میں نے اسلام کیوں قبول کیا

مصنف : انجو دیوی

سلسلہ : من الظلمٰت الی النور

شمارہ : 2014 فروری

 

من الظلمت الی النو ر
میں نے کیوں اسلام قبول کیا؟
آمنہ (انجو دیوی)

    سوال :  سب سے پہلے آپ اپنا خاندانی تعارف کرائیں؟
 جواب :  پوری دنیا میں شرک و بت پرستی کے سب سے بڑے ملک کے، سب سے بڑے شرک و بت پرستی کے مرکز رشی کیش میں، میں پیدا ہوئی۔رشی کیش میں چار بڑے آشرموں میں سے ایک،بڑے آشرم کے ذمہ دار میرے پتاجی(والد صاحب) ہیں جو بہت مشہور ہیں اور ہندوستان کے بڑے پنڈت جانے جاتے ہیں۔میں ۰۲/ اپریل ۵۸۹۱ء کو رشی کیش میں پیدا ہوئی۔ میرا نام میرے گھر والوں نے انجو دیوی رکھا،میرے ایک بڑے بھائی اور بڑی بہن ہے۔ابتدائی تعلیم رشی کیش کے ایک انگلش میڈیم اسکول میں ہوئی،جو ہمارے پتاجی کی ٹرسٹ چلارہی ہے،میں نے ہائی اسکول کے بعد سائنس سے انٹرمیڈیٹ اس کے بعد بی ایس سی کیا،اس سال ایم ایس سی کررہی ہوں۔ 
  سوال  :  اپنے قبول اسلام کے بارے میں بتائیے؟
 جواب :      بہن کیا بتاؤں،میرا رب جس کی شان ہدایت نے مجھے اپنی گود میں اٹھالیا، اس کی شان یہ ہے کہ روز رات کے اندھیرے سے دن کو نکالتا ہے ایسے ہی میری زندگی کو بھی بت پرستی کے اندھیرے سے اس رب کریم نے ایمان کے اجالے میں نکالا۔ہمارے آشرم میں ایک گھناؤنا حادثہ پیش آیا۔ایک ہندو بہن اپنی جوان بچی کے ساتھ پوجا کے لئے گئی،ایک سادھو جو ابھی چند مہینوں سے وہاں رہتا ہے، نے ان کو کچھ دینے کے بہانے سے بلاکر اپنے ساتھی کے ساتھ ان دونوں سے منہ کالا کیا،بعد میں بات کھل گئی پورے آشرم میں چرچا ہوا، مجھے بھی معلوم ہوا،میں نے اپنے پتاجی سے کہا کہ اس آشرم کو ان تمام سادھوؤں کے ساتھ آگ لگا دینی چاہئے بلکہ آپ کو اور ہم کو سب کو سزا کے طور پر جل جانا چاہئے کہ آشرم کے ذمہ دار آپ ہیں۔اس کی وجہ سے مجھے آشرم سے نفرت ہو گئی اور پوجا کے لئے جانا بند کردیا۔ایک رات میں سوئی تو خواب دیکھاکہ میں آشرم میں پوجا کے لئے گئی تو میرے پیچھے دو سادھو لگ گئے، وہ مجھے پکڑ کر اپنے کمرے میں لے جانے لگے،میں کسی طرح چھٹ کر بھاگی، وہ بھی میرے پیچھے دوڑے،میں دوڑتی رہی،بیسوں میل تک وہ بھی میرے پیچھے مجھے پکڑنے کے لئے دوڑتے رہے۔ ان سب میں سے ایک جو مہاراج کہلاتے ہیں پچاس سا ل کی عمر کے باوجود میرے پیچھے دوڑ رہے ہیں،میں تھک کر ہلکان ہو رہی ہوں اور خیال آیا کہ بس اب میری ہمت جواب دے چکی ہے یہ مجھے ضرور پکڑ لیں گے اور میری عزت جائے گی۔ عین اس وقت میں نے دیکھا کہ ایک چھوٹی سی مسجد کے دروازے پر ایک مولانا چشمہ اور ٹوپی لگائے کھڑے ہیں اور بولے بیٹا رکو! ادھر آجاؤ، یہاں مسجد کے اندر آجاؤ۔میں جان بچاکر مسجد کے اندر داخل ہوگئی فوراً انھوں نے دروازہ بند کردیا اور بڑی محبت سے بولے بیٹا اب یہ تمھارا گھر ہے،یہاں تمھیں کوئی بری آنکھ سے بھی نہیں دیکھ سکتا۔ میری آنکھ کھل گئی میری عجیب سی کیفیت تھی،رات کے تین بج رہے تھے، اس کے بعد صبح تک میری آنکھ نہیں لگی،مجھ پر اس خواب کا ایسا اثر تھا،جیسے یہ واقعہ میرے ساتھ جاگتے میں ہوا ہو۔ عجیب بے تابی سی مجھ پر سوار تھی،دن میں دس بجے میرے دل میں خیال آیا کہ ان پنڈتوں سے میری عزت بچنے والی نہیں،مجھے مولویوں کو تلاش کرنا چاہئے،شاید اسلام میں میری عزت بچے گی۔میں نے اپنے آپ کو سمجھایا کہ یہ سپنا(خواب)تھا کوئی حقیقت تو نہیں تھی، مگر جیسے اندر سے مجھے کوئی جھنجھوڑ رہا تھا،یہ خواب تھامگر سوسچائیوں کاسچا،اس کشمکش میں میرے دل میں خیال آیاکہ میں اپنے موبائیل سے ایسے ہی فون ملاؤں،اگر وہ فون کسی مسلمان کے فون پر مل گیا تومیں سمجھوں گی کہ اسلام میں میری عزت بچے گی  مجھے مسلمان ہو جانا چاہئے، اور اگر فون کسی ہندو کا ملا تومیں سمجھوں گی کہ یہ خواب ہے۔میں نے ویسے ہی من من میں اپنے مالک سے پرارتھنا(دعا) کی،میرے مالک!  میرے دودھ کا دودھ پانی کا پانی کردے،یہ دعا کرکے میں نے فون ملایا،گھنٹی بجی تو میں نے پوچھا کہ آپ کون صاحب بول رہے ہیں؟ انھوں نے کہا: میں محمود بول رہا ہوں۔میں نے کہا: کہاں سے بول رہے ہیں؟انھوں نے کہا: مظفرنگر ضلع کے فلاں گاؤں سے بول رہا ہوں  میں نے کہا: مجھے مسلمان ہونا ہے۔وہ بولے: مسلمان کیوں ہو نا چاہتی ہو؟ میں نے کہا کہ اسلام سچا دھرم ہے اور اسلام ہی میں ایک لڑکی کی عزت بچ سکتی ہے۔ وہ بو لے:تم کہاں سے بول رہی ہو؟میں نے کہا رشی کیش سے،انھوں نے بتایا کہ مسلمان ہونے کے لئے آپ کو پھلت ہمارے حضرت کے پاس جانا ہوگا ان کانام مولانا محمد کلیم صاحب صدیقی ہے۔پھلت ضلع مظفر نگر میں کھتولی کے پاس گاؤں ہے،میں ان کا فون نمبر آپ کو دے دوں گا،میں نے کہا دے دیجئے، انھوں نے کہاکہ ابھی میرے پاس نہیں ہے،ایک گھنٹہ بعد تم فون کرلینا میں تلاش کرلوں گا۔ میں نے ان سے کہا کہ میں اگر اسلام قبول کروں گی تو میرے گھر والے تو مجھے نہیں رکھ سکتے، میں پھر کہا ں رہوں گی؟ انہوں نے کہا: میراایک بڑا بیٹا تو ایکسیڈینٹ میں انتقال کرگیا ہے،میرا ایک لڑکا ہے جس کی عمر ابھی پندرہ سال ہے، اگر تو مسلمان ہوگئی تو میں تمہاری اس سے شادی کردوں گا اور تم میرے گھرمیں رہنا۔ میں نے کہا کہ وعدہ یاد رکھنا۔ انہوں نے کہا کہ یاد رہے گا۔ مجھے بے چینی تھی، مجھے ایک گھنٹہ انتظار کرنا مشکل ہوگیاپچاس منٹ کے بعد میں نے فون کیا، مگر ان کو مولانا کا فون نہ مل سکا،اس کے بعد گھنٹہ آدھ گھنٹہ بعد ان کو فون کرتی رہی اور معذرت بھی کرتی رہی کہ آپ کو پریشان کردیا مگر مجھ سے بغیر اسلام کے رہا نہیں جاتا، انہوں نے کہا کہ صبح کو میں خود تمہیں فون کروں گا۔ بڑی مشکل سے صبح ہوئی  نو بجے تک میں انتظار کرتی رہی، نو بجے کے بعد میں نے پھر فون کیا فون اب بھی نہ ملا تھا، انہوں نے بتایا کہ میں نے آدمی بھیجا ہے بڈولی،وہ وہاں سے فو ن نمبر لے کر آئے گا، ساڑھے گیار ہ بجے فون ملا، میں نے فون نمبر لے کر مولانا صاحب کو فون کیا، فون کی گھنٹی بجی، مولانا صاحب نے فون اٹھاتے ہی کہا: السلام علیکم، میں نے کہا: جی سلام، کیا آپ مولانا کلیم ہی بول رہے ہیں؟ انہوں نے کہا جی کلیم بول رہاہوں،میں نے کہا کہ مجھے مسلمان ہونا ہے، مولانا صاحب نے کہا آپ کہاں سے بول رہی ہیں؟  میں نے کہا رشی کیش سے،مولانا نے کہا کہ آپ کیسے آئیں گی؟ میں نے کہا، اکیلے ہی آؤں گی، مولانا نے کہا، فون پر ہی آپ کلمہ پڑھ لیجئے، انہوں نے کہا کہ فون پر بھی مسلمان ہوسکتے ہیں، کہاکہ ہاں کیوں نہیں ہوسکتے۔بس اپنے مالک کے لئے جو دلوں کے بھید جاننے والا ہے اس کو حاضر ناظر جان کر سچے دل سے کلمہ پڑھ لیجئے کہ اب میں مسلمان بن کر قرآن اور اسکے سچے نبی کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق زندگی گذاروں گی۔میں نے کہا، پڑھائیے! مولانا صاحب نے کلمہ پڑھایا اور کہا کہ اب ہندی میں اس کا ارتھ (ترجمہ)بھی کہہ لیجئے، ابھی بات پوری نہیں ہوئی تھی کہ میرے فون میں پیسے ختم ہوگئے اور بات کٹ گئی، میں جلدی سے بازار گئی اور فون میں پیسے ڈلوائے، مگر اس کے بعد مولانا صاحب کا فون نہیں مل سکا، میں بہت تلملاتی رہی اور اپنے کو کوستی رہی کہ”انجو“تیرے من میں ضرور کوئی کھوٹ ہے، تبھی تو تیرا ایمان ادھورا رہا۔ میں اپنے مالک سے دعا کرتی رہی، میرے سچے مالک! آپ نے کہاں اندھیرے میں میرے لیے ایمان کا نور نکالا،میں تو گندی ہوں،میں ایما ن کے لائق کہاں ہوں، مگر آپ تو داتا ہیں جس کو چاہیں بھیک دے سکتے ہیں۔ تیسرے روز میں نے آنکھ بند کرکے رو رو کر دعا کی اورفون ملایا تو فون مل گیا، میں بہت خوش ہوئی میں نے کہا مولانا صاحب میری گندی آتماکی وجہ سے میرا یمان ادھورا رہ گیا تھا، فون میں پیسے ختم ہوگئے تھے، اس کے بعد لگاتار آپ کو فون کر رہی ہوں مگر ملتا نہیں، مولانا صاحب نے بڑے پیار سے کہا بیٹا آپ کا ایمان بالکل پورا ہوگیا تھا، میں خود سوچ رہا تھا کہ میں ادھرسے فون ملاؤں مگر میں اس وقت نوئیڈا میں ایک پروگرام میں جارہاتھا۔ ہمارے ساتھی ایک بات کر رہے تھے اس کی وجہ سے میں فون نہ کرسکا، پھر ایسی مصروفیت رہی کہ  فون بس برائے نام کھولا،میں نے کہا پھر بھی آپ مجھے دوبارہ کلمہ پڑھاد یجئے۔فون دوبارہ کٹ گیا،میرا حال خراب ہوگیا،میری ہچکیاں بندھ گئیں، میں اپنے مالک سے فریاد کررہی تھی میرے مالک کیا آج بھی میرا ایمان ادھورا ہی رہ جائے گا، کہ اچانک مولانا کا فون آیا، میں نے خوشی سے رسیو کیا، مولانا نے بتایا کہ میں نے فون کاٹ دیا تھا کہ پتہ نہیں کہ آج بھی تمہارے پاس فون میں پیسے ہوں گے کہ نہیں، اس لئے اپنی طرف سے فون کروں، کلمہ پڑھ لو، میں نے کلمہ پڑھا،ہندی میں عہد کیا اور پھر کفر و شرک اور سب گناہوں سے مجھے توبہ کرائی اور اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری کا عہد کرایا۔مولانا صاحب نے مجھ سے معلوم کیا کہ یہ فون نمبر آپ کو کس نے دیا ہے، میں نے کہا مظفر نگر کے فلاں گاؤں کے محمود صاحب نے۔مولانا صاحب نے پوچھا کہ اب تم کیا کرو گی؟ میں نے کہا کہ میں نے سب سوچ لیا ہے اور محمود صاحب نے وعدہ کیا ہے کہ وہ سب میری ذمہ داری سنبھالیں گے، مولانا صاحب نے مجھے دعائیں دیں اور کہا، کوئی مشکل ہو توجب چاہے مجھے فون کرلینا۔
  سوال : اس کے بعد آپ نے کیا کیا؟
 جواب :     میں نے محمود صاحب کو جو اَب میرے ابا ہیں، ان کو فون کیا کہ میں نے اسلام قبول کرلیا ہے، انھوں نے معلوم کیا کیسے؟ میں نے کہا حضرت صاحب نے مجھے فون پر کلمہ پڑھوایا اور بتایا کہ فون پر اور سامنے کلمہ پڑھنے میں کوئی فرق نہیں ہے، میں نے ابا جی سے کہا کہ اب میں رشی کیش میں نہیں رہ سکتی، ابا جی نے مجھ سے کہا کہ بیٹی نہ تم نے ہمیں دیکھا،نہ ہم نے تمہیں دیکھا،تم کون ہو؟ تمہارے باپ کیا کرتے ہیں؟ میں نے کہا میرے پتا جی کا بہت بڑا آشرم ہے اور میں ایم ایس سی کر رہی ہوں۔ ابا جی نے کہا کہ بیٹی تم ایسے بڑے گھرانے کی لڑکی ہو، میں تو بالکل غریب آدمی ہوں۔ میں نے کہا کہ میں آپ کے یہاں آکر مزدوری کرکے گذارہ کرلوں گی، انھوں نے کہا: میرا لڑکا پندرہ سال کا ہے، وہ ابھی کچھ نہیں کرتا، میں نے کہا میں اسے پال کر پرور ش کرلوں گی، انہوں نے کہا کہ تم گوشت کھاتی ہو؟ میں نے کہا گوشت سے مجھے گھبراہٹ ہوتی ہے، مگر میں گوشت کھانے لگوں گی، انہوں نے کہاکہ میری مرغے کی دکان ہے، 100روپئے کماتا ہوں اور میں  قصائی ہوں،تم کیسے ہمارے یہاں رہوگی؟ میں نے کہا کہ میں بھی قصائی بن جاؤں گی،انہوں نے کہا کہ بیٹی تو ایسے بڑے گھرانے کی بچی ہے تو کیسے ہمارے یہاں گذارا کرے گی؟ پوری زندگی گزارنا دوچار دن کی بات نہیں ہے، میں نے کہاوعدہ توڑ نا اسلام میں کعبہ کو ڈھا دینا ہے، انہوں نے کہا کہ ہم حضرت سے مشورہ کرکے پھر تمہیں بتائیں گے۔ 
  سوال :  اس کے بعد کیا ہوا؟
 جواب : ابا جی نے حضرت صاحب کو فون کیا کہ بہت ضروری ملنا ہے، مولاناصاحب نے کہا کہ لگا تار سفر میں ہوں،پھلت ابھی دوہفتہ آنا نہیں ہوگا، انہوں نے کہا کہ بمبئی بھی ہوگے تو میں وہیں آجاؤں گا مجھے بہت ضروری ملنا ہے، حضرت صاحب نے کہا آپ کے قریب کاندھلہ کے قریب ایک گاؤں رٹھوڑہ ہے،وہاں آجانا، ابا جی وہاں پہنچے مولانا صاحب کو پوراماجرا بتایا،حضرت صاحب نے ان سے کہا کہ آپ بڑے خوش قسمت ہیں آپ اس لڑکی کو لے کر آئیے اور آپ کو پورے گھرانے کو جان دینی پڑے تو ایسی سچی مومنہ کی ایمان کی حفاظت کرنا چاہئے اور ان سے کہاکہ میرا نام بھی آمنہ رکھنا اور شادی کی قانونی کارروائی اور وکیلوں کے پتے وغیرہ دیئے، میرے لیے شرک کے ماحول میں منٹ مہینے سے لگ رہے تھے، مجھ سے رہا نہیں گیا اور دو روز بعد میں خود اکیلی پتہ معلوم کرکے ابا جی کے گھر پہنچ گئی، دو روز میں وہا ں رہی، اس کے بعدوہ مجھے لے کر میرٹھ گئے اور راستہ میں پھلت حضرت صاحب سے مل کر جاناطے ہوا،میری خوش قسمتی تھی کہ حضرت صاحب پھلت میں تھے، سدرہ بہن! میں بیان نہیں کرسکتی کہ حضرت

 

 

حضرت صاحب کو دیکھ کر میرا کیا حال ہوا، میں حضرت صاحب سے بچوں کی طرح چمٹ گئی،میں نے حضرت صاحب کو دیکھا خواب میں مسجد میں جن صاحب نے میری ان سادھوؤں سے جان بچائی تھی وہ چشمہ اور ٹوپی لگائے مولانا صاحب، مولانا کلیم ہی تھے۔میں بے اختیار بول اٹھی: آپ ہی تھے، آپ ہی تھے،میں انہیں دیکھ کر ایسی جذباتی ہوگئی،یہ بھی خیال نہیں رہا کہ پہلی بار ایک انجانے مرد سے میں جوانی میں مل رہی ہوں۔ مجھے ایسا لگا جیسے کوئی بچی اپنی ماں سے مل رہی ہو، میرٹھ میں نکاح اور قبول ایمان کی قانونی کارروائی پوری کراکے ہم گاؤں پہنچے، ایک مہینہ میں میں نے نماز یاد کی، روزانہ فضائل اعمال پڑھتی، گھر کے لوگ مجھ سے بہت محبت کرتے،گاؤں کی عورتیں میرے ساتھ رہتیں۔
