میں کیسے مسلمان ہوا؟

مصنف : اتر پال سنگھ

سلسلہ : من الظلمٰت الی النور

شمارہ : مارچ 2014

من الظلمت الی النور
 میں کیسے مسلمان ہوا؟
 محمد نعیم(اتر پال سنگھ چوہان)

 

 

 سوال  :  نعیم بھائی، اپنا خاندانی تعارف کرائیے؟
 جواب : میں اب سے ۰۵/ سال پہلے بہرائچ کے ایک راجپوت خاندان میں پیدا ہوا۔میرے والد سرکاری اسکول میں ہیڈ ماسٹر تھے،اسکول میں میں نے انٹر پاس کرنے کے بعد انجینئرنگ میں داخلہ لیا۔دہلی میں جامعہ سے سوِل میں بی ای کیا،اس کے بعدڈی ڈی اے میں میری ملازمت لگ گئی۔ مزاج گرم تھا، خاندانی مزاج زمین داری کا تھا۔رشوت لینا دینا ہمارے پتا جی(والد)نے سب سے بڑا پاپ پڑھایا تھا۔ افسروں اور نیتاؤں سے جھگڑے بنے اس لئے معطل ہونا پڑا اور پھر ایک روز جھنجھلا کرریزائن کر دیا۔بعد میں ایک کنسٹرکشن کمپنی ایک صاحب کی پارٹنرشپ میں بنائی۔ پرائیویٹ ٹھیکے لے کر کام کئے،کام اچھا چلا، کام بڑھاتوڈی ایل ایف کے کام لینے لگے۔کئی بڑی کمپنیوں کے کام کئے۔کام ذرااور بڑھا تو ہم نے دہلی میں ایک شاپنگ مال کا ٹھیکہ لیا،اس میں اچھے نفع کی امید تھی،لیکن ساتھی کی نیت میں فرق آگیا مالکوں نے بھی دھوکہ دیا اور اچانک پوری کمپنی خسارہ میں آگئی۔لوہے اور سیمنٹ کے بھاؤ بڑھنے نے اور جلتی پر آگ کا کام کیا۔دہلی کے نوپلاٹ،سات فلیٹ بیچ کر نقصان پورا نہ ہوا، پھر مقدمہ عدالت میں شروع ہوا،گاڑی بھی بیچنی پڑی، ۰۰۰۵۲ روپئے کی ایک کھٹارہ ماروتی خریدی۔قرضداروں نے جینا دوبھر کردیا،بس اچانک میرے مالک کو مجھ پر ترس آیااور زندگی کے آخری اندھیرے سے ایمان کا نور پھوٹا اور اس کالے کلوٹے بندے کی زندگی میرے مالک نے روشن کردی۔
  سوال : اپنے اسلام قبو ل کرنے کاحال بتائیے؟
 جواب : ۳۱/ اکتوبر کی تاریخ میری زندگی کی تاریک ترین تاریخ تھی،مجھے پولیس والے قرض والوں کے دباؤ میں اٹھاکر لے گئے اور میرے ساتھ میرے قرض والے نے ایسی بدتمیزی کی کہ میں بیان نہیں کر سکتا۔میں نے اپنے پندرہ سالہ بیٹے کے ساتھ بیوی اور دونوں بچیوں کو، عزت بچانے کے لئے گھر بھیج دیا۔۴۱/ اکتوبر کی صبح میں کچھ مقدموں کے لئے جامعہ نگر میں غفار منزل ایک وکیل سے مشورہ کیلئے صبح صبح پہنچا،ساڑھے نوبجے مشورہ کے بعد واپس ہو رہا تھا غفار منزل کے باہرجامعہ کی باؤنڈری کے پاس میں اکیلا گاڑی سے جا رہا تھاتو آپ کے والد پیدل سڑک کی طرف جارہے تھے۔میں نے ان کو دیکھا تو لگا کہ وہ کوئی دھارمک آدمی ہیں،مجھے خیال ہواکہ پیدل جارہے ہیں کیوں نہ میں ان کو گاڑی میں بٹھا لوں،شاید یہ مجھے کوئی اپائے (علاج) بتادیں۔ میں نے گاڑی روکی،میں نے کہا آئیے،سڑک تک باہرمیں آپ کو چھوڑدوں! حضرت نے کہا:نہیں بہت بہت شکریہ،اصل میں، میں آج صبح مارننگ واک نہیں کرسکا تھا اس لئے پیدل جا رہا ہوں۔ میں نے کہا: ہمیں کچھ سیواکا موقع مل جائے گا آئیے پلیز بیٹھ جائیے،وہ میرے ساتھ برابرکی سیٹ پر بیٹھ گئے۔ میں نے ان سے معلوم کیا:آپ کہاں جارہے ہیں؟ انھوں نے کہا مجھے بٹلہ ہاؤس خلیل اللہ مسجدکے پاس جانا ہے۔جامعہ کے باہر مین روڈ پر پہنچ کر انھوں نے اترنا چاہامیرا دل چاہا کہ میں کچھ اوروقت ان کے ساتھ گزاردوں۔میں نے کہاپانچ منٹ کی بات ہے میں آپ کو بٹلہ ہاؤس پہنچادوں گا،وہ منع کرتے رہے مگر میں نے گاڑی نہ روکی،انھوں نے میرا نام معلوم کیا: میں نے بتایا اتر پال سنگھ چوہان میرانام ہے،میرانام معلوم ہونے پر انھوں نے میرا بہت شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ آپ نے میرے ساتھ محض انسانی ہمدردی میں احسان کیا ہے، مجھے بہت اچھا لگا،دل میں آتا ہے اس جیون اور اس کے بعد آنے والے جیون میں کام آنے والا ایک تحفہ آپ کو دوں۔وہ مالک سنسار کو چلانے والا اور بنانے والا ہے اس کے اچھے اچھے نام ہیں ان ناموں میں سے دو نام ہیں یا ہادی اور یا رحیم،ہادی کے معنی ہیں منزل تک پہنچانے والا،رحیم کے معنی ہیں سب سے زیادہ دَیااور رحم کرنے والا۔صبح اٹھ کر اشنان کرنے یا منھ دھونے کلی کرنے کے بعد یہ خیال کرکے کہ میں اپنے مالک کو یاد کر رہاہوں سوبار  یا ہادی سوبار  یا رحیمپڑھ لیا کریں اورپھر کاروبار کی فیملی کی یا کسی طرح کی کوئی مشکل ہو اپنی مالک سے سیدھے کہیں (دعا کریں) انشاء اللہ فوراً مشکل حل ہوگی۔یہ مالک کی ہاٹ میل لائن،فون لائن میں نے آپ کو بتادی،میں نے کہا میاں صاحب میں آج کل بہت پریشان ہوں شاید آپ میری مشکل سنیں تو آپ رو پڑیں، یہ کہہ کرمیرے آنسو نکل گئے،حضرت نے کہا بس مجھ سے کہہ کر اور سنا کر کیا کریں گے ہم سب مشکلوں میں گھرے ہیں،جو خود مشکل میں پھنسا ہو اس کو سنانے سے کیا فائدہ؟بس آپ یہ پڑھ کر اپنے اس اکیلے مالک کو سنائیں،جس کو سناکر نہ کبھی ذلت ہوگی نہ شرمندگی اور جس کے بس میں سب کچھ ہے،بس اس جاپ کا ایک پرہیز ہے اس اکیلے کے علاوہ کسی اورکی پوجا، کسی اور کے آگے سر نہ جھکائیں،ہاتھ نہ جوڑیں،نہ کسی پیر کے، نہ دیوی کے نہ دیوتا کے،اچھا ہے کہ گھر میں اگر مورتیاں ہوں تو ان کو گھر سے باہر پہنچادیں۔میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور رخصت کے لئے ہاتھ جوڑے،وہ بولے:بس یہی تو بدپرہیزی ہے اور پرہیزعلاج کے لئے دوا اورغذا سے زیادہ ضروری ہے،میں نے سوری کہہ کر معذرت کی۔
