پولیس بدمعاش کے آگے بلی بن گئی تھی

مصنف : نیاز احمد کھوسہ

سلسلہ : سچی کہانی

شمارہ : جولائی 2020

بلی بھی اپنے گھر میں شیر ہوتی ہے، ایسا واقعہ جس میں علاقہ پولیس ایک بدمعاش کے آگے بلی بن گئی تھی، اور علاقے کے لاوارث لوگ ایک بدمعاش کے رحم و کرم پر تھے-97 پولیس کی اندر کی اصل حقیقت۔ کس طرح ہمارے مُلک میں جنگل کا قانون ہے اور ادارے کمزور ہوگئے ہیں۔ ایک آنکھیں کھول دینے والا واقعہ
میں ایس۔ایچ۔او باگڑجی (ضلع شکار پور ) میں نیا پوسٹ ہوا تھا، مجھے ایک دن ایک لڑکی کا خط موصول ہوا۔ لڑکی نے لکھا تھا وہ شکارپور کے ایک اسکول میں ٹیچر ہے اور وہ روزانہ باگڑجی شہر سے پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرتی ہے کچھ دن پہلے صبح کے وقت شکارپور جارہی تھی کہ تین کینال کے پاس ایک آدمی نے ہماری سواری روک لی اور مجھے ہاتھ سے پکڑ کر گاڑی سے نیچے اُتار لیا اور گاڑی والے کو جانے کا اشارہ کر دیا۔ آدمی مجھے کینال کے ساتھ ہی بنے گھر کے ایک کمرے میں لے گیا اور شام تک میری عزت سے کھیلتا رہا سورج غروب سے پہلے مجھے روڈ پر لے آیا اور باگڑجی جاتی ہوئی ایک سواری میں مجھے سوار کرا دیا۔
لڑکی نے مزید لکھا تھا کہ میں ایک مجبور اور غریب خاندان سے تعلق رکھتی ہوں اپنی عزت کی خاطر سامنے نہیں آسکتی۔ تین کینال کے پاس روزانہ یہ تماشہ ہوتا ہے کوئی بھی لڑکی سامنے آنے کو تیار نہیں۔ میں نے آپ کو شکایت کردی ہے آپ ہمارے رکھوالے ہو اگر آپ نے بھی کچھ نہیں کیا تو میں دنیا میں تو کچھ بھی نہیں کرسکتی مگر قیامت کے دن آپ پر دعویٰ ضرور کروں گی۔ خط کے آخر میں اُس نے ملزم کے نام کے ساتھ ساری تفصیل لکھی تھی۔
خط ملتے ہی میں پریشان ہوگیا ایسی باتیں تو صرف ڈراموں اور فلموں میں ہوتے دیکھا تھا۔ حقیقت میں ایسا ہو رہا تھا اس کا مجھے اندازہ نہیں تھا اور سچ یہ ہے کہ میں اندر سے ڈر گیا تھا کہ کیا واقعی ہمارے مُلک میں جنگل کا قانون ہے اور کرمنل لوگ اتنے مضبوط ہیں کہ لوگوں کی شُنوائی نہیں ہورہی جیسا کہ میں بتا چُکا ہوں کہ میری اُس تھانے میں پوسٹنگ نئی تھی اور مجھے مُلزم کی طاقت کے متعلق کچھ بھی پتہ نہیں تھا اس لیئے تھانے کے پُرانے ملازمین سے معلومات لیں تو پتہ چلا کہ ملزم ایک بہت بڑا بدمعاش ہے اور سالوں سے شہر میں دکان داروں سے بھتہ لیتا ہے اور جس دکان سے جو دل کرے لے جاتا ہے کچھ دن پہلے تھانے کا ایڈیشنل ایس۔ایچ۔او ایک چوری کے بعد چوروں کے کُھرے اُٹھاتے ہوئے بدمعاش کے ڈیرے پر پہنچ گیا تو وہاں بدمعاش کے لڑکوں نے ڈنڈوں سے پولیس کی آؤ بھگت کی اور کیس کے مدعی کو زخمی کر دیا پولیس نے ڈیرے سے بھاگ کر اپنی جان بچائی۔