ہمارے ابا جی کے ایک رشتہ دار کی ہمارے اباجی سے بہت لڑائی ہے انہیں معلوم ہوگیا،انہوں نے تھانے میں شکایت کردی کہ یہ لوگ رشی کیش سے ایک لڑکی کو اغوا کرلائے ہیں، تھانے نے رشی کیش رابطہ کیا، وہاں پر ایف آئی آر لکھی ہوئی تھی، رشی کیش پولیس آگئی، اورمقامی پولیس کے ساتھ دس بجے مجھے اور میرے ابا جی کو اٹھا کر لے گئی، جیپ میں،میں اور ابا جی بیٹھے تھے، میں نے ابا جی سے کہا، میں ڈرائیور کو آواز دیتی ہوں، جیسے یہ گاڑی ہلکی ہو آپ فورا کود جانا، اباجی نے کہا تمہارا کیا ہوگا؟ میں نے کہا اللہ پر بھروسہ رکھئے، میرے اللہ مجھے میرے گھر بھیج دیں گے، میں نے ڈرائیور کو آواز دی، ڈرائیور صاحب! ذرا رکئے،گاڑی ذرا ساٹھ کلو میٹر پر آئی تو ابا جی کود گئے، گرے اور چوٹ لگی، پیچھے سے گاؤں والے پتھراؤ کررہے تھے، اس لئے پولیس نہیں رکی اور بھاگ گئی۔
  سوال :  اس کے بعد کیا ہوا؟
 جواب :  اسکے بعد میرے اللہ نے میرا ایمان بنایا، فضائل اعمال کے حکایات صحابہ کے قصے،میں نے سب پڑھ لئے تھے، ا ن کا مزہ لیا، میرے گھر والوں نے مجھے بہت سزائیں دیں اورلیڈیز پولیس نے مجھے بری طرح اذیتیں دیں اور مارا، میں نے ہر بار ان سے کہہ دیا، میرے جسم کی بوٹی بوٹی کرلو، تب بھی جو کلمہ اور ایمان روئیں روئیں اور خون کے قطرے قطرے میں بس گیا ہے وہ نکل نہیں سکتا، میرے جسم سے خون نکلتا دیکھ کر دیکھنے والے رونے لگتے، پیٹنے والے میرے حال کو دیکھ کر رونے لگتے مگر مجھے تکلیف کے بجائے مزہ آتا،مجھے لگتا جس اللہ کی محبت میں میں ستائی جارہی ہوں وہ مجھے دیکھ رہاہے، وہ کتنا خوش ہورہا ہوگا، میری ماں نے دو دفعہ میرا گلا گھونٹا، میرے بڑے بھائی مجھ پر بار بار چڑھتے، بس ایک میرے رشتہ کی خالہ تھیں جنہیں اللہ نے نرم کردیاتھا،بار بار مجھے چھڑاتیں میری شادی کرنے کا پروگرام بنایاگیا،میں نے صاف صاف کہہ دیا کہ شادی میری ہوچکی ہے، اب جس کی میں ہوں اس کے علاوہ مجھے کوئی چھوبھی نہیں سکتا، یہ مسلمان کی جان ہے کوئی آپ کے آشرم کے عیاشوں کی چاہت نہیں ہے۔میں یہاں شرک میں ہرگز زندہ نہیں رہ سکتی، یا مجھے مار دو یا مجھے جانے دو، اگر مجھے اس گھر میں رکھنا چاہتے ہو تو بس ایک راستہ ہے کہ گھر والے مسلمان ہوجائیں، مار مار کر لوگ تھک گئے اور ہار گئے، کئی بار مجھے زہر دینے کا پروگرام بنایا، ایک دو بار میرے ابا جی کو بھی ہار کر فون کیا کہ اس کی لڑکی کو لے جاؤ، وہ آنے کی تیاری کرتے مگر پھر ان کو منع کردیتے،ایک روز میرے پتا جی (والد صاحب) نے ابا جی کو فون کیا کہ ہم اس لڑ کی کو رخصت تو کردیتے مگر کس طرح کریں کہ آپ مسلمان اور ہم ہندو ہیں، ابا جی نے کہا کہ اس کا علاج تو بہت آسان ہے کہ آپ مسلمان ہوجائیں، اور اگر آپ مسلمان ہوجائیں گے اور آپ لڑکی کو رخصت نہ کرنا چاہیں تو میں اپنا اکلوتا لڑکا رخصت کرکے آپ کو دے دوں گا وہ چپ ہوگئے۔
