خدا كے ليے اسلامی تلاش الغزالی كی تہافت الفلاسفيہ

مصنف : سہيل زبيری

سلسلہ : علم و دانش

شمارہ : مارچ 2024

علم و دانش

خدا كے ليے اسلامی تلاش

الغزالی كی تہافت الفلاسفيہ

ڈاكٹرسہيل زبيری

الغزالی کی تہافت الفلاسفیہ (فلسفیوں کی بے ربطی) اسلامی تاریخ کی سب سے متنازع کتابوں میں سے ایک ہے۔ ایک طرف اسے فلسفیانہ ادب کا شاہکار اور دوسری طرف مسلمانوں میں فلسفیانہ روایات اور عقلی سوچ کو ختم کرنے والی کتاب کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ اس کتاب کی بنیاد پر، الغزالی کو متنازعہ طور پر ایک ایسے شخص کے طور پر جانا جاتا ہے جنہوں نے فلسفے کو رد کیا اور اس وجہ سے وہ مسلم معاشرے کے فکری زوال کے ذمہ دار ٹھہرے۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ کتاب الغزالی کی فلسفے سے نفرت کی نمائندگی کرتی ہے اور روایتی اشعری اسلام کے ساتھ اپنائیت کی ترغیب دیتی ہے۔ میرے خیال میں یہ انتہائی مبالغہ آمیز دعویٰ ہے۔

تہافت الفلاسفیہ کی بنیاد کیا ہے؟

کتاب کا بنیادی مقصد یہ بتانا ہے کہ الفارابی اور ابن سینا کی مابعد الطبیعیات کی بنیاد غیر سائنسی ہے۔ الغزالی اپنے منطقی دلائل کے ذریعے ان فلسفیوں کے دلائل کو مسترد کرتے ہیں۔الغزالی کا مقصد مسلم فلسفیوں کی فلسفیانہ تعلیمات کو جھوٹا ثابت کرنا نہیں ہے۔ ان کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ ان فلسفیوں نے اپنے نظریات کی حمایت میں جو دلائل پیش کیے وہ کمزور تھے۔ اس طور مسلم فلسفیوں نے جو نتائج اخذ کیے وہ درست تو ہو سکتے ہیں، لیکن جس منطق اور استدلال کا انہوں نے استعمال کیا، وہ درست نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر، الغزالی نے اس ثبوت کو جھٹلایا کہ خدا ایک ہے اور اس کا جسم نہیں ہو سکتا۔ ان کے نزدیک یہ نتیجہ تو درست ہے لیکن اس بات کو ثابت کرنے کے لیے فلسفیوں نے جو دلائل پیش کیے وہ غلط ہیں۔ الغزالی نے کسی بھی تعلیمات کی درستگی کے لیے ایک اور معیار مقرر کیا، اور وہ یہ کہ ان کو قرآن کے لفظی معنی سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ الغزالی نے یونانی فلسفے کو رد کیا اور ارسطو اور اس کی تعلیمات کی مخالفت کی۔ یہ بات درست نہیں ہے۔ تہافت الفلاسفیہ سے، ان کا مطلب فلسفیانہ تعلیمات کا صاف انکار نہیں تھا۔ الغزالی نے فلسفے کے خلاف نہیں بلکہ فلسفیوں کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کیا۔ ان کے عمومی موقف کو اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ مذہب کے بعض حقائق کی سچائی نہ تو ثابت ہو سکتی ہے اور نہ ہی اسے غلط ثابت کیا جا سکتا ہے، لیکن فلسفی عموماً اپنے نظریات کو درست ثابت کرنے کے لیے غیر عقلی دلائل دیتے ہیں۔الغزالی کی رائے میں، فلسفیوں نے مابعدالطبیعات اور مذہب کے مسائل کو حل کرنے کے لیے وہی طریقے استعمال کیے جو انہوں نے ریاضی اور منطق میں استعمال کیے تھے۔ یہاں تک کہ ارسطو نے بھی کبھی یہ سوال نہیں پوچھا کہ کیا مابعد الطبیعیات اور ریاضی کے طریقوں میں کوئی فرق ہے اور یہ کیوں ہے کہ خدا کے وجود سے متعلق معاملات میں جو نتائج اخذ کیے گئے ہیں وہ ریاضی میں اخذ کردہ نتائج کے مقابلے میں کمزور تھے۔ الغزالی نے دینی معاملات میں الفارابی اور ابن سینا کے دلائل کو ضعیف قرار دیا۔ ان کے مطابق، سائنس بعض شعبوں میں معقول نتائج تو دے سکتی ہے لیکن یہ مذہب اور مابعدالطبیعات کے معاملات میں قابل اعتماد جواب نہیں دیتی۔الغزالی کی کتاب تہافت الفلاسفیہ 20 ابواب پر مشتمل ہے، ہر باب فلسفیوں کی کچھ مخصوص تعلیمات کا جواب ہے۔ ان میں سے سولہ مابعد الطبیعات سے ہیں اور چار طبیعات سے متعلق ہیں۔ ان بیس تفصیلی بحثوں میں، الغزالی نے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مذہبی معاملات میں الفارابی اور ابن سینا نے جو نتائج اخذ کیے ہیں، ان کی تائید میں دیے گئے دلائل مظاہرے (برہان) کے اعلیٰ معیار پر پورا نہیں اترتے۔ اس کی بجائے، وہ ان غیر ثابت شدہ بنیادوں پر مبنی ہیں جن کی عقلی بنیاد پر حمایت نہیں کی جا سکتی۔تہافت الفلاسفیہ میں زیر بحث 20 موقف میں سے، الغزالی نے ان میں سے 17 کے فلسفیانہ دلائل کو رد کیا لیکن نتائج سے اتفاق کیا۔ مثال کے طور پر، وہ جنت میں روحوں کے دلائل اور آخرت میں روحوں کی پاکیزگی پر تنقید کرتے ہیں لیکن انہیں قرآنی تعلیمات کے مطابق قرار دیتے ہیں۔ وہ ان میں سے صرف تین کو اسلامی تعلیمات کے خلاف بیان کرتے ہیں۔

