عملیات کی اثر آفرینی

مصنف : ڈاکٹر طفیل ہاشمی

سلسلہ : دین و دانش

شمارہ : فروری 2024

دين و دانش

عملیات کی اثر آفرینی

طفيل ہاشمی

یو ٹیوب پر دیکھیں تو ایسے ایسے عملیات ہیں جو لمحوں میں تحت الثری سے اوج ثریا پر پہنچا دیتے ہیں. جبکہ حضرت غوث پانی پتی کہتے ہیں کہ اگر وظائف بادشاہتیں دیتے ہوں تو کسی کو بتانے کے بجائے ہم خود کیوں نہ بادشاہ بن جائیں. وظائف کی تائید میں احادیث نبویہ بھی پیش کی جاتی ہیں کہ استغفار پڑھنے سے یوں گناہ جھڑ جاتے ہیں، فلاں وظیفہ سے رزق کے انبار لگ جاتے ہیں اور اس تصور کو پھیلا کر کئی آستانوں نے اپنا کاروبار بے حساب بڑھا لیا اور بڑی تعداد میں خلق خدا کو کام کاج کے بجائے کروڑوں بار فلاں تسبیح اور لاکھوں بار فلاں وظیفہ کرنے پر لگا دیا. جو وقت انسان اپنی زندگی سنوارنے، اپنی شخصیت کی تعمیر کرنے، اپنی اولاد اور خاندان کو خوشیاں دینے اور خلق خدا کے کام آنے پر صرف کر سکتا تھا اسے شب و روز کی غٹر غوں کی نذر کر کے اللہ کو یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ رب کن فیکون، مجھے اپنا خلیفہ بنانے کے بجائے کبوتر بنایا ہوتا .مجھے معلوم ہے کہ میری اس بات کے جواب میں بے سمجھے بوجھے احادیث پیش کی جائیں گی کہ فلاں کلمات کہنے سے یہ ہو جاتا ہے. مجھے تسلیم ہے کہ کلمات اپنا اثر رکھتے ہیں اسی لئے ہم گالی کھا کر بے مزہ ہوتے ہیں اور تعریف سن کر نہال لیکن اللہ کے ہاں یہ سسٹم نہیں ہے کہ ہم اس کے احکام کو پس پشت ڈال کر اس کی تعریف کر کے یہ سمجھیں کہ وہ خوش ہو گیا. ذرا غور کیجے، ہم اس خیال سے اللہ کو علم و دانش کے کس معیار پر اتار لاتے ہیں.

دعاؤں اور وظائف کا سارا فلسفہ یہ ہے کہ ان مختصر الفاظ میں ایک پیغام ہوتا ہے، زندگی کے رویے کو تبدیل کرنے کا. اگر ہم اپنا رویہ تبدیل کر لیں تو الفاظ کی گردان کئے بغیر بھی کام درست ہونے لگتے ہیں اور رویہ تبدیل کئیے بغیر کروڑوں تسبیحات بے اثر ہوتی ہیں.آئیے، اسے مثال سے سمجھیں، کہا گیا ہے کہ توبہ استغفار سے سب کچھ درست ہو جاتا ہے اور اس کے لئے روزانہ اتنی تسبیحات پڑھا کرو. جبکہ توبہ استغفار کے الفاظ محض self suggestion کے لیے ہیں. اگر ایک شخص اسلام آباد سے لاہور جانا چاہتا ہے اور وہ اسلام آباد بائی پاس سے پشاور کو چل پڑا، دنیا کا کوئی وظیفہ اسے لاہور نہیں پہنچا سکتا. وہ توبہ کرے یعنی عملا پلٹ جائے اور استغفار کرے یعنی آئندہ احتیاط ملحوظ رکھے تو مثبت نتائج یقینی ہوتے ہیں.

