میں نے اسلام کیوں قبول کیا

مصنف : سبھاش شنکر لال

سلسلہ : من الظلمٰت الی النور

شمارہ : اگست 2019

من الظلمت الی النور
میں نے اسلام کیوں قبول کیا
سبھاش شنکر لال(مولوی محمد یونس)

میرا موجودہ نام مولوی محمد یونس ہے شمسیکیلنڈر کے مطابق میری عمر تقریباً ۱۵/سال ہے لیکن اسلامی زندگی کی میری اصل عمر ۸۲/برس کی ہے ۶۱/دسمبر ۸۷۹۱؁ء کا وہ تاریخی دن میری زندگی میں انقلابی حیثیت رکھتا ہے جس دن رب کائنات نے مجھے ہدایت و ایمان کی نعمت سے سرفراز فرمایا،۱۳/جون ۵۵۹۱؁ء میری تاریخ پیدائش  ہے میرا آبائی وطن صوبہ مہاراشٹر کا ایک قصبہ مانڈول ہے جو ناندگاؤں نزد منماڑ ریلوے جنکشن کے قریب واقع ہے اور موجودہ رہائش گاہ قدیم جالنہ صوبہ مہاراشٹر میں ہے۔
 میری بنیادی تعلیم جالنہ کے مہاراشٹر نائٹ اسکول میں ہندی میڈیم سے ہوئی ۷۶۹۱؁ء میں،میں نے میٹرک کا امتحان کامیاب کیا،میٹرک کے بعد ذہن میں مختلف مذاہب کے تعلق سے خیالات آتے رہے کہ کون سا مذہب سچا دھرم ہے۔ دماغ میں یکے بعد دیگرے کئی سوالات آنے لگے کہ ہمارا پیدا کرنے والا کوئی تو ہے، اس سنسار کا کوئی تو پالنہار ہے پھر پوجا پاٹ سے دل اچاٹ ہونے لگا اور آہستہ آہستہ مذہب اسلام کی طرف رجحان بڑھتا گیا۔ میٹرک کے بعد کالج میں داخلہ میں نے محض اس لئے نہیں لیا کہ وہاں مخلوط تعلیم کا نظام تھا۔ مسلمانوں کی تہذیب میں پردہ کے اہتمام کو دیکھ کر مذہب اسلام کی جانب میرا جھکاؤ مزید بڑھنے لگا اور رفتہ رفتہ پردہ کی اہمیت و افادیت میرے دل کو چھونے لگی۔ دریں اثنا مولانا مودودی کی ہندی زبان میں اسلام سے متعلق چند کتابوں کا ترجمہ میرے ہاتھ لگا جس میں خصوصاً ”اسلام پرویشکا“”اور اسلام مارگ درشن“نے مجھے بڑی حد تک متأثر کیا 
    میرے ایک پڑوسی محمد یونس کے اخلاق سے شروع ہی سے میں ان کا بہت گرویدہ تھا اکثر و بیشتر وہ مجھے دین کی باتیں بتاتے رہتے تھے۔ اس دوران ہمارے شہر جالنہ میں اس دور کی ایک مشہور شخصیت سہگل صاحب جنھوں نے اسلام قبول کیا تھا اور اپنا 

