من الظلمت الی النور

مصنف : رویند ر ملک (محمد حسن ملک)

سلسلہ : من الظلمٰت الی النور

شمارہ : اپریل 2019

من الظلمت الی النور
میں نے اسلام کیسے قبول کیا؟
رویند ر ملک (محمد حسن ملک)

                                                                                               سوال آپ براہ کرم پہلے اپنا تعارف کرایئے؟
جواب :سب سے سچا تعارف تو وہ ہے جو قرآن نے کرایا ہے سڑی ہوئی مٹی سے بنایا گیا، ناپاک بوندسے بنا ہوا انسان ہوں۔ ستائیسویں پارہ میں پڑھ رہاتھا اللہ نے کیسی بات کہی کہ اللہ تعالیٰ تمھیں تمہاری ماں کے پیٹوں میں سے جانتے ہیں کیوں اپنی پاکی بگھارتے ہو ،ماں کے پیٹ میں ہم ماہواری کا خون پی کر پلے ہیں کل مر کر سڑ کر مٹی میں جائیں گے اور دو کلو پاخانہ پیٹ میں ہے پسینہ میں بدبو ،پاخانہ میں بدبو ،پیشاب میں سڑانداور دو روز منھ صاف نہ کریں تو منہ میں پاخانہ کی سی بدبو بس یہ ہے ایک گندے انسان کا تعارف،اس پر ہر ایک یہ سمجھتا ہے کہ میں یہ ہوں وہ ہوں ۔
سوال :یہ تو بہت حکیما نہ تعارف ہے میں اصل میں خاندانی تعارف کی بات کر رہا ہوں؟
جواب :میں ضلع میرٹھ کے ایک گاؤں کے جاٹ خاندان میں ۲؍اکتوبر ۱۹۵۴ ؁ء کو پیدا ہوا ، میرے پتاجی ایک کسان ہونے کے ساتھ ایک سرکاری ملازم بھی تھے۔ میرے تایا ڈی ایس پی سے ریٹائر ہوئے ہیں میرے پھوپھا بھی پولیس میں تھے۔ میں نے انٹرمیڈیٹ اور گریجویشن بڑوت سے کیا ،پولیس میں انسپکٹر کی ملازمت مل گئی ۔ پانچ سال پہلے میرا پرموشن ہوا اور پولیس انسپکٹر ہو گیا۔ کچھ روز سہارن پور میں رہا دو سال مظفر نگر اور میرٹھ میں رہا اس دوران کئی بار مظفر نگر آتا جاتا رہا ،جولائی کے شروع تک مظفر نگر سی آئی ڈی میں تھا ایک مہینہ پہلے مرادآباد ٹرانسفر ہوا اور اب پرموشن ہو کر لکھنؤ جانا ہو رہا ہے دو روٹیوں کے لئے جو اللہ نے مقدر میں پہلے سے لکھ رکھی ہیں کس قدر دھکے کھا نے پڑ رہے ہیں ،کبھی کبھی تو دل بہت دکھی ہو جاتا ہے۔
سوال :اپنے قبول اسلام کے بارے میں بتایئے؟ 
جواب :آپ کے علم میں ہے کہ مئی کے مہینہ میں کاندھلہ میں دعوتی ٹریننگ کیمپ حضرت نے لگوایا تھا جو ایک ہفتہ چلا تھا ۔
سوال :ہاں اصل میں وہ تین مہینے کا کیمپ دہلی میں لگا تھا اس کا ایک ہفتہ کا کیمپ کاندھلہ میں پریکٹیکل کے طور پر لگا یا گیا تھا ؟