· کائنات کی کوئی ابتدا نہیں ہے اور یہ ہمیشہ سے موجود ہے،
· خدا کو اپنی مخلوق اور ان کے حالات کا علم نہیں ہے، اور
· آخرت کی سزائیں صرف روحانی ہیں جسمانی طور پر نہیں۔
تہافت الفلاسفیہ میں ابواب کے عنوانات کا نمونہ درج ذیل ہے :
· دنیا کی ابدیت کے بارے میں فلسفیوں کے عقیدے کی تردید۔
· دنیا کی لازوال فطرت کے بارے میں ان کے عقیدے کی تردید۔
· الہی صفات کے بارے میں ان کے انکار کی تردید۔
· خالق کے وجود کو ثابت کرنے میں فلسفیوں کی نا اہلی۔
· دو معبودوں کے وجود کے ناممکن کو ثابت کرنے میں فلسفیوں کی نا اہلی۔
· خدا کی صفات کے وجود سے انکار کا فلسفی کا نظریہ۔

جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے، تہافت الفلاسفیہ میں جن اہم فلسفیوں پر تنقید کی گئی ہے وہ الفارابی اور ابن سینا ہیں۔ اس کتاب کی دلچسپ بات یہ ہے فلسفیانہ دلائل کو تفصیلی فلسفیانہ استدلال کے ذریعے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

تہافت الفلاسفیہ میں زیر بحث پہلا مسئلہ ابن سینا کے اس ثبوت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ دنیا ابدی ہے۔ الغزالی نے دنیا کی ابدیت کے انکار کے حق میں تفصیلی دلائل پیش کیے ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ اس سوال کو حل کرنے میں صرف کیا۔ الغزالی کی کتاب کا بیشتر حصہ کافی مشکل اور مبہم ہے۔ یہاں میں ان کے دلائل کی ایک مثال پیش کرتا ہوں جس کو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ مثال ان کے نقطہ نظر کو سمجھنے کے لیے ایک نمونہ کے طور پر کام کرتی ہے۔

یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ دنیا ابدی نہیں ہے، الغزالی کی دلیل کچھ اس طرح ہے :