نیا اسلامی نام یوسف رکھا تھا،وہ پونہ مہاراشٹر کے معروف تبلیغی جماعت کے ذمہ دار مرحوم مولانا محمد یونس علیہ الرحمہ کے ساتھ جالنہ کے ایک اجتماع میں تشریف لائے تھے اور اپنی تقریر میں بار بار ایک جملہ دہراتے تھے کہ بھائیو!سفر آخرت بہت لمبا ہے لہٰذا توشہ ساتھ لے لو یہ بات میرے دل کو لگی۔ میرا ذہن اسلام کے لئے روشن ہو چکا تھا صرف اللہ کی طرف سے ہدایت کا پیغام آنا باقی تھا۔جالنہ کے تین دن کے اجتماع میں مستقل میں ان دینی بھائیوں کی محبت و اخوت اور حسن اخلاق کا مشاہدہ کرتا رہا۔ ۴۱۔ ۵۱۔۶۱/دسمبر ۸۷۹۱؁ء کے یہ تین دن میری زندگی میں ایک انقلاب و تغیر کی کیفیت پیدا کرتے رہے اور بالآخر اجتماع کے تیسرے دن ۶۱/دسمبر  ۸۷۹۱؁ء کو میں نے اپنے قبول اسلام کا الحمد للہ اعلان کر دیا۔
    موتی مسجد جالنہ میں جماعت کی تشکیل ہو رہی تھی میں نے بھی اپنا نام وہاں لکھوادیا۔ میرا اصل نام سبھاش شنکرلال سامبرے سے محمد یونس رکھ دیا گیا،بعد ازیں میں نے اپنا تعلیمی سفر جاری رکھا اردو عربی زبانوں کو ابتدائی مرحلوں سے سیکھا اور اللہ کے فضل سے اختتام عا  لمیت کی سندِ فراغت پر ہوا،اور بخاری شریف جیسی حدیث کی اہم ترین کتاب کو بھی پڑھنے کی اللہ رب العزت نے سعادت بخشی۔
سبھاش شنکرلال سامبرے سے مولوی محمد یونس تک کا یہ سفر کئی مسائل سے دو چار رہا کئی مشکلات سامنے آئیں،قبول اسلام کے بعد آزمائش کے دور سے بھی گزرنا پڑا حتیٰ کہ جیل کی سلاخوں میں بھی زندگی کے چند یادگار مبارک لمحات گذارنے کا موقع نصیب ہوا لیکن اللہ کی ذات پر مکمل بھروسہ اور توکل کرنے سے میرے قدم جمے رہے۔ بیشک قرآن پاک کی یہ آیت میرے لئے مشعل راہ بنی: یٰٓا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِنْ تَنْصُرُوااللّٰہَ یَنْصُرْ کُمْ وَ یُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ (سورہ محمد:۷)  ”اے ایمان والو!  اگر تم اللہ کی مدد کروگے تو وہ تمہاری مدد کر ے گااور تمہارے قدم جمادے گا۔“
    واقعہ یہ کہ اس آیت کریمہ کی بغور تلاوت کرتے رہنے سے میرا حوصلہ بڑھتا رہا۔میرے حقیقی بڑے بھائی وسنت اور چھٹے بھائی دھن راج ہیں۔میری والدہ محترمہ ہر کو بائی اور بہن ہیرابائی آج بھی بقید حیات ہیں اور میں اللہ رب العزت سے ان حقیقی بھائی بہن و والدہ کے لئے ہدایت کی دعا بھی کرتا

ہوں،بھائیوں سے میری آج بھی ملاقات ہوتی ہے لیکن وہ مجھے دین اسلام کے پرچار اور اشاعت کی اجازت نہیں دیتے اور کہتے ہیں کہ آپ کو جس دھرم کا پالن کرنا ہے وہ شوق سے کریں لیکن ہم پر کوئی زبردستی نہ کریں۔لَا اِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ اور لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِکی ان آیت قرآنی دیکھ کر میں صبرو تحمل سے کام لیتا ہوں اور ان کے حق میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ انھیں بھی ہدایت کے چراغ سے منور فرمائے۔
    میری اہلیہ عائشہ بھی نو مسلمہ ہے اور اللہ کے فضل سے دین کے اصول و ضوابط پر پوری عزیمت کے ساتھ عمل پیرا ہے،میرے بیٹے حنظلہ،حذیفہ اور ابو بکر ہیں اور بیٹی ام ہانی ہے،میرے دو بیٹے اس وقت قرآن کریم حفظ کر رہے ہیں اور انشاء اللہ عنقریب اسے وہ مکمل کر لیں گے اور میری مزید خواہش ہے کہ وہ دین کی اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں اور دین اسلام کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیں۔
    یہ تھے مولوی محمد یونس صاحب جو راقم سطور سے حرم شریف میں موجود کلینک میں ملاقات کی غرض سے آئے تھے نیز ہندوستان کے مشہور عالم دین اور خانوادہ حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ سے تعلق رکھنے والے محترم مولانا عبداللہ حسنی سے ایک تعارفی خط بھی ساتھ لائے تھے۔ راقم الحروف کو مولوی محمد یونس صاحب سے مل کر غیر معمولی مسرت ہوئی حرم شریف میں ایک نومسلم کے قبول اسلام کا واقعہ اور ایک عالم دین کی حیثیت سے ان کے تعارف و دیگر تفصیلات کو سن کر راقم بہت متأثر بلکہ محظوظ ہوا۔مولوی محمد یونس کے اس علمی سفر کے تعلق سے استفسار پر معلوم ہوا کہ ۶۱/دسمبر ۸۷۹۱؁ء انھوں نے اسلام قبول کیا،پھر چند ماہ حیدرآباد ہند میں مولانا حمید الدین عاقل حسامی کے مشہور مدرسہ دارالعلوم حیدرآباد میں گزارے،بعد ازیں بلر یا گنج اعظم گڑھ (یو پی) کے جامعۃ الفلاح کارخ کیا، یہاں بھی انھیں چند ماہ تعلیم حاصل کرنے کی سعادت حاصل رہی،اس کے بعد اسلامک سنٹر ویلور میں مرحوم جمیل صاحب کے قائم کردہ ایک اسلامی مرکز میں چھ ماہ کا نصاب مکمل کیا،جو خصوصاً نو مسلموں کی تربیت کو مد نظر رکھ کر بنایا گیا ہے،اور اس کے بعد عمرآباد (تملناڈو)میں واقع جامعہ دارالاسلام عمرآباد (JDS Arabic Collage) میں پانچ سال کا عرصہ گزارا،یہاں سے 

