نماز آنكھوں كي ٹھنڈك

مصنف : عمران عطاري

سلسلہ : سچی کہانی

شمارہ : اپريل 2023

سچي كہاني

نماز آنكھوں كي ٹھنڈك

محمد عمران عطاري

ڈاکٹر راشدہ کاظمی جو کہ پاکستان ملٹری کی میڈیکل کور میں میجر کی پوسٹ پر ہیں وہ بتاتی ہیں کہ ایک بار ان کے پاس ایک فوجی آفیسر کو لایا گیا جو عہدے کے لحاظ سے کرنل تھے مگر انہوں نے اپنے آپ کو باقی بیج کی نسبت بہت زیادہ سنبھال کر رکھا ہوا تھا ان کی ٹانگ میں گولی لگی تھی جس کی وجہ سے ٹانگ ضائع ہو چکی تھی- ان کو بیہوش کر کے آپریشن کے ذریعے ان کی ٹانگ کاٹ دی گئی آپریشن کافی لمبا ہو گیا تھا ان کو ظہر سے پہلے آپریشن تھیٹر لایا گیا تھا اور عشا کی اذان ہو رہی تھی جب ان کو فارغ کر کے آئی سی یو منتقل کر دیا گیا تھا -صبح تک وہ بیہوش رہے تھے فجر کی اذان سے کچھ دیر قبل ان کو ہوش آیا تھا ان کو سپیشل کمرہ دیا گیا تھا انہوں نے ہوش میں آتے ہی سب سے پہلے وقت پوچھا تھا تو ان كو بتايا گیا کہ فجر کا وقت ہے جس پر انہوں نے فوراً وضو کی خواہش کا اظہار فرمایا تھا ۔ان کو بتایا گیا کہ وہ اس وقت ایسی حالت میں نہیں ہیں کہ وضو کر سکیں تو کرنل محمد حیات صاحب پریشان ہو گئے ان کی بیوی نے میری مدد سے ان کے بستر پر پلاسٹک شیٹ ڈالی اس کے بعد مجھے باہر بھیج دیا -تھوڑی دیر بعد ایک نوجوان جو کہ کرنل صاحب کا بیٹا تھا کمرے کی طرف آیا مجھے سلام کر کے اندر داخل ہو گیا-کچھ ہی دیر میں مجھے بھی اندر بلا لیا گیا تب تک فجر کی اذان ہو چکی تھی میں اندر داخل ہوئی تو بستر سے پلاسٹک شیٹ اتار کر سائیڈ پر رکھ دی گئی تھی- کرنل صاحب سکون سے لیٹ کر نماز ادا کر رہے تھے اور ان کی بیوی و بیٹا باوضو کھڑے تھے تا کہ پہلے کرنل صاحب نماز مکمل کر لیں بعد میں باری باری وہ دونوں ماں بیٹا نماز پڑھ لیں گے- میں بھی مسلمان فیملی سے تھی  مگر اسلامی فرائض سے کوسوں دور تھی مجھے نہیں یاد آخری بار کب نماز پڑھی تھی- جب کرنل صاحب کے بیوی ، بیٹے نے نماز ادا کر لی تو انہوں نے مجھے نماز پڑھنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ آپ نماز پڑھ لیں اور آرام کر لیں- ہم کو ایمرجنسی ہو گی تو ہم آپ کو بلا لیں گے میں نے ان کے کہنے پر شرمندگی سے بچنے کے لئیے وضو کیا اور نماز کی نیت باندھ لی نماز مکمل کی تھی کہ دوسری شفٹ نے چارج لے لیا -میں گھر چلی گئی چونکہ میں مسلسل چوبیس گھنٹے ڈیوٹی کر کے آئی تھی اب چوبیس گھنٹے میرا آرام کا وقت تھا- جب اس سے اگلے  دن میں ڈیوٹی پر گئی تو کرنل صاحب کافی بہتر محسوس کر رہے تھے ان کا بیٹا جا چکا تھا بیٹی اور داماد ان کے پاس تھے جن کو جانے کے لئے وہ بار بار کہہ رہے تھے- اسی دوران ان کی بیوی بھی آرام کر کے دوبارہ آ پہنچی تھیں ۔