کارروائی سے پہلے واقعہ کی تصدیق کرنا لازمی تھا۔ علاقے کے لوگ مجھے جانتے نہیں تھے میں نے پہلے اسٹاپ تک تانگوں اور پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کیا اور تانگا چلانے والوں اور مسافروں سے تین کینال سے گزرتے وقت بدمعاش کے ڈیرے اور بدمعاش کے متعلق ایک مسافر کی حیثیت سے سوالات کیئے جس سے مجھے تصدیق ہوگئی کہ لڑکی نے کچھ بھی غلط نہیں لکھا تھا بدمعاش کی دہشت اتنی تھی کہ لوگ اُس کا ذکر کرتے ہوئے ڈرتے تھے۔ تین کینال سے گزرتے ہوئے میں نے کئی بار بدمعاش کو اپنے ساتھیوں کے ساتھ آنے جانے والوں کو گھورتے ہوئے دیکھا۔
پرانے اسٹاف کا کہنا تھا کم از کم دو تین سو کی نفری کے بغیر بدمعاش کے ڈیرے جانا فضول ہے اور اگر کچا ہاتھ ڈالا گیا تو پولیس کو مار کھا کر بھاگنا پڑے گا اور شھر میں ایک نہ رکنے والا چوریوں کا سلسلہ شروع ہو جائے گا اور چوریوں کو کنٹرول نہ کرنے کی پاداش میں SHO کا تبادلہ ہو جانا ہے۔ میں نے SHO کی تعیناتی کے بورڈ کی طرف دیکھا کوئی SHO دو تین ماہ سے زیادہ نہیں رہا تھا۔ میرے پاس تھانے میں پندرہ سولہ پولیس کی نفری تھی جو وقت بہ وقت بدمعاش اور اس کے کارندوں سے مار کھا چُکے تھی۔
میں خط لے کر شکارپور اپنے Ssp سے ملنے چلا گیا اور اُن کو سارا ماجرا بتایا، Ssp صاحب نے صاف انکار کردیا کہ میں نفری نہیں دے سکتا اگر ریڈ کے دوران کوئی پولیس والا مارا گیا تو میں IG کو کیا جواب دوں گا۔میں ناامید ہو کر تھانے واپس آگیا بدمعاش کے پاس 100 کے قریب کارندے تھے میں اکیلا کیا کر سکتا تھا، تھانے پر ایک پُرانا ہیڈکانسٹیبل غلام نبی کورائی تھا، تعیناتی کے تھوڑے دنوں میں
میں نے محسوس کیا تھا کہ غلام نبی کورائی میں تدبُر اور پولیس کی غیرت تھی میں نے غلام نبی کورائی کو کہا کہ وہ رات کا کھانا میرے ساتھ کھائے میں نے سوچا تھا کہ کھانے کے دوران اُس سے مشورہ کروں کہ بدمعاش سے کس طرح جان چُھڑائیں اور دوسری طرف میں یہ سوچ رہا تھا کہ لمبی چھٹی لوں تاکہ تھانے سے میرا تبادلہ ہوجائے -
میں نے Ssp کے علاوہ لڑکی کے خط کا کسی سے ذکر نہیں کیا تھا- کھانے کے دوران میں نے غلام نبی کورائی کو کہا کہ پچھلے دنوں ایڈیشنل SHO بدمعاش سے مار کھا کر بھاگ آیا ہے شہر میں سارے لوگ بدمعاش کو بھتہ دے رہے ہیں، اور کوئی رات خالی نہیں جس رات چوری نہ ہو۔ اور صبح کو چوروں کے کُھرے اٹھاتے وقت سارے کھرے بدمعاش کے ڈیرے پر جاتے ہیں۔ میں نے غلام نبی کو کہا کہ وہ مجھے مشورہ دے کہ میں کیا کروں غلام نبی کو میں نے بتایا کہ میں Ssp کے پاس میں گیا تھا کہ ریڈ کے لیئے نفری دے مگر انھوں نے صاف انکار کردیا ہے ان حالات میں اس تھانے پر میں نہیں رہ سکتا اور میں چُھٹی پر جانے کا سوچ رہا ہوں۔غلام نبی کورائی نے مجھے کہا کہ سر پولیس سے بڑا بدمعاش کوئی نہیں ہے شرط یہ کہ جب ہم خود کو پولیس والا سمجھیں اور سائلوں کی بغیر کسی لالچ کے مدد کریں، یہاں ہم سارا دن دکان داری کرتے ہیں تو اس طرح تو ہونا ہے نا۔ اُس نے مزید کہا کہ مجھے اس تھانے پر 15 سال ہوگئے ہیں اور ان 15 سالوں میں آج تک اس بدمعاش کو ہاتھ ڈالنے کا کسی SHO نے سوچا نہیں ہے، ہر SHO مال بناکر چلا جاتا ہے۔ اسی لیئے بدمعاش مضبوط اور تھانہ کمزور ہوگیا ہے، غلام نبی کورائی نے مجھے کہا کہ آپ چُھٹی پر نہ جائیں ہم اسی نفری سے بدمعاش کو قابو کرتے ہیں۔ہیڈکانسٹیبل غلام نبی کورائی کی باتوں سے میری کچھ حوصلہ افزائی ہوئی اُس نے مجھے کہا میں دو چار دنوں میں بدمعاش کے خاص کارندے کو شہر سے باتوں باتوں میں تھانے لے آؤں گا اور جیل میں ڈال دوں گا اور آپ کو اطلاع کردوں گا۔ آپ نے صرف جیل کی چابی ہیڈ محرر سے لے کر اپنے پاس رکھ لینی ہے ایسا نہ ہو کہ بدمعاش ہیڈ محرر سے زبردستی اپنا بندہ لے جائے اور ہیڈمحرر کو سختی سے کارندے کی ملاقات پر پابندی کا حکم دے دیں۔ بدمعاش پولیس سے ڈرتا نہیں ہے وہ آپ کے پاس خود آئے گا اپنا کارندہ چُھڑانے کیلئے۔ آپ تھانے کی نفری کو حاضر رہنے کا حکم کر دیں ہم بدمعاش کو پکڑ کر بند کر دیں گے، بدمعاش کے بند ہوتے ہی اُس کے سارے کارندے بھاگ جائیں گے اور مجھے تاکید کی اگر آپ نے میری حکمت عملی پر عمل کیا تو ہم بغیر کسی نقصان اور پریشانی کے اپنا کام کر لیں گے۔
دو دن بعد مجھے غلام نبی نے آکر بتایا کہ میں نے بدمعاش کے خاص کارندے کو جیل میں ڈال دیا ہے ۔میں نے اُسی وقت ہیڈ محرر کو بُلاکر جیل کی چابی اُس سے لے لی اور اُس کو سختی سے حکم دیا کہ ملزم کی مُلاقات میری اجازت کے بغیر نہیں کرانی اور نفری کو تھانے پر حاضر رہنے کا حُکم دے دیا۔
میں اور غلام نبی چار دن تک بدمعاش کا تھانے آنے کا انتظار کرتے رہے۔ غُلام نبی نے مجھے بتایا کہ بدمعاش کے کچھ لوگ ڈیل کے عوض کارندے کو چھڑانے کی بات کرنے آئے تھے میں نے اُن کو بول دیا ہے کہ SHO نیا ہے اُس کو آپ لوگوں کی طاقت کا اندازہ نہیں ہے آپ لوگ SHO کو دھمکی اور دھونس دلائیں SHO آپ کا بندہ چھوڑ دے گا۔پانچویں دن میں اپنے دفتر میں بیٹھا تھا کہ میری کُرسی کے پیچھے کھڑکی میں گھوڑے کے ہنہانے کی آواز آئی میں نے حیرت سے مُڑ کر کھڑکی میں دیکھا کہ بدمعاش گھوڑے سے اُتر رہا تھا اور اس کے ساتھ آیا ایک لڑکا گھوڑے کو میری دفتر کی کھڑکی کے سلاخ سے باندھ رہا ہے میں جلدی سی اُٹھ کر ساتھ بنے ہیڈ محرر کے کمرے میں گیا اور اُس کو کہا کہ جلدی میں ساری نفری جس حال میں ہے میرے پاس پیش کرے۔(گھوڑے پر آنا اور خاص طور پر گھوڑے کو SHO کی کھڑکی کی سلاخوں میں باندھنا SHO کو کم دکھانے کا ایک نفسیاتی حربہ تھا، ورنہ گھوڑے کو تھانے کے کسی درخت سے بھی باندھا جا سکتا تھا)
بدمعاش بغیر اجازت میرے دفتر میں آکر کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا اور میرا آدھا نام لے کر بُلند آواز میں کہا کہ نیاز تم کو کیسے جرأت ہوئی ہے کہ میرا کارندہ بند کر دیا ہے میں بدمعاش کے چہرے کو دیکھ رہا تھا اور بدمعاش بُلند آواز میں مجھے پریشر میں لانے کیلئے اپنی بکواس میں لگا ہوا تھا اتنے میں غلام نبی پانچ پولیس والوں کو لے کر میرے دفتر کے دروازے پر آگیا۔ بدمعاش ایک لمبا تڑنگا طاقت ور انسان تھا ہم چھ سات آدمیوں نے مُشکل سے اُس کو قابو کر کے زمیں پر گرا دیا اور پولیس کا‘‘چھتر’’منگا کر بدمعاش کو ننگا کرکے اچھی خاصی چھترول کروائی۔ بدمعاش ہمت ہار چُکا تھا اور منت سماجت کرنے پر اُتر آیا کہ مجھے معاف کردیں۔
