ایک آسٹریلین کے مسلمان ہونے کا منظر

مصنف : عاطف ملک

سلسلہ : من الظلمٰت الی النور

شمارہ : جولائی 2020

جمعہ کو مسجد بھری ہوتی ہے۔ ایسا ملک جہاں مسلمان اقلیت میں ہوں، وہاں مسجد بھی مختلف ہوتی ہے اور نمازی بھی مختلف۔مختلف رنگ ونسل، شباہتوں، الگ طرح کے لباس پہنے، مختلف زبانیں بولتے، الگ طریقوں سے نماز پڑھتے، اور مختلف طرز کی تلاوت کرتے۔ ایسی رنگا رنگی کہ فروٹ چاٹ یاد آجاتی ہے، مختلف ذائقے، رنگ اور بناوٹ کے پھل مگر سب میٹھے ۔ 
اور اس مسجد کی کہانی بھی مختلف ہے ۔ اس مسجد کے پیچھے طویل قانونی جنگ ہے، کئی سال کی عدالتوں کی پیشیاں، وکیلوں کی فیسیں اور لوگوں کا جذبہ، مشکلوں کے باوجود ناقابل شکست جذبہ۔۔ یہ مسجد ان مختلف شباہتوں، لباسوں اور زبانوں کے لوگوں کی انفرادی کہانیوں سے ملتی جلتی ایک اجتماعی کہانی ہے۔
دیارِ غیر میں بسنا ایک جدوجہد ہے۔ معاشرہ مختلف، رہن سہن الگ، لباس الگ، زبان اپنی اپنی، پودے الگ ، چرند پرند الگ، مذاق و مزاج الگ، قانون مختلف اور اقدار میں اختلاف۔۔اس فرق کو بڑھاتی ایک نسل پرستی کی دیوار بھی۔ سفید نسل پرستی کی دیوارجو دوسری انسانی نسلوں کے خون سے رنگدار ہے۔
کئی صدیوں اور کئی براعظموں کی مختلف نسلوں کے خون سے رنگدار ہے آسٹریلوی اب اوریجنل گم گشتہ نسلیں ہیں، براعظم امریکہ کے مقامی باشندوں کی ماری گئی نسلیں ہیں۔ بنگال کا خود ساختہ قحط، افریقہ اورایشیا کی مختلف کالونیز میں کیا گیا قتل عام اور سیاہ فام غلاموں کی خون آلود تجارت ۔ ایک لمبی فہرست ہے۔
دیارِغیر میں بسنا ایک جدوجہد ہے۔ پہلی حاصل کی ہوئی تعلیم بے وقعت ہو جاتی ہے پھر سالوں کے تجربے کی اہمیت نہیں رہتی۔ جب نام کے ساتھ محمد، احمد، فاطمہ لگا ہو تو نوکری کے دروازے مزید بند ہوتے چلے جاتے ہیں۔کئی عقلمند کہتے ہیں ان میں مل جائیں تاکہ میں اور تو کی تمیز ختم ہو، اقدار، لباس، معاشرہ سب کو آگے بڑھ کر گلے لگا لیں۔ فرق مٹے گا تو ہی آسانی ہو گی اور بڑھوتری تب ہی ہوگی۔ ایسا شوربے دار سالن بن جائے کہ اجزاء اپنا اپنا انفرادی ذائقہ قربان کرکے ایک ہی سواد بن جائیں 
مگر ہم جیسے فروٹ چاٹ کے شوقین بے عقلے کہتے ہیں کہ نہیں، اپنا اپنا رنگ، اپنی اپنی بناوٹ، اپنا اپنا ذائقہ رکھیں، سیب، ناشپاتی، آڑو، انگور، آم، خربوزے کے ٹکڑے بنیئے، ابلے چنے۔ یک رنگ شوربے دار سالن نہ بنیئے، فروٹ چاٹ کی رنگا رنگی بہت آگے ہے۔نئی زمین پر لگتے یہ پودے سخت جان ہیں۔ اپنی محنت اور جدوجہد سے تنگدستی سے نکل کر آسانی کی طرف جا نکلتے ہیں، مگر یہ سفر کئی سال لے جاتا ہے، برسوں پر مشتمل کٹھور دن اور دشوار راتیں ہوتی ہیں۔ اور پھر تنگی کے بعد آسانی ہے۔ یہ مشترکہ کہانی ہے۔ کسی سے بھی بیٹھ کر سن لیں، بیانیہ فرق ہوگا مگر کہانی ایک ہی ہے۔