کرنل محمد حیات صاحب کی بیوی نے آ کر اپنی بیٹی اور داماد کو رخصت کر دیا تھا خود شوہر کی خدمت پر مامور ہو گئيں- جب ظہر کا وقت آیا تو وہ بیٹے کی منتظر تھیں تا کہ وہ آئے اور بستر پر پلاسٹک کور ڈال کر کرنل صاحب کو وضو کروا سکیں مگر ان کا بیٹا لیٹ تھا مجبوراً انہوں نے مجھ سے ریکوئسٹ کی میری مدد سے کرنل صاحب کے نیچے پلاسٹک شیٹ ڈال کر مجھے کمرے سے باہر بھیجا ان کو وضو کروایا اور پھر کرنل صاحب نے نماز ادا کی -جب کرنل صاحب نماز ادا کر چکے تو میں بھی اندر آ گئی اور ان کی مسز کو ہسپتال میں بنی نماز کے لئیے مخصوص جگہ پر لے گئی اور کہا کہ آپ تسلی سے نماز پڑھ لیں میں کرنل صاحب کا خیال رکھ لوں گی -ان کو چھوڑ کر کرنل صاحب کے پاس پہنچی جن کے ہونٹ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں ہل رہے تھے میں نے ان سے پوچھا کہ آپ اتنی تکلیف میں تھے پھر بھی آپ نے نماز نہیں چھوڑی اس کی کیا وجہ ہے ؟ کرنل صاحب نے جواب دیا کہ اس کے پیچھے ایک کہانی ہے میں نے سننے کی خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے بتایا کہ میرے والدین میں علحدگی ہو گئی تھی میں نے والد صاحب کے پاس پرورش پائی تھی-میں بالغ ہونے تک ماں سے نہیں ملا تھا بلکہ مجھے یہ ہی بتایا گیا تھا کہ تمہاری ماں مر چکی ہے میں والد صاحب کے ساتھ پنڈی میں مقیم تھا کہ ایک دن پختہ عمر کے ایک مرد میرے والد صاحب کے پاس آئے والد صاحب نے مجھے کمرے سے باہر بھیج دیا اور خود ان سے بات چیت کرنے لگے-انسانی فطرت کے ہاتھوں مجبور میں بھی بیرونی دروازے کے پاس کھڑا ہو کر والد صاحب اور اس اجنبی کی گفتگو سننے کی کوشش کر رہا تھا مگر ناکام رہا تھا مجھے محض ایک فقرہ سنائی دیا تھا جب میرے والد صاحب نے دھاڑ کر کہا تھا کہ دفع ہو جاؤ میرے گھر سے ورنہ یہیں مارے جاؤ گے اور تمہارا کوئی والی وارث بھی نہیں بنے گا پھر دروازہ کھلا اور وہ اجنبی شخص باہر نکل گیا- میں اس سے پہلے گلی میں پہنچ گیا تا کہ اس سے ملاقات کر سکوں ۔گلی میں جب میری اس شخص سے ملاقات ہوئی تو اس نے مجھے کسی اپنے کی طرح گلے لگایا چوما اور کہا میں تمہارا ماموں ہوں تمہاری ماں کا آخری وقت ہے وہ بس ایک بار تم سے ملنا چاہتی ہے اگر ہو سکے تو آ جانا ساتھ ہی مجھے ایک کاغذ کا ٹکڑا پکڑایا جس پر ایڈریس درج تھا اور خود چل دئیے-میرے ماموں چلے گئے مگر میں صدمے ، حیرانگی پریشانی اور تکلیف کی وجہ سے ان کو آواز بھی نہیں دے پایا تھا  جب کچھ حواس بحال ہوئے تو میں نے اس بات کی تصدیق کا فیصلہ کیا والد صاحب سے جھوٹ بولا کہ اپنے دوست کے ساتھ اس کے رشتہ داروں کی طرف شادی پر جا رہا ہوں -گاڑی نکالی کچھ پیسے ساتھ لیے اور متعلقہ ایڈریس پر چل دیا جب میں متعلقہ گاؤں پہنچا تو اسی پتے پر چلا گیا