ایک روز میرے گھر والے مجھے مار رہے تھے، میری خالہ نے مجھے چھڑایا، جب سب لوگ چلے گئے تو میری خالہ نے کہا انجو تو جس مالک پر ایمان لائی ہے اگر وہ تجھے چاہتاہے تو اس سے کہتی کیوں نہیں؟کہ مجھے یہاں سے نکال لے، خالہ یہ کہہ کر چلی گئیں میں نے وضو کیا،کمرہ بند کیا اور دو رکعت صلوٰۃ الحاجت پڑھی اور خوب اپنے رب سے فریاد کی، میرے اللہ مجھے نہ کوئی شکایت ہے اور نہ کوئی شکوہ ہے، میرے لیے آپ کا یہ کرم کیا کم ہے کہ مجھ گندی کو شرک کی نگری میں ایمان نصیب کیا اور مجھ گندی کو اپنے نبی کے مظلوم صحابہ کی طرح مار کھانا نصیب ہوا، میرے اللہ آپ نے میرے لیے ساری تکلیفوں کو مسرت کی چیز بنا دیا، میں کہاں اور ایمان کہاں، مگر میرے اللہ میری خالہ یہ سوچیں گی کہ اس کا خدا اسے نہیں چاہتا،یا وہ کچھ نہیں کرسکتا،میرے مولا! آپ مجھے میرے شوہر کے گھر ان کے ذریعہ پہنچا دے۔
  سوال :  پھر کیا ہوا؟
 جواب :  میرے پتا جی (والد صاحب) نے عاجز آکر آشرم کے لوگوں سے مشورہ کیا سب نے مشورہ کیا کہ لڑکی ادھرم ہوگئی ہے، اب دھرم میں آسکتی، اب جتنا اس کو مارا جائے گا پورے رشی کیش میں رو رو ہوگی، اس لئے اچھا ہے کہ اس کو اس کے شوہر کے گھر خاموشی سے پہنچا دیا جائے، میرے پتا جی نے میرے ابا جی کو فون کیا، آپ ہم سے ڈر رہے ہو ہم آپ سے ڈر رہے ہیں، ہم دونوں ایک درمیان میں جگہ طے کریں وہاں ہم انجو کو لے کر آجائیں اور آپ وہاں آجائیں، سہارنپورطے ہوگیا، ابا جی نے اپنے جاننے والے کا پتہ دیا، اگلے روز صبح کو میرے پتا جی (والد صاحب) اور خالہ مجھے لے کر سہارنپور آگئے، ہمارے ابا جی بھی آگئے اور خوشی خوشی ہم لوگ اپنے شوہر کے یہاں آگئے، میں نے اپنی خالہ سے کہا: خالہ!  آ پ نے دیکھا، ادھر میں نے اپنے اللہ سے کہا، ادھر اللہ نے میری سنی، خود میرے پتا جی کو مجبور کیا کہ مجھے پہنچا دیں، کیا میری خالہ ایسے اللہ پر ایمان کے بغیر جینا اچھا ہے۔ میری خالہ بہت حیرت میں آگئیں، میں نے سہارنپور میں ان کو ایمان قبول کرنے کے لئے کہا وہ تیار ہوگئیں، چلتے چلتے میں نے ان کو کلمہ پڑھوایا۔
  سوال : گاؤں میں پہنچ کر کیا ہوا؟
