اسلامی شریعت میں رفع حرج اور آسانی ؍ قسط ۳

مصنف : مولانا عامر گزدر

سلسلہ : دین و دانش

شمارہ : جولائی 2020

با جماعت نماز کا حکم اور اُس سے رخصت
شب وروز کی فرض نمازوں کو باجماعت اور ممکن ہو تو کسی مسجد میں جا کر ادا کرنا اسلامی شریعت میں ایک پسندیدہ سنت کی حیثیت رکھتا ہے۔ با جماعت نماز اور اِس مقصد سے مسجد کی حاضری نہ خود نماز کی صحت کے لیے شریعت میں لازم کی گئی ہے اور نہ یہ منجملہ شرائط ِنماز کے ہے۔ تاہم اِس کا اہتمام بہت باعث اجر اور بڑی فضیلت کی چیز ہے کسی مسلمان کو بغیر کسی عذر کے اِس سے محروم نہیں رہنا چاہیے۔ اِس کی یہ حیثیت رسول اللہ ﷺ کے درج ذیل ارشادات سے واضح ہوتی ہے:
۱۔ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ ﷺ قَالَ: -ABصَلاَۃُ الجَمَاعَۃِ تَفْضُلُ صَلاَۃَ الفَذِّ بِسَبْعٍ وَعِشْرِینَ دَرَجَۃً-BB. ‘‘عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تنہا نماز پڑھنے سے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا ۲۷ درجے زیادہ فضیلت رکھتا ہے’’(صحیح بخاری، رقم ۶۴۵۔ مسلم، رقم۵۰ ۶)۔
۲۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ ﷺ قَالَ: -ABلَوْ یَعْلَمُ النَّاسُ مَا فِی النِّدَاءِ وَالصَّفِّ الأَوَّلِ، ثُمَّ لَمْ یَجِدُوا إِلَّا أَنْ یَسْتَہِمُوا عَلَیْہِ لاَسْتَہَمُوا، وَلَوْ یَعْلَمُونَ مَا فِی التَّہْجِیرِ لاَسْتَبَقُوا إِلَیْہِ، وَلَوْ یَعْلَمُونَ مَا فِی العَتَمَۃِ وَالصُّبْحِ، لَأَتَوْہُمَا وَلَوْ حَبْوًا-BB. ‘‘ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر لوگ جانتے کہ اذان کے وقت پہنچنے اور پہلی صف میں کھڑے ہونے کا کیا اجر ہے، پھر اُس کے لیے قرعہ ڈالنے کے سوا کوئی وجہ ترجیح نہ پاتے تو یہی کرتے۔ اور اگر جانتے کہ ظہر کی جماعت کے لیے سبقت کرنے میں کیا اجر ہے تو اُس کے لیے ایک دوسرے سے سبقت کرتے۔ اور اگر جانتے کہ فجر اور عشا کے لیے حاضر ہونے میں کیا اجر ہے تو اُس کے لیے گھسٹ کر بھی پہنچنا پڑتا تو پہنچتے’’(صحیح بخاری، رقم ۶۵۳، ۶۵۴۔ صحیح مسلم، رقم ۴۳۷)۔
۳۔ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، أَنّ رَسُولَ اللَّہِ ﷺ قَالَ: -ABمَنْ صَلَّی الْعِشَاءَ فِی جَمَاعَۃٍ فَکَأَنَّمَا قَامَ نِصْفَ اللَّیْلِ، وَمَنْ صَلَّی الصُّبْحَ فِی جَمَاعَۃٍ فَکَأَنَّمَا صَلَّی اللَّیْلَ کُلَّہُ-BB. ‘‘عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے عشا کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھی، اُس نے گویا آدھی رات قیام کیا اور جس نے صبح کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھی، اُس نے گویا پوری رات قیام میں گزاری’’(مصنف عبدالرزاق، رقم۲۰۰۸۔ صحیح مسلم، رقم۶۵۶)۔
۴۔ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد نقل ہوا ہے کہ: ‘‘جماعت کی پہلی صف فرشتوں کی صف کی طرح ہے۔ آپ نے فرمایا: اگر تم اِس کی فضیلت جان لو تو اِس میں شامل ہونے کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ آدمی کسی دوسرے شخص کو ساتھ لے کر نماز پڑھے، یہ اُس کے اکیلے نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور دو کے بجائے تین افراد مل کر نماز پڑھیں تو اُس کی فضیلت اور زیادہ ہے۔ (نمازیوں کی) تعداد جتنی زیادہ ہو، وہ اللہ تعالیٰ کواتنی ہی بڑھ کر محبوب ہوگی’’(مسند طیالسی، رقم۶ ۵۵ ) 