اس مسجد کی بھی ایک کہانی ہے۔
شہر میں موجود کئی مذہبی اداروں کے زیر انتظام چلتے سکولوں کی مانند یہ ایک کرسچن سکول اور اس سے منسلک چرچ تھا۔ مذہب بے وقعت ہوا تو یہ ادارے بھی بے قدر ہو گئے۔ سخت جان پودوں نے جانا کہ یہاں ہم اپنی آبیاری کرسکتے ہیں، سو مل کر پیسے اکٹھے کیے اور دونوں ادارے خرید لیے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں تھا، ایک ایک دانہ جمع کیا گیا، لوگوں نے قربانی دی، انُ لوگوں کی قربانی جو پہلے ہی قربان گاہ میں تھے۔ کئی ماہ لگ گئے کہ منزل تک پہنچ پائے۔پھر جب اس مسجد میں نماز شروع کی تو شہری انتظامیہ آن پہنچی کہ یہ تو سکول ہے، عبادتگاہ نہیں۔ یہاں عبادت نہیں ہوسکتی۔ بحث یہ تھی کہ یہ سکول سے منسلک سہی مگر چرچ تو تھا سو عبادت گاہ تو تھی۔ مذہب کے بے وقعتے چاہتے ہیں کہ سارے مذہب ہی بے وقعت ہوں، بے سمجھے ہی سمجھدار ہوں۔ اپنے آس پاس دیکھ لیں، کیا کیا نہ کہانیاں سنائیں گے ، کیا کیا نہ تاویلیں لائیں گے، مگر دل والے کہاں مانتے ہیں۔ عقل تو ایک حالت میں رہتی ہے، دل روشن یا تاریک ہوتے ہیں۔
معاملہ عدالت میں جا پہنچا، کئی سال سخت جان پیشیاں بھگتے رہے، دل والے وکیلوں کی فیسیں بھرتے رہے۔ برسوں بعد فیصلہ آگیا کہ چرچ عبادت گاہ تھی سو مسجد کی صورت بھی عبادت گاہ یہاں قائم ہوسکتی ہے۔ آشفتہ سر اس قطعہ زمین پر سجدہ ریز ہوئے کہ تنگی کے بعد آسانی ہے۔
جمعہ کو مسجد بھری ہے۔ امام ایک جوان آدمی ہے، یہیں پلا پڑھا، مقامی تلفظ میں انگریزی بولتا ہے۔ خطبے میں بتایا کہ ایک آسٹریلین مرد آج نماز کے بعد اسلام قبول کرے گا۔ نماز کے بعد ایک نوجوان آگے آگیا، عمر پچیس سال کے لگ بھگ، کلین شیو، کانوں میں بالیاں ڈلی ہوئی ہیں۔ یہ جیسن ہے، جو آج مسلمان ہوگا۔وہاں مسجد میں بیٹھے ہوئے خیال آرہا ہے کہ یہ کون ہے ؟ کیوں ایک آزاد زندگی سے بندھنوں والی زندگی چن رہا ہے؟ آزاد، مادر پدر آزادی سے قواعد والی زندگی کا سفر، عقل پریشاں تھی، مگر دل جواب جانتا تھا۔ یہ جیسن کیوں اسلام قبول کررہا ہے؟ کبھی اکیلے میں ملا تو اس کی کہانی سنوں گا۔
مسجد کی دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے ذہن میں زندگی کے کئی مقامات پر ملے نومسلم یاد آرہے تھے۔ ہر ایک کی مختلف کہانی تھی، عام کہانی سے لیکر گمان سے بھی آگے کی داستان۔ ہر رنگ ملتا تھا، آسانی، مشکلات، جدوجہد اور ذہنی اضطراب تھا۔ راستے مختلف مگر منزل ایک تھی۔ خیال میں وہ ٹین ایجر گورا لڑکا سیف آیا جس نے کسی مسلمان سے ملے بغیر اسلام قبول کرلیا تھا، اور جب پہلا مسلمان اسے زندگی میں ملا تو اس مسلمان کے نام پر اپنا نام سیف رکھ لیا تھا۔ سوچ سے کہیں آگے کی کہانی ہے۔
