سچی كہانی-سپيشل بچے

مصنف : محمد عبدہ

سلسلہ : جہد مسلسل

شمارہ : اپريل 2024

جہد مسلسل

سچی كہانی-سپيشل بچے

محمد عبدہ

میں اکثر ماریہ کے ساتھ ہونے والی نوک جھونک لکھتا رہتا ہوں اس کی بنیادی وجہ یہ بتانا ہے کہ پاکستانی معاشرے میں پائی جانے والی ذہنی بیماری کا سدباب کرنا ہے کہ ماریہ میرا امتحان ، آزمائش یا کمزوری نہیں بلکہ ماریہ میری ہمت، طاقت، انعام ، کرم اور جنت کی ٹکٹ ہے۔آپ کو ایک سچی کہانی سناتا ہوں جس میں ہمت نہ ہارنے کا درس ہے اور کچھ تلخ پہلو ہیں۔ آگے اسی کی زبانی سنیں۔

ایک خاتون سدرہ (فرضی نام) نے بتایا کہ میں بارہ سال کی تھی اور میرا چھوٹا بھائی نعمان (فرضی نام) اڑھائی سال کا تھا۔ بھائی سپیشل بچہ تھا (باریک سر والا، جسے دولے شاہ کا چوہا کہا جاتا ہے)۔ میری ماں نے زبردستی لڑ کر طلاق لے لی اور ہمیں باپ کے پاس چھوڑ کر دوسری شادی کرلی۔لوگوں نے کہا کہ دوسری شادی کرلیں مگر ابو نہ مانے کہ سگی ماں نے سپیشل بیٹے کی ذمہ داری لینے سے انکار کردیا تو کوئی دوسری عورت میرے بیٹے کو نہیں اپنائے گی۔ میں بھائی کو بیٹے کی طرح پالتی اور سنبھالتی رہی۔ ابو کاروبار بھی کرتے اور ہمیں بھی سنبھالتے تھے۔ اسی لئے 15 سال کی عمر میں میری شادی عرفان (فرضی نام) سے کردی جوکہ مجھ سے دس سال بڑے تھے۔ میں بیاہ کر اپنے گھر آ گئی اور ابو نعمان کی دیکھ بھال کرتے رہے۔ان کا کاروبار بالکل ختم ہوگیا اور جمع پونجی بھی نعمان کے علاج پر لگ گئی تو ابو ڈپریشن میں چلے گئے۔ اور نعمان کو ایدھی سینٹر پنڈی میں جمع کروا کر خود ایک اولڈ ہوم میں چلے گئے۔ چند ماہ بعد مجھے پتہ چلا تو میں ابو سے سخت لڑی اور انہیں اپنے گھر لے آئی۔ نعمان کو ایدھی سینٹر سے لینے گئے تو پتہ چلا وہ ادھر نہیں ہے، فارم پر انہوں نے نعمان کا نام اور والد کا نام بھی غلط لکھا ہوا تھا۔ ابو اور میاں نے نعمان کی تلاش شروع کردی اور پتہ چلا پنڈی والوں نے اسے ملتان ایدھی سینٹر بھیج دیا تھا وہاں کئی چکر لگائے اور انہوں نے بتایا ایسا کوئی بچہ یہاں نہیں آیا۔ پھر پتہ چلا پنڈی سے کچھ بچے آئے تھے جنہیں کراچی بھیج دیا گیا تھا۔ ہم کراچی چلے گئے اور تلاش کرتے ایدھی ویلج پہنچ گئے مگر انہوں نے معلومات دینے اور تلاش کرنے سے انکار کردیا۔مجبوراً ان کے خلاف پولیس میں شکایت کی اور پولیس کی مدد سے اندر گئے۔ پہلے تو وہ انکاری رہے پھر کہا گیا اپنا بچہ خود تلاش کرلیں۔ ابو بڑے بڑے ہال میں جاتے، جوکہ تاریک اور بدبودار ہوتے اور معذور بچوں سے بھرے ہوتے تھے۔ ایک ملازم نے بتایا تھا کہ آپ کے بتائے حلیہ کی طرح کا بچہ یہاں لایا گیا تھا۔ کئی دن کی تلاش کے بعد بھی نعمان نہ ملا۔ایک دن تلاش کے دوران آوازیں بھی دے رہے تھے کہ چادر میں لپٹے ہوئے ایک بچہ نے “جی ابو” کی آواز دی اور چار ماہ بعد نعمان مل گیا۔اس کی حالت دیکھ کر ہم کانپ اٹھے کہ نعمان بالکل ٹھیک بچہ تھا جو چلتا پھرتا اور خود کھاتا تھا۔ مگر چار ماہ میں گوشت ختم ہوگیا تھا اور ڈھانچہ بن چکا تھا، خود چل بھی نہیں سکتا تھا۔(سدرہ نے ایدھی سینٹر میں یتیم بچوں اور معذور بچوں کے ساتھ ہونے والی ایسی خوفناک باتیں بتائیں کہ دل کانپ اٹھتا ہے-)