عورتیں، البتہ باجماعت نماز اور مسجد کی حاضری کے اِس حکم سے مستثنیٰ ہیں۔ اُنکے معاملے میں حکم یہ ہے کہ وہ نماز کے لیے مسجد میں آسکتی ہیں، لیکن نہ آئیں تو اِس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ ﷺ: -ABلَا تَمْنَعُوا نِسَائَکُمُ الْمَسَاجِدَ، وَبُیُوتُہُنَّ خَیْرٌ لَہُنَّ-BB.‘‘عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: اپنی عورتوں کو مسجدوں میں آنے سے نہ روکو، لیکن اُن پر واضح رہنا چاہیے کہ اُن کے گھر اِس مقصد کے لیے زیادہ موزوں ہیں’’ (سنن ابی داوؤد، ۵۶۷۔ صحیح ابن خزیمہ، رقم ۱۶۸۴)۔
جمہور فقہا نے مردوں کے لیے باجماعت نماز کے اِسی حکم کو اپنی اصطلاح میں ‘سنت موکدہ’ کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے۔بعض فقہا اِس کو ‘فرض کفایہ’ کہتے ہیں۔بعض نے اِس کی تفصیل اِس طرح بیان کی ہے کہ ہر شہر کے مکینوں پر لازمی نمازوں کی باجماعت ادائیگی فی الجملہ فرض کفایہ ہے، مساجد میں باجماعت نماز کا اہتمام رکھناسنت ہے، جب کہ ہر مسلمان مرد پر اُس کی انفرادی حیثیت میں باجماعت نماز کی ادائیگی ایک فضیلت کی چیز ہے۔ بعض فقہا نے اپنی اصطلاح میں اِس کو ‘واجب’ سے تعبیر کیا ہے فقہی تعبیر واصطلاح کے اِس فرق کے باوجود فقہا نے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کو شرط قطعاً قرار نہیں دیا ہے۔ یہاں تک کہ جن فقہا نے ‘واجب’ کی اصطلاح استعمال کی ہے، وہ بھی بغیر کسی عذر کے تنہا نماز پڑھنے والے کی نماز کو صحیح قرار دیتے ہیں۔ (دیکھیے: الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ، وزارۃ الاوقاف والشؤن الاسلامیۃ الکویت، ج۲۷،ص ۱۶۵- ۱۶۶۔ الھدایۃ فی شرح بدایۃ المبتدی، برھان الدین المرغینانی، ج۱، ص۵۶۔ المجموع شرح المھذب، النووی، ج۴، ص۱۶۳)۔
رسول اللہ ﷺ کے حین حیات جب مسجد نبوی میں آپ کی اقتدا میں نماز پڑھنے کے لیے اذان دی جاتی تھی تو اُن سب لوگوں کے لیے آپﷺ کی مسجد میں حاضری ضروری تھی جن تک اذان کی آواز پہنچ جائے، الاّ یہ کہ غیر حاضری کے لیے کسی پاس کوئی عذر ہو۔ چنانچہ آ پ کا ارشاد ہے: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِیِّ ﷺ، قَالَ: -ABمَنْ سَمِعَ النِّدَاءَ فَلَمْ یَأْتِہِ، فَلَا صَلَاۃَ لَہُ، إِلَّا مِنْ عُذْرٍ-BB. (سنن ابن ماجہ، رقم 793)
عذر کی بنا پر رفع حرج اور آسانی دینے کے قرآنی اصول پر جمعہ وجماعت سے رخصت خود رسول اللہ ﷺ اور آپ کے بعض صحابہ کے علم وعمل کی روایتوں سے ثابت ہے۔ اِس باب کی بعض روایتیں درج ذیل ہیں:
۱۔ عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، أَذَّنَ بِالصَّلاَۃِ فِی لَیْلَۃٍ ذَاتِ بَرْدٍ وَرِیحٍ، ثُمَّ قَالَ: أَلاَ صَلُّوا فِی الرِّحَالِ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّہِ ج کَانَ یَأْمُرُ المُؤَذِّنَ إِذَا کَانَتْ لَیْلَۃٌ ذَاتُ بَرْدٍ وَمَطَرٍ، یَقُولُ: -ABأَلاَ صَلُّوا فِی الرِّحَالِ-BB.‘‘نافع کا بیان ہے کہ ایک رات سردی اور سخت ہوا چل رہی تھی۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اذان دی، پھر کہا: لوگو، اپنے اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو۔ اِس کے بعد اُنھوں نے کہا: جب کبھی رات کو ٹھنڈ اور بارش ہوتی تو رسول اللہ ﷺ اپنے مؤذن کو حکم دیتے کہ وہ اذان میں کہے:لوگو، اپنے اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو’’۔(صحیح بخاری، رقم۶۶۶۔ صحیح مسلم، رقم۶۹۷)۔