اسی طرح ہر وظیفہ اور دعا کے پس منظر میں کامیابی کے طریق کار کی طرف اشارہ ہوتا ہے جو اس مسئلے میں یقینی کامیابی کا فارمولا ہے.ایک دوسری مثال لیں، شاید آپ بھی ہر جمعہ کو سوشل میڈیا پر پڑھتے ہوں کہ سورہ کہف پڑھیں تو دجال کے فتنے سے محفوظ رہیں گے. اور ہم نے اسے وظیفہ بنا لیا ہے

جبکہ ارشاد نبوی کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ کی زندگی میں دجال کا ظہور ہو جائے تو آپ اس کی بے پناہ طاقت کا مقابلہ نہیں کر سکو گے، اس لئیے اپنے ایمان کو بچانے کا وہی طریقہ ہے جو اصحاب کہف نے اختیار کیا تھا کہ عزلت گزیں ہو جاؤ. اس نبوی پیغام کی روح نکال کر ہم نے اسے صرف لفظوں تک محدود کر دیا.دعا کا مطلب اپنے آپ کو الحی اور القیوم کی طاقت سے پلگ ان کر کے قوت عمل اور جوش و جذبہ حاصل کرنا ہے ورنہ ہم جانتے ہیں کہ شادی کئے بغیر کوئی وظیفہ صاحب اولاد نہیں کر سکتا.

دعا اور وظائف و عملیات میں فرق

قرآن حکیم نے قصہ آدم و ابلیس سے لے کر دائمی اور ابدی ہدایات کے لائحہ عمل تک دعا کی اہمیت بار بار بتائی. انبیاء کرام کی مختلف مواقع کی دعاؤں کا اور ان کی اثر آفرینی کا ذکر کیا. نوح، ابراھیم، موسی، عیسی، یونس، لوط اور سلیمان علیھم السلام سمیت کئی انبیاء کی دعائیں نقل کیں. دعا کے حوالے سے سورہ الفرقان کی آخری آیت عجیب ترین آیت ہے جو کہتی ہے-قل ما یعبؤ بکم ربی لولا دعاؤکم فقد کذبتم

تمہاری دعا کا خیال نہ ہوتا تو میرا رب تمہاری کوئی پرواہ نہ کرتا کہ تکذیب کی وجہ سے تم سزا کے مستحق ہو گئے ہو. گویا کفار و مشرکین اور انبیاء کرام کے دشمنوں کی دعاؤں کو بھی دشمن سمجھ کر رد نہیں کیا جاتا. قرآن یہ بتاتا ہے کہ اگر ہمیں دنیا چاہیے تو وہ بھی اسی سے مانگیں گے کیونکہ اس ساری کائنات کا بلا شرکت غیرے وہی مالک و مختار ہے، جب ہمیں دنیا میں مال، دولت، رزق، صحت، عزت، اقتدار،آرام چاہئیے تو یہ چیزیں مانگنے کہاں جائیں. یقینا اسی سے مانگیں گے جو ان سب کا مالک ہے. قرآن نے دنیا مانگنے سے منع نہیں کیا البتہ یہ بتایا کہ تمہاری اولین ترجیح آخرت کی کامیابی ہونا چاہیے. قرآن کہتا ہےکچھ لوگ صرف دنیا کی خوبصورتی مانگتے ہیں، آخرت میں ان کے لئے کچھ نہیں ہے اور کچھ لوگ دنیا اور آخرت دونوں میں خوبصورتی اور آخرت کے عذاب سے پناہ مانگتے ہیں. انہیں دنیا بھی ملتی اور آخرت بھی لیکن

انسان کی فطرت میں یہ خواہش ہے کہ اس کی خواہشات پوری ہوا کریں -اس لیے ضروری تھا کہ خالق ہمیں ایسے نسخہ کیمیا سے آگاہ کرتا جس کے ذریعے ہم اپنی فطری خواہشات پوری کرتے.

