یوسف یوحنا سے محمد یوسف تک

مصنف : تاریخی واقعات ڈاٹ کام

سلسلہ : من الظلمٰت الی النور

شمارہ : اگست 2018

یوسف یوحنا سے محمد یوسف تک

محمد یوسف کہتے ہیں کہ ہماری رہائش ریلوے کالونی گڑھی شاہو لاہور میں تھی۔ یہاں میرے ہم مذہبوں کے بھی گھر تھے لیکن زیادہ آبادی مسلمانوں کی تھی۔ اتفاق کی بات کہیے کہ میرا زیادہ اٹھنا بیٹھنا ملنا جلنا اور کھیلنا کودنا بھی مسلمان لڑکوں کے ساتھ ہی تھا۔ سچی بات یہ ہے کہ وہ بھی مجھے اپنے جیسے ہی لگتے تھے۔ مسلمانوں کے ہاں مجھے کوئی ایسی خاص خوبی یا امتیازی بات نظر نہیں آتی تھی کہ میرے دل میں مسلمان ہونے کا شوق پیدا ہوتا‘ مسلمان لڑکوں کے مشغلے بھی میرے جیسے ہی تھے۔ایف سی کالج میں پڑھائی کے دوران میری دوستی ایک ہم جماعت لڑکے جاوید انور سے قائم ہوئی وہ کرکٹ کے سپرسٹار اور ہمارے سینئر ساتھی سعید انور کا چھوٹا بھائی ہے۔میں نے زندگی بھر اس جیسا لڑکا نہیں دیکھا۔ میں اسے ملنے سعید بھائی کے گھر جاتا رہتا تھا۔سعید بھائی رہتا تھا۔سعید بھائی تو 1989ء سے قومی ٹیم میں تھے‘ میں کوئی نوسال بعد 1998ء میں ٹیم میں آیا۔وہاں اکثر ایک سابق کرکٹر ذوالقرنین حیدر آ جاتے تھے جو تبلیغی جماعت میں شامل ہوگئے تھے۔ وہ نیکی اور نماز روزے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ لیکن اس وقت سعید بھائی کو ایسی باتوں کی لگن نہ تھی۔اکثر جب ذوالقرنین حیدر یا تبلیغ والے دوسرے لوگ آتے تو سعید بھائی مجھے باہر بھیج دیتے کہ کہہ آؤ کہ سعید گھر پر نہیں ہے۔پھر میں نے دیکھا کہ آہستہ آہستہ ان کی طبیعت مذہب کی طرف آنے لگی۔ تبلیغی جماعت کے بزرگوں سے بھی ان کا میل جول بڑھ گیا۔ اپنی بیٹی کی وفات کے بعد وہ مکمل طورپر مذہبی رنگ میں رنگ گئے۔اکثر تبلیغی دوروں پر رہنے لگے۔ وہ مجھے کہتے تھے ’’یوسف ہرروز سونے سے پہلے یہ دعا مانگا کرو۔‘‘ اے خدا!مجھے حق اور سچ کا راستہ دکھا۔
سعید بھائی نے مجھے ان دنوں کبھی یہ نہ کہا کہ مسلمان ہوجاؤ ہمیشہ اس دعا کی تلقین کرتے رہے۔میں سعید بھائی کی نصیحت کے مطابق ہمیشہ سونے سے پہلے یہ دعا مانگتا رہا۔ میں نے سعید بھائی میں آنے والی تبدیلیوں کو بڑے غور سے دیکھا اور بہت متاثر ہوا۔پھر ایک عجیب بات ہوئی۔ میرا ایک دوست ہے وقار احمد‘ بڑی پرانی دوستی ہے ہماری ‘یہ تین سال پہلے کی بات ہے میں حسب معمول رات کو یہ دعا مانگ کر سوگیا کہ ’’اے خدا مجھے حق اور سچ کا راستہ دکھا‘‘۔۔رات میں نے خواب میں اپنے دوست وقار کو دیکھا وہ خوشی خوشی میرے پاس آیا اور کہنے لگا’’سنا ہے تم مسلمان ہوگئے ہو‘‘ میں نے اسے کوئی جواب نہ دیا۔آنکھ کھلنے پر میں یہ سوچتا رہا کہ کیا واقعی اللہ نے مجھے حق اور سچ کا راستہ دکھا دیا ہے۔ وقار شیخوپورہ کا رہنے والا ہے۔ اتفاق دیکھئے کہ انہی دنوں پی آئی اے اور نیشنل بینک کے درمیان میچ کیلئے شیخوپورہ کرکٹ گراؤنڈ تجویز ہوا۔ میں پی آئی اے کی طرف سے کھیل رہا تھا۔شیخوپورہ پہنچا تو میرا وہی دوست وقار احمد مجھ سے ملنے آگیا۔ وہی خواب والی وضع قطع ‘میں اس وقت حیران رہ گیا جب اس نے بالکل اسی انداز سے مجھ سے پوچھا ’’سنا ہے تم مسلمان ہوگئے ہو؟
