امريكہ جانا

مصنف : كرن نعمان

سلسلہ : سچی کہانی

شمارہ : جون 2023

سچي كہاني

امريكہ جانا

كرن نعمان

یہ روداد میں اس لیے بیان کر رہی ہوں کیونکہ پاکستان کے سینکڑوں نہیں ہزاروں خاندان ان مصائب کو جھیل رہے ہیں جو مجھے اور میری بیٹی کو جھیلنے پڑے۔ یہ بات شروع ہوئی 2017 کے اختتام دسمبر سے جب میرے قریب ہی رہنے والی ایک خاتون نے اپنے بیٹے کے لیے میری بیٹی کا رشتہ طلب کیا- وہ پوری فیملی امریکہ ہجرت کر کے جا رہی تھی- جب یہ بات کھلی تو قریبی رفقاء کی مخالفت اور موافقت دونوں سامنے آئیں لوگوں نے کہا غیر فیملی اور باہر کا معاملہ ہے دھوکے بازی بہت ہے ذہن الجھ گیا کریں نہ کریں۔ خیر اللہ کا نام لے کر کر دیا۔ بہت سوں نے مبارک باد دی بہت سوں نے ڈراوا دیا کہ امریکہ جا کر لڑکا بدل جائے گا۔امریکہ پہنچ کر ان لوگوں کا مطالبہ آیا کہ لڑکی لڑکے سے بات کر لیا کرے میری بیٹی نے انکار کر دیا کہ نکاح سے پہلے بات نہیں کروں گی میں نے بیٹی سے کہا کہ میں ہر طرح سے ساتھ ہوں لیکن اندر ہی اندر دھڑکا لگ گیا کہ اس بات پر رشتہ ختم ہو گیا تو سب تھو تھو کریں گے خیر سوا سال بعد وہ لوگ پاکستان آئے اور نکاح ہو گیا- دل کو حوصلہ ہوا کہ چلو اب رشتہ مضبوط ہو گیا۔ خاندان کے بڑوں نے نکاح کی شرط رکھی كہ لڑکی لڑکا نکاح کے بعد گھر سے باہر نہیں ملیں گے اس پر داماد کو اعتراض تو ہوا پر اس نے بات رکھ لی -وہ دو تین بار گھر میں ہی ملنے آیا اور پھر واپس امریکہ لوٹ گیا۔ نکاح کے اگلے ہی دن سے لوگوں کے سوالات شروع ہو گئے اب امریکہ کب جائے گی۔ رخصتی کب ہوگی۔