 جواب  : گاؤں والوں کو خبر ہوگئی تھی، پورا گاؤں استقبال کے لئے باہر آگیا، پورے گاؤں میں عید ہوگئی، اور اب میں خوشی خوشی رہ رہی ہوں۔میں ملنے کے لئے ایک پروگرام میں حضرت صاحب کے یہاں آئی، حضرت صاحب نے مجھے پورے گاؤں کی عورتوں میں کام کے لئے کہا، الحمد للہ بہت سی مسلمان عورتیں جو پہلے نماز، روزے اور دین سے دور تھیں، وہ نماز کی پابندہوگئیں، میرے اللہ کا کرم ہے، پانچ نماز کے علاوہ  تہجد اور اکثر نفلی نمازیں پڑھنے لگیں،کوشش کرتی ہوں نفلی روزے بھی شروع کروں، قرآن شریف پڑھ رہی ہوں، میرے گھر والے مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں۔
  سوال : گوشت آپ کھانے لگی ہیں؟
  جواب:  میرے اللہ نے گوشت حلال کیا ہے، میرے اللہ نے کھانوں کا سردار گوشت کو رکھاہے،اب گوشت میرے لیے مرغوب غذا ہے، اسلام تو کہتے ہی اس کو ہیں کہ اپنے اللہ اور اس کے رسول کی پسند کو اپنی پسند بنالے، میرے اللہ کا کرم ہے مجھے یہ معلوم ہوجائے کہ میرے نبی کو یہ پسند ہے، بس اب وہ مجھے پسند ہوجاتاہے اور دل سے پسند ہوجاتاہے،مجھے پہلے میٹھا اچھا نہیں لگتا تھا،اپنے اسکول کی لڑکیوں کے ساتھ مل کراصل میں کہ میرا ذائقہ بگڑ گیا تھا کہ میں میٹھا نہیں کھا تی تھی مگر مجھے معلوم ہوا کہ میرے نبی میٹھے کو پسند کرتے تھے، بس اب مجھے میٹھا پسند ہوگیا اورا ب مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ میٹھا مجھے پہلے بھی پسندتھا۔
  سوال :  آپ کے گھر والوں سے آپ کا رابطہ ہے؟
 جواب : میرے والد اور بہن کے فون آتے رہتے ہیں، انہوں نے آنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔
  سوال : ان کو آپ نے دعوت نہیں دی؟
 جواب : ابھی ان کے لئے دعا کرنی شروع کی ہے، سچی بات یہ ہے کہ دعا بھی کی نہیں، بس ارادہ ہے ایک دعاجس کو دعا کہتے ہیں ہوجائے،تو پھر وہ ایمان میں ضرور آجائیں گے، اصل میں دعا بھی اللہ ہی کراتے ہیں، بس اللہ وہ دعا کروادے اس کا انتظار کررہی ہوں؟
  سوال : آمنہ بہن!ارمغان کے قارئین کے لئے کچھ پیغام آپ دیں گی؟
 جواب : میرے حضرت جی کی تقریرمیں نے سنی،کہ اللہ نے ہدایت اتار دی ہے، ہر کچے پکے گھر میں اسلام کو داخل کرنے کا فیصلہ ہوچکاہے، اب اگر مسلمانوں نے اپنی ذمہ داری نہ نبھائی تو اللہ اپنے بندوں کی ہدایت کے لئے مسلمانوں کے محتاج نہیں ہیں حضرت فرماتے ہیں کہ رشی کیش کے گڑھ سے مجھے ہدایت ملنا اس کی طرف سے مسلمانوں کو وارننگ ہے،اس سے پہلے کہ دوسرے راستوں سے ہدایت کا کام لیا جائے، مسلمانوں کو اپنے داعیانہ منصب پر کھڑا ہوجانا چاہئے۔
  سوال : بہت بہت شکریہ !آپ سے حالات سن کر ایمان تازہ ہوگیا۔
 جواب :     بہن! بس دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ موت تک ایمان پر ثابت قدم رکھے۔ ؒ(مستفاد از ماہنامہ ارمغان،جون  ۸۰۰۲؁ء)