اور دستک دی تو مجھے سے تعارف مانگا گیا میں نے اپنا بتایا تو مجھے دو منٹ کا انتظار کرنے کا کہا گیا-اتنی دیر میں اندر سے چند خواتین بچوں اور دو تین مردوں کی آوازیں ابھریں دروازہ کھولا گیا سامنے چارپائی پر صاف ستھرے بستر پر ایک خاتون لیٹیں تھیں جو انتہائی کمزور تھیں مجھے دیکھ کر انہوں نے ہاتھ اوپر اٹھا لئیے تھے اور ان کی آنکھوں کو دیکھتے ہی بنا کوئی ثبوت مانگے میں ان کے سینے سے لگ گیا تھا-میں اکثر والد صاحب سے کہتا تھا میری آنکھیں اتنی خوبصورت کیوں ہیں جب کہ میرے ددھیال میں کسی کی آنکھیں اتنی خوبصورت نہیں ہیں تو مجھے جواب دیا جاتا تھا کہ تیری آنکھیں تیرے پردادا پر گئی ہیں اور آج جب اس نحیف خاتون کی آنکھیں دیکھیں تو مجھے جواب مل گیا تھا کہ میری آنکھیں میری ماں پر گئی ہیں ۔اچانک سے مجھے اپنے گالوں پر گہری نمی کا احساس ہوا تو میں نے سرا اٹھا کر دیکھا میری ماں کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور اتنی خاموشی سے رو رہی تھیں کہ ان کے سینے سے لگا میں جان ہی نہیں پایا تھا کہ وہ رو رہی ہیں-میں نے ان کے آنسو پونچھے انہوں نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں رکھا اور میں باقی رشتہ داروں سے ملنے لگا اپنے ننھیال والوں سے مل کر مجھے پہلی بار محسوس ہوا تھا کہ رشتوں کا خلوص کیا ہوتا ہے ۔

میری ماں کینسر کی مریضہ تھی ان کا جگر ختم ہو چکا تھا انہوں مجھے کہا تھا بیٹا تھوڑے فاصلے پر بیٹھنا میرے سانس لینے سے اندر سے بد بو آتی ہے تم کو تکلیف ہو گی تو میں نے اپنی ماں کا منہ چومتے ہوئے کہا تھا ماں سے بد بو نہیں ہمیشہ خوشبو آتی ہے -شام تک سارے گاؤں میں پتہ چل چکا تھا کہ میری ماں کا بیٹا( میں )  آ چکا ہے لوگ مجھے دیکھنے اور ملنے آ رہے تھے میری ماں کی کل دولت ایک بکری تھی میری والدہ نے میرے ماموں سے کہا تھا بکری بیچ کر مجھے پیسے لا دو-میں نے ماں سے پوچھا ان کو پیسوں کی کیا ضرورت ہے تو انہوں کے کہا وہ میرے سر سے وار کر لوگوں کو دینا چاہتی ہیں- ماں کی بات سن کر میں رو پڑا گاڑی میں پڑے لاکھوں روپے لا کر ماں کے قدموں میں رکھے اور کہا اب میری ماں کو کوئی چیز بیچنی نہیں پڑے گی-میں نے وہ رقم ماں کے سر اور قدموں سے وار کر بانٹنا شروع کر دی- تب کہیں سے اذان سنائی دی میری والدہ نے ماموں کو کہا کہ مجھے باہر لیجائے میں نے وجہ پوچھی تو ماموں نے کہا کہ میں بتاتا ہوں -

