کیا زبان تفوق اور برتری کا ذریعہ ہے

مصنف : محمد حسنین اشرف

سلسلہ : لسانیات

شمارہ : فروری 2020

    مجھے اس بات کے مان لینے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ پنجابی زبان کے ساتھ اس قدر کم تر سلوک کا قصور وار صرف اور صرف پنجابی خود ہے۔ زبان اور تہذیب ترسیل کی متقاضی ہوتی ہے، توجہ چاہتی ہیں، محبت چاہتی ہیں۔ زبان، مذہب اور ثقافت کسی طور نفاذ کی تحریکوں سے نافذ نہیں ہوا کرتے یہ بہت ذاتی چیزیں ہیں تاوقتیکہ انسان کے خمیر میں نہ گندھ جائیں، کسی طور ان کو منوایا نہیں جاسکتا۔
میرے لیے میری اپنی مثال بہت واضح ہے ، پنجابی بولنے والے خاندان نے ہمیں اردو بولنا سکھایا ہے۔ پنجابی بولتے بچے دیکھ کر ماتھے پر تیوریاں چڑھانے والے، پنجابی کی بے عزتی پر شرمندہ ہیں۔ ہم پنجابی اپنی شناخت اور زبان پر خود اس قدر شرمندہ ہیں کہ اپنے بچے کو پنجابی بولتے دیکھنا اور خود پر پنجابی ہونے کا ٹھپہ لگتے دیکھنا برداشت نہیں ہوتا۔ میں اپنے قریبی ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جنہوں نے اپنی شناخت کے خانے میں گاؤں کے تعلق کو نکالنے کی شعوری کوشش کی ہے۔ میں نے ماں باپ کو کسی کے سامنے بچے کو پنجابی بولتے دیکھ کر زمین پر گڑے جاتے دیکھا ہے۔
اب ایک دوسری قسم کے احساس کمتری میں نسل نو مبتلا ہو رہی ہے جس کا نتیجہ ایک پریشان حال قوم کی صورت میں ابھرے گا۔ نسل نو اب انگریزی کو وہ درجہ دے رہی ہے جو کم تعلیم یافتہ خاندانوں نے اردو کو دیا تھا۔ کم تعلیم یافتہ اصل میں ورلڈ ویو کی تنگ نظری کا بیان ہے، مقصود ہرگز کسی قسم کی تضحیک نہیں ہے۔ انگریزی بری زبان نہیں ہے، ہرگز نہیں، انگریزی سیکھنا برا نہیں ہے، بولنا بھی برا نہیں ہے،ہاں البتہ وقت بے وقت انگریزی کا بولنا برا ہے۔برا ہے انگریزی کو اردو ماحول میں ایک برتری کی نشانی بنا دینا۔ برا اس لیے نہیں کہ مجھے یہ ڈر ہے کہ انگریز قوم ثقافت یا زبان چرا لے گی۔ برا اس لیے ہے کہ نتیجتاً جو نسل پیدا ہوگی وہ کسی ایک زبان پر بھی عبور نہ رکھتی ہو چہ جائیکہ انگریزی۔
چند ایک بار جب پنجابی بولنے پر ناخوشگوار واقعات کا سامنا کرنا پڑا تو میں نے یہ شعوری فیصلہ کیا کہ اردو اور پنجابی کو اپنی ذات کے لیے کسی قسم کے ذہنی خلل کا باعث نہیں بننے دوں گا۔ ایک بار کسی مجلس میں میزبان نے صرف اس بات پر کہ اچھا لباس پہن کر پنجابی میں گفتگو کر رہا ہوں، کچھ مذاق کا نشانہ بنایا تو مجھے احساس ہوا کہ ہم کس جگہ جا پہنچے ہیں۔ اب حالت یہ ہے کہ جب تک سامع اردو پنجابی میں کچھ بھی سمجھ سکتا ہو میں انگریزی نہیں بولتا۔ سامنے والا شخص لاکھ انگریزی بولے میری کوشش ہوتی ہے کہ جواب کے لیے اردو یا پنجابی کا ہی انتخاب کیا جائے۔