 اگلے روز صبح کو میں نے اشنان(غسل)کیا اور آنکھیں بند کرکے سوبار یاہادی اور سوبار یا رحیم پڑھا،مولانا احمد صاحب! میں بیان نہیں کرسکتا مجھے کیسا محسوس ہوا،مجھے ایسالگا جیسے میرامالک میرے سامنے ہے،میں نے پوری دکھ بھری داستان اس کو سنائی اور دعا کی،مالک آپ کوکیاسنانا،آپ تو مجھ سے زیادہ جانتے ہیں اور آدھاگھنٹہ میں روتا رہا،مگر آدھا گھنٹے کے بعد اگرچہ میرے سارے حالات جوں کے توں تھے مگر میرے دل اوردماغ سے جیسے بوجھ اتر گیا اور ایسالگا جیسے میں نے اپنا مقدمہ کسی دوسرے کے سپرد کر دیا ہو۔قرض والے اس دن بھی آئے مگر انھوں نے میرے ساتھ شرافت سے بات کی،میرا دل چاہا کہ شام کو بھی میں یہ پڑھوں مگر مجھے حضرت نے صرف ایک بار ہی بتایا تھا خیال ہوا مالک کا نام ہے چاہے جتنی بار لے،لیکن خیال ہوا کہ حکیم کے بتائے طریقہ پردوا استعمال کرنی چاہئے،حضرت صاحب کا نہ میں نے نام معلوم کیا نہ پتہ نہ فون نمبر،میں جامعہ نگر کی طرف گاڑی لے کر چلا،شام کو تین بجے سے رات تک اوکھلا اور اس کے آس پاس چکر لگاتا رہا،مگر حضرت صاحب نہ ملے۔ دن چھپنے کے بعد واپس آیااور صبح کا انتظار کرتارہا، صبح کو سویرے نہاکر پھر یا ہادی یا رحیم پڑھا،بہت ہی اچھا لگا ایک ہفتہ تک روزانہ پڑھتا رہا،بے اختیار دن میں بھی یا ہادی یا رحیم زبان پر جاری ہو جا تا، تین دن کے بعد گھر سے ساری مورتیاں اٹھا کر مندرمیں رکھ آیا۔۱۲/ اکتوبر کو شاپنگ مال کے مالک سے ایک مقدمے کا فیصلہ تھا مقدمہ ہائی کورٹ میں تھا،فیصلہ ہمارے حق میں ہوگیا اور عدالت نے پچاسی لاکھ روپئے ایک مہینے کے اندر ادا کرنے کا حکم سنایا، میری خوشی کی کوئی حد نہ تھی۔اس کے بعدمیں ۲۲/ اکتوبر کو گرین پارک میں ایک پارٹی سے میٹنگ کے لئے پہنچا لوگ مسجد میں جا رہے تھے،میں نے سوچا کہ مسجد کے مولانا صاحب سے کچھ اورپڑھنے کومعلوم کروں یا ہادی یا رحیم زیادہ پڑھنے کی اجازت لوں۔میں نے ایک صاحب سے معلوم کیا کہ مسجد کے مولانا سے میری ملاقات ہو سکتی ہے انھوں نے کہا آدھے گھنٹہ کے بعد نماز کے بعد آپ مل لیجئے، میں انتظا رکر تا رہا، لوگ نماز پڑھ کر چلے گئے تو ایک صاحب مجھے مولانا صاحب کے کمرے میں لے کرگئے۔میں نے بتایا کہ ایک میاں صاحب نے مجھے یاہادی یارحیم بتایا تھا،اس سے مجھے بہت فائدہ ہوا، اب میں کچھ زیادہ پڑھنا چاہتا ہوں کچھ ہوگا تو نہیں اگر میں سو سے زیادہ بار پڑھ لوں، انھوں نے کہا آپ پڑھ لیجئے اور انھوں نے مجھے مشورہ دیا کہ آپ اوکھلا جاکر مولانا کلیم صاحب سے مل لیں وہ آپ کو زیادہ اچھی طرح بتا سکتے ہیں۔میں نے ان سے معلوم کیاکہ ان کا پتہ کیا ہے،تو انھوں نے بتایا کہ بٹلہ ہاؤس کی جامع مسجد کے امام صاحب سے جا کر معلوم کریں،وہیں پر ان کا دفتر ہے۔
میں وہیں سے بٹلہ ہاؤس گیا، امام صاحب نے بتایا کہ سامنے حضرت کا دفتر دار ارقم ہے، وہاں پر کوئی ہو گا معلو م کرلیں۔دار ارقم گیا تو وہاں ایک حافظ صاحب ملے انھوں نے کہا،آپ خلیل اللہ مسجد کے پاس ان کامکان ہے وہاں معلوم کرلیں۔شاید حضرت تو سفر پر گئے ہیں۔میں خلیل اللہ مسجد گیا کافی دیرکے بعد حضرت کا فلیٹ معلوم ہوا،وہاں گھر سے ایک بچے نے آکر بتایا کہ حضرت مدراس کے سفر پر گئے ہیں،ایک ہفتے کے بعد آئیں گے۔