فراغت کے بعد عالم اسلام کی مشہور درسگاہ ندوۃ العلماء لکھنؤ میں بھی ایک سال کی مدت صرف کی۔یہاں مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ سے بھی ملاقات کا شرف حاصل ہوا،اور آخر میں مالیگاؤں کی درس گاہ بیت العلوم سے سند فراغت حاصل کی اور اپنے اس طویل علمی سفر میں اللہ تعالیٰ کے ذکر و فکر سے بھی وابستہ رہے،سچ ہے   ؎
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی
    بالآخر سبھاش شنکرلال سامبرے ایک عالم دین ہو کر اور مولوی محمد یونس کی حیثیت سے خدمت دین میں مصروف ہو گئے اور اللہ کے فضل سے مزید ۵۱/لوگوں کو اسلام  میں داخل ہونے کا ذریعہ بھی بنے۔
    حلقہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد آپ نے اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کس طرح کیا،اس سوال پر انھوں نے دین اسلام کو ایک نعمت سے تعبیر کرتے ہوئے قرآن پاک کی اس آیت کا حوالہ دیا:  اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا(سورہ مائدۃ:۳) آج کے دن تمہارے لئے دین کو میں نے کامل کر دیا اور میں نے تم پر اپنا انعام تمام کر دیا اور میں نے اسلام کو تمہارا دین (بننے کے لئے پسند کیا)۔مولوی محمد یونس نے حالات حاضرہ کے تحت مسلمانوں کے ارد گرد جو مسائل و دشواریاں ہیں ان کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ بظاہر حالات سخت سے سخت آئیں گے لیکن دل جمعی اور استقامت سے ہمیں ان کا مقابلہ کرنا ہوگا،آخرت کی کامیابی کو سامنے رکھتے ہوئے دنیا کی عارضی کدرتوں و مشقتوں کو نظر اندازکرتے ہوئے صبر اور تحمل سے کام لینا ہوگا،مولوی محمد یونس نے ہمارے موجودہ معاشرہ میں مسلمانوں کو توحید پر سختی سے عمل کرنے کی دعوت دی،کہ توحید ہمارے مذہب اسلام کی اصل اساس ہے اور اس ضمن میں ہماری سوسائیٹی میں بے پناہ سدھارو اصلاح کی ضرورت ہے کیو نکہ اگر ہمارے عقائد درست ہوں گے تو تمام معاملات خوب سے خوب تر ہوں گے اور اگر توحید و عقیدہ میں کمزوری رہی تو ہماری زندگی کی ساری محنت اکارت ہوجانے کا خطرہ ہے لہٰذااس پہلوپر بھی ہمیں سختی سے عمل کرنا ہوگا۔
    دور حاضر میں غیر مسلموں میں دعوت و ارشاد کا کام کس طرح کیا جائے؟اس موضوع پر دور ان گفتگو انھوں نے کہا کہ غیر مسلموں سے اعلیٰ سے اعلیٰ اخلاق کا