جواب :جی ہاں اسی کیمپ کی بات ہے اصل میں کیمپ سے پہلے کاندھلہ کے حالات اچھے نہیں تھے دو روز پہلے ایک مسلمان نے ایک ہندو کو قتل کر دیا تھا ،اس کے علاوہ ایک لڑکی کے معاملہ میں ہندو مسلم تناؤ چل رہا تھا دو لڑکوں نے ایک ایک کر کے اسلام قبول کیا تھا اور وہ گاؤں سے چلے گئے تھے۔ ان کے گھر والوں نے ہندو تنظیموں کو ساتھ لے کر مسلمانوں کے خلاف مظاہرہ کیا تھا ،ایسے میں دعوتی ٹریننگ کیمپ لگا ،اصل میں وہ ماحول بظاہر کیمپ کے لئے مناسب نہیں تھا ،مگر کیمپ پروگرام کے تحت پہلے سے طئے تھا۔ بعض ذمہ داروں نے منع بھی کیا مگر حضرت نے کہا کہ مخالف حالات میں کیمپ کا فائدہ زیادہ ہوتا ہے تا کہ معلوم ہو جائے کہ حق دینے والوں اور محبت کا پیغام دینے والے خیر خواہوں کے لئے کوئی مشکل نہیں ہوتی۔ پہلے روز جب کام کرنے والے فیلڈ ورک کے لئے (غیر مسلم بھائیوں کو دعوت دینے کے لئے )گئے تو شرپسندوں میں اشتعال ہوا۔اگلے روز ’دینک جاگرن ‘میں خبر چھپی کہ سعودی عرب سے لوگ آئے ہیں اور وہ دھرم کا پرچار کرکے ماحو ل خراب کر رہے ہیں اور آپتّی جنک (قابل اعتراض )کتابیں بانٹ رہے ہیں ۔اس سے لوگوں میں شور مچا مسلمان بھی ڈرے کاندھلہ کے ایک ذمہ دار سرپرست نے حضرت صاحب اور ان کے لوگوں سے کہا کہ فی الحال یہ کیمپ بند کردیں۔ کاندھلہ تھانہ کے انچارج نے بھی مولوی اسامہ کاندھلوی جو مقامی کیمپ کے میزبان اور ذمہ دار تھے ،سے زور دے کر اس وقت اس کیمپ کو بند کرنے کو کہا حضرت مولانا سے فون پر مشورہ ہوا اور خیال تھا کہ کیمپ کیرانہ یا شاملی لگا لیا جائے مگر حضرت نے کہا کہ آپ داروغہ سے کہئے کہ یہ ہمارا قانونی حق ہے اور کوئی واقعہ ناخوشگوار ہوگا تب آپ کہنا مولانا اُویس نانوتوی جو کیمپ کے ذمہ دار تھے وہ تھانہ انچارج سے ملے اور ان کو مطمئن کر دیا مگر مقامی لوگوں میں خوف تھا۔ ایک ذمہ دار تو کاندھلہ چھوڑکر چلے گئے کہ فسادو غیرہ نہ ہو جائے ۔اخبار کی خبرپر مجھے اور میرے ایک ساتھی کو انکوائری کے لئے کاندھلہ بھیجا گیا۔ ہم لوگ پہلے کاندھلہ تھانہ پہنچے ،اس کے بعد ہم لوگ ایک پولیس والے کے ساتھ جامع مسجد پہنچے وہاں پر لوگوں نے بتایا کہ ذمہ دار کہیں گئے ہوئے ہیں ہم لوگوں نے کہا آ جائیں تو ان کو بھیج دیں۔ ہم لوگ مسجد سے جا رہے تھے کہ راستہ میں دو مولانا ملے ایک مولانا اسامہ جو مقامی طور پر میزبان تھے اور ایک مولوی اویس جو کیمپ کے امیر تھے ۔دونوں نے ہمیں روکا ہم لوگ تھانہ میں آپ سے ملنے گئے تھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے ۔ مولوی اسامہ کے گھر پر سب لوگ بیٹھ گئے اور مولوی اویس نے ہم سے کہا کہ ہم آپ ایک ماں باپ کی اولاد خونی رشتہ کے بھائی ہیں مرنے کے بعد ہمیشہ کی زندگی ہے جس مالک نے ہمیں پیدا کیا وہ ہمارا آپ کا اکیلا مالک ہے۔ اس نے اس زندگی میں کچھ ذمہ دار یاں ہمیں سونپی ہیں اس کے لئے ہمیں معلوم ہوا تھا کہ آپ مظفر نگر سے آئے ہوئے ہیں اس لئے ہم آپ سے مرنے کے بعد کی زندگی کیلئے کچھ باتیں کرنا چاہتے ہیں۔ اس لئے ہم تھانہ گئے تھے اس کے بعد قرآن پڑھ کر اللہ کے ایک ہونے اور مرنے کے بعد کے حساب کتاب کے بارے میں بتاتے رہے۔ مولانا صاحب عربی میں قرآن پڑھتے تھے تو دل پر عجیب اثر ہوتا تھا ، انھوں نے ہمیں مرنے کے بعد کی آگ سے بچنے کے لئے کلمہ پڑھنے اور مسلمان ہونے کو کہا اور ہمیں حضرت صاحب کی کتاب ’’آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘دی۔ میں نے یہ کتاب لی ،دیکھی میں نے کہا یہ تو وہ کتاب ہے جو پھلت والوں کی لکھی ہوئی ہے سب نے کہا کہ ہاں یہ پھلت والے حضرت کی لکھی ہوئی کتاب ہے ۔میں نے کہا یہ وہ کتاب ہے جس کی پشٹی(تصدیق) مہاراشٹر میں ہو چکی ہے ،انھوں نے کہا ہاں یہ وہی کتاب ہے۔ ہم لوگ پھلت والے صاحب کی طرف سے ہی آئے ہیں ،میں نے کہا جو سعودی عرب سے لوگ آئے ہوئے ہیں اور آپتی جنک (قابل اعتراض )کتابیں بانٹ رہے ہیں وہ کون ہیں ؟ مولانا اویس نے کہاکوئی سعودی عرب سے نہیں آیا وہ ہم لوگ ہی ہیں اور ہم بس یہ کام کر رہے ہیں جس کے لئے آپ سے ملنا چاہتے تھے اور یہی وہ کتاب ہے جو لوگوں کو پیش کر رہے ہیں ،ان کی محبت بھری اور خیر خواہی کی باتوں سے ہم دونوں بہت متاثر ہوئے ۔ہم نے کہا اب ہم دینک جاگرن اخبار کے نمائندہ کے پاس جائیں گے اس کا آبھار ویکت (شکریہ ادا ) کریں گے ایک مٹھائی کا ڈبہ اس کے لئے لے جائیں گے کہ نہ وہ خبر چھاپتے نہ ایسے اچھے لوگوں سے ملاقات ہوتی اور ایسی اچھی باتیں سننے کو ملتیں اور نہ یہ کتاب ملتی ۔
سوال :اویس بھائی نے آپ کو کلمہ پڑھنے کے لئے کہا ہوگا ،آپ نے کلمہ نہیں پڑھا ؟
جواب :نہیں!میں نے ان سے کچھ مہلت دینے کے لئے کہا اور کہا میں اس کتاب کو پڑھوں گا اور دوبار پڑھوں گا پھر آپ سے ملوں گا۔
سوال :اس کے بعد کیا ہوا ،آگے بتایئے؟
