ماسٹر سٹروك

مصنف : سلمان احمر

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : جون 2023

 

اصلاح و دعوت

ماسٹر اسٹروک

تحریر: سلیمان احمر-ترجمہ: عبدالمنعم فائز

میں نے ایک سرکاری افسر سے پوچھا: ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی کے لیے آپ نے کیا منصوبہ بندی کی ہے؟ انہوں نے جواب دیا: بس آرام، آرام اور آرام، پوتوں کے ساتھ کھیل کود اور عزیز رشتہ داروں سے ملاقاتیں اور بس۔ میرے رگ و پے میں بجلیاں دوڑنے لگیں۔ میں اپنے ہائی اسکول میں ”سوئمنگ ٹیم“ کا رکن تھا۔ جب بھی تیراکی کا مقابلہ ہوتا تو اس میں جیتنے کا ایک ہی اصول تھا: پہلے تین چکروں میں نارمل رہو اور آخری چکر میں جان لڑادو۔ پہلے تین چکروں میں پوری قوت لگانے والے چوتھے راؤنڈ میں پیچھے رہ جاتے تھے۔ یہی اصول میری کامیابی کی ضمانت بنا رہا۔ ہمیں پتہ ہوتا تھا کہ آخری چکر میں اگر پٹھے جواب بھی دے گئے تو پریشانی کی بات نہیں، بعد میں اس کا علاج ممکن ہے۔

اگر آپ کی زندگی 80 سال ہے اور آپ 60 سال کی عمر میں ریٹائرمنٹ لے لیتے ہیں تو یہ آپ کی زندگی کا چوتھا راؤنڈ ہے، وہی ”سوئمنگ کا آخری چکر“ جس میں آپ کو پوری جان لگادینی ہے۔ اگر آپ ریٹائرمنٹ کے بعد آرام کرنے لگے ہیں تو یہ ایسا ہی ہے جیسے سوئمنگ کے آخری چکر میں سست ہوجائیں-

جب آپ کی عمر 60 سال ہوجاتی ہے، تب آپ تجربے، علم اور عقل کے عروج پر ہوتے ہیں۔ آپ پر عائد مالی اور خاندانی ذمہ داریاں کم ہوچکی ہوتی ہیں، یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جب آپ اپنی زندگی کا ”ماسٹر اسٹروک“ یا کارنامہ سرانجام دے سکتے ہیں۔ ماسٹر اسٹروک وہ ماہرانہ کارنامہ ہوتا ہے جو آپ کی پوری زندگی کا حاصل ہوتا ہے اور زمانے کا رخ بدلنے کی طاقت رکھتا ہے-

بوسنیا نے جب یوگوسلاویہ سے آزادي کا اعلان کیا تو 3 مارچ 1992ء کو علی عزت بیگووچ وہاں کے صدر منتخب ہوئے۔ حالات یکایک نازک موڑ تک آپہنچے۔ سربیا اور کروشیا کے متعصب گروہوں نے بھرپور فوجی طاقت کے ساتھ بوسنیا کے نہتے مسلمانوں پر ہلہ بول دیا۔ بوسنیا کو مسلمانوں کے وجود سے خالی کرنے کا مشن شروع ہوا اور لاشوں کے ڈھیر لگادیے گئے۔ 28اکتوبر 1992ء وہ دن تھا جب میں ایک رفاہی کارکن کے طور پر سابق یوگوسلاویہ میں پہنچا اور 14 دسمبر ١٩٩٥ ع تک مسلمانوں کے لیڈر صدر عزت بیگووچ کے اقدامات کا گہری نظر سے جائزہ لیتا رہا۔ اگر اللہ کی مدد اور عزت بیگوویچ کا اعلی کردار اور صلاحیت نہ ہوتی تو بوسنیا دوسرا اسپین بن چکا ہوتا۔ جب عزت بیگوویچ مسلمانوں کو تباہی، بربادی اور خانماں خرابی سے نکال رہے تھے، اور اپنی زندگی کا ”ماسٹر اسٹروک“ سرانجام دے رہے تھے، تب ان کی عمر 66 سال تھی۔ ان کی پیدائش 8 اگست 1925 کو ہوئی تھی۔