باہر لے جا کر انہوں نے وجہ بتائی کہ میری ماں وضو کرنا چاہتی ہیں اور وہ خود نہیں کر سکتیں تو میری ممانی اور مامو ںزاد بہنیں ان کو وضو کرواتی ہیں- میں فوراً گھر کی طرف دوڑا تب میری ممانی میری ماں کا چہرہ دھو رہی تھی میں نے ان کے ہاتھ سے پانی پکڑ لیا اور کہا کہ ماں آج بھی آپ کو لگتا ہے کہ آپ کو محتاجی ہے آپ مجھے حکم تو کرتیں جتنا مذہب اجازت دیتا اتنا وضو میں خود اپنی ماں کو کروا دیتا-میری ماں نے جواب دیا کہ میں نے سوچا پتہ نہیں تو کتنی صاف ستھری جگہ پر پلا ہو گا تجھے یہ دیکھ کر بھی برا نہ لگ جائے کہ میری ماں اس طرح سے وضو کرتی ہے اس لئیے تھے باہر بھیج دیا -ماں کی بات سن کر میں رو پڑا اور کہا کہ" میں واقع ہی بہت صاف ستھری اور نفیس جگہ پر رہا ہوں مگر وہ جگہ تمہارے دل اور نیت سے صاف نہیں تھے -ساتھ ہی رونے لگ پڑا میری باوضو ماں نے مجھے گلے لگا لیا مجھے نہ صرف چومنے لگیں بلکہ میرے آنسو پینے لگیں اور کہنے لگی بیٹا اسی بات کا افسوس ہے کہ تو میرے دل اور دماغ میں رہا مگر کبھی میری زندگی میری گود میں نہیں رہا  ۔میں نے اپنے سہارے پر بیٹھا کر اپنی والدہ کو نماز پڑھائی اور جب وہ نماز پڑھ چکی تو میں نے ان سے پوچھا کہ آپ اتنی تکلیف میں ہیں اور پھر بھی نماز پڑھتی ہیں آپ چھوڑ دیا کریں جب صحت یاب ہو جائیں تو پڑھ لینا-میری والدہ صاحبہ نے میرا ماتھا چوما اور مجھے انتہائی نرمی سے کہا کہ بیٹا نماز میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے-آنکھوں كي ٹھنڈک کیا ہوتی یہ مجھ سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا کیونکہ تو میری آنکھوں کی ٹھنڈک بن کر اس وقت میرے پاس بیٹھا ہے-تیرے بغیر میں کتنی تکلیف میں تھی یہ میں جانتی ہوں یا میرا خدا جانتا ہے اور بالکل ایسے ہی جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت نماز نہیں پڑھتی تو ان پر کیا گزرتی ہے یہ وہ جانتے ہیں یا ان کا خدا جانتا ہے-میری ماں نے مجھ سے کہا تھا اسلام حکم دیتا ہے کہ اگر تم پانی ميں ڈوب رہے ہو اور تم کو اذان سنائی دے تو بھی تم پر فرض ہے کہ تم نماز کی نیت باندھ لو میں تو محض بیمار ہوں-بیٹا تو میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اور تو نماز پڑھے گا تو مجھے نہ صرف اس دنیا میں تیری طرف سے ٹھنڈک پہنچے گی بلکہ قبر میں بھی تیرے اعمال کی وجہ سے مجھے اجر و ثواب پہنچے گا -نماز پڑھنے کے لیے کسی جزا سزا کی وجہ کا ہونا ضروری نہیں ہے بس نماز پڑھنے کے لئے دو وجوہات ہی کافی ہیں کہ نماز اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی امت کے لئے تحفہ ہے اور نماز میرے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے -اگر ہو سکا تو کبھی نماز نہ چھوڑنا میں نے نماز قائم کرنے کا وعدہ کر لیا اور ماں کو لٹا کر نماز پڑھی- شام کو میری والدہ صاحبہ نے میرے لئیے سبزی خود کاٹنے کی کوشش کی مگر کمزوری کی وجہ سے نہ کر سکیں تو انہوں نے میری ماموں زاد کو پاس بٹھایا اور ان کو بتایا کہ کس طرح سبزی کی ہانڈی بنا لائیں-میری والدہ صاحبہ کی پسند پر بنی ہانڈی آ گئی بہت محنت و کوشش کے بعد میری والدہ صاحبہ نے نوالہ توڑ کر میرے منہ میں ڈالا اور یقین کریں میں نے اتنا لذیذ کھانا پہلے کبھی نہیں کھایا تھا غالباً یہ میری ماں کے ہاتھ کا ذائقہ تھا ۔