معاف كرنا

مصنف : قاری محمد حنیف ڈار

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : مارچ 2023

اصلاح و دعوت

معاف كرنا

حنيف ڈار

*جگالی وہ چیز ہے جو حلال جانور کرتے ہیں۔ان کا معدہ خوراک کو مرحلہ وار ہضم کرتا ہے۔ جگالی جانور کی صحت کی علامت ہوتی ہے، البتہ انسان اگر جگالی کرے تو یہ اس کے بیمار ہونے کی علامت ہے، انسان کو اللہ پاک اور اس کے رسول ﷺ نے بھی بار بارجگالی کرنے سے منع کیا ہے اور جگالی کرنے کے نقصانات بیان کیے ہیں اور جگالی نہ کرنے کے بےشمار فائدے بیان کیے ہیں -

*انسان نفسیاتی جگالی کرتا ہے، یعنی وہ دوسروں کی طرف سے کی گئی ساری زیادتیاں اپنی ہارڈ ڈسک پہ محفوظ رکھتا ہے اور انہیں بار بار ریفریش کرتا رہتا ہے۔ جنہیں وہ بظاہر حاتم طائی کی قبر پر لات مار کر معاف کر دیتا ہے،یقین کریں وہ ری سائیکل بِن کبھی بھی Empty نہیں کرتا بلکہ انہیں حسبِ ضرورت Restore کرتا رہتا ہے ۔*

*انسان دنیا میں امتحان کے لئےبھیجا گیا ہے اور امتحانوں میں سب سے پہلا اور سب سے سخت امتحان رشتے دار ہیں،جو گھر میں پیدا ہوتے ہیں، جو جتنا قریبی ہوتا ہے وہ اُتناہی سخت ڈنگ مارتا ہے۔عربی کا ایک مقولہ ہے’’رشتے دار بچھوؤں کی مانند ہوتے ہیں۔‘‘ رشتے داروں کے ڈنگ کے زہر کو رگوں میں لیے پھرنا ایک نقصان دہ عمل ہے۔ سب سے پہلی فرصت میں اسے نکال باہر کرنا چاہئے ، اس سے آپ کی دنیاوی صحت بھی ٹھیک رہتی ہے اور آخرت کی منزل بھی آسان ہو جاتی ہے اور بوقتِ موت جان بھی آسانی سے نکلتی ہے کیونکہ ڈیٹا کم ہوتا ہے تو شٹ ڈاؤن جلدی ہو جاتا ہے۔*

*ہم اللہ پاک سے معافیاں مانگتے ہیں اور معافی کی امید رکھتے ہیں مگر یقین جانیں اللہ بھی معاف کرنے والے کو معاف کرتا ہے،جو لوگ ایک دوسرے کو معاف نہیں کرتے اللہ بھی انہیں معاف نہیں کرتا، عام تو عام خاص موقعوں پر بھی اللہ پاک فرشتوں کو کہتا ہے کہ ان کا کیس ایک طرف رکھ دو، جب تک یہ ایک دوسرے کو معاف نہ کر دیں۔ اس میں پیر ، جمعرات اور لیلۃ القدر کے مواقع ایسے ہیں جن کا ذکر احادیث میں آیا ہے ۔*

*جو ہر وقت چارج رہتے ہیں، وہی بلڈ پریشر کا زیادہ شکار ہوتے ہیں،یہاں تک کہ ان کے خواب بھی ہمیشہ ڈراؤنے اور نقصانات والے ہوتے ہیں۔ ایک خاتون نے کہ جن کے بچے بھی پروفیسر ہیں مجھے کہا کہ وہ رات بھر سو نہیں سکتیں کیونکہ انہیں بہت ڈراؤنے خواب آتے ہیں ، جن میں ان کی ساس مرکزی کردار ہوتی ہیں، میں نے ان سے کہا کہ آپ ساس کو معاف کر دیں۔ اللہ پاک آپ کے لئے آسانی پیدا کرے گا،وہ فوت ہو گئی ہیں، آپ بھی ان کا لاشہ اپنے اندر سے نکال کر دفن کر دیں وہی مردہ آپ کو تنگ کر رہا ہے۔کہنےلگیں کہ انہوں نے میرے ساتھ بہت زیادتیاں کی ہیں ،معاف تو میں ان کو کسی صورت نہیں کروںگی۔میں نے کہا پھر یہ خواب بھی ختم نہیں ہوں گے،یہ عذاب باہر نہیں آپ کے اندر ہے اور بدبو باہر سے نہیں آپ کے اندر سے آتی ہے، کیونکہ مردہ آپ نے تہہ خانے میں رکھا ہوا ہے ۔*

*نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس نے زمین پر چلتا پھرتا جنتی دیکھنا ہے وہ اس شخص کو دیکھ لے جو ابھی آ رہا ہے، سب کی نظریں مسجدِ نبوی کے دروازے پر لگ گئیں، ایک صاحب داخل ہوئے وضو کا پانی ان کی داڑھی کے بالوں سے ٹپک رہا تھا اور جوتے انہوں نے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے تھے ۔ دوسرے دن بھی یہی مکالمہ ہوا اور وہی داخل ہوئے۔تیسرے دن بھی یہی مکالمہ ہوا اور وہی داخل ہوئے۔جس پر حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کو تجسس ہوا کہ یہ بندہ کرتا کیا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ مسلسل تین دن سے اس کے جنتی ہونے کی بشارت دے رہے ہیں ؟ وہ اس صحابی کے پیچھے ہو لیےاور اس سے کہا کہ چچا میرے گھر والوں سے کچھ معاملات ہو گئے ہیں آپ مجھے کچھ دن اپنے گھر رکھ لیں، تین رات وہ مسلسل اس کے گھر رہے اور رات بھر جاگتے رہے کہ یہ بندہ کون سی خاص عبادت کرتا ہے ؟ اس نے کوئی خاص عبادت نہیں کی ،بس عشاء کی نماز پڑھی اور سو گیا، رات کو جب کبھی کروٹ بدلتا تو سبحان اللہ کہہ دیتا اور بس صبح اٹھ کر فجر پڑھ لیتا ۔*

*عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب مجھے اس بات کی سمجھ نہ آئی تو میں نے اس کو اصل بات بتا دی کہ تین دن حضورﷺ بشارت دیتے رہے اور تینوں دن آپ مسجد میں داخل ہوتے رہے،جس کی وجہ سے میں آپ کا عمل دیکھنا چاہتا تھا۔ اس بندے نے کہا کہ بھتیجے! عمل تو میرے پاس وہی ہے جو تم نے دیکھ لیا ہے،میں جب واپس جانے کو پلٹا تو اس نے آواز دے کر بلایا اور کہا کہ ایک بات ہے، میں رات کو سینہ صاف کر کے سوتا ہوں ، کسی کے بارے میں میرے دل میں کوئی رنجش نہیں ہوتی، جب اس بات کا تذکرہ نبی کریمﷺ کے سامنے کیا گیا تو آپﷺ نے فرمایا یہ میری سنت ہے، تم میں سے جس سے بھی ہو سکے رات کو سونے سے پہلے سینہ صاف کر کے سوئے۔ ‘‘*

*دوسرا واقعہ آخرت کے بارے میں ہے کہ ایک حدیث قدسی کے مطابق اللہ پاک ایک شخص کو اپنے قریب کرتے کرتے اتنے قریب کر لیں گے کہ اس کے شانے پہ اپنا دستِ مبارک ٹیک لیں گے اور اسے اس کے گناہ یاد کرائیں گے وہ ان سب کو تسلیم کرے گا،پھر اللہ پاک اسے کہیں گے کہ میں نے یہ سب معاف کیے اور جانتے ہو کہ کیوں معاف کیے ہیں؟ وہ کہے گا کہ اے اللہ! میں نہیں جانتا کہ تو نے میرے یہ گناہ کیوں معاف کر دیئے جبکہ تو نے ابھی ابھی تو انہیں گنوایا ہے، اللہ پاک فرمائیں گے اس لیے کہ تو بھی تو لوگوں کو معاف کر دیتا تھا، پھر معاف کرنے میں تو مجھ سے آگے تو نہیں نکل سکتا، میں سب سے بڑا معاف کرنے والا ہوں ۔*

*اس لیے اٹھتے بیٹھتے ،کھڑے ،لیٹے دوسروں کی زیادتیوں کی جگالی نہ کیا کریں،جب معاف کیا کریں تو معاف کیا کریں، فراڈ نہ کیا کریں۔*