جواب :ایک انکوائری بڈھانہ کی اور تھی ،ہم لوگ بڈھانہ ہو کر مظفرنگر آ گئے۔ رات میں میں نے ’آپ کی امانت ‘پڑھی ،اس کتاب نے دل اور دماغ کے جالے جھاڑ دیئے،اسلام کے لئے دل میں جگہ ہو گئی میرے ایک دوست ڈاکٹر قمرجن سے ایک سال پہلے ایک کیس کے سلسلہ میں تعلقات تھے،میں نے ان سے اسلام پر کچھ اور کتابیں دینے کے لئے کہا ۔ انھوں نے کہااچھا ہے ہم لوگ پھلت چلیں ،وہاں پر ہمیں صحیح گائڈینس ملے گی ۔ایک اتوار کو ہم لوگ پھلت گئے مگر مولانا صاحب نہیں ملے مگر وہاں سے ہمیں کتابیں مل گئیں ’’اسلام ایک پریچے ‘‘مرنے کے بعد کیا ہوگا؟‘‘ اور ’’قرآن مجید ‘‘ہندی انواد (ترجمہ)ہم لیکر آئے ان کتابوں کو خاص طور پر جیسے جیسے میں نے قرآن مجید پڑھا اسلام میری پسند بن گیا ۔ مگر پورے سماج سے ٹکر لینا میرے لئے یہ بڑی مشکل تھی ،اس لئے میں ہمت نہیں کر پا رہا تھا اس دور ان میرا ٹرانسفر مرادآباد ہو گیا ۔مگر بچوں کی پڑھائی کی وجہ سے ابھی گھر شفٹ نہیں کیا تھا ،اسکول میں ایک فنکشن تھا اس کی وجہ سے دو دن کی چھٹی لے کر مظفر نگر آیا ہوا تھا۔ ابھی رمضان سے چا ردن پہلے کی بات ہے میں قرآن پڑھ کر سویا تو میں نے خواب دیکھا ایک حضرت صاحب ایک مسجد میں ہیں ،بہت خوب صورت پرکاش (نور) کا چاند ی کی طرح ان کا گھیرا بنا ہوا ہے سفید پگڑی میرے سر پر ہاتھ رکھا اور بولے بیٹا تم نے اسلام کو سمجھ لیا ہے؟میں نے کہا :اجی !اسلام تو بالکل میری سمجھ میں آ گیا ہے انھوں نے کہا تم نے آپ کی امانت نہیں پڑھی ؟میں نے کہا جی پڑھی ہے انھوں نے کہا سمجھ میں آ گئی؟ میں نے کہا جی بالکل سمجھ میں آگئی انہوں نے کہا جب سمجھ میں آگئی تو اسلام کیوں نہیں قبول کرتا؟دیر کرنے میں نقصان اٹھا ؤگے جلدی کرو ،آپ کی امانت ایک بار اور پڑھو، میں وہاں سے واپس ہوا تو ہمارے ڈاکٹر قمر صاحب ملے ،بولے ملاقات ہو گئی میں نے پوچھا کس سے؟انھوں نے کہا ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ سے ،میں نے جو باتیں ہوئی تھیں ڈاکٹر صاحب سے بتائیں ،ڈاکٹر صاحب نے کہا واقعی بات جو انھوں نے کہی ہے اس سے زیادہ اور کس کی بات سچی ہو سکتی ہے وہ سارے سچوں کے سچے ہیں وہ ایسے سچے ہیں کہ جان کے اور ایمان کے دشمن ان کو سچا ،ایمان دار کہہ کر پکار تے تھے ،آنکھ کھل گئی صبح کے تین بجے تھے ۔میں نے چاہا کہ کروٹ بدل کر سوجاؤں مگر نیند نہ آئی گھر میں بچے سو رہے تھے ، میں باتھ روم گیا ،نہایا اور ڈرائنگ روم میں جاکر ’آپ کی امانت ‘ایک بار پڑھی ، صبح ارادہ کیا مجھے پھلت جانا چاہئے ،موٹر سائیکل اٹھائی ڈاکٹر قمر صاحب کے یہاں گیا اتفاق سے وہ منگلور گئے ہوئے تھے ،صبح مجھے بچوں کے اسکول میں فنکشن میں شریک ہونے جانا تھا ڈاکٹر سریندر صاحب ایک انگلش میڈیم اسکول چلا تے ہیں ،CBSEبورڈ کا معیاری اسکول ہے کئی سائنس اکزی بیشن بھی انھوں نے لگائی ہیں ،ان کو حکومت یوپی نے ایوارڈ بھی دیئے ہیں ،میں اسکو ل پہنچا میرے سی آئی ڈی میں ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب میرا خیال رکھتے ہیں ،پروگرام کے بعد ان سے ملاقات ہوئی میرے ہاتھ میں ’آپ کی امانت ‘تھی دیکھ کر بولے یہ کتاب آپ کو کہاں سے ملی ؟یہ تو ہمارے حضرت صاحب پھلت والوں کی کتاب ہے میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا آپ ان کو جانتے ہیں ؟ ڈاکٹر صاحب نے کہا میرے اسکول کا افتتاح انھوں نے کیا تھا ایک ملا جی ہمارے دوست ہیں وہ مجھے پھلت لے کر گئے تھے وہ بڑی محبت کے آدمی ہیں مجھے بھی یہ کتاب دی تھی ،ان کے آشیرواد کی وجہ سے میرا اسکول اتنی ترقی کر رہا ہے ،میرے یہاں اسکول میں وہ تین بار آ چکے ہیں، وہ سائنس کے بہت اچھے اسٹوڈنٹ رہ چکے ہیں ۔میں نے کہا ڈاکٹر صاحب آپ نے یہ کتاب پڑھی ہے انھوں نے کہا پڑھی ہے،میں نے کہا پھر سمجھ میں کچھ بات آئی ،انھوں نے کہا یہ کتاب ایسی ہے کہ پڑھنے والا یہ کہہ ہی نہیں سکتا کہ یہ کتاب سمجھ میں نہیں آئی ۔میں نے کہا پھر آپ نے کیا فیصلہ کیا ؟ ڈاکٹر صاحب نے کہا فیصلہ تو لینا ہی پڑے گا مگر سماج سے لڑنے ہمت نہیں ہوتی ،کبھی کبھی رات کو بے چینی ہوتی ہے کہ اگر آج موت ہو گئی تو ایمان کے بغیر نرک (دوزخ)میں نہ چلا جاؤں ۔سوچتا ہو ں کہ صبح کو پھلت جاکر دین لوں گا مگر صبح کو ہمت نہیں ہو پاتی ایک ہفتہ سے تو تین بار حضرت خواب میں آئے ہیں اور کہتے ہیں ڈاکٹر صاحب ہماری محبت کو ٹھکرا کر مکتی (نجات )نہیں ملے گی ۔پرسوں کہہ رہے تھے کہ ڈاکٹر صاحب مسلمان تو ہونا ہی پڑے گا ،میں نے اپنا حال ڈاکٹر صاحب سے بتایا اور کہا چلودونوں چلتے ہیں ۔ڈاکٹر صاحب نے کہا حضرت کا ملنا تو مشکل ہے میں نے کہا ڈاکٹرقمر صاحب سے کہہ کر وقت طئے کر لیتے ہیں ،مجھے بڑا اطمینان ہوا کہ ایک ساتھی اس مشکل اور ضروری سفر کے لئے ساتھ میں ملا ۔ڈاکٹر قمر صاحب کو فون کیا انھوں نے اگلے اتوار کا وقت طئے کیا میں مرادآباد چلا گیا ،اتوار تک کا وقت میرے لئے مشکل سے گزرا، بار باریہ ڈر ہوتا تھا کہ ہمارے نبی ﷺ نے فرمایا تھا کہ دیر کروگے تو نقصان اٹھاؤگے کہیں کچھ ہو نہ جائے خدا خدا کرکے ہفتہ آیا ،میں ہفتہ کی شام کو مرادآباد سے مظفر نگر آیا ،پھر پچھلے اتوار کو میں ڈاکٹر سریندر اور ڈاکٹر قمر صبح نو بجے پھلت پہنچے وہا ں لوگوں نے بتایا کہ صبح دس بجے