گے۔میں نے گھر سے فون نمبر لیا،مسجد کے باہر گاڑی کھڑی کی،وہاں ایک ملا جی ٹھیلی پر کتابیں بیچ رہے تھے، خیال ہوا یہ اسلامی کتابیں بیچ رہے ہیں ان سے کتابیں لے لوں۔میں نے ملاجی سے کہا،دعاؤں کی اچھی سی کتاب ہندی میں دے دو، انھوں نے دو چھوٹے چھوٹے سائز کی کتابیں ”مسنون دعائیں“  اور”اللہ کے رسول کی دعائیں“ دکھائیں،میں نے دونوں خرید لیں،پھر خیال ہوا کوئی اچھی سی اسلامی بک بھی لے لوں،ان سے معلوم کیا تو انھوں نے ”اسلا م کیا ہے؟“ اور”جنت کی کنجی“ اور ”دوزخ کا کھٹکا“ ہندی میں دیدی،ان پانچ کتابوں کے ساتھ ملاجی نے ایک کتاب”آپ کی امانت آپ کی سیوا میں“ دی کہ یہ کتاب ہم فری میں دیتے ہیں،آپ اس کو پڑھ کر اور سمجھ کر دعا پڑھیں گے تو زیادہ فائدہ ہوگا۔میں نے کتاب پر نام دیکھا تو میں نے کہا:میں مولانا کلیم صاحب سے ملنے ہی یہاں آیا تھا،مگروہ ملے نہیں،انھوں نے کہا ان کا ملنا بہت مشکل ہے مگر آ پ ان سے ضرور ملیں آپ کو بہت اچھا لگے گا۔کتابیں لے کر میں گھر گیا، موبائیل پر مولانا صاحب سے فون کرنے کوشش کی،موبائیل نہ مل سکا۔میں نے رات کو آپ کی امانت سب سے پہلے پڑھی، کتاب ہاتھ میں لی،چھوٹی سی کتاب ہے ایک ایک لفظ جب تک پڑھ نہ لیا دل نہ بھرا، ایک بار پڑھ کر دوبارہ پڑھی،مجھے اس کتاب کو پڑھ کر ایسا لگاکہ جیسے سخت پیاسے کو سیر ہوکر پانی مل گیا ہو۔اب مجھے حضرت صاحب سے ملنے کا اور بھی شوق ہو گیا،فون پر خدا خدا کرکے چوتھے روزبات ہوئی آواز سن کر مجھے ایسا لگا کہ یہ صاحب کہیں وہ ہی تو نہیں جو گاڑی میں بیٹھ کر یا ہادی یارحیم بتارہے تھے،ان کی کتاب کے پیچھے یا ہادی یارحیم لکھا تھا۔
چارروز کے بعد حضرت صاحب واپس آئے، نومبر کی چار تاریخ کو وہ دن آیا، جب ساڑھے دس بجے خلیل اللہ مسجد میں حضرت صاحب سے ملاقات ہوئی،یہ دیکھ کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی کہ آپ کی امانت اور دار ارقم والے مولانا کلیم و ہی میاں صاحب ہیں جن کو میں نے غفار منزل کے باہر اپنی گاڑی میں بٹھایا تھا اور انھوں نے یا ہادی یا رحیم پڑھنے بتایا تھا۔میں نے اپنے حالات بتائے اور ان کابہت بہت شکریہ ادا کیا،مولانا صاحب نے پوچھا: آپ کی امانت پڑھ کر آپ نے کیا فیصلہ کیا؟میں نے کہااس کا ایک ایک حرف میری انتر آتما پر لکھا گیاہے،حضرت نے کہا پھر آپ نے کلمہ پڑھا،میں نے کہا کتاب میں،تو میں نے پڑھ لیا ہے،اب آپ پڑھادیں، مولانا صاحب نے مجھے کلمہ پڑھوایا میرا نام محمد نعیم  رکھا اور مجھے بتایا کہ زندگی کا ہر پل اس ہادی اور رحیم مالک کی مرضی سے گزارنا ہے،جس کے سامنے آدمی کواپنا رونا روکر ایسا لگتا ہے کہ جیسے اپنا بوجھ اتار دیا۔
  سوال : ماشاء اللہ،اللہ تعالی مبارک فرمائیں،اس کے بعد دین سیکھنے کا آپ نے کچھ سوچا؟
 جواب : حضرت صاحب کے مشورے سے میں نے ایک مولانا صاحب کو ٹیوشن کے لئے طے کیا اور الحمد للہ نماز یاد کی اور اب قرآن شریف پڑھ رہاہوں تیسرا پارہ میرا لگ گیا ہے۔
  سوال : کیا یہ تمام باتیں اپنے گھروالوں کو آپ نے بتادیں؟ 