وہ زمین کے گرد سیاروں زحل، مشتری اور سورج کی حرکت پر غور کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ الغزالی اس وقت رہتے تھے جب ہر کوئی سیاروں کے نظام کے جیو سینٹرک ماڈل پر یقین رکھتا تھا جس میں زمین ساکن تھی اور تمام سیارے، سورج اور چاند، زمین کے گرد گھومتے تھے۔اگر کائنات ابدی ہے تو زمین کے گرد زحل، مشتری اور سورج کی لامحدود گردشیں ہونی چاہئیں۔ یہ کروی اشیا مختلف شرحوں پر (زمین کے گرد) گھومتی ہیں۔ مثال کے طور پر سورج ایک سال میں ایک چکر مکمل کرتا ہے جبکہ زحل تیس سال میں ایک چکر مکمل کرتا ہے اور مشتری بارہ سال میں ایک چکر مکمل کرتا ہے۔ اس لیے زحل کے چکر سورج کے چکروں کا تیسواں حصہ ہیں اور مشتری کے چکروں کی تعداد سورج کی گردشوں کا بارہواں حصہ ہے۔پھر الغزالی نے استدلال کیا کہ اگر کائنات ابدی ہے اور تمام سیارے زمین کے گرد لامحدود طویل عرصے سے گردش کر رہے ہیں، تو زحل اور مشتری دونوں کو یکساں گردشیں، یعنی لامحدود تعداد، مکمل کرنی چاہئیں، ۔ تاہم، ہر چکر کے بعد ، زحل مشتری سے پیچھے رہ جاتا ہے۔ لہذا، ایک لامحدود وقت میں، زحل مشتری کے مقابلے میں لامحدود کم تعداد میں گردشیں مکمل کرے گا۔ یہ ایک تضاد ہے۔ زحل اور مشتری، جن کو یکساں (لامحدود) تعداد میں چکر مکمل کرنا چاہیے، لامحدود مختلف تعداد میں چکر کیسے مکمل کر سکتے ہیں؟الغزالی کے نزدیک یہ اس نتیجے کو غلط ثابت کرتا ہے کہ کائنات ابدی ہے۔

یہ مثال واضح کرتی ہے کہ کس طرح الغزالی نے ابن سینا اور دیگر کے فلسفیانہ دلائل کا مقابلہ کرنے کے لیے فلسفے ہی کے نظریات کو استعمال کیا۔ بارہویں صدی کی ریاضی کے نقطہ نظر سے یہ دلیل الکندی کے خدا کے ثبوت کی طرح درست ہے۔

شاید تہافت الفلاسفیہ کا سب سے زیادہ زیر بحث باب 17 ہے جہاں وہ اسباب اور ان کے اثرات کے سوال پر بحث کرتے ہیں جو اشعری کے فلسفہ میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ اس باب کا عنوان ہے

” ان کے اس یقین کی تردید کہ واقعات کا قدرتی دھارے سے خارج ہونا ناممکن ہے“ ۔

الغزالی کا موقف وہی ہے جو پچھلے مضمون میں بیان کیا گیا تھا جہاں خدا کی مرضی اور کائنات میں نظر آنے والے سبب اور اثرات کے مابین روابط کو پانی کی گھڑی کی مثال کے ذریعے واضح کیا گیا ہے۔

میں یہاں تہافت الفلاسفیہ سے چند اقتباسات پیش کرتا ہوں جو کائنات کے معاملات میں خدا کے کردار کے بارے میں الغزالی کے موقف کو واضح کرنے میں معاون ہیں۔

الغزالی کے باب 17 کے ابتدائی کلمات درج ذیل ہیں :

”مثال کے طور پر کوئی دو چیزیں لے لیں، جیسے پینا اور پیاس بجھانا ؛ بھوک اور کھانے کی تسکین؛ آگ سے رابطہ اور جلنا ؛ سورج کا طلوع ہونا اور روشنی ؛ تن سے سر کا جدا ہونا اور موت ؛ دوا کا استعمال اور شفا یابی ؛ آنتوں کا ڈھیلا ہونا اور تعفن کا استعمال، یا دیگر واقعات کا مجموعہ جو طب، یا فلکیات، یا آرٹس، یا کرافٹس میں ایک ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ وہ خدا کے اس فرمان کے نتیجے میں جڑے ہوئے ہیں جو ان کے وجود سے پہلے سے موجود تھا۔ اگر ایک عمل دوسرے عمل کی پیروی کرتا ہے، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے انہیں اس انداز میں پیدا کیا ہے، اس لیے نہیں کہ یہ تعلق بذات خود ضروری اور ناقابل تحلیل ہے۔ وہ یہ طاقت رکھتا ہے کہ بغیر کھائے بھوک کی تسکین پیدا کر دے، یا سر کٹے بغیر موت، یا سر کٹ جانے کے بعد بھی زندگی عطا کر دے“ ۔

یہاں میں الغزالی کی ایک مثال کا ذکر کرتا ہوں جہاں وہ ان فلسفیوں سے بحث کرتے ہیں جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ واقعات کا فطری دھارے سے باہر ہونا ناممکن ہے۔