ایسے لمحے بہت کم ملتے ہیں۔ ڈھونڈنے سے نہیں ملتے، دن رات کی مزدوری کر کے بھی نہیں ملتے۔ یہ عطا کے لمحے ہیں۔ عطا کے لمحے کرم سے ملتے ہیں، صرف کرم سے۔
کبھی سوچا نہ تھا کہ ہائی سکول میں پڑھتے طالبعلم کو لائبریری سے میلکم ایکس کی زندگی کی کتاب کیا ملتی ہے کہ اس کم عمر کی کتابِ زندگی کے ورق ہی بدل جاتے ہیں۔ اس نوعمر نے اسلام کے لیے بڑی قربانی دی تھی کہ گھر والوں نے عاق کردیا اور وہ دربدر تھا مگر سخت جان تھا کہ کھڑا تھا۔ اسی مسجد میں ایک گورا چٹا شاہد نام کا تھا، جسے میں افغان سمجھتا تھا۔ پتہ لگا کہ تیس سال قبل ایک آسٹریلوی گورا ایسا مسلمان ہوا کہ بود وباش اور اطوار ہی نہ بدلے بلکہ نام بھی شاہد رکھ کر مسجد کا خادم ہوگیا۔ ہر نماز پر موجود، مسجد کی صفائی سے مرمت کے کاموں میں جتا ہوا۔ذہن میں ایک عالم کا خیال بھی آگیا، ڈاکٹر مراد الفریڈ ہوفمین۔ مسافر ایک سفر کر کے ان کا اور ڈاکٹر این میری شمل کا لیکچر سننے گیا تھا جس میں ان کے اسلام لانے کی کہانی بھی سنی تھی۔ کیتھولک پیدا ہوئے، آکسفورڈ یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی، میونخ یونیورسٹی سے قانون میں پی ایچ ڈی کی، جرمنی کے کئی ممالک میں سفیر رہے، کئی کتابوں کے مصنف تھے، کئی اعزازات کے حامل تھے۔اپنے دورِ سفارتکاری میں الجزائر کی جنگِ آزادی کو قریب سے دیکھا، وٹگن سٹاین، پاسکل، سوائن برن اور کانٹ جیسے فلسفیوں کو پڑھ کر خدا کے وجود کے قائل ہوئے تھے۔اسلامک آرٹ کے گرویدہ تھے اور کئی برس اسلام کو پڑھا۔ فلسفی اور عقلی آدمی تھے۔ عجب کہانی سنائی، کئی سال سے اسلام کے متعلق پڑھ رہے تھے مگر مسلمان نہ ہوئے تھے۔ عربی سیکھ لی تھی، قرآن پڑھتے اور ساتھ رکھتے تھے۔ مراکش کی سرحد پر کسٹم والوں نے روکا، اور سامان چیک کرتے سپاہی نے قرآن کو ایک طرف اچھال دیا۔ اس سپاہی سے غصہ ہو گئے۔ سپاہی نے پوچھا کہ کیا تم مسلمان ہو؟ جواب دیا نہیں۔ اس نے کہا، تمہیں پھر کیا مسئلہ ہے؟ برس ہا برس کے سفر کی منزل عجب طریقے سے سامنے آن کھڑی ہوئی۔ اسُی وقت فیصلہ کر لیا کہ مسلمان ہونے کا وقت آگیا ہے اور ایسے مسلمان ہوئے کہ کئی کتابیں اپنے نئے مذہب پرلکھیں۔
غرناطہ میں الحمرا محل کے سامنے کی پہاڑی پر بنی نئی مسجد میں ایک سویڈش باریش مسلمان کے ساتھ عصر کی نماز پڑھی تھی۔ وہ عجیب شخص تھا، سکون پھیلاتا تھا۔ استاد تھا، سویڈن میں بچوں کو سکول میں پڑھاتا رہا۔ اسلام کو پڑھا، سوچا اورپھر قبول کر کے زندگی پر طاری کر لیا۔ایک نومسلم دوست اور ساتھی رابرٹ فلپس تھا، لمبا عربی چغے پہنے مسجد میں کوئی گورا چٹا مراکشی بربر ہی لگتا تھا۔ زندگی کے ایک سخت مقام پر اس نے میری بہت مدد کی۔ یہ لوگ مختلف تھے، ہم پیدائشی مسلمانوں سے مختلف۔ اپنی تحقیق اور اپنی مرضی سے مسلمان ہوئے، کئی راستوں سے منزل کو آتے۔