عشا کے بعد دیر تک میری ماں مجھ سے باتیں کرتی رہی پھر میری ماموں زاد کے ذریعے سونے کا ایک لاکٹ مجھے دیا اور کہا یہ تیری پڑھائی کے لئیے سنبھال کر رکھا ہوا تھا مگر تجھ پر نہیں لگا سکی-میں نے والدہ صاحبہ کے ہاتھ سے ہار پکڑ لیا اور ان کے ماضی کے متعلق کوئی سوال نہ کیا وہ یہاں کیسے پہنچیں؟ میں ایسا سوال کر کے ان کے چہرے پر چھائی خوشی کو غم میں نہیں بدل چاہتا تھا- مجھ کو ایسے سوالات سے ماموں اور سب گھر والوں نے منع بھی کیا تھا اور بتایا تھا کہ جتنا ان چند گھنٹوں میں تمہاری ماں بولی اور ہنسی ہے اتنا پچھلے دو سال میں نہیں ہنسی اور ساتھ ہی مجھے بتایا گیا کہ میری والدہ محض تین دن کی مہمان ہے تو میری ساری ہنسی سمٹ گئی-میں نے زیادہ سے زیادہ وقت ماں کے قریب گزارا میں نے ماں سے لاکھ ان کی خواہشات کے متعلق پوچھا انہوں نے بس مجھے نماز قائم کرنے اور دین پر چلنے کی نصیحت کی ۔جب عشا کی نماز کے بعد امام صاحب کو میرا تعارف دیا گیا تو وہ خاص طور پر مجھے ملنے آئے اور مجھے الگ لے جا کر بتایا کہ اگر آپ صاحب استطاعت ہیں تو یہ پیسہ ان لوگوں میں نہ بانٹیں بلکہ اپنے ماموں کو دے دیں-آپ کے ماموں نے اپنا گھر زمین سب کچھ بیچ کر آپ کی والدہ صاحبہ کے علاج پر لگا دیا ہے یہاں تک بچوں کی پڑھائی بند کروا کر وہ پیسہ بھی بہن کے علاج پر لگا دیا تمہارے ماموں کے اونچا بولنے کی آواز زندگی میں ایک بار گاؤں والوں نے سنی اور وہ بھی تب جب تمہاری والدہ کی طبیعت خراب تھی اور وہ تمہاری ممانی کو آوازیں دے رہی تھی مگر تمہاری ممانی کو سنائی نہیں دی تمہارے ماموں  داخل ہوئے تو انہوں بیٹیوں اور بیوی کو ڈانٹ کر کہا کہ میری بہن کو آواز کیوں دینا پڑی تم میں سے ایک ہر وقت ان کے پاس کیوں نہیں بیٹھی رہتی ۔میں نے امام مسجد صاحب سے کہا کہ مجھے اس کے علاوہ بھی بتائیں کہ میری ماں یا ماموں نے کسی کا کوئی قرض دینا ہے جس پر امام صاحب نے جواب دیا کہ مجھے اس کا کوئی علم نہیں اس کے ساتھ امام صاحب شکریہ ادا کر کے اٹھ گئے۔میری ماں نے رات کو مجھے اپنے پاس سلانے سے منع کیا اور کہا کہ میں تکلیف کی وجہ سے کراہتی ہوں تو تمہاری نیند خراب ہو جائے گی مگر میں نے کہا ماں جی آج رات کو میں نے سونا ہی کب ہے آج ساری رات آپ کے چہرے کو دیکھ دیکھ کر حج کرنا ہے-میری ماں نے مجھے محبت سے اپنے سینے لگایا مجھے چوما اور اپنے پاس ہی لٹا لیا میں تھوڑی دیر بعد اٹھ کر بیٹھا اور ماں کی ٹانگیں دبانے لگا مجھے میری والدہ صاحبہ نے آخری الفاظ جو کہے وہ یہ تھے کہ " نماز قائم رکھنا دین پر چلنا اور اگر اپنے باپ جیسی خصلتوں کے مالک نہ ہوئے تو اپنے ماموں اور ان کی بیٹیوں کا خیال و لحاظ کرنا-اپنے باپ کا ماضی جاننے کی کوشش نہ کرنا نہ کبھی اپنے باپ سے نفرت کرنا "

