ہے۔ نیز اس کے علاوہ بھی بسا اوقات ایسی صورت پیش آجاتی ہے کہ فوری طور پر تھوک پھینکا نہیں جاسکتا۔ یا خون اتنا اچانک نکلتا ہے کہ جب اس کی آمیزش والا تھوک حلق سے ہوکر پیٹ کی طرف جاتا ہے تب ہی خون کا احساس ہوتا ہے۔ الغرض یہ کہ خون کو پیٹ میں جانے سے روکنا خاصا مشقت والا کام اور کبھی کبھی تو ناممکن ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ واضح رہے کہ ایک دفعہ کے بعد دوسری دفعہ خون نکلنے کے درمیان اچھا خاصا وقت گزر جاتا ہے۔ یعنی نماز کے اعتبار سے تو میں معذور نہیں بنتا۔

اس مذکورہ صورتحال میں میرے روزے کا کیا حکم ہے کہ جب اس طرح خون نکلے اور میں اسے نیند کے غلبے یا اور کسی مجبوری یا اچانک و لاعلمی کی وجہ سے پھینک نہ سکوں اور اس طرح یہ حلق سے اتر جائے ؟ آیا میرا روزہ باقی رہے گا یا نہیں؟ نیز اگر باقی نہیں رہے گا تو یہ بھی مد نظر رہے کہ عموماً پورے سال میں مجھے اس مرض سے کوئی خاص افاقہ نہیں ہوتا۔ باوجود اس کے کہ میں نے اس کا مختلف معالجین سے علاج بھی کرایا ہے۔ تو اگر روزہ باقی نہ رہے تو جب بھی قضا کروں گا تو اندیشہ یہی ہے کہ اس وقت بھی یہی صورت حال ہوگی۔ نیز یہ کہ یہ مرض روزے کی حالت (یعنی کچھ نہ کھانے پینے کے وقت) نسبتاً شدت ہی اختیار کرجاتا ہے۔

جواب :صورت مسؤلہ میں جب خون تھوک پر غالب ہو اور پیٹ میں چلے جانے کا یقین ہو تو ایسی صورت میں روزہ فاسد ہوجائے گا، سائل کو جب اس مرض سے چھٹکارا مل جائے تو اس وقت ان روزوں کی قضاکرلے اور اگر شفایابی کا یقین نہ ہو تو ہر روزہ کے بدلہ میں ایک صدقۃ الفطر کی مقدار فدیہ دے دے، بعد میں اگر شفایابی ہوجاتی ہے تو پھر قضا بھی کرلے۔

(سید عمر فاران بخاری)

جواب :ساری دنیا میں ایک ہی دن روزہ رکھنا اور عید منانا یا مملکت سعودی عرب کو بنیاد بناکر اس کے ساتھ روزہ یا عید منانا شرعاً ضروری نہیں ہے۔ بلکہ ہر جگہ کی اپنی رؤیت ہوتی ہے جو اپنی مخصوص حدود تک لاگو ہوتی ہے، ایسا نہیں ہے کہ ایک جگہ رمضان یا عید کا چاند نظر آجائے تو ساری دنیا کے مسلمانوں پر اس کی اتباع لازم ہوجائے، بلکہ ایک ملک میں بھی ایک جگہ چاند نظر آجائے تو ایک ماہ کی شرعی مسافت یعنی 480 میل کے فاصلہ پر مطلع بدل جانے کی وجہ سے اس مسافت کے بعد رہنے والوں کے لیے اس رؤیت کے مطابق روزہ یا عید منانا لازم نہیں ہوتا۔ لہٰذا نہ آسٹریلیا اور نہ امریکا والوں کا سعودی عرب کے ساتھ عید اور رمضان منانا ضروری ہے، نہ کسی اور کا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے زمانہ میں بھی اس کی نظیر ملتی ہے کہ شام والوں نے چاند دیکھ کر روزہ رکھا، لیکن مدینہ والوں نے اس پر اکتفاء-04 نہیں کیا۔ اس واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ بعض حضرات شام گئے تھے وہاں رمضان کا چاند نظر آنے پر انھوں نے روزے رکھنا شروع کردیے، ماہ رمضان کے آخر میں ان کی مدینہ واپسی ہوئی تو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے ان سے معلوم کیا کہ تم لوگوں نے ماہ رمضان کا چاند کب دیکھا تھا، انھوں نے جواب دیا کہ جمعہ کی رات کو لوگوں نے چاند دیکھا تھا ان کے ساتھ ہم نے بھی روزہ رکھا، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ لیکن ہم نے تو ہفتہ کی رات کو چاند دیکھا تھا، لہٰذا ہم اپنے اعتبار سے تیس روزہ مکمل کریں گے یا اگر چاند نظر آگیا تو 29 روزے رکھیں گے، انھوں نے سوال کیا کہ کیا آپ وہاں شام والوں کی رؤیت پر اکتفاء نہیں کرتے؟ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ نہیں، ہمیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے یہی حکم دیا تھا۔ دیکھیں، یہاں شام میں چاند نظر آیا، انھوں نے روزہ رکھ لیا اور مدینہ والوں نے اس کے ایک دن بعد چاند دیکھا تو انھوں نے اپنی رؤیت کا اعتبار کیا اور ایک دوسرے پر کوئی نکیر بھی نہیں کی۔ معلوم ہوا کہ ہر جگہ کی رؤیت اسی جگہ کے لیے معتبر ہوتی ہے، دوسروں پر اس کی اتباع لازم نہیں۔ لہٰذا اس مسئلہ کو اختلاف اور نزاع کا باعث نہیں بنانا چاہیے۔