حضرت مسجد جائیں گے تب ملاقات ہوگی مجھے چونکہ اپنے لکھنؤ ٹرانسفر کی خبر مل گئی تھی ،اس لئے اسی دن مرادآباد لوٹنا چاہتا تھا اس لئے جلدی تھی میں نے ایک بچے سے گھر میں کہلوایا کہ مظفر نگر سے سی آئی ڈی والے آئے ہیں آپ سے ضروری کام کے لئے ملنا چاہتے ہیں حضرت صاحب نے کہلوایا کہ بیٹھیں پانی بھجوایا اور کہلوایا کہ نماز پڑھ کر آتے ہیں،حضرت صاحب آئے تو میں نے کہا معاف کیجئے ہمیں جلدی تھی اس لئے کہلوادیا کہ سی آئی ڈی والے آئے ہیں ہوں تو میں سی آئی ڈی انسپکٹر مگر میں آیا ہوں اپنے مطلب کو حضرت صاحب نے کہا میں تو اس لئے جلدی آیا ہوں کہ آپ ہمارے مہمان ہیں کسی مجبوری میں جلدی ہوگی ،آپ اگر کسی سرکار کے سی آئی ڈی ہیں تو مالک کا کرم ہے کہ ہم بھی ایک مضبوط اور بڑی سرکار کے سفیر اور افسر ہیں ،ڈاکٹر قمر صاحب کو حضرت خوب جانتے تھے ڈاکٹر سریندر کو بھی پہچانتے تھے ،اسکول اور گھر کی خیر خیریت لی ڈاکٹر قمر صاحب نے بتایا کہ یہ رویندر ملک سی آئی ڈی کے انسپکٹر ہیں اور یہ آپ کے ڈاکٹر سریندر پرانے مرید ہیں ،یہ کلمہ پڑھنے آئے ہیں حضرت صاحب نے کہا آپ کو کلمہ پڑھوادینا چاہئے تھا آپ نے اتنی دیر کیوں کی ؟اگر ان میں سے کسی کی موت ہو جاتی تو پھر سب کے لئے خطرہ تھا ،حضرت صاحب نے کلمہ پڑھوایا اور کہا کہ نام بدلنا ضروری نہیں لیکن اچھا ہے نام بدل لیں ،اس کا انسان پر نفسیاتی اثر پڑھتا ہے ،کہ کفر و شرک کو چھوڑا ہے کفر و شرک سے جڑا نام بھی آدمی نے چھوڑ دیا ،آپ اپنا نام محمد حسن اور ڈاکٹر سریندر اپنا نام محمد حسین رکھ لیں ،یہ ہمارے نبی ﷺ کے بہت لاڈلے نواسے تھے ،حضرت صاحب نے ہمیں مرتے دم تک ایمان کی حفاظت پر زور دیا اور بتایا کہ اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ ایمان کی اس سچائی کی سب لوگوں خصوصاً گھر والوں کو نرمی اور محبت سے دعوت دیں اور یہ بھی کہا کہ آپ گھر والوں کے ساتھ محبت ،نرمی اور اچھا سلوک کریں تا کہ ان کو یہ لگے کہ کسی چیز نے ان میں بہت تبدیلی کی ہے اور وہ اسلام کو اس تبدیلی کا ذریعہ سمجھ کر اسلام کی طرف آئیں ۔
سوال :ماشاء اللہ !آپ نے اس کے بعد کام شروع کیا؟
جواب :میں مرادآباد گیا اور اس کے بعد لکھنؤ چلا آیا ،راستہ میں ٹرین میں لکھنؤجانے اور آنے میں دو لوگوں کو دعوت دی الحمد للہ دونوں مسلمان ہونے کے لئے تیار ہو گئے اور میں نے حضرت صاحب سے فون پر کلمہ پڑھوایا ،مجھے محسوس ہوا کہ جیسے جیسے میں دوسروں کو ایمان کی دعوت دیتا ہو ں اسلام پر میرا یقین اور میرا ایمان بڑھتا ہے۔