شھر میں اُس کا بڑا رعب اور دبدبہ تھا مجھے دکانداروں کو باور کرانا تھا کہ بدمعاش کی بدمعاشی ختم ہوگئی ہے۔ بدمعاش کو عورتوں کا لباس پہنا کر اور گدھے پر بٹھا کر غلام نبی اور تھانے کی ڈری ہوئی نفری نے پورا شہر گُھمایا۔بدمعاش کو جیل میں ڈال کر ہم نے اُس کے ڈیرے کا رخ کیا وہاں سے 100 کے قریب بھینسوں اور چوری کی موٹر سائیکلیں اور چوری کا گھریلو سامان بغیر کسی مزاحمت کے ٹرکوں میں ڈال کر تھانے لائے۔ پورا شہر تھانے پر آگیا اور اپنی چوری کا سامان کی شناخت کرنے لگا۔
میں نے واپسی پر غلام نبی کورائی کو گلے لگا کر اس کے گال پر بوسہ دیا اور اُس کا شکریہ ادا کیا کیوں کہ اس ساری کامیابی کا سہرا غلام نبی کورائی کے سر تھا اور اُس کے ذمہ لگایا کہ برآمد شُدہ چوری کا سامان مالکان کو اپنی نگرانی میں FIR کاٹ کر واپس کرتا جائے۔اس طرح بدمعاش پر 30 کے قریب چوری کی برآمدگی کے ساتھ مقدمے بنائے گئے۔ 14 روز تک بدمعاش اور اُس کے کارندہ خاص کو روزانہ رات کو چھترول کا سامنا کرنا پڑتا۔ بدمعاش زمیں پر آگیا تھا،چھترول کے دوران میں نے بدمعاش سے لڑکیوں کو سواریوں سے اُتار کر اپنے پاس کچھ وقت رکھنے کا پوچھا بدمعاش نے اقرار کیا کہ وہ غلط کاریاں کرتا رہا ہے، مقدمے میں بدمعاش کے سارے کارندوں کو مفرور کر دیا گیا تھا۔
میری تعیناتی اُس تھانے میں تقریباً تین سال رہی بدمعاش نے مجھے کافی لوگوں سے سفارش کروائی کہ اگر میں اجازت دوں تو وہ مقدموں میں اپنی ضمانت کروالے اُسی خدشہ تھا کہ ضمانت پر آتے ہی میں دوبارہ اُسے نئے کیسوں میں بند کر دوں گا مگر میں نے انکار کر دیا کہ میری تعیناتی کے دوران واپس نہ آئے۔ تین سال بعد میرا تبادلہ ہوگیا تو کچھ ہی دنوں میں بدمعاش ضمانت پر واپس اپنے ڈیرے پر آگیا اُس کا پورا گینگ تتربتر ہو چُکا تھا۔بدمعاش کی اپنے ہی رشتے داروں میں دشمنی چل رہی تھی ایک دن انھوں نے اس کے ڈیرے پر حملہ کردیا ظالم لوگ اندر سے بُہت بُزدل ہوتے ہیں بدمعاش بھی اندر سے بُہت
 بزدل تھا حملہ کے وقت بجائے اپنا دفاع کرنے کے بجائے وہ اپنی بندوق کے ساتھ ایک کمرے میں جاکر چُھپ گیا دشمنوں نے اُسے ڈھونڈ نکالا اور گولیاں مار کر قتل کردیا قتل سے پہلے اُس نے بندوق پھینک کر قاتلوں کو بہت منت سماجت کی مگر یہ دنیا ہار ماننے اور بُزدل لوگوں کی نہیں ہے۔
میں نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی تھی کہ خط لکھنے والی مظلوم لڑکی کی شکایت کا ازالہ کروں اور علاقے کے بدمعاش کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکا تھا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ پاک کی غیبی مدد تھی کہ غلام نبی کورائی جیسا فرض شُناس اور بہادر انسان میرے ساتھ تھا۔
٭٭٭