‘‘میں اس کا منہ دیکھنے لگا۔یہی وہ لمحہ تھا جب مجھے یقین ہوگیا کہ اللہ نے مجھے اشارہ دے دیا ہے کہ حق کا راستہ کیا ہے۔شام کو میں شیخوپورہ سے لاہور آیا تو سیدھا کیولری گراؤنڈ سعید بھائی کے پاس چلا گیا یہ اکتوبر 2002ء کا ذکر ہے۔میں نے سعید بھائی سے کہا ’’میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں‘‘ سعید بھائی نے مجھے گلے سے لگا لیا مجھے کلمہ پڑھایا اور میری دنیا بدل گئی۔اس دوران میں جب بھی رائے ونڈ جاتا اور حاجی عبدالوہاب صاحب سے پوچھتا کہ اب مجھے اسلام قبول کر لینے کا اعلان کر دینا چاہئے‘تو وہ کہتے ’’نہیں ابھی نہیں‘‘ شاید انہیں میری شکل دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ ابھی میں اس لائق نہیں ہوا۔ میری مولوی فہیم صاحب اور طارق جمیل صاحب سے بھی ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ انضمام بھائی کو پتا چلا تو انہوں نے بڑی شفقت کی۔جون 2005 میں کرکٹ ٹیم کچھ میچ کھیلنے سعودی عرب گئی۔ میچ تو نہ ہوئے البتہ ٹیم نے عمرہ کیا۔ اس سے کوئی ڈیڑھ دومہینہ پہلے میری بیوی بھی اسلام قبول کرچکی تھی میں نے اسے آزادی دی تھی کہ وہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے۔ پوری ٹیم نے عمرہ کیا لیکن میں ان کے ساتھ شامل نہ ہوا‘کیونکہ ابھی تک میں نے مسلمان ہونے کا کھلا اعلان نہیں کیا تھا لیکن مجھے سخت بے تابی تھی کہ عمرے کی سعادت حاصل کروں۔
میری بیوی بھی میرے ہمراہ تھی۔ اب وہ تانیہ کے بجائے فاطمہ ہوچکی تھی۔رائے ونڈ سے مولوی فہیم صاحب نے مکہ میں موجود عالمگیر صاحب کے ذمہ لگایا اور وہ رات گئے ہم دونوں کو حرم شریف لے گئے ہم نے عمرہ ادا کیا‘ یہ اللہ کا بہت بڑا کرم تھا۔ رات کے پچھلے پہر شروع ہونے والا عمرہ صبح پانچ بجے ختم ہوا۔ میں نے اسی وقت مولوی فہیم صاحب کو فون کیا انہوں نے حاجی عبدالوہاب صاحب سے ذکر کیا جنہوں نے مجھے قبول اسلام کا اعلان کرنے کی اجازت دے دی۔پاکستان واپس آتے ہی میں نے اعلان کردیا۔ اسے اتفاق یا قدرت کا انعام کہیے کہ میں نے اپنے بیٹے اور بیٹی کے نام بھی مسلمانوں والے رکھے تھے۔ بیٹی کا نام انیقہ یوسف اور بیٹے کا نام دانیال یوسف ہے۔ میرے قبول اسلام پر والد صاحب نے برہمی کا اظہار نہیں کیا والدہ کچھ رنجیدہ ہوئیں لیکن اب سب کچھ معمول پر آرہا ہے میں اللہ سے دعا گو رہتا ہوں کہ وہ میرے پورے خاندان کو حق اور سچ کا راستہ دکھادے۔ آمین۔ ‘‘

***