نارمل زچگی کیوں نہیں ہوتی؟

مصنف : ڈاکٹر محمد خالد عاربی

سلسلہ : طب و صحت

شمارہ : جولائی 2020

ایک دوست کا سوال آج کل ڈیلیوریز نارمل کیوں نہیں ہوتیں ۔حالانکہ آج کل جدید ترین ہسپتال طبی، سہولیات میسر ہیں۔جب کسی خاتون کو امیدہوتی ھے تو وہ فوراً لیڈی ڈاکٹر کے پاس جاتی ہے۔ نو ماہ اس کے زیر نگرانی باقاعدگی سے چیک اپ کرواتی ہیں اس کی تجویز کردہ ادویات بھی کھاتی ہیں اور ان کی مہنگی فیسیں بھی ادا کرتی ہیں مگر جب ڈیلیوری کا وقت آتا ہے تو پھر کیس نارمل کیوں نہیں ہوتا۔؟ یہ ایک اہم سوال ہے ۔
نو ماہ مسلسل فولک ایسڈ اور کیلشیم کی گولیاں کھانے اورvenofer کی ڈرپس لگوانے کے باوجودڈیلیوری کے وقت خون کی کمی کیوں ہو جاتی ہے۔؟
میرے عزیزو!
اس سوال کا جواب کچھ اس طرح ہے کہ ڈیلیوری نارمل نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ مسکولر ٹشوز کا سخت ہوناہے۔اور رطوبت تلیہLyphatic liquids کا کم ہونا ہے۔یاد رکھیں عورت کے جسم میں جتنی لچک اور Flexibility ہو گی بچے کی نارمل پیدایش کے اتنے ہی چانسز زیادہ ہوں گے
اور جسم اور مسلز میں لچک جتنی کم ہو گی اتنا ہی آپریشن کا امکان زیادہ ہو گا۔
مندرجہ ذیل عوامل عورت کے جسم کے مسکولر ٹشوز کو سخت اور راستوں کو تنگ کر دیتے ہیں اور ان کے اندر کی رطوبت lympatic liquids بھی کم ہو جاتی ہیں۔جو لبریکیشن کا کام کرتی ہیں فطرت اور نیچر کے خلاف جب ہم چلیں گے تو فطرت ہمیں سزا ضرور دے گی۔یعنی فطرت سے روگردانی کی سزا کی وجہ سے ہمیں آپریشن سے گزرنا پڑتا ہے۔قطع نظر اس کے کہ بہت بڑی بڑی بلڈنگز ہیں،ہسپتال ہیں،مہنگے ڈاکٹرز ہیں، 
مہنگی ادویات اور مہنگے انجکشنزاورایر کنڈیشنڈ کمرے ہیں لیکن یاد رکھیں یہ سب کچھ فطرت کا متبادل نہیں ہو سکتے۔ 
پیسے کا لالچ ، ہوس اور انسانیت سے دوری۔
مریض کی زندگی اور صحت سے زیادہ مریض کی جیب پر نظر کا ہونا دوسری بڑی وجہ ہے۔ عورتوں کا سہل پسندہونا اور یہ تصور کہ حمل ہو جانے کے بعد کام نہیں کرناسارا دن فارغ بیٹھے رہنا۔مسکولر ٹشوز اور خصوصا اووری کے مسلز کو نرم اور flexible بنانے کے بجائےstiff اور سخت بنا دیتا ہے۔ سارا دن لیٹے رہنے کی بجائے اگر مخصوص ورزش خصوصاً آخری مہینوں میں کی جائے یا گھر کے کام کاج کیے جائیں جیسے جھاڑو دینا، ڈسٹنگ وغیرہ ،اس سے اووری کے مسلز کو حرکت ملے گی جس سے حرارت پیدا ہوگی جو مسلز کو نرم کرے گی۔
خوراک میں جب ہم فولک ایسڈ یا venofer کے انجکشن لگائیں گے تو یہ لوہا ہونے کی وجہ سے جسم کے مسلز کو انتہائی زیادہ سخت کرے گاکیونکہ یہ مسلز کی خوراک ہے جس سے راستہ کھلنے کے بجائے اور زیادہ تنگ ھو گا۔اس کی جگہ اگرکالے چنے ،مربہ ھرڑ،مربہ آملہ،بہی،سیب،پالک، ساگ،کلیجی،دودھ،انڈا،شھد،گھی،منقی،