ہم اسے گھر لے آئے اور اس کا علاج شروع کردیا۔ کچھ عرصہ بعد ابو وفات پاگئے۔ ننھیال تو پہلے ہی ختم ہوچکا تھا، ابو اکیلے تھے اس لیے دودھیال بھی نہیں ہے اور نعمان کی ذمہ داری کی وجہ سے چند ایک کے علاوہ زیادہ تر سسرالی بھی چھوڑ گئے۔ ہم اس دنیا میں اکیلے خاندان کی طرح ہیں۔میرے ابو بہت عظیم تھے جنہوں نے بیٹے کےلئے ساری زندگی لگا دی، اور میرے میاں عرفان بہت بہادر اور اعلیٰ ظرف والے ہیں نعمان کو اپنے بیٹے اور بھائی کی طرح پال رہے ہیں۔

نعمان اب 28 سال کا جوان ہوچکا ہے، کھانا پینا نہانا کمپیوٹر پر کھیلنا سمیت اپنے سب کام خود کرتا ہے، مجھے بہن کی بجائے ماں سمجھتا ہے اور میرا تو سب سے پیارا بیٹا ہے۔ اس کے علاوہ میری دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ بڑی بیٹی کا ایکسیڈنٹ ہوا اور سر کی بہت بڑی سرجری ہوچکی ہے، چھوٹی بیٹی کے دل کا مسئلہ ہے اور دو بار سرجری ہوچکی ہے۔

نعمان ہمارے گھر کا سب سے اہم قیمتی فرد اور رونق ہے۔ میرے میاں کہتے ہیں جو کچھ بھی ہے وہ نعمان کی خدمت کرنے کی وجہ سے ہے اور یہی ہمیں جنت میں لیکر جائے گا۔

یہ سب سن کر میں سمجھتا ہوں کہ ہم تو کچھ نہیں ہیں۔ اللہ نے پہاڑ جیسا حوصلہ رکھنے والے لوگ بھی پیدا کیے ہیں جو ایک دو نہیں تین اولاد کا دکھ درد دیکھ کر بھی ہمت نہیں ہارتے اور لوگوں کے طنز طعنے پر توجہ دینے کی بجائے اللہ کی تقسیم پر مطمئن اور شکرگزار ہیں۔

یاد رکھیں سپیشل بچے آزمائش نہیں بلکہ انعام ہیں جو روز قیامت ہمیں جنت میں لے جائیں گے۔ اور آزمائش تو وہ صحت مند اولاد ہے جن پر ہم آج فخر کرتے ہیں مگر روز قیامت ان کی وجہ سے پکڑ ہو جائے گی۔جنہیں ہم سپیشل بچے کہتے ہیں یہ اللہ کے خاص بندے ہیں۔ قیامت میں ان سے کوئی سوال جواب نہیں ہو گا، ان کو بغیر حساب کتاب جنت میں داخل کیا جائے گا اور دنیا میں ان کے خدمت کرنے والوں کو قیامت میں اللہ اپنے خاص کرم اور رحمت سے نوازے گا۔آپ بھی جنت کا ٹکٹ لینا چاہتے ہیں تو سپیشل بچوں سے پیار کیا کریں ان کی ذمہ داری لیں ان کی کفالت کریں۔