۲۔ حَدَّثَ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ الحَارِثِ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ قَالَ لِمُؤَذِّنِہِ فِی یَوْمٍ مَطِیرٍ: إِذَا قُلْتَ أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّہِ، فَلاَ تَقُلْ حَیَّ عَلَی الصَّلاَۃِ، قُلْ: ''صَلُّوا فِی بُیُوتِکُمْ''، فَکَأَنَّ النَّاسَ اسْتَنْکَرُوا، قَالَ: فَعَلَہُ مَنْ ہُوَ خَیْرٌ مِنِّی، إِنَّ الجُمْعَۃَ عَزْمَۃٌ وَإِنِّی کَرِہْتُ أَنْ أُحْرِجَکُمْ فَتَمْشُونَ فِی الطِّینِ وَالدَّحَضِ. ‘‘عبد اللہ بن حارث کا بیان ہے کہ عبد اللہ بن عباس نے ایک بارش والے دن (جمعے کی اذان کے موقع پر) اپنے موذن سے کہا: تم ‘أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّہِ’ کے بعد ‘حَیَّ عَلَی الصَّلاَۃِ’ نہ کہنا، بلکہ اِس کے بجاے: ‘صَلُّوا فِی بُیُوتِکُمْ’ ‘‘(لوگو،) اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو’’ کہنا۔ لوگوں نے یہ سنا تو اُنھیں تعجب ہوا۔ اِس پر ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ اُس شخص (یعنی رسول اللہ ﷺ) کا فعل ہے جو مجھ سے کہیں بہترتھا۔ بلاشبہ، جمعے کی نماز فرض ہے، لیکن مجھے یہ بات بالکل پسند نہیں ہے کہ تمھیں تنگی میں ڈالوں اور تم (نماز کے لیے) کیچڑ اور پھسلن میں چلتے ہوئے آؤ’(صحیح بخاری، رقم۹۰۱)۔
۳۔ عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، ذُکِرَ لَہُ: أَنَّ سَعِیدَ بْنَ زَیْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَیْلٍ، وَکَانَ بَدْرِیًّا، مَرِضَ فِی یَوْمِ جُمُعَۃٍ، فَرَکِبَ إِلَیْہِ بَعْدَ أَنْ تَعَالَی النَّہَارُ، وَاقْتَرَبَتِ الجُمُعَۃُ، وَتَرَکَ الجُمُعَۃَ. ‘‘نافع سے روایت ہے کہ ایک جمعے کے دن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ذکر کیا گیا کہ سعید بن زید بن عمرو بن نفیل ؓجو جنگ بدر میں شریک تھے، بیمار ہو گئے ہیں۔ اُس وقت دن روشن ہو چکا تھا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سنا تو سوار ہو کر (تیمارداری کے لیے) اُن کی طرف چل دیے۔ پھر جمعے کا وقت قریب آگیا اور اُنھوں نے نمازِ جمعہ ترک کردی’’۔(صحیح بخاری، رقم۳۹۹۰)
۴۔ عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ ﷺ: -ABإِذَا کَانَ أَحَدُکُمْ عَلَی الطَّعَامِ، فَلاَ یَعْجَلْ حَتَّی یَقْضِیَ حَاجَتَہُ مِنْہُ، وَإِنْ أُقِیمَتِ الصَّلاَۃُ-BB.‘‘ابن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ''تم میں سے کوئی شخص کھانا کھا رہا ہو تو اُس سے اپنی ضرورت پورا کرنے میں جلدی نہ کرے، (بلکہ اطمینان سے کھانا کھائے) اگرچہ نماز کھڑی ہو جائے’’(صحیح بخاری، رقم۶۷۴)۔