خیر یہ تو برسبیل تذکرہ یونہی بیان کردیا، زبان کی خوبصورتی اس کا لہجہ اور محاورہ ہوتا ہے۔ محض درست ہجے اور فاعل و مفعول کا درست استعمال زبان نہیں ہوا کرتی۔ ہماری اکثریت انگریزی کے اس پہلو سے نابلد ہے۔ بس ایک مشینی انداز میں الفاظ کے جملے بنانا تو زبان نہیں ہوا کرتا۔ آپ کو فارسی بولنا ہے تو یوں بولیے جیسے ایرانی بولتے ہیں، عربی عرب کی سی بولیں، انگریزی بھی محض کھینچ کھینچ جملے نہ بناتے چلے جائیں۔ اس کا رس پئیں اس کی چاشنی محسوس کریں۔ آج ہی مرزا نوشہ کا خط پڑھ رہا تھا شاعری کی بابت فرماتے ہیں کہ ''بھائی، شاعری معنی آفرینی ہے، قافیہ پیمائی نہیں ہے''۔
نئی زبان سیکھنا بہت احسن عمل ہے، زبان ایک جہانِ معنی کو وجود دیتی ہے۔ آپ کے لیے سیکھنے کے نئے راستے کھولتی ہے، نئی زبان بلکہ نئی زبانیں سیکھنا خود پر لازم کیجیے زبان یوں سیکھیں جیسے ترک اسد اللہ، ریختہ سیکھ کر مرزا غالب ہوجاتا ہے۔ انگریزی بھی سیکھیے، انگریزی بھی بولیے لیکن برمحل، ہر وقت ٹوٹے پھوٹے جملے جوڑنا انگریزی سیکھنے یا کسی بھی زبان کو سیکھنے یا اس میں روانی حاصل کرنے کا نہایت بچگانہ طریقہ ہے۔ خلوت میں انگریزی بولنے پر مہارت حاصل کیجیے نہ کہ اپنی اردو و پنجابی یا کسی بھی مادری زبان کا ذائقہ خراب کریں۔
زبان ایک جہان معنی کو وجود دیتی ہے ایک نیا جہان معنی، لہجہ و محاورہ اظہار کے دسیوں نئے طریقے سکھلاتا ہے۔ اظہار کی جمالیات اور اظہار کے نئے راستے، نئی زبان جس قدر خوبی سے سکھایا کرتی ہے، وہ ایک زبان پر قناعت کرکے نہیں جانا جاسکتا یقین جانیں، اظہار کے کئی اسالیب ایسے ہیں جن کی گرد کو انگریزی چھو نہیں سکتی اور ایسے ہی اسالیب اور وسعت انگریزی بھی رکھتی ہے۔ ایک بار 'کوچ سرخ' پر حسیبہ کا انٹرویو دیکھ رہا تھا میزبان نے کوئی جملہ بولا جس میں لفظ لو لیٹر کا لفظ استعمال کیا، حسیبہ کو لو لیٹر کے معنی معلوم نہیں تھے تو اس نے
 فوری پوچھا لو لیٹر چی؟ کہ لو لیٹر کا کیا مطلب تو میزبان نے فوری ترجمہ کیا ''نامہ عاشقانہ''۔ اب آپ دیکھیں کہ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں کونسا زیادہ پرلطف ہے۔ پوئٹ علی نے بھی ایک بار ایسی ہی مثال دی تھی جس میں وہ 'خاک زیر پا' کا تذکرہ کرتا ہے کہ انگریزی تہذیب کسر نفسی کی اس سطح سے واقف ہی نہیں ہے۔ اور انگریزی کے بہت سے اسالیب سے ہم نابلد ہیں۔ یوسفی صاحب کے ممدوح پروفیسر نے بھی ترجمے کی اسی تحدید کا تذکرہ کیا تھا کہ 'کاو کاو سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ' کا بھلا کس زبان میں اور کیا ترجمہ ہوسکتا ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ زبان کو ترسیل کا آلہ ہی بننا چاہیے تفوق اور برتری کا سرٹیفیکیٹ نہیں۔ رہے نام اللہ کا!٭٭٭