جیسن امام کے سامنے بیٹھا تھا۔ امام اسے انگریزی میں ایمان کے بارے میں بتا رہا۔ ‘‘مسلمان اللہ پر، فرشتوں پر، بھیجے گئے رسولوں پر، نازل کردہ کتابوں پر، قیامت پر اور مر کر جی اٹھنے پر اور ہر عمل کے اللہ کی
 طرف سے آنے پر یقین رکھتا ہے۔ اس کے بعد امام نے اسلام کے پانچ اراکین کلمہ، نماز، روزہ، حج اور زکاۃ کے بارے میں بتایا۔ اب ایک اہم سوال۔جیسن، کیا تم اپنی مرضی سے بغیر کسی خوف، لالچ کے اسلام قبول کر رہے ہو؟جی، میں اپنی ذاتی مرضی سے مسلمان ہو رہا ہوں۔ٹھیک، میں اب تمہیں کلمہ پڑھاتا ہوں۔ میں ایک ایک لفظ کی صورت میں کلمہ پڑھوں گا کہ تمہیں ادا کرنے میں مشکل نہ پیش آئے۔ تم میرے الفاظ دہرانا۔ اور اس کے بعد میں انگریزی میں اس کا ترجمہ تمہیں بتاؤں گا۔امام نے ایک ایک لفظ کی شکل میں کلمہ پڑھا۔ انگریزی بولنے والوں کے لیے عربی کے لفظ ادا کرنے اتنے آسان نہیں ہوتے، مگر جیسن اپنے تلفظ میں ان الفاظ کو دہرا رہا ہے ماشاء اللہ بھائی، اب آپ مسلمان ہیں۔ آپ کا ہم پر اور ہمارا آپ پر حق ہے۔ آپ آج ایک بہت بڑے مقام پر ہیں۔ آپ ہم سے بہت بہتر ہیں، ہمارے لیے دعا کریں۔ آپ گناہوں سے ایسے پاک ہیں جیسے ایک نومولود بچہ جو دنیا میں ابھی آیا ہے۔ برادر جیسن، ہمارے لیے دعا کریں۔
امام نومسلم جیسن سے دعا کی درخواست کررہا تھا، نمازی جیسن کے گرد جمع تھے۔ وہ اسے مبارک باد دے رہے تھے، اس سے بغلگیر ہورہے تھے۔ چند ساعتوں قبل کا اجنبی اب اس خاندان کا فرد بن گیا۔ ساتھ بیٹھے بنگالی کی آنکھوں میں آنسو تھے، وہ تھرتھراتی آواز میں جیسن سے دعا کی درخواست کر رہا تھا۔
جیسن سے بغلگیر ہوتے ایک نمازی نے اپنی ٹوپی اتار دی ہے، وہ اب یہ ٹوپی جیسن کے سر پر پہنا رہا تھا۔ یا اخی، یہی تحفہ میرے پاس اس وقت ہے، قبول کیجیے۔ میرے سے آگے بزرگ نے تمام نمازیوں کی نگاہوں سے بچ کر اپنے بٹوے سے بیس ڈالر کا نوٹ نکال کر اپنے ہاتھ میں چھپایا ہے۔ جیسن سے بغلگیر ہوتے انہوں نے چپکے سے وہ نوٹ جیسن کی جیب میں ڈال دیا۔ میں دیکھتے ہوئے بھی ظاہر کر رہا تھاجیسے کچھ نہیں دیکھا۔یہ عجب لمحہ تھا۔ بیس ڈالر کا نہیں، بیس ڈالر کو چھپ کر کسی کے جیب میں ڈالنے کا لمحہ، اپنی ٹوپی اتار کر لمحوں قبل کے اجنبی کے سر پر پہنانے کا لمحہ۔ آنکھوں میں چمکتے آنسو اور تھرتھراتی آواز میں ایک نومسلم سے دعا کی درخواست کرنے کا لمحہ۔یہ لمحے عقل کی گرفت میں نہیں، یہ دل کو روشن کرتے لمحے تھے۔ یہ
 بے غرضی کے لمحے تھے۔
ایسے لمحے بہت کم ملتے ہیں۔ ڈھونڈنے سے نہیں ملتے، دن رات کی مزدوری کر کے بھی نہیں ملتے۔ یہ عطا کے لمحے ہیں۔ عطا کے لمحے کرم سے ملتے ہیں، صرف کرم سے۔٭٭٭