اچھي ساس اچھي بہو

مصنف : شہنیلہ بیلگم والا

سلسلہ : سچی کہانی

شمارہ : اپريل 2023

سچي كہاني

اچھي ساس اچھي بہو

شہنیلہ بیلگم والا

یہ کہانی میری ایک جاننے والی خاتون کی ہے جو ان کی اجازت سے لکھ رہی ہوں.عالیہ باجی ہمارے خاندان کی ہیں. دو بیٹوں اور دو بیٹیوں کی والدہ. مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتی ہیں. ان کے شوہر ایک شریف النفس انسان ہیں، جنہوں نے ساری زندگی حق حلال کمایا اور اپنی سلیقہ شعار بیوی کے ہاتھ پہ رکھا. شوہر کی کمائی ہی سے چاروں بچوں کو تعلیم دلوائی. دونوں بیٹیوں کی شادی مناسب رشتے ملتے ہی کردی. بیٹوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی. اچھی جابز پر ہیں، اسی بنا پہ دونوں بہویں اچھے تعلیم یافتہ گھرانوں سے مل گئیں.عالیہ باجی نے جب بچے چھوٹے تھے تو اپنی بچت اور میکے سے ملنے والے ترکے سے ایک پلاٹ لے لیا. ان کے شوہر نے اپنے آفس سے لون اٹھا کر اپنا گھر تعمیر کرلیا. بھلے زمانے تھے. بچے چھوٹے تھے. بچوں کے بڑے ہونے سے پہلے ہی اپنے گھر میں شفٹ ہوگئیں اور ساتھ ساتھ قرضہ بھی چکا دیا. ایک بات جو سب سے زیادہ اہم تھی وہ یہ انہوں نے گھر کی کنسٹریکشن ایسی کروائی جس میں تین فیملیز ایک ہی چھت کے نیچے الگ الگ رہ سکیں.بیٹیوں کی شادی کے بعد انہوں نے اپنے دونوں بیٹوں کی شادی تین سالوں کے اندر اندر کردی. بیٹوں کے رشتے طے کرنے سے پہلے ہی انہوں نے اپنے سمدھیانے سے کہہ دیا تھا کہ میں اپنی دونوں بہوؤں کے لیے پورشن بنوا چکی ہوں. شادی کے بعد ان کا کچن الگ ہوگا.عالیہ باجی اور ان کے شوہر ایک عمر رسیدہ کپل ہے جو شاید جوان شادی شدہ جوڑوں سے بھی زیادہ خوش اور مطمئن ہے. ان کا اپنا ایک دوستوں کا سرکل ہے. کراچی کے وہ ریسٹورنٹس جو ہمیں بھی علم نہیں یہ اپنے دوستوں کے ساتھ وہاں کھا کر آتے ہیں اور اپنے بچوں کو ریویو دیتے ہیں. دونوں کی مارننگ واک کی روٹین ہے. دونوں بیٹے روز رات کو کھانا کھا کر فریش ہو کر اپنے والدین کے ساتھ بیٹھتے ہیں. چائے کا دور چلتا ہے. دونوں بہوؤں کا کہنا ہے کہ جب ہم میکے میں بھی ہوتے ہیں تو ہمیں اپنے گھر اور شوہروں کی فکر نہیں ہوتی. دونوں بیٹیاں نواسے نواسیوں کے ساتھ ہر ہفتے والدین سے ملنے آتی ہیں. ان کے آنے سے کسی پہ کام کا بوجھ نہیں پڑتا. عالیہ باجی ماشاء اللہ بہت ایکٹیو ہیں. ایک جز وقتی ملازمہ ہے. کوکنگ خود کرتی ہیں بلکہ یو ٹیوب کوکنگ چینلز کو فولو کرتی ہیں. ان کے ہاں ہمیشہ کچھ نہ کچھ لذیذ کھانا بن رہا ہوتا ہے. ذہنی، مالی اور جسمانی آسودگی کے باعث صحت بہت اچھی ہے اور اس وجہ سے ان کا مزاج ہمیشہ خوشگوار رہتا ہے.مجھے کہتی ہیں کہ ساری دنیا کہتی ہے کہ عالیہ نے اپنی بہوؤں کو بڑا سکھی رکھا ہے. میں نے دراصل اپنے آپ کو سکھی رکھا ہے. ساری زمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کے بعد تمہارے بھائی جان اور میں اپنی زندگی میں فراغت اور سکون چاہتے تھے. ہمیں گھر میں کسی بھی قسم کی رنجش اور کھٹ پٹ نہیں چاہیے. دوسرے میں بہت صفائی پسند ہوں. اپنے بچوں پہ تو زور چلتا تھا لیکن آج کل کے بچوں کو صرف پیار نچھاور کرنے والے دادا دادی اچھے لگتے ہیں، ڈانٹنے والے، روک ٹوک کرنے والے نہیں. میرے پاس best of both the worlds ہے. بچے قریب بھی ہیں. روز ان کو دیکھتی ہوں. ان کے ساتھ وقت گزارتی ہوں اور ساتھ ہی ان کے کسی بھی معاملے میں دخیل نہیں. یہ سب میں نے اپنے سکون کے لیے کیا ہے-عالیہ باجی کوئی بہت پیسے والی خاتون نہیں ہیں. لیکن سمجھداری اور سلیقہ مندی سے انہوں نے اپنی زندگی کو جنت بنا لیا ہے. اس میں سب سے بڑا کریڈٹ ان کے شوہر کو جاتا ہے جنہیں اپنی وفا شعار اور جاں نثار بیوی پہ اپنے سے بڑھ کر بھروسہ ہے.