علامه شيخ يوسف القرضاوى رحمة الله عليه كا طريقۂ فتوى نويسى

مصنف : ڈاكٹر اكرم ندوي

سلسلہ : دین و دانش

شمارہ : اكتوبر2023

دين و دانش

علامه شيخ يوسف القرضاوى رحمة الله عليه كا طريقۂ فتوى نويسى

ڈاكٹر محمد اكرم ندوى

علامه شيخ يوسف القرضاوى رحمة الله عليه سے ميرى واقفيت بہت پرانى ہے، پہلى بار انہيں سنه 1980م ميں دار العلوم ندوة العلماء ميں ديكها تها جب انہوں نے يہاں پندره روز قيام كيا، اور مختلف موضوعات پر لكچرز ديئے، جن ميں ميں پابندى سے حاضر ہوتا تها۔ميں سنه 1991 ميں آكسفورڈ آگيا تو ان سے ملنے كے مواقع بڑھ گئے- وه ہر سال يہاں تشريف لاتے اور ميں موقع غنيمت جان كر ان كى كوئى نه كوئى كتاب ان سے پڑهتا، انہوں نے كئى بار مجهے تحريرى اجازت بهى دى، وه مجھ پر بہت شفقت فرماتے تهے- آج سے پچيس سال پہلے جب يوروپين فتوى كونسل كا قيام عمل ميں آيا تو ميں اس كے پہلے اجلاس ميں شريك تها- شيخ كى خواہش تهى كه ميں اس كا ممبر بن جاؤں، مگر بعض وجوه سے ميں نے معذرت كردى تهى، پهر كچھ سالوں كے بعد اس كى ركنيت قبول كرلى، اور الحمد لله اب بهى اس ميں حصه ليتا رہتا ہوں۔

شيخ نے ميرى كتاب تحقيق اصول الشاشى پر ايك گرانقدر مقدمہ بهى لكها، اس كے بعد دو ايك اور كتابوں پر بهى مقدمے لكهے، ميں نے شيخ كے حالات اور ان كى سندوں پر (كفاية الراوي عن العلامة الشيخ يوسف القرضاوى) كے نام سے ايك كتاب لكهى جو بہت پہلے دار القلم سے شائع ہوئى تهى، شيخ كو وه كتاب پسند تهى، اسى طرح ميں نے اپنى كتاب (الجامع المعين في طبقات الشيوخ المتقنين والمجيزين المسندين) ميں شيخ كا مفصل تذكره كيا ہے، يه مضمون انہيں دونوں مراجع پر مبنى ہے۔

شيخ نے اپنے شاگردوں كى تربيت كا ايك پروگرام شروع كيا، اور ايك بار مجهے بهى سنه 2010 ميں اس ميں شركت كے لئے مدعو كيا، قطر جب بهى جانا ہوا بالعموم شيخ سے ان كے دولتكده پر جاكر ملاقات كرتا اور ان سے مستفيد ہوتا، وقتا ًفوقتاً فون پر بهى بات ہوتى رہتى تهى، شيخ نے ميرے شاگردوں كو بهى اجازت دى تهى۔

فقه اور فتوى نويسى ميں شيخ كا انداز سلف سے بہت قريب ہے، اور ميں اسى طريقه كى پيروى كى كوشش كرتا ہوں، ان كے فتووں كى تين بنيادى خصوصيات ہيں:

 

پہلى خصوصيت تيسير ہے

 شيخ اپنے فتووں ميں اس كا خيال ركهتے كه مسلمانوں كے لئے دين كو سہل بنا كر پيش كيا جائے، اور ان كے سامنے آسان شرعى حل ركها جائے، تيسير كى اہميت پر بہت زور ديتے تهے، اور اسے انہوں نے اپنى مختلف كتابوں ميں اچهى طرح بيان كيا ہے، تيسير كو وه دو وجہوں سے اختيار كرتے تهے۔