۵۔عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، عَنِ النَّبِیِّ ج قَالَ: -ABإِذَا حَضَرَ الْعَشَاءُ، وَأُقِیمَتِ الصَّلَاۃُ، فَابْدَئُوا بِالْعَشَاءِ-BB.‘‘انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ‘‘رات کا کھانا حاضر ہو اور نماز کی جماعت کھڑی ہوجائے تو پہلے کھانا
 کھالیا کرو’’(صحیح مسلم، رقم۵۵۷)۔
۶۔ حَدَّثَ أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ قَالَ: -ABإِذَا قُرِّبَ الْعَشَاءُ، وَحَضَرَتِ الصَّلَاۃُ، فَابْدَئُوا بِہِ قَبْلَ أَنْ تُصَلُّوا صَلَاۃَ الْمَغْرِبِ، وَلَا تَعْجَلُوا عَنْ عَشَائِکُمْ-BB. ‘‘انس بن مالک کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ‘‘جب رات کا کھانا پیش کر دیا جائے اور نماز کا بھی وقت ہوجائے تو مغرب کی نماز پڑھنے سے پہلے (اطمینان سے) کھانا کھالیا کرو اور کھانا چھوڑ کر (نماز کے لیے) عجلت نہ کیا کرو’’(صحیح مسلم، رقم۵۵۷)۔
۷۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ، عَنِ النَّبِیِّ ﷺ قَالَ: ''مَنْ أَکَلَ مِنْ ہَذِہِ الْبَقْلَۃِ، الثُّومِ - وقَالَ مَرَّۃً: مَنْ أَکَلَ الْبَصَلَ وَالثُّومَ وَالْکُرَّاثَ فَلَا یَقْرَبَنَّ مَسْجِدَنَا، فَإِنَّ الْمَلَائِکَۃَ تَتَأَذَّی مِمَّا یَتَأَذَّی مِنْہُ بَنُو آدَمَ ''.‘‘جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ‘‘جس نے یہ سبزی، یعنی لہسن کھا یا’’- اور ایک مرتبہ آپ نے فرمایا: ‘‘جس نے پیاز، لہسن اور گندنا کھایا تو وہ ہر گز ہماری مسجد کے قریب نہ آئے، اِس لیے کہ فرشتے بھی اُن چیزوں سے اذیت محسوس کرتے ہیں جن سے بنی آدم کو اذیت پہنچتی ہے’’(صحیح مسلم، رقم۵۶۴)۔
۸۔ عَنْ عَائِشَۃَ، قَالَتْ: إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ج یَقُولُ: -ABلَا صَلَاۃَ بِحَضْرَۃِ الطَّعَامِ، وَلَا ہُوَ یُدَافِعُہُ الْأَخْبَثَانِ-BB. ‘‘سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ:‘‘کھانا سامنے آجائے تو نماز نہیں پڑھنی چاہیے اور نہ شخص نماز کے لیے حاضر ہوجس پر رفع حاجت کا تقاضا غالب ہو’’ (صحیح مسلم، رقم ۵۶۰)۔
۹۔ اِسی طرح معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ مرض وفات میں نماز پڑھانے کے لیے باہر تشریف نہیں لائے اور آپ نے ہدایت فرمائی تھی کہ ابو بکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں(صحیح بخاری، رقم۶۷۸)۔
مذکورہ بالا روایتوں کی روشنی میں ہمارے فقہا نے بھی اپنی مولفات میں جمعے اور جماعت کو ترک کرنے کے اعذار کو تفصیل سے بیان کیا ہے، جن کو ہم ذیل میں بیان کریں گے:
ترک جمعہ وجماعت کے انفرادی اعذار
۱۔ ایسی بیماری جس میں ایک شخص کے لیے مسجد کی حاضری باعث مشقت ہو۔
۲۔ جان، مال، آبرو یا اہل وعیال کے حوالے سے آدمی کو کوئی خوف اور خطرہ لاحق ہو یا وہ گھر پر کسی مریض کی تیمار داری اور نگہداشت پر مامور ہو۔ (اِس میں، ظاہر ہے کہ طبیب، سرجن، ہسپتالوں میں ایمرجنسی وارڈ میں کام کرنے والا عملہ، لوگوں کے جان ومال کے تحفظ پر مامور آفیسرز، محافظ، پولیس اور فوجی بھی شامل سمجھے جائیں گے)۔
۳۔ بھوک کی حالت میں کھانا حاضر ہو۔
۴۔ رفع حاجت کا تقاضا ہو۔
