مولانا حمید الدین فراہی رحمۃ اللہ علیہ کا جنگِ طرابلس کے حوالے سے ایک نادر قصیدہ مع ترجمہ

مصنف : سید متین احمد شاہ

سلسلہ : مشاہیر اسلام

شمارہ : اگست 2023

مشاہير اسلام

مولانا حمید الدین فراہی رحمۃ اللہ علیہ کا جنگِ طرابلس کے حوالے سے ایک نادر قصیدہ مع ترجمہ

سيد متين احمد

بیسویں صدی میں ملتِ اسلامیہ کے جسد میں جو زخم لگے، ان میں ایک جنگِ طرابلس بھی ہے۔طرابلس (موجودہ لیبیا)کی قسمت کا حال عجیب ہے کہ وہ ہمیشہ سے طالع آزماؤں کی تگ وتاز کی جولاں گاہ رہا ہے۔کچھ عرصہ پہلے اس میں برپا ہونے والا خونی منظر نامہ ہم میں سے ہر ایک کے ذہن میں تازہ ہے۔ خلافتِ عثمانیہ کے عہد میں یہ اس کا حصہ تھا۔ 1911ء میں اٹلی نے اچانک طرابلس پر حملہ کر دیا جس میں وہاں کے مقامی لوگوں نے غیر معمولی دادِ شجاعت دی۔اس جنگ کے باعث ہمارے ہندوستان میں بھی بے چینی کی لہر پیدا ہوئی ، مولانا ابوالکلام آزاد نے "الہلال " کے صفحات میں غازی انور پاشا کے مجاہدانہ کارناموں پر اپنے کلکِ گوہر بار سے جہاد کا سماں پیدا کر دیا۔ علامہ اقبال کی "بانگِ دار" میں شامل وہ معروف نظم "فاطمہ بنتِ عبداللہ"اسی جنگ میں شریک ایک مجاہد لڑکی کے بارے میں ہے جس کو انھوں نے امتِ مرحومہ کی آبرو قرار دیا۔انھوں نے اسی تناظر میں ایک نظم "حضور رسالت مآب میں" شاہی مسجد لاہور کے جلسے میں پڑھی تھی جس نے لوگوں میں آہ و بکا کا ایک عجیب منظر پیدا کر دیا تھا۔اسی جنگ کے حوالے سے برصغیر کے نام ور اور جلیل القدر عالمِ دین اور قرآنیات کے باب کے عظیم مفکر مولانا حمید الدین فراہیؒ نے ایک عربی قصیدہ "کیف القرار" کے نام سے تحریر کیاتھا جس میں بلادِ اسلامیہ کی بربادی ، استعمار کے ظلم وستم اور مسلمانوں کی زبوں حالی کا درد صاف سنائی دیا جا سکتا ہے۔آج اگرچہ ایک افسوس ناک مظہر ہے کہ فکرِ فراہی سے نسبت رکھنے والے دوست ہر لمحہ مسلمانوں ہی کو کوستے ہیں اور استعمار کی مذمت میں ان کا رویہ بالعموم سرد ہی ہے۔مولانا فراہی نے اگر ایک طرف آیات جہاد کی تفسیری مشکلات حل کرنے کے لیے قانونِ اتمامِ حجت پیش کیا تو اس کا مطلب کوئی معذرت خواہی نہیں تھا،ملتِ اسلامیہ کے درد میں وہ اپنی کسی بھی ہم عصر مسلم شخصیت سے پیچھے نہیں تھے۔ اللہ ان کی روح پر رحمتیں فرمائے۔ذیل میں ان کا مذکورہ بالا قصیدہ اپنی ناقص سی ترجمانی کے ساتھ پیش خدمت ہے۔ قصیدے کا متن ہم نے "معجم البابطین" سائٹ سے لیا ہے اور اس کا اولین تعارف مولانا وحید الدین خان کی ایک تحریر میں ہوا تھا جس میں اس کا صرف پہلا شعر درج تھا۔ اس کے بعد اس کی کافی تلاش کی، المورد کی سائٹ پر موجود مولانا کے دیوان میں سرسری تلاش سے نہیں مل سکا، معلوم نہیں اس میں کیوں شامل نہیں! کچھ عرصہ پہلے ایک مفتی صاحب نے اپنے ایک "بولتے نقشے" میں مولانا کو انگریز کا ایجنٹ "ثابت" کیا تھا۔ جو آدمی سرسید کی تفسیر کا عربی ترجمہ کرنے سے اس لیے انکار دے کہ میں معصیت کی اشاعت میں حصہ دار نہیں بن سکتا، اس کے ہاں استعمار سے یہ واضح نفرت ہو، وہ انگریز کا ایجنٹ کیسے ہو سکتا ہے؟ والی اللہ المشتکیٰ! )

كيف القرار؟

كـيف القـرار وقـد نكــــــــــــــــــسْ

أعـلامـنـــــــــــــــــــــا بطرابُلُسْ؟

دل کو کیسے قرار میسر ہو، جب کہ طرابلس میں ہمارے جھنڈے سرنگوں ہو گئے؟

كـيف القـرار وحـولنـا الـــــــــــــــ

أعـداءُ تــــــــــــــــــــرتقبُ الخلس؟

سکون ہو بھی کیسے جب کہ ہمارے اردگرد دشمن وار کرنے کے درپے ہے!