آڑو ،لونگ ،دارچینی ،بادام اورزعفرا ن کا استعمال کیا جائے تو اس سے جسم کو قدرتی فولک ایسڈ اور خون بھی وافر مقدار میں ملے گااور جسم کے مسکولر ٹشوز سخت ہونے کے بجائے طاقتور اور نرم ہو ں گے خوبصورت بچے پیدا ہوں گے۔اور گارنٹی سے کہتا ہوں کہ بچہ بھی خوبصوت پیدا ہو گا۔ دوسری طرف کیلشیم کی گولیاں یاد رکھیں ہڈیوں کو سخت کر دیتی ہیں۔ نو ماہ بے دریغ کیلشیم کی گولیاں کھانے سے ماں اور بچے دونوں کی ہڈیاں سخت ہو ں گی تو آپ اندازہ کر لیں مسکولر ٹشوز بھی سخت ،ہڈیاں بھی سخت اسی لیے بعض اوقات کہہ دیا جاتا ہے کہ بچے کا سر بڑھا ہواہے یاماں کی ہڈی بڑھی ہوئی ہے آپریشن ہی ہو گا۔بھائی نو ماہ اندھا دھند گولیاں کھلا کھلا کر آپ نے نارمل ڈیلیوری کا چانس چھوڑا ہی کب ہے۔کیونکہ اس سے کمائی زیادہ ہے آپریشن سے تو پیسے بننے ہیں نارمل سے کیا ملنا ہے۔اگر قدرتی کیلشیم
دودھ ،دھی ،انڈے ،گھی کھلایا جاتا تو گارنٹی سے کہتا ہوں کہ کبھی کیلشیم کی کمی نہ آتی اور ہڈیاں مضبوط تو ہوتیں مگربڑھتی نہ سخت نہ ہوتیں۔ہاں! دکان کی سیل کم ضرورہو جاتی
کمیشن ضرور کم ہو جاتا۔سٹور کی سیل کم ہو جاتی آپس میں لڑائی پڑ جاتی بنک بیلنس کم ہو جاتا۔آمدنی کم ہونے کی وجہ سے کیونکہ عملی طور پر ہمارا یقین اللہ تعالی اور انسانیت پر زیرو ہے جب کہ تقریروں اور گفتگو میں 100 فی صد ھے۔
ڈیلوری نارمل نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہڈیوں کا سخت ہونا،مسکولر ٹشوز کا سخت ہو کر ان میں لچک کا کم ہونا اور اس میں رطوبات صالح کی کمی کا ہونا ہے جو لبریکیشن کا کام کرتی ہیں ۔ ان سب کے لیے آخری ماہ صدیوں سے آزمودہ فارمولہ جو ہماری مائیں استعمال کرتی آ رہی تھیں وہ تھا جسمانی مشقت اور ورزش ۔ دوسری اہم چیزدیسی گھی،چھواروں
 اورزعفران کا استعمال تھا۔دودھ میں ڈال کر۔جس میں فولاد،کیلشیم ،گندھک یعنی حرارت وافر مقدار میں موجودہوتی ہیں۔ اس کا چھوڑ دینا۔اور سارا دن عورتوں کا بستر پر لیٹے رہنااور کیلشیم فولک ایسڈ کی گولیاں کھانااور venifer کے انجکشن لگوانا ھے۔ پھر ڈیلیوری کے روز اور دوران جو ظلم وستم ہوتا ہے۔اللہ کی پناہ ۔ایک تو شرم و حیا کی دھجیاں اڑا دی جاتی ہیں۔جسم دکھایا جاتا ھے۔چوڑے چمار تک جملے کستے ہیں ۔ 
سلفی بنائی جارہی ہوتی ہیں۔ استغفراللہ۔
پھر پیسے کے لالچ اور حرص میں ہم اس حد تک گر چکے ہیں کہ نارمل کیسز کو خواہ مخواہ کٹ لگوا کر جیبوں پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے ۔ ایک اور ظلم جس کی طرف بطور خاص توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ بچہ جب ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے تو اسکا درجہ حرارت عام طور پر عام انسانی درجہ حرارت کے مطابق ہوتا ہے جبکہ لیبر روم میں ایر کنڈیشن ہونے کی وجہ سے ایک تو ماں کے عضلات سردی سے سکڑتے ہیں۔