علمائے کرام اور سماجی تبدیلی

مصنف : پروفیسر محمد مشتاق

سلسلہ : دین و دانش

شمارہ : اپریل 2020

وہ پوچھ رہے ہیں کہ علمائے کرام کیوں سماجی تبدیلی کو بہت مشکل سے قبول کرتے ہیں اور پھر آخر میں مان ہی جاتے ہیں تو شروع میں کیوں نہیں مانتے؟ وہ اس ضمن میں لاؤڈ سپیکر، تصویر اور اسی نوعیت کی دوسری مثالیں پیش کرتے ہیں۔ جنھوں نے سوال کیا ہے، انھوں نے تو نہیں ماننا لیکن عام لوگوں کو چونکہ اس پروپیگنڈے سے غلط فہمی کا امکان ہے، اس لیے ان کی آسانی کی خاطر چند نکات پیشِ خدمت ہیں:
1۔ سب سے پہلی بات جو سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ علمائے کرام کو اللہ تعالیٰ نے بہت بھاری ذمہ داری دی ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کی شریعت کو اس کی اصل صورت میں محفوظ رکھ کر اگلی نسل تک پہنچائیں۔ اس لیے وہ ایک دوسرے کی گرفت بھی کرتے رہتے ہیں، اپنے اساتذہ سے بھی اختلاف کرتے ہیں جہاں ضرورت پڑے، اور شریعت کے نام پر پیش کی جانے والی کسی بھی نئی رائے کو تنقیدی نظر سے دیکھتے ہیں۔ کسی بھی نئی رائے کے لیے ان کا پہلا مفروضہ انکار کا ہی ہوتا ہے اور یہ ہر قانونی نظام میں ان افراد، یا اداروں، کا ہوتا ہے جن کا کام قانون اور نظام کی حفاظت ہوتی ہے۔ ذرا معلوم کیجیے کہ امریکی سپریم کورٹ کے سامنے جب یہ سوال آیا، جی ہاں سپریم کورٹ کے سامنے، کہ کیا نوٹ سے قرض کی ادائیگی ہوجاتی ہے تو اس نے کیا فیصلہ دیا؟ اس کا پہلا فیصلہ یہی تھا کہ امریکی دستور میں قرض کی ادائیگی کی جو ذمہ داری عائد کی گئی ہے وہ سونے کی صورت میں ادائیگی سے تو پوری ہوجاتی ہے لیکن نوٹ سے وہ ادائیگی نہیں ہوتی۔ پھر یہ بھی معلوم کیجیے کہ اس فیصلے کی تبدیلی کے لیے بینکاروں نے کس بڑے پیمانے پر تحریک چلائی (میں سازش کا لفظ استعمال نہیں کروں گا) اور امریکی صدر کو کتنے پاپڑ بیلنے پڑے (یہاں تک کہ سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد میں بھی اس نے تبدیل کرلی)، تب کہیں جاکر امریکی سپریم کورٹ نے مان لیا کہ نوٹ سے بھی ادائیگی ہوجاتی ہے۔ یہاں لوگ کہتے ہیں کہ علمائے کرام پہلے یہ فتویٰ دیتے تھے کہ روپوں سے زکاۃ ادا نہیں ہوتی اور بعد میں انھوں نے مان لیا! بھئی، بعد میں اس لیے مانا کہ ریاست نے جبر کے ذریعے سونے کے سکے ختم کردیے اور جبر ہی کے ذریعے روپے نافذ کردیے۔ جب حالت تبدیل ہوگئی تو حکم بھی تبدیل ہوگیا۔
2۔ علمائے کرام جانتے ہیں کہ مجبوری کی حالت میں، یا حالات تبدیل ہونے کے نتیجے میں، حکم تبدیل ہوسکتا ہے لیکن اس کے لیے پہلے یہ تو ثابت کرنا پڑے گا نا کہ واقعی مجبوری کی وہ صورت پیدا ہوگئی ہے، یا حالات میں تبدیلی کی وہ قسم وجود میں آگئی ہے، جس کے بعد حکم تبدیل ہوجاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہاں بھی پہلا مفروضہ انکار کا ہی ہوتا ہے۔ پھر علمائے کرام اس کے علاوہ یہ بھی جانتے ہیں کہ مجبوری میں ہر حکم معطل نہیں ہوسکتا بلکہ بعض احکام مجبوری میں بھی برقرار رہتے ہیں۔ کیا آپ نے کبھی اپنی عدالتوں سے اس قسم کا اعلان نہیں سنا کہ عدل کے تقاضے پورے کیے جائیں گے، خواہ آسمان گرے! (Let justice be done though the heavens fall)