مـــــــــــــــــــــــن كل ذئبٍ إن رأى

مـن غِرّةٍ فـيـنـــــــــــــــــــا اخْتلس

ہمارا دشمن وہ بھیڑیا ہے جو ہمیں غفلت میں پا کر شب خون مارتا ہے۔

أو أفعـــــــــــــــــــــــــوانٍ مُطرقٍ

إن لـم نـبـــــــــــــــــــــادره نَهس

یا پھر اس کی مثال اس سر دبائے ہوئے افعیٰ سانپ کی سی ہے جس کا سر آگے بڑھ کر کچلا نہ جائے تو فورا کاٹ کھاتا ہے۔

نـبكـي عـلى إخـواننـــــــــــــــــــا

بـيـن القتـيل ومــــــــــــــــــن حُبِس

ہم اپنے بھائیوں پر ماتم کناں ہیں جن میں بعض مقتول اور بعض پابندِ سلاسل ہیں۔

كـم مـن تقـيٍّ طـاهـــــــــــــــــــــرٍ

فـيـهـم ونِحـــــــــــــــــــــريرٍ دُنِس

ان میں کتنے ہی صالح ، پاک باز اور جید اہلِ علم تھے جن کی آبرو مٹی میں مل کر رہ گئی۔

نـبكــــــــــــــــــــــي لربّات الخدو

رِ شَرِقْن بـالـمــــــــــــــــــاءِ السَّلس

ہم ان پردہ نشین بہنوں پر گریہ سنج ہیں جن کے حلق میں(خوف و حزن کی کیفیت میں) پانی اٹک کر رہ گیا ہے۔

جـرت الـحتـوفُ عـلى الألـــــــــــــــو

فِ مـن الزحـوف ومــــــــــــــــــن جلس

ہزاروں شرکائے جنگ اور خانہ نشینوں پر موت پنجہ فگن ہو گئی۔

هـم أهلنـا وعـشـيرنـــــــــــــــــــا

أفـيألـمــــــــــــــــــــون ولا نُحِس؟

وہ ہمارے ہی بھائی بند اور اہلِ خاندان ہیں؛ کیا وہ یوں ہی مبتلاے رنج ہوں گے اور ہمیں احساس تک نہ ہوگا؟

يـا أمةَ الإسلام يـــــــــــــــــــــا

أبنـاءَ آبــــــــــــــــــــــــاءٍ شُمُس

اے ملتِ اسلامیہ ! اے ان اسلاف کے فرزندو جو مہرِ درخشاں کی مانند تاب ناک تھے!

هل تـنعسـون وخـصـمكـــــــــــــــــــمْ

عـن كـيـده مـــــــــــــــــــا إنْ نعس

کیا تم یوں ہی محوِ خواب رہو گے جب کہ تمھارا دشمن اپنی فریب کاریوں سے ذرا بھی غافل نہیں؟

إلاّ تهـبّوا الـيـومَ فـالــــــــــــــــ

إسلامُ تعسٌ بـــــــــــــــــــــــل تَعِس

اگر تم آج خوابِ غفلت سے بیدار نہ ہو گے تو پھر سمجھو کہ یہ اسلام کی بدنصیبی، بلکہ ہلاکت ہے۔

قـد زُلزلـتْ أركــــــــــــــــــــــانه

ـــــــــــــــــــــــحتى تَقعْقعت الأسس

قصرِ اسلام کے درودیوار پر زلزلہ طاری ہے اور نوبت بہ ایں جا رسید کہ اس کی بنیادیں بھی ہل چکی ہیں۔

فـالخـصـمُ يجهد أن يرى الـــــــــــــــ

إسلامَ فـــــــــــــــــــــــي بؤسٍ يَئِس

دشمن کا سارا زور اس پر ہے کہ وہ اسلام کو بالکل خستہ حال اور نکبت زدہ دیکھے۔

هلاّ ذكرتـمْ مـا أصـــــــــــــــــــــا

بَ الـمسلـمـيــــــــــــــــــن بأندلس؟

کیا تمھیں یاد نہیں اندلس میں مسلمانوں پر کیا بیتی تھی؟

سلـبـوكـمُ شطرَ الـبـــــــــــــــــــلا

دِ ومـا لهـا مـن مـلـتــــــــــــــــمس

دشمن نے تمھارے سب شہر تم سے چھین لیے اور ان کے لیے کوئی پناہ گاہ باقی نہ رہی۔

أفكلُّ يـومٍ يـنكصُ الـــــــــــــــــــــ

إسلامُ حتى يـــــــــــــــــــــــندرس؟

کیا ہر روز اسلام کا سفر رجعتِ قہقریٰ ہی کا ہو گا یہاں تک کہ اس کا نام و نشان ہی مٹ جائے؟

هل يذهـبُ الـحقّ النقـيْــــــــــــــــــ

ـيُ ويغلــــــــــــــــــب الكذب الرّجس؟

کیا حق کی ضو فشانیاں مٹ جائیں گی اور اس کی جگہ ناپاک باطل غلبہ پائے گا؟

هل تـرتضـون بِذلّ ديـــــــــــــــــــــ

ـنكـمُ ولـيس بـمـلــــــــــــــــــتبس؟

کیا تم اپنے دین کی ذلت کو گوارا کر لو گے جب کہ وہ کوئی مشتبہ چیز نہیں ہے؟

واللهِ لا نرضى بـــــــــــــــــــــــه

مـا دام فـيـنـا مـــــــــــــــــن نَفَس

خدا کی قسم! ہم اس ذلت کو برداشت نہیں کر سکتے جب تک ہم میں سانس لینے والا ایک انسان بھی موجود ہے۔