۵۔ پیاز، لہسن یا اِسی طرح کی کوئی چیز آدمی نے کھائی ہو جس کی بو سے دوسرے نمازیوں کو اذیت پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ایسے شخص کے لیے مسجد کی حاضری سے رخصت نہیں ہے، بلکہ اِس کے لیے مسجد میں جا کر جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا فقہا نے مکروہ قرار دیا ہے۔ یہی حکم، ظاہر ہے کہ ایسے پیشوں میں کام کرنے والے تمام لوگوں کا ہوگا جن کے پیشے کی وجہ سے اُن کے وجود سے لوگوں کو بو محسوس ہوتی ہو اور اذیت پہنچتی ہو اور اِسی طرح برص اور جذام کے مریض، جن کی موجودگی سے لوگ اذیت میں مبتلا ہوتے ہیں، اُن کو بھی بعض فقہا نے اِسی کے تحت رکھا ہے۔
۶۔ بدن کو ٹھیک سے ڈھانپنے کے لیے آدمی کے پاس کپڑے نہ ہوں۔
۷۔ سفر کی تیاری اور روانگی کا موقع ہو اور باجماعت نماز کے لیے آدمی مسجد چلا جائے تو سفر میں کسی دشواری یا قافلے کے چھوٹ جانے کا اندیشہ ہو۔
۸۔ سخت نیند کا غلبہ ہو۔
۹۔ علمائے حنفیہ کے نزدیک نابینا شخص بھی جماعت کی حاضری سے معذور سمجھا جاتا ہے۔
۱۰۔ آدمی شادی کر کے بیوی کو گھر لایا ہو اور جماعت کا وقت ہوجائے توفقہائے شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک ایسے شخص کو بھی جماعت کی حاضری سے رخصت حاصل ہو گی ۔ شافعیہ نے البتہ، اِس رخصت کو رات کی نمازوں کے ساتھ مقید مانا ہے۔
۱۱۔ علمائے شافعیہ نے زیادہ موٹاپے کو بھی ترک جماعت کے لیے باعث رخصت مانا ہے۔
۱۲۔ علمائے حنفیہ نے علم فقہ میں اشتغال کو بھی جماعت ترک کرنے کے لیے معتبر عذر مانا ہے۔
ترک جمعہ وجماعت کے عمومی اور اجتماعی اعذار
۱۔ تیز بارش جس میں لوگوں کے لیے مسجد کی حاضری میں دشواری ہو۔
۲۔ آندھی جس کی وجہ سے گھر سے نکلنا ممکن نہ ہو۔
۳۔ سخت سردی یا گرمی جس میں مسجد جانا باعث مشقت ہو۔
۴۔ شدید کیچڑ جو لوگوں کے لیے باعث اذیت ہو۔
۵۔ انتہائی تاریکی جس کی وجہ سے آدمی کے لیے مسجد جانا دشوار ہو یا جان کا خطرہ محسوس ہو۔(دیکھیے: الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ، وزارۃ الاوقاف والشؤن الاسلامیۃ الکویت، ج27،ص 186-191)
اِن عمومی اعذار کے حکم میں، ظاہر ہے کہ ہر وہ حالت شامل سمجھی جائے گی جو لوگوں کو مسجد کی حاضری سے روکنے کا باعث بن جائے، جیسے زلزلہ، آگ لگ جانا، باہر کسی دشمن کا موجود ہونا یا بیماری وغیرہ کی صورت میں کسی وبا کا پھیل جانا ہے۔
مندرجہ بالا تفصیل سے واضح ہے کہ فرض نمازوں کو جماعت کے ساتھ اور مسجد میں ادا کرنا معمول کے حالات میں ایک باعث اجر عمل اور فضیلت کی چیز ہے اور اِس حکم میں عورتیں اصلاً شامل نہیں ہیں۔ نماز کی صحت کے لیے اِس کی حیثیت کسی لازمی شرط کی قطعاً نہیں ہے۔ پھر اسلامی شریعت کے احکام میں، جیساکہ پیچھے تفصیل سے بیان ہوچکا ہے، نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کے لیے کوئی تنگی اور مشقت نہیں رکھی گئی ہے، بلکہ عذر اور زحمت کی بنا پر واجباتِ دین اور شرائط عبادات میں بھی رخصتیں اور رعایتیں دی گئی ہیں۔ چنانچہ عذر کی بنا پر رفع حرج اور آسانی دینے کے قرآنی اصول پر با جماعت نماز کے اِس پسندیدہ عمل میں بھی، ظاہر ہے کہ مردوں کو رخصت حاصل ہوگی، جیسا کہ زحمت اور دشواری کے مواقع پر خود رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ نے اِس سے لوگوں کو رخصت دی تھی اورہمارے فقہا نے بھی اِس کو بہت وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔

(جاری ہے)