سیاسی کارکن کی اوقات

مصنف : آصف محمود

سلسلہ : سیاست سے آگے 

شمارہ : اگست 2018

سیاسیات
سیاسی کارکن کی اوقات
آصف محمود

                                                                                                                      برادرم آصف محمود کا نوحہ بھی سن لیں، یہ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے بڑا عرصہ عمران خان کا دفاع کیا ہے، ایسے قیمتی لوگوں کی تنقید بتاتی ہے کہ کہیں نہ کہیں میر کارواں رستے سے بھٹکا ضرور ہے۔

                                                                                                                                          ہم اپنے اپنے سیاسی آقاؤں کی خوشامداور چاپلوسی جیسی گونا گوں مصروفیات سے چند لمحے نکال سکیں تو ایک سوال ہمیں دعوت فکر دے رہا ہے۔ سوال یہ ہے اس سیاسی بندو بست میں ایک عام سیاسی کارکن کی اوقات اور حیثیت کیا ہے؟ کیا ایک کارکن کا کام یہی ہے کہ کسی ایک کے حصے کا بے وقوف بن کر کسی دوسرے کے حصے کے بے وقوف سے الجھتا رہے ؟
سیاست دولت مند طبقے کے محل کی کنیز بن چکی ہے اور کارکن کی حیثیت کسی فکری مزارع سے زیادہ نہیں۔ کارکن اپنے اپنے آقا کی خاطر ایک دوسرے سے الجھتا ہے ، گالیاں دیتا ہے ، جھگڑتا ہے اور ساری زندگی کی دشمنیاں پال لیتا ہے۔ لیکن سیاسی بندوبست میں اس کی اپنی کوئی حیثیت نہیں۔ وہ اس مقدس ایوان کا حصہ نہیں بن سکتا جہاں معلوم انسانی تاریخ میں ایک چھت تلے سب سے زیادہ مبینہ’ صادق‘ اور ’امین‘ پائے جاتے ہیں۔ اس کی اوقات صرف اتنی ہے کہ ہر بار انتخابات سے قبل غلامی کے طوق کے طور پرچند نووارد لوٹے اس کے گلے میں ڈال دیے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے آج سے تم اس کے حصے کے بے وقوف ہو اور وہ آگے سے سر جھکا کر کہتا جی مہاراج آج سے میں اس لوٹے کے حصے کا بے وقوف بھی ہوں۔
کیا آپ نے نگران وزیر اعظم کے اثاثوں کی تفصیل پڑھی ہے؟ یہ وہ تفصیل ہے جو پبلک کی گئی ہے ۔اس بد گمانی پر نہ جائیے کہ ایک جج اتنے اثاثے کیسے بنا سکتا ہے۔ ناصر الملک کی شہرت اچھی تھی۔یقیناًیہ سب جائز طریقے سے بنائے گئے اثاثے ہوں گے۔ لیکن یہ سوال تو پوچھا جا سکتا ہے کہ اقتدار کی دیوی صرف دولت مند طبقے پر ہی کیوں مہربان ہوتی ہے؟ فیصل مشتاق ایک پرائیویٹ سکول کے مالک ہیں۔ ان کے پرائیویٹ سکول کو انتہائی قیمتی پلاٹ سے حکومت نے نوازا تو برادرم رؤوف کلاسرہ نے چیخ چیخ کر نوحے لکھے۔ تب ہم سمجھے ایک کرپٹ حکومت اس شخص کو نواز رہی ہے مگر اب تو حکومت کرپٹ نہیں۔ اب تو تخت لاہور کا اقتدار ایک پڑھے لکھے پروفیسر کے ہاتھ میں ہے۔ اس تعلیم یافتہ پروفیسر وزیر اعلی کے کمالات دیکھیے اس نے اسی فیصل مشتاق کو وزارت تعلیم کا قلمدان سونپ دیا۔ یعنی پرائیویٹ سکول کا سربراہ اب سرکاری سکولوں کی پالیسیاں بنائے گا۔ شور مچا تو اس سے وزارت تعلیم لے لی گئی مگر ایک اور وزارت دے دی گئی۔ کیا ڈاکٹر حسن عسکری بتائیں گے یہ شخص اتنا ناگزیر کیسے ہو گیا کہ اسے وزارت دینا لازم ٹھہری۔ تعلیم کی نہ سہی تو انسانی حقوق، اقلیتی امور اور بیت المال کی سہی۔ جس کے ادارے کو حکومت قیمتی پلاٹ سے نواز دے بیت المال کے لیے اس سے اچھا نگہبان کون ہو سکتا تھا؟
