جنگل کا قانون

مصنف : نیاز احمد کھوسہ

سلسلہ : سچی کہانی

شمارہ : جون 2020

لوگ، پولیس,وکلا اور عدلیہ کے لوگوں کو کرایہ کا مکان نہیں دیتے اور بینک بھی قرضہ اور کریڈٹ کارڈ نہیں دیتے ظاہر ہے لوگوں اور اداروں کے اعتماد نہ کرنے کی کوئی وجہ ہوگی؟ ایک ایسا ہی واقعہ جب ایک خوبصورت نوجوان لڑکی Asi نے کرایہ پر لیا ہوا فلیٹ ہتھیانے کیلئے اپنے نوکر کا قتل کر دیا۔ انصاف فراہم کرنے والے ادارے کی ایک پڑھی لکھی خوبصورت نوجوان لڑکی Asi کی روداد جس نے ناانصافی۔ ظلم اور زیادتی کی ساری حدیں پار کر لیں اور ہمارے نظام کی وجہ سے اُس کو کچھ بھی نہیں ہوا وہ آج بھی یونیفارم میں ہے۔
میں نے اپنے ماتحتوں کو تحریری ہدایت دی ہوئی تھی کہ قتل،ڈکیتی،چوری اور زنا کے کیسوں کے علاوہ ملزمان کی گرفتاری سے پہلے مجھ سے تحریری اجازت لینا لازمی ہوگی اور کسی عورت اور بچوں کی گرفتاری کی بھی اجازت لینا ہوگی۔ایک دن ایک خوبصورت نوجوان لڑکی جو پولیس میں نئی نئی پبلک سروس کمیشن کے تھرو ASI بھرتی ہوئی تھی اور ساؤتھ ضلع میں تعینات تھی میرے پاس شکایت لے کر آئی کہ تفتیشی آفسر اُس سے تعاون نہیں کر رہا اور میرے کیس میں مُلزمان گرفتار نہیں کر رہا۔
واقعہ یہ تھا کہ لڑکی ASI نے گُلستان جوہر میں ایک فلیٹ کرایہ پر لیا ہوا تھا اور فلیٹ کے مالک کے ساتھ اُس کا جھگڑا ہو گیا تھا، لڑکی نے فلیٹ کے مالک کے خلاف پرچہ کرا دیا تھا، ہمارے مُلک میں مکان یا فلیٹ کرایہ پر دینا ایک جرم ہے اپنی پراپرٹی بھی دو اور ذلالت بھی بھگتو۔ میں ہمیشہ سے کمیشن پاس کرکے نوکری حاصل کرنے والے لوگوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا آیا ہوں کیونکہ یہ بچے اپنی محنت سے کوئی مُقام حاصل کرتے ہیں۔میں نے لڑکی Asi کا کام جلدی کرنے کی وجہ اپنے ریڈر ولایت صاحب کو بُلاکر کہا کہ آپ آج ہی تفتیشی افسر اور دوسری پارٹی کو بھی بلوالیں۔ کچھ گھنٹوں میں سارے لوگ میرے سامنے پیش کیئے گئے، فلیٹ کے مالک نے کہا جب سے فلیٹ کرایہ پر دیا ہے اُس وقت سے لڑکی نے کرایہ نہیں دیا اور اب میرے خلاف پرچہ کرا دیا ہے، میں نے فلیٹ کے مالک سے پوچھا کہ آپ کو معلوم تھا کہ نوجوان لڑکی پولیس میں ہے؟ فلیٹ کے مالک نے بتایا کہ نہیں مجھے پتہ نہیں تھا۔
میں نے جب دونوں پارٹیوں کو تفصیل سے سُنا تو معلوم ہوا کہ کیس جھوٹا ہے، میں نے تفتیشی آفسر کو کہا کہ کیس جھوٹ کی بنا پر خارج کردے اور DIG ساؤتھ کو خط لکھ دیا کہ ASI لڑکی کے خلاف محکماجاتی کارروائی کی جائے۔ ASI لڑکی نے بُہت رونا دھونا کیا مگر میں اُس کی ایک نہ سُنی۔