یہ سا ئینس کا اصول ہے کہ سردی سے چیزیں سکڑتی اور حرار ت سے پھیلتی ہیں۔کمرے میں کم درجہ کا ٹمپریچر ہونے سے رحم سکڑے گا یا پھیلے گا؟یقینا سکڑے گا تو یہ چیز نارمل ڈیلوری میں معاون ہو گی یا رکاوٹ؟؟یقینی جواب ہے رکاوٹ مگرنازک مزاج ڈاکٹر صاحبان کو گرمی لگے گی لہذا مریض جائے بھاڑ میں یا موت کے منہ آں جناب کی طبع نازک یہ برداشت نہیں کر سکتی ۔ڈاکٹرہو کر اس کی ناک پر پسینہ آجائے۔اتنا بڑا ظلم۔حد تو یہ ہے کہ ڈاکٹر تو ڈاکٹر ہیں لیبر روم کا صفائی والا عملہ اس کا نخرہ اور اس کا رعب اللہ کی پناہ۔وہ آسمان پہ ہوتا ہے۔مگر سلام ہے ہماری ان ماؤں اور بہنوں کو جو لیبر روم میں انگھیٹیاں جلاکر پسینہ پسینہ ہو کر فطری عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچاتی تھیں۔گھر میں ہی۔ اسی سلسلے میں ایک اور مسئلہ بچے کا سانس اکھڑنا اور انکیوبیٹرمیں ڈالنا ہے پیارے بھائی!جب بچہ یک دم تقریباً پچیس تیس کے ٹمپریچر سے یک دم سولہ کے ٹمپریچر پہ آئے گاتو اس کا سانس نہیں اکھڑے گا تو اور کیا ہو گا۔؟ پھر درد کے انجکشن لگوانے کی سزا بلکہ بھینسوں والے انجکشن پابندی کے باوجود لگائے جاتے ہیں۔جو عورت کو ساری زندگی کمر درد کی صورت بھگتنا پڑتی ہے وہ ایک الگ کہانی ھے۔ پھر ایک ایک دن کا گننا اور ایک دن بھی اوپر نہ جانے دینا کہ گاہک کسی اور دکان کا رخ نہ کر جائے۔ظلم پہ ظلم۔ڈاکے پہ ڈاکہ۔اس سلسلے میں صرف اتنا عرض کروں
کہ پھل جب پکتا ھے تو خود بخود نیچے گرتا ہے۔دردیں قدرتی اور فطری ہونی چاہیے 
یاد رکھیں فطرت انسان کی دوست ہے دشمن نہیں مصنوعی دردیں کہ گاہک دوسری دکان پر نہ چلا جائے کے خوف سے بھینسوں والے ٹیکے لگائیں گے تو فطرت کے ساتھ بھیانک مذاق ہے پھر نتائج تو بھگتنا پڑیں گے۔سزا تو ضرور ملے گی۔فطرت کسی کو معاف نہیں کرتی۔ پھر یاد رکھ لیں بچوں کے اندر جتنے کیسز خون کی کمی کے آرہے ہیں وہ سب کے سب مصنوعی فولک ایسڈ اور مصنوعی کیلشیم کی وجہ سے ہیں کیو نکہ اس سے تلی spleen کا فعل متاثر ہوتا ہے جس سے وہ انیمیا کا شکارہو جاتے ہیں ۔ المختصر
فطرت سے جتنا دور ہٹیں گے اتنی ہمیں سزازیادہ ملے گی۔اس موضوع پر بہت کچھ ہے کہنے کو شاید اتنا بھی ہضم نہ ہو دکانداروں کو۔لیکن میرے پیارے بھائیو!یہ ہماری ماؤں، بہنوں بیٹیوں کی زندگیوں کا مسئلہ ہے اس کو سیریس لیں۔اور حکمرانوں کوسخت قوانین بنانے پر مجبور کریں۔مغربی ممالک میں خاوند لیبر روم میں موجودہوتا ہے۔ ہمارے ہاں تو اس کی زیادہ ضرورت ہے۔
وہاں حتی المقدور نارمل کیس کی کوشش کی جاتی ہے آخری حد تک۔ہمارے ہاں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا۔مصنوعی دردوں کے انجکشن نہیں لگوائے جاتے۔بلکہ قدرتی دردوں کو برداشت کرنے کا کہا جاتا ہے۔
ہمارے ہاں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا۔
٭٭٭