مظاہرہ کرتے ہوئے انفرادی و اجتماعی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھا جائے اسلام کے خلاف پیش آنے والے شکوک و شبہات کو اچھے انداز میں سمجھایا جائے اور اسلامی احکام کو مؤثر طریقے سے غیروں کے سامنے پیش کیا جائے ہمارے نبی کریم  ﷺ کی زندگی اور اسوہ حسنہ سے سبق لیا جائے کہ کس طرح انھوں نے اپنے جانی دشمنوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کیا حتیٰ کہ دشمنان اسلام جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہوتے گئے اسی طرح صحابہ کرام کی زندگیوں سے بھی ہم درس حاصل کریں کہ قبول اسلام کے بعد صحابہ کرا م نے کن کن مصائب و مشقتوں کا سامنا کیا اور اللہ کی ذات پر مکمل بھروسہ کر کے اس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
    آج کے مسلمانوں کے نام آپ کا کیا پیغام ہے؟اس سوال پر انھوں نے قرآن کریم کی اس آیت کا حوالہ دیا:    یَآ اَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا ادْخُلُوْا فِیْ السِّلْمِ کَآفَّۃًص وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ط اِنَّہُ لَکُمْ عَدُوٌ مُّبِیْنٌ۔
    اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤاور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو بیشک وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ اس آیت کی رو سے ہمیں اپنی زندگی کا جائزہ لینا اور محاسبہ کرنا ضروری ہے کہ اسلامی خطوط پر کیا ہم واقعی صحیح معنوں میں عمل پیرا ہیں؟اور اگر ہم اسلام پر عمل نہیں کر رہے ہیں تو یہ ہمارے لئے انتہائی بے غیرتی اور زندگی بے بندگی میں شرمندگی کا معاملہ ہوگا۔
    مولوی صاحب نے ایک اہم نکتہ پر روشنی ڈالی کہ انسان کو جب کسی چیز کی طلب و تڑپ ہوتی ہے تو اس کی یافت کے لئے ہر ممکن کوشش اور مساعی جمیلہ کرتا ہے اور پھر اللہ کی مدد اور تائید غیبی بھی اس کے ساتھ ہو جاتی ہے حبشہ سے حضرت بلال،ایران سے حضرت سلمان فارسی ؓ حاضر ہو کر مشرف بہ اسلام ہوئے اور نبی کریم  ﷺ کے مقرب اور جلیل القدر صحابہ کرام میں شمار ہوئے اور جب اسلام کی تڑپ اور طلب نہیں تھی تو ابو جہل اور ابولہب رشتہ کے اعتبار سے نبی کریم  ﷺ سے قریب تھے لیکن اسلام سے محروم رہے اور اسی طرح حضرت نوح کے بیٹے حضرت لوط کی بیوی اور حضرت ابراہیم ؑ کے والد آزر کو دیکھئے جن

کے لئے اللہ کی جانب سے راہ ہدایت ہموار نہیں ہو سکتی یہ بڑی عبرت کی بات ہے، لہٰذا تمام گفتگو کا خلاصہ یہی ہے کہ اسلام کے لئے چاہت طلب اور تڑپ کی ضرورت ہے تا کہ ایمان کی اصلی حرارت اور چاشنی ہمیں نصیب ہو جائے۔ سچ ہے   ؎
زباں سے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل 
دل وہ نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں 
    مولوی محمد یونس صاحب کی جدہ سے صنعاء (یمن)اور یمن سے ممبئی کی فلائٹ تھی،راقم سطورانھیں جدہ ائر پورٹ کے خارجی ٹرمنل پر الوداع کہہ رہا تھا اور سورہ بقرہ کی یہ آیت نگاہوں کے سامنے تھی کہ احکام الہٰی کی اطاعت و تعمیل ضروری ہے ورنہ اللہ کے غضب سے ہمیں کوئی بچا نہیں سکتا ’وَضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّ لَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُ وَ بَآ ءُ وْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ طذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰاتِ اللّٰہِ وَیَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ الْحَقِّ ط(سورہ بقرہ:۰۶)  اور جم گئی ان پر ذلت اور پستی اور مستحق ہو گئے غضب الہٰی کے اور یہ اس وجہ سے ہوا کہ وہ لوگ منکر ہو جاتے تھے احکام الہٰیہ کے اور قتل کردیا کرتے تھے پیغمبروں کو ناحق۔
    اللہ کرے اسلام کی اصلی تڑپ اور طلب ہم میں پید اہو جائے قبول اسلام کے اس واقعہ سے ہمیں یہی نتیجہ اخذکرنا چایئے کہ ہماری یہ زندگی اللہ کی دی گئی ایک امانت ہے اور اس کے ایک ایک لمحہ کا حساب دینا ہے،کیا یہی بہتر ہوگا اگر زندگی کے یہ لمحات خالق و مالک کائنات کے پیغام کو مخلوق تک پہنچانے میں کام آ جائیں،اللہ ہم سب کو اس کی توفیق دے،اور اپنے احکام کا پابند بنائے۔آمین
تقدیر کے پابند نباتات و جمادات 
مومن فقط احکام الہٰی کا ہے پابند 
مستفادازماہنامہ ’ارمغان‘نومبر۷۰۰۲؁ء

٭٭٭