پہلى وجه يه ہے كه تيسير اس دين كى روح ہے، قرآن كريم ميں الله تعالى كا ارشاد ہے: "يريد الله بكم اليسر ولا يريد بكم العسر" سورة البقرة آيت 185، يعنى الله تمہارے لئے آسانى چاہتا ہے، دشوارى نہيں چاہتا، ايك دوسرى آيت ميں ہے: "وما جعل عليكم في الدين من حرج" سورة الحج آيت 78، اس مفہوم ميں اور بهى متعدد آيات ہيں، صحيح بخارى كى ايك حديث ميں ہے "إن الدين يسر" دين آسان ہے، اس معنى پر مشتمل اور بہت سى حديثيں ہيں۔دوسرى وجہ يہ ہے كه آج دين پر چلنا بہت مشكل ہو گيا ہے، مسلمانوں كے لئے جو آسانى بهى شرعى حدود ميں رہتے ہوئے نكالى جا سكتى ہو ضرور نكالى جائے، تاكہ وه دين پر چل سكيں، شيخ يہ بات بار بار فرماتے تهے كہ ہر چيز كو حرام ٹهہرانا كون سى فقه ہے، يه تو كوئى بهى كرسكتا ہے، امام سفيان ثورى فرماتے تهے كه فقه يہ نہيں ہے كه تم چيزوں كو حرام قرار دو، يہ كام تو ہر شخص كر سكتا ہے، بلكه فقه يه ہے كه مسلمانوں كے لئے گنجائش پيدا كرو۔شدت پسند مفتيوں كے طريقه پر ناگوارى كا اظہار كرتے ہوئے فرماتے كه ان لوگوں نے اپنى كوتاه فہمى سے فقه كو "الأحوطيات" كا مجموعه بناديا ہے، يعنى ہر بات ميں احوط (زياده قابل احتياط) پر فتوى ديتے ہيں، نتيجہ يه ہے كه ان مفتيان كرام كے بہت سے فتوے مضحكه خيز بن گئے ہيں، مثلا شيخ فوٹو كو جائز قرار ديتے تهے، اس كے دلائل انہوں نے اپنى كتاب (الحلال والحرام في الاسلام) ميں ديئے ہيں، شيخ كے علاوه ہندوستان ميں علامہ سيد سليمان ندوى رحمة الله عليه نے آج سے تقريباً سو سال پہلے يہى فتوى ديا تها، بعد ميں عرب وعجم كے بہت سے علماء نے اس رائے كو اختيار كيا، مگر كچھ لوگ آج تك فوٹو كو حرام كہتے ہيں، جبكه خود ان حضرات كا بهى اپنے فتوى پر عمل نہيں ہے- اس پر استاد گرامى مولانا شہباز عليه الرحمة كى ايك بات ياد آئى كه جب كوئى نئى چيز آتى ہے تو مفتى لوگ اس كى حرمت كا فتوى ديتے ہيں، جب بيس تيس سال كے بعد وه چيز خود ان كے استعمال ميں آجاتى ہے تو وه جائز ہو جاتى ہے، اس كى مثال ٹى وى وغيره ہے۔

بعض لوگوں كا اشكال ہے كہ تيسير نفس پرستى ہے، يہ اشكال بد فہمى كا نتيجه ہے، الله تعالى كى اطاعت اور نفس پرستى دونوں متضاد ہيں، تيسير كا مطلب يه ہے كہ اگر اطاعت الہى كى دو شكليں ہيں، اور ايك دوسرے كے مقابلہ ميں آسان ہے تو آسان راه اختيار كى جائے، مثلا وضوء ميں موزوں پر مسح كرنا، ظاہر ہے كہ وضو طاعت الہى ہے نہ كہ نفس پرستى، اب اگر اس طاعت ميں كوئى آسان شكل نكلتى ہو تو وه نفس پرستى كيسے ہو گئى؟

دوسرى خصوصيت تشريح ہے

عہد زوال ميں مفتى حضرات نے مختصر جواب كو فتوى نويسى كا امتياز بناديا، ظاہر ہے كه ايسا صرف كسلمندى سے ہوا ہے، شيخ كى رائے ميں فتوى مفصل اور مدلل ہونا چاہئے تاكه مسلمان فتوى كى دليل اور حكمت اچهى طرح سمجهيں، اس سے ان كے علم ميں اضافه ہوگا اور عمل كرنے ميں آسانى ہوگى.