اس کے ساتھ ہی میری والدہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے سینے پر رکھا اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے لگیں ۔وہ ذکر کرتے کرتے نجانے کب سو گئیں رات بارہ بجے کے بعد ماموں آئے تا کہ میری والدہ صاحبہ کی خبر گیری کر سکیں جوں ہی ان کی نظر میری والدہ پر پڑی تو وہ دوڑے مجھ سے پوچھا تم کو پتہ چل رہا  ہے تمہاری ماں کی سانسیں نہیں چل رہی ہیں ؟میں جو ماں کے قدموں کو دبا رہا تھا میرے ہاتھ رک گئیے تھے گاڑی میرے پاس تھی میں نے ماں کو ہسپتال پہنچایا جہاں انہوں نے ڈیڑھ دو گھنٹے پہلے کی موت ڈکلئیر کر دی -صبح سحری کے وقت والدہ صاحبہ کو لے کر گھر پہنچے مجھے لگا کہ فجر کی اذان ہونے والی ہے تو میں نے وضو بنانا شروع کر دیا اسی دوران میرے ماموں کی سرگوشی بھری  آوز میرے کانوں میں پڑی وہ میری ممانی کو کہیں سے پیسوں کا انتظام کرنے کا کہہ رہے تھے تا کہ کفن کا انتظام کر سکیں-جبکہ میری ممانی ان کو جواب دے رہی تھی کہ ان کے بھائی اور باقی گاؤں والے جس کے پاس بھی جائیں وہ کہتے ہیں تم کو ادھار پیسے دے دیں تو تم لوگ واپس کیسے کرو گے ؟گھر بار بیچ کر تو علاج پر لگا چکے ہو ؟میرے ماموں خاموش ہو کر گھر سے باہر نکل گئیے میں بھی ان کے پیچھے نکل گیا وہ گاؤں کے کافی بڑے چوہدری کے پاس گئیے چوہدری کی بجائے اس کا منشی آیا جس سے انہوں نے رقم کا تقاضا کیا منشی میرے ماموں کا پیغام لے کر واپس چوہدری کے پاس گیا تو چوہدری نے جواب میں کہہ بھیجا گھر باہر بیچ کر بہن کے علاج پر لگا دیا ہے بیٹیاں بیچ کر کفن دفن پر لگا دو  ؟اتنے سخت الفاظ سننے کے باوجود میرے ماموں بنا کوئی رد عمل دئیے  گھر کی طرف  چلے آئے راستے میں اذان ہوئی تو وہ مسجد کی طرف مڑ گئیے میں بھی ان کے پیچھے مسجد میں پہنچا اور ان کو کہا کہ اپنی ماں کے کفن دفن کا انتظام میں خود کروں گا ۔میری بات سن کر انہوں نے منع کیا اور کہا بہن کے کفن دفن کا انتظام بھائیوں کی ذمہ داری ہوتی ہے میں کر لوں گا ساتھ ہی ماموں رو پڑے اور ان کو دیکھ کر میں بھی رو پڑا -انہوں نے اپنی بہن کو سسک سسک کر مرتے دیکھا تھا اور میں نے برسوں ماں کی جدائی سہی اب برسوں اور سہنی پتہ نہیں قبر میں بھی ملاقات ہوتی یا نہ ہوتی-اسی دوران باقی نمازیوں نے آ کر ہم کو حوصلہ دیا سب لوگ نماز پڑھنے کے بعد ہمارے ساتھ ہمارے گھر ہی آ گئے تا کہ ہمارے دکھ میں شامل ہو سکیں میں نے اپنے پاس موجود ساری رقم