یہی نہیں آپ بڑی سیاسی جماعتوں میں ٹکٹوں کی تقسیم پر ایک نگاہ ڈال لیجیے۔ وہی چند گھرانے ہیں برسوں سے جنہیں ٹکٹ ملتے آ ئے ہیں۔ ایک کامیاب واردات کے ذریعے الیکشن اتنا مہنگا کر دیا گیا کہ عام آدمی الیکشن لڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ایک عام آدمی کو صرف اس بات کی آزادی ہے کہ وہ فیصلہ کر لے اسے کس کے حصے کا بے وقوف بننا ہے۔ بلکہ یہ آزادی بھی کامل نہیں ، جزوی ہے اور کارکن کے گلے میں غلامی کے طوق نسلوں کو منتقل ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
تحریک انصاف کی صورت ایک امید پیدا ہوئی تھی مگر وہاں بھی الیکٹیبلز کے نام پر وہی کھیل کھیلا گیا ہے اور کارکنان کو اچھی طرح بتا دیا گیا کہ اس غلط فہمی سے باہر نکل آؤ کہ ہمارے ہاں کارکن کو دوسری جماعتوں سے زیادہ عزت دی جاتی ہے۔ ہمارے حصے کے بے وقوف کی بھی وہی حیثیت ہے جو دوسروں کے حصے کے بے وقوف کی ہے۔وہ اسمبلی میں نہیں پہنچ سکتا۔اس کا کام صرف نعرے لگانا، دوسروں سے الجھنا ، گالیاں دینا اور تالیاں پیٹنا ہے۔ کارکن اب دھیرے دھیرے اس حقیقت کو قبول کرنے لگ گئے ہیں۔ بنی گالہ کے باہر ہونے والے احتجاج کو کارکنان کے شعور کا نام دیا جا رہا ہے۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو مگر خدشہ یہ ہے کہ ان میں سے بھی اکثریت ان کی نہ ہو جو ان کے حصے کے بے وقوف ہوں جنہیں ٹکٹ نہیں ملا۔ کوئی معلوم کرے تو سچ سامنے آئے کہ یہ لوگ اپنے شعور سے مجبور ہو کر خود آئے یا انہیں وہ گاڑیوں میں بھر بھر کر لائے جنہیں ٹکٹ نہیں ملا۔ یہ اپنا کھا رہے ہیں یاان کے طعام کی ذمہ داری انہی کے سر پر ہے جو انہیں لائے؟
کارکن کی حیثیت ٹشو پیپر سے زیادہ نہیں رہی۔استعمال کرو اور پھینک دو۔ ان سے صرف کامل اطاعت کا مطالبہ ہے۔ مریم نواز کہیں لندن تو کیا میری پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں تو کارکن اس پر بھی تالی بجائے گا اور مریم نواز کی جائیداد کی ایک طویل فہرست سامنے آ جائے تو وہ اس پر بھی بد مزہ نہیں ہو گا۔ وہ یہ نہیں پوچھے گا کہ بی بی آپ کے بیان میں یہ تضاد کیوں؟ اس کا کام سوال کرنا نہیں صرف اطاعت کرنا ہے۔