 جواب :  الحمد للہ اس کے بعدتین مقدمے میرے حق میں ہوگئے میں نے دوبارہ گھر خریدا گھروالوں کو بلایا،میرے ساتھ جومعاملے ہوئے میرے نئے حالات میرے گھر والوں کے لئے بہت اچھے لگے اوربس دوتین دنوں میں میرے تینوں بچے اور میری بیوی مسلمان ہوگئی۔مولانا صاحب نے میری اہلیہ کا نام خدیجہ رکھا اوربیٹیوں کانام آمنہ، فاطمہ اور بیٹے کا نام محمد عمر رکھاہے۔
  سوال : آپ نے کبھی اسلام کا مطالعہ بھی کیایا نہیں؟
 جواب : میرا خاندانی پس منظر بہت مذہبی تھا،بابری مسجد کی شہادت کے وقت اور بھی زیادہ اسلام مخالفت بڑھ گئی۔ ہمارے خاندان کے ایک پولیس ڈی آئی جی، مسلمان ہوکر حذیفہ بن گئے تھے اس کی وجہ سے خاندان میں اسلام اور مسلمانوں سے دوری بڑھ گئی تھی،میرا کاروبار بڑھا تو مذہبی اور قومی فریضہ سمجھ کرمیں نے بہت سا پیسہ بجرنگ دل کو دیا۔جامعہ میں بھی کچھ اس طرح کے مسلمان لوگوں سے میرا واسطہ رہا جن کی وجہ سے بظاہر بول چال پر تو اثر پڑامگراسلام اور مسلمانوں کی امیج کچھ اچھی نہ بنی،بلکہ ا ن لوگوں کی وجہ سے میں مسلمانوں سے کچھ دور ہی ہوا۔اب اسلام اور اسلام والوں کے ساتھ میرا دوسرا ہی واسطہ تھا،میرے دل و دماغ کے پردے کھلتے چلے گئے،اسلام مخالفت مجھے، اسلام کونہ سمجھنے کے علاوہ کچھ اور نہ لگی۔ اسلام میرے اندر کی ضرورت اورمیرے اندر کی مایا تھی جو مجھے مل گئی،مجھے ایسے لگا جیسے میں اپنے نیچر اور اپنے گھر سے کھویا ہوا تھا،مجھے اپنا گھر مل گیا۔
  سوال : اب آئندہ خاندان والوں تک اسلام پہنچانے کے بارے میں آپ نے کیا سوچا؟
 جواب : الحمد للہ میں نے تین بار تین روز جماعت میں لگائے ہیں،میں نے مولانا صاحب سے کہا ہے کہ میں نئے سال  سے ایک لاکھ روپئے ماہانہ دین کو اللہ کے بندوں تک پہنچانے کے لئے خرچ کرنا چاہتاہوں۔حضرت نے کہا کہ جان مال اپنا لگے، آپ اپنا مال خود خرچ کریں یہ زیادہ بہتر ہے کہ آپ یہ مال کسی اورکو خرچ کرنے کے لئے دیں،تو میں نے ح   ضرت کے مشورہ سے ایک ’آپ کی امانت سنٹر‘ کھولنے کا پروگرام بنایا ہے،اس کے لئے ایک فلیٹ خرید لیا ہے،دعا کیجئے کہ اللہ تعالی میرے ارادہ کو پورے کرادے۔
  سوال : مسلمانوں اور ارمغان کے لئے آپ کوئی پیغام دیں گے؟
 جواب : چند ماہ کا مسلمان اس لائق کہاں کہ کچھ پیغام دے،البتہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ اسلام پوری دنیا کی پیاس ہے، وہ لوگ جن کے پاس اسلام ہے اگر وہ اس کو ان لوگوں تک پہنچائیں جو پیاسے ہیں تو وہ ایسی ہی محبت سے اسلام کو لیں گے،بلکہ پئیں گے جیسے پیاسا پانی پیتاہے۔
مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ ہم ا ن کو ان کی پیاس بجھانے کے بجائے مخالف سمجھتے ہیں،یہ بات اسلام سے میل نہیں کھاتی خدا کے لئے ہمیں پیاسوں پر ترس کھاکر ان کی پیاس بجھانی چاہئے،ان کی نا سمجھی پر برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دینا چاہئے۔(مستفاد از ماہ نامہ ارمغان،فروری  ۹۰۰۲؁ء)٭٭٭

یہ بد لتی رتیں 
یہ ڈوبتے ہوئے ارمان
یہ جلتے بجھتے دیے
یہ پگھلتے بدن
یہ جا گتی آنکھیں 
یہ روتے چیختے بچے
یہ آدھی رات کو چھتوں پر ٹہلتے لوگ
یہ کچھ اور نہیں 
واپڈا کی بے حسی ہے