کچھ ہی دنوں بعد ASI لڑکی نے ایک دوسرا کیس فلیٹ کے مالک کے خلاف کرا دیا اُس کیس میں یہ تھا کہ لڑکی نے ایک ایگریمنٹ بنایا تھا کہ فلیٹ کا کرایہ دو ہزار روپیہ طے ہے اور عدالت سے حُکم نامہ لیکر دو ہزار روپے کرایہ عدالت میں جمع کروا رہی تھی ویسے فلیٹ کا کرایہ بیس ہزار روپیہ تھا۔دوسرے کیس میں لڑکیAsi نے ایگریمنٹ میں مالک مکان کے جعلی دستخط کیئے تھے وہ تفتیشی افسر نے ہینڈ رائیٹ ایکسپرٹ سے تصدیق کرا لی جو جعلی ثابت ہوئے۔ میں نے تفتیشی افسر کو کیس جھوٹا خارج کرنے اور خاتون Asi کے خلاف عدالت میں 182 کی کارروائی کرانے کیلئے کہہ دیا۔میں نے اُسی دن ڈی۔ آئی ۔ جی۔ ساؤتھ کو ایک دوسرا خط محکمہ جاتی کارروائی کیلئے لڑکی Asi کے خلاف لکھ دیا۔کچھ ماہ بعد ایک دن میں جیسے ہی دفتر پہنچا تو مجھے میرے اردلی نے بتایا کہ سر لڑکی ASI جن کے خلاف جھوٹے پرچے کراتی ہے وہ مالک مکان اور اُس کی فیملی آپ سے ملنے کیلئے انتظار کر رہے ہیں۔تھوڑی دیر میں اکبر اردلی نے دروازہ کھولا تو مالک مکان کو ایک طرف سے اُس کی بیوی اور دوسری طرف سے اُس کی جوان سال بیٹی سہارا دے کر اندر لائے، (ویسے وہ خود ہی اکیلا چل کر میرے پاس آتا رہا تھا) میں اُٹھ کر کھڑا ہوگیا اور مالک مکان کی بیوی سے سوال کیا کہ بہن ان کو کیا ہوا ہے؟ اس موقع پر مالک مکان نے روتے ہوئے بتایا کہ اس لڑکی کا نوکر قتل ہو گیا ہے اُس نے ہمارے خلاف پرچہ کرا دیا ہے۔ صبح پولیس ہمارے گھر آئی تھی ہم نے اُن کو آپ کیلئے کہا کہ ہم اُن سے ملکر تھانے آتے ہیں۔
میں نے تھانے فون کرکے پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ رات لڑکی ASI کے کمسن نوکر کا قتل ہوگیا ہے اور لڑکی ASI نے صبح پانچ بجے پولیس کنٹرول کو فون کرکے بتایا کہ مالک مکان، ایک دکان دار اور فلیٹ کے چوکیدار نے فلیٹ میں زبردستی داخل ہوکر اُس کے سامنے نوکر کو قتل کیااور فرار ہو گئے۔ تھانہ انچارج نے بتایا کہ چوکیدار اور دکان دار کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ لاش پوسٹ مارٹم کیلئے سول اسپتال بھیج دی ہے اور مزید بتایا مالک مکان کو پولیس پارٹی گرفتار کرنے گئی تھی۔ مالک مکان نے آپ کا نام لیا تو اس لیئے میں نے پولیس پارٹی کو واپس بُلوالیا ہے سر۔