”ہم دیکھتے ہیں کہ اگر ایک شخص اپنے آپ کو asbestos سے ڈھانپتا ہے اور پھر وہ بھڑکتی ہوئی بھٹی میں بیٹھ جاتا ہے، آگ اس پر اثر انداز نہیں ہو گی۔ جس شخص نے کبھی ایسی چیز نہیں دیکھی وہ اس کا انکار کرے گا۔ لہذا ہمارے مخالفین جو خدا کی قدرت میں یقین نہیں رکھتے، اس بات کے انکاری ہوں گے کہ کسی شخص کے جسم میں کوئی ایسی خصوصیت ہو سکتی ہے جس کی وجہ سے آگ اسے جلنے سے روکتی ہے۔ یہ اس شخص کے انکار کے مترادف ہے جس نے asbestos اور اس کے اثرات کو کبھی نہیں دیکھا۔ جو چیزیں خدا کی قدرت کے دائرے میں آتی ہیں ان میں پراسرار اور حیرت انگیز حقائق بھی شامل ہیں۔ ہم نے ان تمام اسرار و رموز کا مشاہدہ نہیں کیا۔ تو پھر ہماری طرف سے ان کے امکان سے انکار کرنا، یا ان کے ناممکن ہونے پر اصرار کرنا کیونکر مناسب ہو سکتا ہے؟“

وہ ایک اور مثال پیش کرتے ہیں جہاں وہ مشاہدہ شدہ مظاہر کی تشریح میں انسانی حدود کی نشاندہی کرتے ہیں۔

”فرض کریں کہ ایک شخص اندھا ہے جس کی آنکھیں بیماری کی وجہ سے خراب ہیں۔ اس نے کبھی کسی سے رات اور دن کے فرق کے بارے میں نہیں سنا۔ فرض کریں کہ ایک دن اس کی بیماری ٹھیک ہو جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں وہ رنگوں کو دیکھنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ وہ نتیجہ اخذ کرے گا کہ رنگوں کے ادراک کا سبب اس کی آنکھیں ہیں۔ جب اس نے آنکھیں کھولیں، اس کو مختلف رنگ نظر آئے۔ یہ بات قطعی طور پر غلط نہیں ہو گی، کیونکہ اس کی آنکھیں جب تندرست ہو گئیں، اور وہ دیکھنے کے قابل ہوا اور اسے رنگ نظر آنے لگے۔ اس طور اس شخص کے لیے یہ نتیجہ اخذ کرنا قدرتی ہو گا کہ رنگوں کا سبب اس کی آنکھیں ہیں۔ لیکن جب سورج غروب ہو جائے گا اور فضا تاریک ہو جائے گی تو اس پر یہ انکشاف ہو گا کہ رنگوں کا سبب تو درحقیقت سورج کی روشنی ہے“ ۔

یہ مثالیں فلسفیانہ سوالات کے بارے میں الغزالی کے منطقی رویے کو بخوبی ظاہر کرتی ہیں۔ تہافت الفلاسفیہ میں ان کا فلسفیوں کے دلائل کو رد کرنا غیر منصفانہ محسوس نہیں ہوتا۔ وہ بالکل اسی نوعیت کے فلسفیانہ دلائل کو اپناتے ہیں جو الفارابی اور ابن سینا نے اپنے اپنے نتائج تک پہنچنے کے لیے اپنائے تھے۔

الغزالی کو یہ بڑا مسئلہ درپیش تھا کہ وہ فلسفیانہ دلائل کے ذریعے العشریت کے ساتھ ساتھ بنیاد پرستوں کے موقف کو بھی درست ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس کوشش نے ان کی میراث کو بہت متنازعہ بنا دیا۔ ان کی اشعری خیالات کی حمایت نے ایک عام تاثر کو جنم دیا کہ وہ عقلی سوچ اور فلسفے کے خلاف تھے۔ حالانکہ یہ واضح رہے کہ ان کا موقف ان فلسفیوں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھا جن پر وہ تہافت الفلاسفیہ میں تنقید کر رہے تھے۔ الکندی، الفارابی، ابن سینا اور دیگر بھی ایک خدا پر یقین رکھتے تھے جو کائنات میں ہونے والی ہر چیز کا سرچشمہ ہے۔ ان میں سے اکثر فلسفہ اور الٰہی پیغام کے درمیان ٹکراؤ کی صورت میں قرآن کی بالادستی پر یقین رکھتے تھے۔جس چیز نے اسلامی دنیا میں فلسفیانہ اور سائنسی سوچ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، اس کا تذکرہ میں آئندہ مضامین میں پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔اسلامی دنیا کے اگلے اور آخری بڑے فلسفی ابن رشد تھے جنہوں نے مسلم افکار سے کہیں زیادہ عیسائی یورپ کو متاثر کیا۔ انہوں نے یورپ میں عقلی نقطہ نظر کو متعارف کرانے میں ایک اہم اور کلیدی کردار ادا کیا، ایک ایسا نقطہ نظر جو ان کے ساتھ ہی اسلامی دنیا میں دم توڑ گيا۔