سوال :آپ نے نماز وغیرہ سیکھنی شروع کی ؟
جواب :اللہ کا شکر ہے میں نے نماز یاد کر لی ہے اور نماز پڑھ رہا ہوں ،سارے روز ے بھی رکھ رہاہوں ۔
سوال :آپ نے گھر والوں سے بتا دیا کہ میں 
جواب :میں نے کل رات اپنی مسیز (بیوی)سے بات کی ،اور ان کو صاف صاف بتا دیا اصل میں میں اسلام کو تو کئی مہینے سے پڑھ رہا تھا وہ مجھ سے کہتی تھی کہ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ آپ ملاؤں کے چکر میں پڑ گئے ہیں ،اور آپ مسلمان ہو جاؤگے ،میں نے رات کو ’آپ کی امانت ‘پڑھ کر سنائی اس کو بہت پسند آئی اور بولی میں سوچتی تھی کہ اچانک چودھری صاحب کو کیا ہو گیا ہے اس کتاب کی مٹھاس اور محبت نے آپ پر جادوکر دیا ہے،اللہ کا شکر ہے انھوں نے کلمہ تو پڑھ لیا ہے اور ساتھ رہنے کا وعدہ کیا ہے ،ہم نے دونوں بچوں کو بھی کلمہ پڑھوا دیا ،انشاء اللہ جیسے جیسے اسلام کو پڑھیں گے تو اسلام خود ان کے دل و دماغ کے جالوں کو دور کر دے گا ۔
سوال :اب آپ کو لکھنؤشفٹ ہونا پڑے گا یعنی فیملی کے ساتھ؟
جواب :ظاہر ہے زیادہ دن الگ تو نہیں رہ سکتے ،حضرت صاحب نے بتایا کہ لکھنؤ میں میرے لئے زیادہ آسانی رہے گی ،رشتہ دار ،پریوار کے لوگ ادھر نہیں ہیں دین کو پڑھنے اور ماننے کیلئے ماحول بھی مل جائے گا 
سوال :بہت بہت شکریہ حسن صاحب ،اللہ تعالیٰ مبارک فرمائے۔آپ کو بھی مبارک ہو اور ہمیں بھی مبارک ہو ۔
جواب :دعا کیجئے بس اللہ تعالیٰ ایمان پر جمائے رکھے حضرت صاحب نے بتایا کہ ایمان کا حق یہ ہے کہ آدمی (دھڑ دھڑی لیتے ہوئے )آگ کے الاؤ میں گرنا اسلام سے پھر نے کے مقابلہ میں آسان سمجھے ،بلا شبہ دوزخ کی آگ ۔جب میں قرآن میں دوزخ اور دوزخیوں کا حال پڑھتا ہوں تو میرے تو ہوش خراب ہو جاتے ہیں ،کبھی کبھی تو بالکل دل پھٹنے کو ہوتا ہے بس دعا کیجئے کہ اللہ دوزخ کی آگ سے بچائے۔
سوال :ارمغان کے پڑھنے والوں کے لئے کوئی اپنا پیغام آپ دیجئے؟
جواب :میں آٹھ روز کا مسلمان کیا پیغام دے سکتا ہوں ،مگر اس ایک مہینہ کے اسلام میں میں نے تجربہ کیا ہے کہ ایمان کو بچانے اور بڑھانے کے لئے اس ایمان کو دوسروں تک پہنچا نا سب سے آسان راستہ ہے ۔
سوال : بہت بہت شکریہ ! واقعی کیسی پتہ کی بات آپ نے کہی ہے ۔السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ‘ 
جواب :و علیکم السلام و رحمۃ اللہ
( مستفاد ازماہنامہ ’ارمغان‘اکتوبر ۲۰۰۹ ؁ء)

***