میں نے مالک مکان کو کہا آپ لوگ گھر واپس چلے جائیں میں موقع دیکھ کر آپ کو فون کرکے بُلوالیتا ہوں، آپ لوگ بے فکر ہو جائیں میرے ہوتے ہوئی پولیس آپ لوگوں کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کرے گی۔میں موقع دیکھنے کیلئے فلیٹ پر چلا گیا علاقہ ڈی،ایس،پی۔ ایس ایچ او اور تفتیشی عملہ بھی میرے ساتھ تھا، فلیٹ کا دروازہ باہر سے لاک تھا میں نے ایس ایچ او کو کہا کہ آپ فون کرکے لڑکی ASI کو بلوا لیں تاکہ وہ لاک کھولے اور ہم موقع کو دیکھ سکیں۔ایس۔ایچ۔ او نے فون ملاکر میرے سامنے لڑکی ASI سے بات کی۔ کچھ دیر بات کرنے کے بعد ایس۔ایچ۔ او نے فون مجھے دے دیا۔ دوسری طرف لڑکی ASI نے مجھے سلام کیا اور کہا کہ سر میرے ساتھ ظلم ہوگیا ہے فلیٹ کے مالک نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ملکر میرے کم سن نوکر کو قتل کردیا ہے اور میں اپنے نوکر کی لاش لے کر اُس کے گاؤں جا رہی ہوں واپسی پر فلیٹ کھول کر معائنہ بھی کرواؤں گی اور فلیٹ کے مالک اور دوسرے لوگوں کے خلاف پرچہ بھی کرواؤں گی۔ابتدائی طور پر ہم نے بلڈنگ کے دوسرے مکینوں سے معلومات لیں کسی نے بھی باہر سے مُلزمان کو بلڈنگ میں داخل ہوتے نہیں دیکھا تھا۔
میں نے ایس۔ ایچ۔ او کہا پولیس کنٹرول سے پیغام ملنے کے بعد جو پولیس موبائل پہلے بلڈنگ پر پہنچی تھی اُس کے افسر اور سارے جوانوں کو میرے پاس پیش کرانے کیلئے بندوبست کرے۔ ایس۔ایچ۔ او نے اُسی وقت ہیڈ محرر کو پیغام دے دیا اور مجھے کہا کہ سر موبائل افسر اور جوان رات کی شفٹ والے تھے وہ شام سات اور آٹھ بجے تک آپ کے دفتر پہنچ جائیں گے۔
شام کو موبائل آفسر اور سارے جوان میرے دفتر آگئے اور انھوں نے بتایا کہ پولیس کنٹرول سے اطلاع ملتے ہی جیسے ہی ہم بلڈنگ پر پہنچے تو بلڈنگ کا مین گیٹ اندر سے بند تھا۔ ہم کافی دیر تک مین گیٹ کو کھٹکھٹاتے رہے مگر چوکیدار گھوڑے بیچ کر سو رہا تھا، تب ایک جوان مین گیٹ کے اندر کود گیا، مین گیٹ کو اندر سے تالہ لگا ہوا تھا مین گیٹ کے ساتھ بنے کمرے میں چوکیدار سو رہا تھا۔ پولیس کے جوان نے چوکیدارکو مارپیٹ کی کہ بلڈنگ میں قتل ہوگیا ہے اور وہ آرام سے سو رہا ہے اور دروازہ کھلوا کر موبائل اندر بلڈنگ میں لے آئے۔لڑکی Asi فلیٹ کے دروازے پر پولیس پارٹی کا انتظار کر رہی تھی اور پولیس پارٹی کو اندر فلیٹ میں لے جاکر دکھایا کہ ایک آٹھ دس سالہ بچہ ایک کمرے میں فرش پر مردہ حالت میں پڑا تھا۔ لڑکی Asi نے موبائل پیٹرولنگ آفسر کو بتایا کہ فلیٹ کے مالک نے فلیٹ کے تنازع پر ایک دکان دار اور فلیٹ کے چوکیدار کے ساتھ زبردستی فلیٹ میں داخل ہوئے او ر نوکر کو قتل کرکے فرار ہوگئے ۔ لڑکی نے موبائل افسر کو مالک مکان دکان دار کا نام اور پورا ایڈریس لکھوا دیا۔ پولیس نے چوکیدار کو اُسی وقت گرفتار کر لیا۔جیساکہ لڑکی Asi کو پولیس کے سارے طریقہ کار کا پتہ تھا۔ موبائل افسر نے ایدھی ایمبولینس بُلواکر بچے کی لاش سول اسپتال منتقل کرا دی اور پوسٹ مارٹم کیلئے کاغذی کارروائی کرادی۔میں نے شاہراہ فیصل تھانے کے تفتیشی انچارج کو بُلواکر کہا موبائل افسر اور جوانوں کے بیانات ریکارڈ کرکے ان کو فارغ کردیا جائے اور گرفتار دکان دار اور چوکیدار کو بُلواکر پوچھا جائے کہ آپ لوگوں کا بچے کے قتل سے کیا واسطہ ہے؟ دکاندار نے بتایا کہ لڑکی Asi اُس سے ایزی لوڈ کروایا کرتی تھی جب قرضہ بارہ ہزار تک پہنچ گیا تو اُس نے ایزی لوڈ دینا بند کر دیا اور لڑکی سے ادھار کا تقاضا کرنے لگا۔ چوکیدار بیچارے کو پتہ نہیں تھا کہ لڑکی Asi اُس کا نام کیوں لے رہی ہے، میں نے دونوں کو اُسی وقت آزاد کرا دیا اور تاکید کی بغیر اطلاع کے شھر سے باہر نہ جائیں۔
مجھے لگ رہا تھا کہ فلیٹ کو ہتھیانے کیلئے یہ ساری کارستانی لڑکی Asi کی ہے، میرے ذہن میں کافی سوالات تھے۔
-95 ساری دشمنی لڑکی Asi اور فلیٹ کے مالک کے درمیان ہے اور یہ حیرت انگیز ہے کہ لڑکی کی موجودگی میں فلیٹ مالک لڑکی کو قتل نہیں کرتا اور بچے کو قتل دیتے ہیں۔
* جیساکہ لڑکی پولیس سے تربیت یافتہ تھی اُس نے مُلزمان سے کوئی مزاحمت نہیں کی؟
* مُلزمان لڑکی Asi کو زندہ چھوڑ کر چلے گئے تاکہ وہ چشم دیدہ گواہ بن جائے۔
* چوکیدار کا کیا کام وہ قتل جیسے جرم میں فلیٹ مالک کا ساتھ دے اور قتل کے بعد اپنے کمرے میں سکون کی نیند سوتا رہے۔
* دکان دار کا کیا واسطہ کہ وہ ایسے بھیانک جُرم میں فلیٹ مالک کا ساتھ دے اور گھر پر آرام کی نیند سوئے اور پولیس آکر اُس کو پکڑ لے۔
* لڑکی Asi فلیٹ مالک کیخلاف دو جھوٹے مقدمات پہلے کر چکی تھی یہ قتل کا مُقدمہ اس کی کڑی ہو سکتی تھا۔
ہم لڑکی Asi کی واپسی کا انتظار کرتے رہے ہمیں یہ پتہ نہیں تھا کہ مقتول بچہ کس گاؤں کا رہنے والا ہے، میرا خیال تھا کہ بچے کے وارثان کی مدعیت میں قتل کا مقدمہ درج کیا جائے اور اصل حقائق جاننے کیلئے لڑکی Asi کو گرفتار کرکے تفتیش کی جائے۔اسی دوران بچے کی پوسٹمارٹم رپورٹ آگئی بچے کی موت رات گیارہ بجے سے ایک بجے کے درمیان دم گھٹنے کی وجہ سے ہوئی تھی۔ اور دوسری اہم بات یہ تھی کہ بچے کو ہفتہ سے دس دن تک بھوکا اور پیاسا رکھا گیا تھا۔جب بچہ رات ایک بجے قتل ہوا تو لڑکی Asi نے صبح پانچ بجے کیوں پولیس کو اطلاع کی؟لڑکی Asi ایک ہفتے بعد واپس کراچی آئی اور تھانہ شاہراہ فیصل کے SHO کو کہا کہ بچے کے قتل کا پرچہ کیا جائے۔ SHO نے مجھے فون کرکے بتایا کہ لڑکی Asi پرچہ کرانے آئی ہے میں نے اُسے کہا کہ لڑکی Asi کو میرے پاس لے آئے۔لڑکی Asi نے آتے ہی رونا دھوناشروع کیا۔ میں نے اُس سے بچے کے متعلق سوالات کیئے اور اُس سے بچے کے والدین کا ایڈریس لیا لڑکی نے جان بوجھ کر بچے کے والدین کا فون نمبر نہیں دیا میں نے اُس سے مُختلف سوالات کیئے مگر اُس نے کسی بھی سوال کا تسلی بخش جواب نہیں دیا۔ میری مجبوری یہ تھی کہ بغیر FIR کے میں لڑکی Asi کو گرفتار نہیں کر سکتا تھا، میں SHO کی مدعیت میں پرچہ کرا سکتا تھا مگر اُس میں اتنا وزن نہیں ہوتا میں چاہتا تھا کہ بچے کے وارثان کی مدعیت پرچہ کیا جائے۔
خاتون Asi کو میں نے صاف جواب دے دیا کہ اُس کی مدعیت میں FIR اس لیے نہیں ہو سکتی کہ بچے کے والدین زندہ ہیں۔ لڑکی Asi مجھ پر بہت برہم ہوئی کہ میں IG سندھ کے پاس جاتی ہوں آپ FIR کیسے نہیں کرتے، میں نے اُس کو کہا کہ جس کے پاس جانے کا دل کرتا ہے چلی جائے اور اسے وہاں سے جانے دیا۔
بچے کا جو ایڈریس لڑکی Asi نے دیا تھا ہمارا ایک سب انسپکٹر عُرس راجڑ بھی اُسی علاقے تھرپارکر کا رہنے والا تھا میں نے اُسی وقت اُس کو بُلاکر بچے کے گاؤں روانہ کردیا اور اُس کو ہدایت کی کہ بچے کے وارثان کو ساتھ لیکر آئے تاکہ اُن کی مدعیت میں FIR کی جائے۔
دوسرے دن عرس راجڑ کا فون آیا کہ سر میں نے بچے کے والدین سے مُلاقات کرلی ہے۔ یہ بُہت غریب لوگ ہیں ان کے پاس کراچی آنے کا کرایہ بھی نہیں ہے اور نہ انھوں نے پہلے کبھی کراچی دیکھا ہے، میں نے سب انسپکٹر سے کہا کہ آپ میری بچے کے والد سے بات کروادو، بچے کا والد فون پر رونے لگا اور بتایا کہ تین مہینے پہلے لڑکی Asi ہم سے بچہ لے گئی تھی نوکر رکھنے کیلئے، بچے کی پہلی تنخوا ہ بھی نہیں آئی اور اُس کی لاش آگئی۔ میں نے عُرس راجڑ کو کہا کہ ان کو ساتھ لے آئے یا کراچی آنے کا کرایہ اور اپنا اور میرا فون نمبر اور دفتر کا ایڈریس لکھ کر دے آئے۔دوسرے دن مجھے عُرس راجڑ کا فون آیا اور اُس نے بتایا کہ بچے کے والدین اور کچھ رشتے دار کراچی آگئے ہیں، میں نے اس کو کہا کہ اُن کو میرے دفتر لے آئے۔