چند مہینے پہلے مفتی محمد تقی عثمانی صاحب سے میری ملاقات ہوئی۔ حال ہی میں انہوں نے قرآن مجید کا شاہکار ترجمہ لکھا تھا: آسان ترجمہ قرآن۔ یہ ترجمہ دنیا بھر میں مقبولیت کے ریکارڈ توڑ رہا تھا۔ آپ نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم کو قرآن مجید کی آسان تفسیر سے متعلق معلومات ہیں؟ میں نے لاعلمی کا اظہار کردیا۔ یہ سنتے ہی آپ اپنی جگہ سے اٹھے،آسان تفسیر قرآن کی دو جلدیں میری طرف بڑھائیں اور فرمایا کہ باقی جلدوں پر بھی کام جاری ہے۔ یہ بتاتے ہوئے آپ کی آنکھوں میں ایک خاص چمک دکھائی دی۔ یہ تفسیر بھی مفتی صاحب کا ایک دوسرا ماسٹر اسٹروک ہوگا، آپ کی عمر 79 سال ہے اور آپ کی پیدائش 5 اکتوبر 1943ء کو ہوئی تھی۔

علامہ شبیر احمد عثمانی کا قیام پاکستان میں کردار کس سے ڈھکا چھپا ہے؟ آپ نے قائد اعظم محمد علی جناح کے شانہ بشانہ جدوجہد کی، قائد اعظم کے مشیر رہے اور ان کی نمازجنازہ بھی پڑھائی، مغربی پاکستان میں قائد اعظم اور لیاقت علی خان کی موجودگی میں سب سے پہلے پاکستان کا پرچم لہرانے والی شخصیت بھی آپ ہی تھے۔ آپ نے متعدد کتابیں لکھیں: تفسیر عثمانی کو عالمگیر شہرت ملی، مسلم شریف کی شرح تحریر کی: فتح الملہم۔ آپ کی زندگی کا ”ماسٹر اسٹروک“ 7 مارچ 1949ء کو سامنے آیا جب آپ نے ”قرار داد مقاصد“ منظور کروائی اور پاکستانی دستور کی بنیاد قرآن و حدیث کو قرار دیا۔ آج یہ قرار داد مقاصد آئین پاکستان کے بالکل آغاز میں بطور مقدمہ شامل ہے۔ اس کے ابتدائی الفاظ کچھ یوں ہیں: ”اللہ تعالی ہی کل کائنات کا بلاشرکت غیرے حاکم مطلق ہے۔ اس نے جمہور کے ذریعے مملکت پاکستان کو جو اختیار سونپا ہے، وہ اس کی مقررہ حدود کے اندر مقدس امانت کے طور پر استعمال کیا جائے گا“۔ مولانا شبیر احمد عثمانی کی پیدائش 11 اکتوبر 1887ء کو ہوئی تھی اور جس وقت یہ قرار داد پاس ہوئی، آپ کی عمر 62 سال سے تجاوز کرچکی تھی۔

ان سب لوگوں نے اپنے ”ماسٹر اسٹروک“ زندگی کے اسی آخری دور میں سرانجام دیے، اپنی عمر کے آخری چکر میں کیونکہ انہیں پتہ تھا کہ موت کے بعد یہ مقابلہ ختم ہوجائے گا، آخرت کمانے کے مواقع ناپید ہوجائیں گے اور دنیا میں تبدیلی لانے کی کوئی صورت ممکن نہ ہوگی۔ لہذا ان لوگوں نے آخری دم تک لڑنے کا فیصلہ کرلیا، آرام چھوڑ دیا اور پوتوں، نواسوں کے ساتھ کھیلنے کو اپنا مقصد نہیں بنایا۔

کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی نوکری بے معنی ہے، وہ اس لیے ریٹائر ہونا چاہتے ہیں تاکہ دنیا داری کے جھنجٹوں سے خود کو آزاد کرسکیں۔ ایسے لوگ بے معنی اور بے کار میں فرق بھول جاتے ہیں۔ ایسا ممکن ہے کہ ان کی نوکری بے معنی ہو، لیکن وہ بہرحال کارآمد ہے۔ انہیں اس کی تنخواہ ملتی ہے، اپنے بل ادا کرسکتے ہیں اور اپنے خاندان کی مدد کرسکتے ہیں۔ جبکہ ریٹائرمنٹ بے معنی بھی ہے اور بے کار بھی۔ اگر آپ کو انجینئرنگ کی فیلڈ بے معنی محسوس ہوتی ہے تو آپ دیگر بہت سے کاموں میں معنویت تلاش کرسکتے ہیں، مثلا: رفاہی سرگرمیاں، سماجی امور اور اسلامی تحریکات وغیرہ۔

ریٹائرمنٹ کے بعد تفریح اور ضیاع وقت میں لوگ اس لیے بھی وقت گزارتے ہیں کہ ان کا وژن ان کی ریٹائرمنٹ سے تجاوز نہیں کررہا ہوتا- ہونا تو یہ چاہیے کہ وژن ہماری زندگی پر محدود نہ ہو بلکہ اس سے تجاوز کرے-

2002ء میں اللہ تعالی نے مجھے توفیق بخشی اور میں نے ڈاکٹر عبدالباری خان کی ”رفیدہ فاؤنڈیشن“ کے وژن بنوانے میں مدد کی ۔ وہ چاہتے تھے کہ دنیا بھر میں بہترین طبی سہولیات مہیا کرنے کے لیے ہسپتال قائم کرکے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وژن میں حصہ دار بن جائیں۔ اس وژن نے اسلامک مشن ہسپتال (IMH) کے ٹرسٹی جناب عبدالقیوم کو متاثر کیا اور انہوں نے کراچی کی بہترین لوکیشن پر ادھوری تعمیر کردہ ہسپتال کی عمارت (IMH) اور 20 ایکڑ جگہ رفیدہ فاؤنڈیشن کو عطیہ کردی۔ یوں IMH کا نیا نام ”انڈس ہسپتال“ رکھ دیا گیا۔ اس وقت انڈس ہسپتال اور ہیلتھ نیٹ ورک (IHHN) ملک میں 17 ہسپتال چلا رہا ہے جہاں ہر ماہ پانچ لاکھ مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالباری نے انڈس ہسپتال کا وژن 20 سال پہلے بنایا تھا، آج انڈس کو پاکستان کا سب سے بڑے ہیلتھ نیٹ ورک ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ ابھی بھی انہیں 194 دیگر ملکوں میں جانا ہے اور وہاں ہسپتال قائم کرنے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالباری کی پیدائش 21 جولائی 1961ء کو ہوئی اور اس وقت آپ کی عمر 62 سال ہے۔ ابھی یہ بات وثوق سے نہیں کہی جاسکتی کہ جب ڈاکٹر عبدالباری دنیا سے رخصت ہوں گے تو دنیا بھر میں ہسپتال قائم کرچکے ہوں گے۔ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ وہ آخری سانس تک اسی جدوجہد میں مشغول رہیں گے۔ ان شاء اللہ ان کا خواب، ان کا وژن ضرور زندہ رہے گا۔ فیصلہ آپ کے ہاتھوں میں ہے، مگر چند سوالوں پر ضرور غور کیجئے گا:کیا ہم نے ایسا وژن بنا رکھا ہے جو ہماری زندگی سے تجاوزکر رہا ہو؟ کیا ہم زندگی کے آخری راؤنڈ میں تیز ہونا چاہتے ہیں یا سستی و آرام کی منصوبہ بندی کررہے ہیں؟ مرنے سے پہلے ہمارا ”ماسٹر اسٹروک“ کیا ہوگا؟