ماموں کے حوالے کر دی اور والدہ صاحبہ کے کفن دفن سے فارغ ہو کر راتوں رات راولپنڈی آیا یہاں سے مزید پیسے ليے صبح سے پہلے اپنی ماں کی قبر پر پہنچا کیوں کہ مجھے مولوی صاحب نے حکم دیا تھا کہ کچھ دن صبح فجر کی نماز سے لے کر سورج نکلنے تک اور عصر کی نماز کے بعد سورج غروب ہونے تک کا وقت اپنی ماں کی قبر پر گزارنا لہذا سورج نکلنے کے بعد میں ماموں کے گھر پہنچا -میں نے مولوی صاحب کے ذریعے سب سے پہلے اس شخص کا کھوج لگایا جس نے میرے ماموں سے گھر خرید رکھا تھا اس کو اس کی رقم دی اور کہا کہ اب وہ گھر کا تقاضہ نہ کرے باقی کی رقم سے دیگر اخراجات کے ساتھ ساتھ والدہ صاحبہ کے ایصال ثواب کے لئے کچھ فلاحی کام کروائے -جن میں گاؤں کا سب سے بڑا مسئلہ نکاسی آب کا تھا سیوریج کے پانی کے لیے کوئی زمین نہ تھی میں نے اسی چوہدری صاحب جنہوں نے میری ماں کے کفن کے لئے میرے ماموں کو ادھار دینے سے انکار کیا تھا سے دگنی قیمت پر دس مرلہ زمین خریدی اس میں سارے گاؤں کا سیوریج کا پانی ڈالا مزدور لگا کر پورے گاؤں کی گلیاں ٹھیک کروائیں مسجد کی چھت کے متعلق بتایا گیا وہ بارش میں ٹپکتی ہے میں نے مسجد کی چھت پکی کروا دی ۔ دس دن رہنے کے بعد میں واپس آیا تو چاہ کر بھی والد صاحب سے پہلے جیسا رویہ نہ رکھ پایا مگر والدہ صاحبہ کے حکم پر میں نے والد صاحب سے ماضی جاننے کی بلکل بھی کوشش نہ کی اور نہ کبھی اپنی نماز چھوڑی والد صاحب کی ناراضگی مول لیتے ہوئے اپنی ماموں زاد سے شادی کر لی اور اس اللہ کی بندی نے ثابت کر دیا کہ میری ماں کی نسل میں کتنی وفا تھی ۔میری والدہ صاحبہ گزر چکی ہیں میں کامیابی کے عروج پر پہنچ چکا ہوں بہت کچھ بدل چکا ہے میری والدہ صاحبہ کی خاطر میرے ماموں جان نے جو کچھ لگایا اس سے کہیں زیادہ ان کو لوٹا چکا ہوں مگر آج بھی ان کا احسان مند اور شکر گزار ہوں کہ میری والدہ صاحبہ کی خدمت انہوں نے غلاموں سے بڑھ کر کی میری والدہ صاحبہ فوت ہو گئیں مگر میں نے ماموں ممانی اور والد صاحب کو تین تین حج کروائے میں نے خود اپنی بیگم کے ساتھ حج کیا ہے اور والدہ صاحبہ کی وفات کے بعد کبھی نماز نہیں چھوڑی اس لئیے نہیں کہ یہ میری والدہ کی آخری نصیحت تھی بلکہ اس لئیے کہ نماز میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی  آنکھوں کی ٹھنڈک ہے-اگر میری کوئی نماز قضا ہو جاتی ہے تو میں فورآ ہی اگلی نماز کے ساتھ اسے ادا کر لیتا ہوں ۔

کرنل محمد حیات صاحب کی داستان مکمل ہو گئی میں ان کے والد صاحب ماموں ممانی میں سے کسی کا انجام نہ پوچھ سکی مگر ان کی اس داستان کے بعد میں نے بھی کبھی نماز نہیں چھوڑی کیوں کہ مجھے بھی سمجھ آ گئی ہے کہ نماز میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