چنانچہ اللہ نے پہلے دن سے ہی اس کا انتظام کر دیا جب آدم و حوا کو زمین پر اتارا تو پہلی بات یہی کہی کہ

تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت آتی رہے گی، اگر تم نے اس ہدایت کی پیروی کی، اس کے مطابق چلے تو تمہیں کوئی غم ہوگا نہ خوف. وہی ہدایت جس کا آغاز آدم سے کیا گیا تھا اسی کی آخری اور مکمل شکل دیتے ہوئے فرمایا -ذلک الکتاب لا ریب فیہ ھدی للمتقين -لیکن یاد رکھیں، یہ بتا دیا گیا ہے کہ ہدایت کی تلاوت، زبانی یاد کرنے، اس کی تسبیح کرنے اس کا ختم کرنے اور اس کے ایصال ثواب سے نہیں بلکہ اس پر عمل کرنے سے غم و حزن سے نجات اور کامیابی ملے گی. تلاوت و حفظ سے دوسرے فوائد ہو سکتے ہیں اور ہوتے ہیں لیکن غم و حزن سے نجات اس کتاب پر عمل سے ملتی ہے. اگر عبادات سے دنیا ملتی تو فرشتوں کو ملتی یا مسیحیت، ہندو اور بدھ مت کے عبادت گزار تاج و تخت کے مالک ہوتے لیکن مغربی دنیا کے ارباب دانش نے اس ہدایت سے وہ حصہ اپنے لئیے منتخب کر لیا جو دنیوی اقتدار کا نسخہ کیمیا تھا یعنی عدل، دیانت، صداقت ،حسن خلق، وعدے کی پاسداری، چنانچہ انہیں دنیوی اقتدار مل گیا. یاد رکھئے دن رات وظائف کرنے سے رزق کے انبار نہیں لگتے بلکہ قرآن کی رو سے رزق کمانے سے رزق کے انبار لگتے ہیں. عامل حضرات بھی آپ کو وظائف بتا کر اپنے لئے رزق کما رہے ہیں. اللہ نے ہر مقصد کے حصول کے لیے ایک خاص قسم کی محنت کا ضابطہ رکھا ہے. اگر آپ وہ محنت کئے بغیر وہ منزل حاصل کرنا چاہتے ہیں تو یہ اللہ کی توہین ہے گویا زبان حال سے اس کے بنائے ہوئے نظام کو غلط قرار دینا ہے. کیا یہ ممکن ہے کہ آپ پشاور جانا چاہتے ہوں اور جائے نماز پر بیٹھ کر وظیفہ شروع کر دیں اور کچھ دیر بعد پشاور پہنچ جائیں. کیا یہ ممکن ہے کہ شادی کئے بغیر آپ کے لیے آسمان سے اولاد نازل ہونا شروع ہو جائے یا بیٹھے بٹھائے آپ کے سامنے لذیذ اور مرغن کھانوں کی ڈشیں سجنے لگ جائیں -ایسا کچھ نہیں ہوتا

ہاں، انہیں اسباب میں ایک دعا ہے یعنی یہ اقرار کہ اس کائنات اور اس میں موجود تمام تر وسائل کا واحد مالک صرف اور صرف اللہ ہے. میں نے ایک مقصد کے حصول کے لیے جدوجہد کرنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن اس تک پہنچنے کا آسان ترین راستہ کون سا ہے اور مجھے یقینی کامیابی ملے اور راہ کی تکلیفیں کم سے کم ہوں، اس کے لیے کام شروع کرتے ہوئے، درمیان میں، کوئی رکاوٹ پیش آنے پر اس سے مدد کی درخواست کر لی جائے کہ اھدنا الصراط المستقيم -دعا اور وظائف و عملیات میں ایک جوہری فرق ہے اور وہ یہ کہ دعاعاجزی، بے بسی، احتیاج اور مسکنت کا اظہار کرتے ہوئے اپنی جھولی پھیلا دینا ہے جبکہ وظیفہ اور عمل طاقت حاصل کرنے اور مالک کا فیصلہ کچھ بھی ہو اپنی مطلوبہ اشیاء چھین لینے کا عمل لگتا ہے. کیا آپ دیکھتے نہیں کہ تسخیر خلائق کے لیے وظائف کئے جاتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ دعا عبادت ہے خواہ دنیا کے لیے کی جائے اور وظیفہ دنیا داری ہے خواہ تلاوت قرآن پر مشتمل ہو-