3۔ علمائے کرام اپنی اصل ذمہ داری کے شعور اور اضطرار میں حکم کی تبدیلی کا فہم رکھنے کے باوجود یہ بھی جانتے ہیں کہ جب کوئی ناپسندیدہ کام بہت زیادہ پھیل جائے اور اس کی ممانعت میں اس سے بڑے شر کے وجود کا قوی اندیشہ ہو، تو زیادہ بڑے شر سے بچنے کے لیے اس چھوٹے شر کو برداشت کیا جاسکتا ہے کیونکہ جب ضرر پھیل جائے تو ہلکا ہوجاتا ہے۔ عمومِ بلویٰ کا تصور یہی ہے۔
4۔ یہ تین باتیں واضح ہوں تو لاؤڈ سپیکر، تصویر وغیرہ کسی مسئلے میں علمائے کرام کے رویے کا فہم مشکل نہیں رہتا۔ لاؤڈ سپیکر کو ہی لے لیجیے۔ جب تک یہ واضح نہیں ہوا تھا کہ لاؤڈ سپیکر سے نکلنے والی آواز مشین کی آواز نہیں بلکہ امام ہی کی آواز ہے جسے یہ مشین بلند کرکے دور تک پہنچا رہی ہے، تب تک کیسے لاؤڈ سپیکر پر امام کی امامت کو جائز مانا جاسکتا تھا؟ پھر جب یہ بات واضح ہوگئی تو کسی کو اعتراض بھی نہیں رہا۔ اسی طرح علمائے کرام کے نزدیک تصویر کے لیے اصل حکم حرمت کا ہے اور اسی کے وہ آج بھی قائل ہیں۔ البتہ جب شناخت کے لیے مجبوری کی بات کی گئی تو مجبوری کی حد تک اسے برداشت کیا گیا۔ اس کے بعد جب ڈیجیٹل تصویر کا مسئلہ آیا تو کچھ تو اس کے جواز کے قائل اس بنا پر ہوئے کہ ان کے نزدیک اس پر حرمت کا حکم لاگو ہی نہیں ہوتا لیکن اس کے باوجود وہ آج تک اس سے
 گریز کرتے آئے ہیں اور اسے ناپسند کرتے ہیں۔ فیس بک پر فتنہ تصویر میں مبتلا دوسرے اور تیسرے درجے کے علما نے اسے عمومِ بلوی کے اصول کے تحت برداشت کیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض مولوی ایسے بھی ہیں جو اس فتنے میں کچھ زیادہ ہی مبتلا ہوگئے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ ان کا عمل کوئی سند نہیں رکھتا۔
5۔ آخری بات یہ ہے کہ اگر علمائے کرام بھی شاعروں اور ادیبوں کی طرح انفعالی مزاج رکھتے ہوتے تو موسم کی تبدیلی کے ساتھ ہی شریعت کا حکم تبدیل ہوتا رہتا، اور پھر پاکستان میں کیا حشر ہوتا جہاں بقول وزیر اعظم کے، موسم بھی بارہ ہیں! (جنرل ضیاء کے دور میں بعض امور پر کسی کی کیا رائے تھی اور پھر ان تمام امور میں جنرل مشرف کے دور میں وہ رائے کیوں تبدیل ہوئی، اس پر کسی اور وقت گفتگو کریں گے، ان شاء اللہ۔) علمائے کرام کا کام سیلابی ریلے کی رو میں بہنا نہیں بلکہ اس ریلے کا رخ موڑنا ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ انھوں نے ہر موڑ پر یہ کام احسن طریقے سے سرانجام دیا ہے۔ آج بھی اس وطن میں دین جس شکل میں بھی، جتنا بھی، باقی ہے، انھی درویش صفت علمائے کرام کے دم سے ہے جنھوں نے ہر طعنہ سہہ کر، ہر خوف پر حاوی ہو کر اور ہر لالچ کو ٹھکرا کر ہمیشہ وہی کہا ہے، اور ڈنکے کی چوٹ پر کہا ہے، جسے انھوں نے شریعت کا حکم سمجھا ہے۔
٭٭