بی بی سی کی جانبداری

مصنف : عامر ہاشم خاکوانی

سلسلہ : صحافت

شمارہ : ستمبر 2020

بی بی سی کے خلاف میرا مسلسل لکھنے کا ارادہ نہیں کہ یہ بھی ایک طرح کی کمپین لگتی ہے، جس سے گریز کرنا چاہیے۔ افسوس کہ اس پلیٹ فارم پر مسلسل ایسی تحریریں آ رہی ہیں جو بدترین اینگلنگ کا شاہکار ہیں، ان کی نشاندہی کئے بغیر رہا نہیں جاتا۔ کسی کو اگر سیکھنا ہو کہ کیسے فیچر رپورٹ کے پردے میں حقائق توڑے موڑے جاتے ہیں اورچند مخصوص لوگوں سے بات کر کے ایک خاص قسم کا زہریلا امیج بنایا جاتا ہے تویہ سب سیکھنے کے خواہش مند بی بی سی کی یہ سٹوری پڑھ سکتے ہیں۔
یہ سٹوری مندرجہ ذیل عنوان سے شائع ہوئی ہے ‘‘آیا صوفیہ، ارطغرل، کیا طیب اردوان کی ترک قوم پرستی کا ہدف سلطنت عثمانیہ کی بحالی ہے؟’’ پہلے حصے میں ترکی کے خلاف اینٹی سعودی عرب جذبات ابھارنے کی کوشش کی گئی، حقائق کا بڑا حصہ دانستہ نظر انداز کر کے ایسا کیا گیا۔ شریف حسین آف مکہ کا کردار کا ذکر بھی نہیں ہوا، لارنس آف عریبیہ، انگریز ایجنٹوں کی کارستانی کے لئے ایک سطر بھی استعمال نہیں کی گئی۔ ایسے ہی ہے کہ اردو کے حروف تہجی لکھے جائیں اور ج سے م تک کے حروف غائب کر دئیے جائیں۔ مصنف اگلے مرحلے پر آیا صوفیہ پر حملہ آور ہوا، دانستہ یہ نہ لکھا کہ کئی سو سال تک یہ مسجد رہی، یوں تاثر دیا کہ پہلے یہ چرچ تھا اور پھر بعد میں مصطفیٰ کمال نے اسے میوزیم بنا دیا، اس سے پہلے کی تاریخ غائب کر دی۔پھر یہ طنز فرمایا گیا کہ طیب اردوان مسلم دنیا کی قیادت چاہتے ہیں مگر عراق پر امریکی حملے کے موقع پر وہ امریکیوں کے ساتھ تھے، تاہم پارلیمنٹ نے ان کے خلاف فیصلہ دیا۔ یہ خود حقائق سے انحراف ہے، سچ یہ ہے کہ ترک حکومت دانستہ اس مسئلے کو پارلیمنٹ میں لے گئی تاکہ امریکی دباؤ سے نکلنے کا موقع ملے اور پارلیمنٹ سے امریکی فوجوں کو راستہ دینے کا بل نامنظور کرایا گیا۔ اگلے مرحلے پر اردوان پر یہ طنز کہ اس نے یہ کیوں کہا کہ ترک آبادی میں اضافہ ہونا چاہیے، فیملی پلاننگ کے خلاف بات کرنے کی جرأت کیوں کی؟ یعنی اگر وہ چاہتے ہیں کہ ترک آبادی میں اضافہ ہو تو اس سے پہلے انہیں مذکورہ بھارتی مصنف سے منظوری لینی چاہیے ۔ ان صاحب کو یہ یاد نہیں رہا کہ کئی یورپی ممالک میں اب دو سے زیادہ بچے پیدا کرنے پر حکومت یا بلدیاتی اداروں کی جانب سے مالی ترغیبات دی جاتی ہیں کہ شرح پیدائش صفر ہوچکی۔ ترک حکومت مگرایسا کرے تو غلط۔
ارطغرل ڈرامے کے خلاف تو مصنف کا زہر اپنی عروج پر ہے، بے بنیاد کمزور باتیں، استدلال سے عاری اور زیادہ تر حوالوں میں پرویز ہود بھائی سے رائے لی گئی۔ اخبار پڑھنے والا سکول کالج کا کوئی لڑکا بھی جانتا ہے کہ ہودبھائی کی رائے کیا ہوگی؟ ہم نے صحافت کی تمام تعریفوں میں فیچر کے بارے میں یہ پڑھا کہ اس میں مختلف زاویے کور کئے جاتے ہیں اور مختلف متضاد آرا لی جاتی ہیں تاکہ پڑھنے والے کے ذہن میں مکمل تصویر بنے۔ بی بی سی کے اس بھارتی یا بھارتی نژاد مصنف رجنیش کمار کو پورے پاکستان میں ایک بھی آدمی ایسا نہیں ملا جو ارطغرل کے بارے میں مثبت رائے رکھتا ہو اور اپنا نقطہ نظر بیان کر سکے۔
ارطغرل پر ایک بچکانہ اعتراض یہ کہ اس میں تلوار سے سر اڑائے جاتے ہیں، تو کیا آٹھ سو سال پہلے پستول سے گولی ماری جاتی تھی؟ یہ بھی اعتراض کہ ہر قسط میں مسیحی لاشیں پڑی ہوتی ہیں اور غیر مذاہب کے لوگوں سے جنگیں ہیں۔ تو کیا تاریخ بدل دی جائے؟ کیا اس زمانے میں مسیحی ٹمپلرز نہیں تھے؟ منگول حملہ آور نہیں تھے؟ ترکوں کی مسیحیوں سے جنگیں نہیں ہوئیں؟ منگولوں سے لڑائیاں نہیں ہوئیں؟ اس طرح تو کروسیڈ پر بننے والی تمام فلمیں چھپا دی جائیں، سکینڈ ورلڈ وار کے حوالے سے نازی جرمنی کے خلاف سینکڑوں ہزاروں فلمیں، ڈرامے بنائے گئے، کیوں؟ بی بی سی کے ایڈیٹرز پر حیرت ہے۔ لگتا ہے ادارتی شعبہ ختم کر دیا گیا ہے یا پھر اسے فنڈنگ کرنے والا محکمہ بہت ہی عجلت میں ہے اور نہایت بھونڈے انداز میں پروپیگنڈہ کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