عمران خان کہیں میں نے زلفی کے لیے کسی کو فون نہیں کیا تھا اور زلفی بخاری عدالت میں کہہ دے کہ میرے لیے عمران خان نے فون کیا تھا تو نونہالان انقلاب میں کوئی ایک ایسا نہیں جو پوچھ سکے جناب کپتان آپ نے تو کہا تھا لیڈر جھوٹ نہیں بولتا۔ کس وثوق سے عمران خان نے کہہ دیا زلفی میرا دوست ہے۔ وجہ بھی بیان فرما دی کہ اسے کرکٹ اچھی لگتی ہے اس لیے میرے قریب آ گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا زلفی بخاری کو کرکٹ لاہور کے کامیاب جلسے کے بعد اچھی لگنی شروع ہوئی تھی؟ نوید خان جیسے کتنے ہی دوست عمران خان نے ڈسٹ بن میں پھینک دیے۔ ان کے مرنے پر جنازے میں شریک ہونا تو کجا رسمی سی تعزیت بھی گوارا نہ کی۔ زلفی بخاری البتہ ان کا دوست ہے کیونکہ خان صاحب جانتے ہیں ’’ زلفی ایک کامیاب بزنس مین ہے‘‘۔ ایک بزنس مین ایک سیاست دان پر سرمایہ کاری کرے تو کیا یہ فی سبیل اللہ کی محبت ہے یا مستقبل کے امکانات کے لیے کی گئی سرمایہ کاری ہے؟
زلفی بخاری ہو ، علیم خان ہو یا جہانگیر ترین کیا وہ صرف اللہ کی رضا کے لیے پارٹی کو وسائل فراہم کرتے ہیں۔ کیا کسی کو یاد ہے سابق سینیٹر الیاس بلور نے جہانگیر ترین پر کے پی کے میں قیمتی پتھروں کے حوالے
سے کیا کیا الزام عائد کیے تھے؟ یاد رہے کہ یہ الزام کسی جلسے کے جذباتی ماحول میں عائد نہیں کیا گیا تھا، انہوں نے صنعت کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار کے اجلاس میں یہ الزام عائد کیا تھا کہ جہانگیر ترین نے مانسہرہ میں قیمتی پتھروں کی کانیں ہتھیا لی ہیں۔ کیا یہ درست نہیں کہ غلام احمد بلور نے کہا تھا کہ جہانگیر ترین ایبٹ آباد میں کرومائیٹ کا پورا پہاڑ فروخت کر کے ہضم کر چکے؟ اگر یہ ا لزام جھوٹا تھا تو جہانگیر ترین نے ان کے خلاف کیا قانونی کارروائی کی؟
ایک ہی طبقہ اقتدار میں آتا ہے۔ کبھی بھٹو کے ساتھ مل کر ، کبھی آ مر کی گود میں بیٹھ کر ، کبھی نواز شریف کا سہارا لے کر اور اب عمران خان کے کندھے پر بیٹھ کر بھی وہی طبقہ مسلط ہونے کی تیاریاں کر رہا ہے اور نونہالان انقلاب تالیاں پیٹ پیٹ کر بے حال ہوئے جا رہے ہیں۔ ہر جماعت کے کارکن کا استحصال ہوتا آیا ہے۔ اور یہ اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک کارکنان یہ فیصلہ نہیں کر لیتے کہ اب ہم اپنے حق کی بات کریں گے اور کسی کے حصے کا بے وقوف نہیں بنیں گے۔ ابھی تو عالم یہ ہے کہ لوگوں کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہوتا، انہیں پینے کو صاف پانی نہیں ملتا، بیمار ماں کی دوائی کے پیسے ان کے پاس نہیں ہوتے، بچوں کی فیسیں وہ ادا نہیں کر پاتے لیکن وہ اپنی محرومیوں پر بات ہی نہیں کرتے۔ وہ مریم ، بلاول اور عمران حتی کہ زلفی بخاری کے لیے زیادہ پریشان ہوتے ہیں۔ ان کے بچے کی جے آئی ٹی میں پیشی کی تصویر منظر عام پر آ جائے تو شور مچ جاتا ہے اور قوم کی مہوش قتل ہو جائے یا ماڈل ٹاؤن میں مائیں مار دی جائیں، کسی کو پرواہ ہی نہیں ہوتی۔
ہم کب تک اس طبقے کے مزارع بن کر زندہ رہیں گے؟ کیا ہم اپنے مسائل ، اپنے دکھ ، اپنی محرومیوں ، اور اپنے ارمانوں کو الیکشن کا عنوان نہیں بنا سکتے؟ ہم کب تک ان کے حصے کے بے وقوف بنے رہیں گے؟

***