اس کی بعد ایک نیا سفر شروع ہوا۔ امریکہ جانے کے لیے ان کی بارہ شرائط ہوتی ہیں جنھیں پورا کرنا ضروری ہے۔ ڈاکومینٹیشن کے لیے کبھی پاسپورٹ آفس کی خواری کبھی نکاح نامہ کو میریج سرٹیفکیٹ میں تبدیل کروانا کبھی پولیس سرٹیفکیٹ لمبے لمبے آنلائن فارم فل کرنا۔ دو سال تک یہ سلسلہ چلتا رہا NVC  (نيشنل ويزہ سنٹر ( کی تمام شرائط پوری ہو گئیں- ڈاکو مینٹری کوالیفائیڈ ہونے کے بعد امید تھی دو ڈھائی مہینے میں انٹرویو کی کال آ جائے گی ہم نے بیٹی کی رخصتی کردی۔ ایک مہینہ رہ کر داماد اور اس کی فیملی واپس چلی گئی-لیکن اصل امتحان اس کے بعد شروع ہوا جب پتہ چلا کہ کرونا کی وجہ سے انٹرویوز کا سلسلہ رکا رہا تھا اس لیے پیچھے بے تحاشا لوگ انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں- فیملی کیٹیگری کو بالکل پس پشت ڈال دیا گیا رہی سہی کسر افغانیوں نے نکال دی دھڑا دھڑ انہیں انٹرویوز دیے گئے اور پاکستانیوں کو نظر انداز کیا گیا- اب یہ بات لوگوں کو کیسے سمجھائیں رشتے دار محلے دار دوست احباب یونیورسٹی ہر جگہ ایک ہی سوال سن سن کر دل پک گیا کہ رخصتی تو ہو گئی پھر بیٹی کیوں نہیں گئی۔ بیٹی کی نند کی شادی بھی ساتھ ہوئی تھی -اس کے شوہر کا معاملہ بھی رکا ہوا تھا وہ امید سے ہوئی تو اس کی ایکسپڈائیٹ قبول ہو گئی اور اس کا شوہر چلا گیا میری بیٹی نہیں جا سکی- اب لوگوں کو مزید باتیں بنانے کا موقع مل گیا کہ دیکھا داماد کو بلوا لیا بہو کو نہیں بلایا آپ کے ساتھ دھوکا ہوا ہے۔اس موقع پر میری بیٹی نے کمال کا صبر کیا۔ لیکنnvc کے گروپ نے اس کی حالت بری کردی جہاں موجود ہزاروں لوگ اسی طرح کے مسئلوں سے دو چار تھے کسی کا کوئی مسئلہ کسی کا کوئی۔ کوئی چار سال سے انتظار میں تھی کوئی چھ، جن کے بچے ہو گئے ان کے بچوں کا بھی دوبارہ سے پروسس شروع ہو گیا یعنی دو گنا ٹائم۔یہ ساری صورتحال دیکھ کر ہم سخت پریشان ہوئے۔ لوگوں کی باتوں سے بچنے کے لئے فیملی گیدرنگز، درس و تدریس کی محفلوں میں جانا چھوڑ دیا رشتے داروں سے فون پر بات چیت بھی کم ہو گئی۔ بیٹی نے ورچوئل یونیورسٹی جوائن کرلی۔ داماد وہاں پڑھ بھی رہا تھا جاب بھی تھی اس لیے دو سال میں صرف دو بار ہی آ سکا اس پر بھی لوگوں نے جینا حرام کیا کہ یہ یونہی کبھی کبھار پاکستان آئے گا پر آپ کی بیٹی کو نہیں بلائے گا غرض سو طرح کے وسوسے دل میں ڈالے گئے۔آئے دنnvc کے گروپ پر رشتے ختم ہوتے دکھائی دیتے رہے۔ داماد نے وزٹ ویزے کے لیے اپلائی کیا پر وہ ریجیکٹ ہو گیا کیونکہ امیگریشن کا کیس چل رہا تھا دو بار ایکسپڈائیٹ ڈالی پر وہ بھی ریجیکٹ۔ ایک صورت یہ تھی کہ بیٹی کسی دوسرے ملک چلی جاتی وہاں سے اپلائی کرتی تو جلدی ویزہ مل جاتا پر جوان بیٹی کو تنہا کسی دوسرے ملک بھیجنا بھی سوہان روح تھا۔دن رات دعائیں مانگتے رہے مگر ہم نہیں سمجھتے رب نے کون سا وقت متعین کیا ہے۔اللہ اللہ کر کے داماد وہاں سیٹیزن ہوا تو کیٹگری فیملی سے چینج ہو کر سیٹیزن میں کنورٹ ہو گئی۔ جس دن داماد کی اوتھ ہوئی اس کے چند دن بعد ہی انٹرویو کی کال آ گئی۔

اب دل کو دھڑکا لگا کہ نہ جانے کلیئر ہو گا یا AP میں ڈالیں گے۔ جن کا معاملہ لٹک گیا سو لمبے عرصے کے لیے لٹک گیا۔خیر انٹرویو کی تیاری شروع ہوئی جنھوں نے جوائنٹ سپانسر دیا انھوں نے ٹرانسکرپٹس نہیں دیے۔ ڈاکو منٹس کا پلندا تیار ہوا اور بیٹی والد کے ساتھ اسلام آباد روانہ ہوئی۔ ایمبیسی کے اندر بھی ایک سے بڑھ کر ایک کہانی موجود تھی۔ گھنٹوں انتظار کے بعد سب سے آخر میں بیٹی کا انٹرویو ہوا شروع شروع کچھ لوگوں کو ویزے ملے اس کے بعد ہر کسی کو ریجیکٹ کیا جاتا رہا بیٹی کی ہمت ٹوٹتی رہی آخری انٹرویو بیٹی کا ہوا وہ ایمبیسی سے باہر آئی تو ویزہ اپروول کا پروانہ اس کے ہاتھ میں تھا کیونکہ جب خدا کن کہہ دے تو پھر کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔

ویزہ اپروو ہو گیا تو اب ایک اور طرح کا دھڑکا لگ گیا خدا نخواستہ کوئی حادثہ نہ ہو جائے کوئی نیا مسئلہ نہ نکل آئے دن رات دعائیں مانگ مانگ ہونٹ سوکھ گئے کہ ساتھ خیریت کے اپنے گھر کو چلی جائے اسلام آباد سے واپسی، شاپنگ، ویزہ لینے کے لیے جانا ایک ایک قدم پر سو اندیشے اللہ کے فضل سے سب ہو گیا سب سے آخر میں گھر سے ائر پورٹ کے لیے نکلنا بھی ایک مرحلہ تھا۔ رات ڈھائی بجے قرآنی آیات کا مسلسل ورد کرتے گھر سے نکلے راستہ سنسان تھا ایک ایک منٹ صدی جتنا لمبا ہوتا محسوس ہوا کراچی کے حالات کی وجہ سے دل پتے کی طرح کانپتا ہی رہا بالآخر ائرپورٹ پہنچ گئے۔ آدھے گھنٹے بعد تنہا بیٹی کو اللہ کے سپرد کر دیا دنیا کا سمندر اور بیٹی تنہا ہوتو جب تک منزل پر نہ پہنچ جائے جان سولی پر ٹنگی رہتی ہے۔ ایسے ایسے وسوسے ستاتے ہیں جو بیان بھی نہیں کیے جا سکتے جب تک وہ ڈیلس پہنچ کر امیگریشن سے کلیئر نہیں ہوئی  تب تک پورا سانس بحال نہیں ہو سکا۔

اب اس کے پیچھے گھر کاٹ کھانے کو دوڑ رہا ہے اس کی ایک ایک چیز ایک ایک کپڑا آنکھوں سے لگا کر چوم رہی ہوں ہر کونے سے اس کی آواز آ رہی ہے بے خیالی میں کتنی ہی بار اسے پکار چکی ہوں ہر لمحہ احساس ہوتا ہے کہ ابھی کمرے سے باہر آ کر کہے گی امی اچھا سا ناشتہ کروا دیں۔اس کے جانے کے بعد جو سوال کرتے تھے چپ ہیں کچھ مبارکباد دیتے ہیں کوئی بہت قریبی ہو کر بھی نہیں پوچھتا کوئی جاتے سمے اس سے ملنے کا روادار بھی نہیں ہوا۔ شاید دلوں پر چڑھا زنگ ہی دنیا کا اصل رنگ ہے۔

قومیت سے لے کر خاندانیت تک امریکہ بہت مشکل ہے۔ جس وقت بیٹی محو پرواز تھی اس وقت دل کی کیفیت کو کچھ اس طرح قلم بند کیا-

اک آہنی طائر
فضائے بسیط کی وسعتوں میں
تند خو ہواؤں کو چیرتا
خدائے لم یزل کے دست قدرت پر
میرے وجود کا حصہ
دبوچے لیے جا رہا ہے
اس کے پنجوں میں میری روح
خزاں کے خشک پتوں کی مانند لرز رہی ہے
اس کے جلتے بجھتے سرخ اشارے
میری حسرتوں کو برف آب کیے جاتے ہیں
ان اشاروں میں میری دھڑکن دم توڑ رہی ہے
اس کے آہنی شکم سے میری نگاہ
ٹکرا کے پاش پاش ہوئی جاتی ہے
اے آہنی طائر تجھے خدا محفوظ رکھے
کہ تیرے رحم میں
میری جان میرا دل
میری بیٹی ہے