شيخ جب كوئى فتوى لكهتے تو قرآن وسنت سے اس كے دلائل بيان كرتے، پهر صحابه وتابعين كے اقوال تائيد ميں پيش كرتے، اس كے بعد كوشش كرتے كه اپنے فتوى كى تشريح اس طرح كريں كه عصر حاضر كا انسان اپنى ثقافت وتہذيب سے اسے مربوط كر سكے، اس كے لئے زمانہ وماحول كى مثاليں بهى ديتے۔

اسى تشريح كا ايك حصه يه بهى ہے كه فتوى كى زبان كو فقہى اصطلاحات سے بوجهل نه كرتے، اور عام انسانوں كى زبانوں ميں فصيح وبليغ عبارتيں لكهنے كى كوشش كرتے۔شيخ كا يه طريقه شيخ الاسلام امام ابن تيميه وغيره كا طريقه ہے، ميں بهى سوالوں كے جواب اسى طرح تفصيل سے دينے كى كوشش كرتا ہوں، والحمد لله۔

تيسرى خصوصيت مسلمانوں كا اتحاد باقى ركهنے كى كوشش ہے

شيخ ہر اس چيز سے بچتے جس سے وحدت اسلامى متاثر ہو، سارے مسلكوں اور سارى آراء كا احترام كرتے، اپنے مخالفين كے ساتھ  نرمى كا معاملہ كرتے، ان كى شان ميں كوئى گستاخى نه كرتے، اور ہميشه دوسروں كى بات سننے اور سمجهنے كى سعى كرتے۔ايك مرتبه آكسفورڈ كى ايك علمى مجلس ميں كسى نے ہندوستان كے ايك عالم پر يه كہكر طعن وتشنيع كى كه وه رجم كو حد نہيں مانتے، شيخ نے اس طريقۂ طعن پر ناگوارى كا اظہار كرتے ہوئے فرمايا كه اس طرح كے علمى اختلاف سے كسى كى ثقاہت پر حرف نہيں آتا- پهر شيخ نے مصر كے دو مشہور عالموں كى رائے بيان كى كه وه بهى رجم كے حد ہونے كے قائل نہيں تهے، مگر اس كے باوجود ہم ان كا احترام كرتے ہيں۔اس واقعه كا مجھ پر بہت اثر ہوا، اور ميرے دل ميں يه بات اتر گئى كه طعن وتشنيع كى بڑى وجه كم علمى اور خود پسندى ہے، اگر انسان كا علم وسيع وعميق ہو، اور وه اپنى يا اپنے مسلك كى رائے كو قرآن كا درجہ نہ دے تو دوسروں كا احترام كرے گا اور طعن وتشنيع سے محفوظ رہے گا۔

جب حضرت مولانا سيد ابو الحسن على ندوى رحمة الله عليه كى كتاب (عصر حاضر ميں دين كى تفہيم وتشريح) منظر عام پر آئى جس ميں مولانا مودودى اور سيد قطب رحمة الله عليہما پر تنقيد تهى تو شيخ قرضاوى نے مولانا كے پر سكون اور علمى انداز كى تعريف كى اور فرمايا كه ہم تنقيد كو پسند كرتے ہيں، البته موجوده حالات ميں اس كتاب كى اشاعت سے اسلام دشمنوں اور سيكولر طاقتوں كو فائده ہوگا اور وه اسے ہمارے خلاف استعمال كريں گے، اپنے انتقال سے چند سال پہلے شيخ اس كتاب كى افاديت كے زياده قائل ہوگئے تهے۔

حاصل يه كه شيخ مختلف فيه امور ميں طعن وتشنيع كے خلاف تهے، اور اس پر افسوس كا اظہار كرتے كه بر صغير كے علماء كى ايك جماعت اپنے مسلك يا اپنى رائے سے اختلاف كرنے والوں كے متعلق تمام شرعى اور انسانى حدود سے تجاوز كرتى رہتى ہے، اور ان كو گمراه يا فاسق قرار دينے سے كم پر راضى نہيں ہوتى، بلكه كبهى كبهى انہيں كافر بهى كہ ديتى ہے جو صرف گناه نہيں بلكه ايك سنگين جرم ہے۔

عصر حاضر ميں شيخ كے طريقۂ فتوى نويسى كى اہميت بڑهتى جا رہى ہے، اور بہت سے انصاف پسند اور حكمت شعار علماء نے اس كى پيروى شروع كردى ہے۔

الله تعالى شيخ كے درجات بلند كرے اور انہيں جنت الفردوس ميں جگه دے، آمين۔