(سید عمر فاران بخاری)

جواب :واضح رہے کہ اگر کسی کے ذمہ قضا روزے باقی ہوں اور اس کا انتقال ہو جائے یا وہ اس قدر بیمار ہو جائے کہ اب اس کے صحت یاب ہونے کی امید نہ رہے تو ایسے حد درجہ عمر رسیدہ شخص کی طرف سے اس کے قضا روزوں کا فدیہ ادا کیا جائے گا۔لیکن اگر وہ شخص حیات ہے اور بیمار تو ہے لیکن اس قدر بیمار ہے کہ وہ ایک ایک دو دو کرکے وقفہ وقفہ سے روزے رکھ سکتا ہے تو اس کے ذمے روزہ کی قضا ہی ضروری ہوگا، فدیہ ادا کرنے سے ذمہ ختم نہیں ہوگا۔ لہٰذا اگر مذکورہ شخص روزے رکھنے پر بالکل قادر نہیں اور اس کے صحت مند ہونے کا امکان بھی نہیں ہے تو ہر روزے کے بدلے صدقہ فطر کی مقدار پونے دوکلو گندم فقراء و مساکین پرصدقہ کرنا واجب ہے ۔فدیہ میں صدقہ فطر کی طرح گندم کی جگہ اس کی قیمت بھی ادا کرنا جائز ہے۔

(سید عمر فاران بخاری)

جواب :اگرروزہ رکھنے سے خوداپنی یا پیٹ میں موجود بچہ کی جان کاخدشہ ہوتو حاملہ عورت کو روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے، بعدمیں قضا کرلے لیکن صرف حمل کوبہانہ بناکرروزہ چھوڑنا درست نہیں۔صحت کو خطرہ نہ ہو تو ضرور روزہ رکھنا چاہیے ۔حمل کا بہانہ روزہ چھوڑنے کے لیے کافی نہیں جب کہ صحت اچھی ہو اور بچے کو بھی کوئی احتمال نہ ہو

(سید عمر فاران بخاری)

جواب: و اضح رہے کہ ڈاکٹروں کی تحقیق کے مطابق مطلقاً شوگرروزے کیلیے مانع نہیں بلکہ بعض درجے کی شوگرکیساتھ روزہ رکھ سکتا ہے۔ اس لیے شوگرکے مریض کوچاہیے کہ کسی دین دار مسلمان ڈاکٹر سے رائے لے اگر وہ رائے دے کہ مریض ے حق میں روزہ رکھنا مہلک ہے تو اس کے لیے روزہ چھوڑدینے اورروزہ کے بدلے فدیہ دینے کی اجازت ہے۔

(سید عمر فاران بخاری)