 

جب بھارت نے ڈاکٹر نجیب کو تنہا چھوڑ دیا!
پروفیسر محمد مشتاق

بی بی سی کی اس رپورٹ کا عنوان ہے: جب طالبان نے نجیب اللہ کو مار کر لاش کھمبے سے لٹکا دی۔
یہ رپورٹ غور سے پڑھیے۔ یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ ڈاکٹر نجیب کو اس کے قریب ترین اتحادی بھارت نے کیسے تنہا چھوڑ دیا؛ کیسے وہ 1992ء میں ایئرپورٹ کے قریب پہنچ کر ایئر پورٹ میں داخل ہونے میں ناکام رہا کیونکہ وہاں دوستم ملیشیا کا قبضہ ہوچکا تھا؛ کیسے بھارتی سفیر نے اس کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا؛ کیسے احمد شاہ مسعود نے بھی اسے نکالنے میں مدد سے انکار کیا؛ کیسے ڈاکٹر نجیب نے پاکستان کی جانب سے پناہ دیے جانے کی آفر ٹھکرادی اور ایران کو بھی متکبرانہ جواب دیا؛ پھر کیسے وہ اقوام متحدہ کے دفاتر میں پناہ لینے پر مجبور ہوا؛ پھر کیسے صرف اس کی مدد کیلیے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بطروس غالی نے خصوصی دورہ کیا لیکن ناکام ہوا۔ پھر وہ کیسے اپریل 1992ء سے ستمبر 1996ء تک تقریباً سوا چار سال اقوام متحدہ کے دفاتر میں ہی محصور رہا؛ تا آنکہ طالبان نے کابل فتح کرکے اقوام متحدہ کے دفاتر پر دھاوا بول دیا اور پھر اس پر تشدد کرکے اور اس کی تذلیل کرکے اسے قتل کردیا اور پھر لاش کھمبے پر لٹکادی۔ 
گویا نوے فی صد سے زائد رپورٹ بھارت کی منافقت یا بزدلی کی داستان ہے جس کی وجہ سے نجیب کابل میں پھنس گیا تھا لیکن رپورٹ کو بی بی سی نے عنوان دیا ہے: جب طالبان نے نجیب اللہ کو مار کر لاش کھمبے سے لٹکا دی۔ یہ باوجود اس کے کہ رپورٹ کا آخری پیراگراف پھر بھارت کی دو نمبری کا نوحہ ہے۔اگر یہ عنوان اسے رپورٹ بنانے والے نے دیا ہوتا تو قابلِ فہم ہوتا کیونکہ وہ بے چارہ خود بھارت میں مقیم ہے لیکن اسے بی بی سی کی ادارہ جاتی پالیسی کے طور پر دیکھیے تو اصل حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ میں اسی لیے یہ رپورٹ آپ کے ساتھ شیئر کررہا ہوں کہ آپ اس پہلو پر غور کریں۔
باقی رہا طالبان کا ڈاکٹر نجیب کے ساتھ سلوک کا معاملہ، تو جسے ڈاکٹر نجیب کی افغان ایجنسی خاد میں کردار یاد ہو، یا جس نے بطور افغان صدر اس کے اعمال دیکھے ہوں، تو وہ چنگیز و ہلاکو کو بھول جائے گا اور مجھے ایسے شخص سے ذرہ برابر بھی ہمدردی نہیں ہے۔ میں طالبان کے طرز عمل کے جواز کیلیے کوئی شرعی یا قانونی دلیل نہیں دوں گا لیکن جو اس وحشی شخص کو جانتا ہو، وہ جانتا ہے کہ اس کے ساتھ جو ہوا وہ اس سے بہت کم تھا جو اس نے سیکڑوں، شاید ہزاروں، لوگوں کے ساتھ کیا۔اور ہاں، اس رپورٹ میں اس وحشی شخص کی ایک تصویر بھی دکھائی گئی ہے جس میں اسے نماز پڑھتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ یہ تصویر دیکھ کر مجھے تو بڑی ہنسی آئی۔ ڈاکٹر نجیب پر نہیں، بلکہ بی بی سی پر، کہ اس نے ایک نامی گرامی کمیونسٹ، دہریہ اور خدا کے منکر کی یہ تصویر دکھا کر اسے باعمل مسلمان بنانے کی حماقت کیسے کی؟ پھر رپورٹ میں یہ بھی ذکر ہے کہ طالبان نے ڈاکٹر نجیب کا جنازہ نہیں پڑھا! بھئی، وہ کیوں پڑھتے؟ ان کے نزدیک تو وہ کھلا کافر تھا۔ یہ بتائیے کہ استاذ مجددی، پروفیسر ربانی، کمانڈر احمد شاہ مسعود یا مارشل دوستم میں کسی نے اس کی نمازِ جنازہ پڑھی؟ 
بہت پہلے انور مقصود کے ساتھ ایک شو میں معین اختر مرحوم نے بی بی سی کو ''بوگس، بکواس، چھچھوری'' کہا تھا۔ بالکل درست کہا تھا۔