وہ بیچارے بہت سادہ اور غریب لوگ تھے اور اُن کو ہم نے لڑکی Asi کے فلیٹ کے جھگڑے اور اپنے شکوک و شبہات کے متعلق بتایا، بچے کے والدین نے کہا آپ ہمیں ایک دن کا موقعہ دیں تاکہ ہم لڑکی Asi سے بات کر لیں۔ میں نے عُرس راجڑ کو کہا ان کو ہوٹل میں کمرہ لے کر دے اور کھانے وغیرہ کے پیسے بھی دے دے۔دوسرے دن عُرس راجڑ بچے کے والدین کو دوبارہ لے کر آیا اور بچے کے والد نے بتایا کہ لڑکی Asi نے مان لیا ہے کہ اُس سے غلطی ہوگئی اور وہ قتل کا ہرجانا دینے کو تیار ہے۔ میں نے بچے کے والد سے کہا کہ بھائی بچہ آپ کا تھا اگر آپ لڑکی Asi سے قتل کا ہرجانہ لینا چاہتے ہو تو آپ کی مرضی ہے مگر ہم کسی بھی صورت میں لڑکی Asi کو معاف نہیں کرسکتے اور SHO کی مدعیت میں پرچہ کرکے لڑکی Asi کو گرفتار کرلیں گے آپ بھلے عدالت میں اُس کو معاف کردیں۔بچے کا والد اپنے رشتے داروں سے مشورہ کرنے کے بعد لڑکی Asi پر پرچہ کرانے کو تیار ہوگیا، ہم نے اُسی وقت FIR درج کرکے لڑکی Asi 
کو گرفتار کرالیا۔ نوجوان لڑکی Asi نے بچے کے قتل کا اعتراف کرلیا اُس نے بتایا کہ فلیٹ کے مالک کو سبق سکھانے اور فلیٹ ہتھیانے کیلئے وہ ایک پلاننگ کے تحت ایک دور دراز اور غریب گھرانے سے بچہ لے آئی اور اُس کو دس دن تک ایک کمرے میں لاک کر دیا اور کھانے پینے کیلئے کچھ بھی نہیں دیا اور واقعہ والی رات تکیہ بچے کے منہ پر رکھ کر قتل دیا۔لڑکی جیل چلی گئی، میں نے ایک تیسری رپورٹ ڈی۔ آئی۔ جی ساؤتھ کو لکھ دی۔ میں اس سارے مسئلے کی جڑ کو ختم کرنا چاہتا تھا اور بچے کا قتل فلیٹ کی وجہ سے ہوا تھا گو کہ یہ ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں تھا مگر میں نے پولیس کی مدد سے فلیٹ کا قبضہ فلیٹ کے مالک کو دلوا دیا اور اُس کو تاکید کی کہ وہ فلیٹ میں اپنی فیملی کے ساتھ خود رہے اور فلیٹ کرایہ پر دیتے وقت احتیاط کرے۔
دو مہینے بعد مجھے تفتیشی آفسر نے بتایا کہ لڑکی Asi حقوق نسواں ایکٹ کی وجہ سے ضمانت پر آزاد ہو گئی ہے اور دوبارہ سے ضلع ساؤتھ میں نوکری کر رہی ہے۔
آپ خود فیصلہ کریں کہ کیا یہاں جنگل کا قانون نہیں ہے؟ یہ تو فلیٹ کا مالک میرے پاس آگیا۔ اور میری عادت تھی کہ میں اپنے ماتحتوں پر اعتبار نہیں کرتا تھا اور دونوں پارٹیوں کو خود سنتا تھا۔اگر مالک مکان بیچارا میرے پاس نہ آتا تو آج تک تینوں (مالک مکان۔دکان دار اور چوکیدار) جیل میں سڑ رہے ہوتے اور عدلیہ اور وکلا کے چکر میں پس گئے ہوتے اور نوجوان لڑکی Asi فلیٹ ہتھیاکے عیش کر رہی ہوتی۔٭٭٭