رُو اور رَو

مصنف : ڈاکٹر مولانا محمد عمار خان ناصر

سلسلہ : لسانیات

شمارہ : جنوري 2023

رَو اور رُو
فارسی کا ‘‘رُو‘‘اردو ترکیبات میں دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس میں اور ‘‘رَو‘‘میں بعض اوقات اشتباہ بھی واقع ہو جاتا ہے۔
رُو کا ایک مطلب چہرہ ہے۔ اس سے خوب رو، سرخ رو، ترش رو اور روبرو جیسی تراکیب بنی ہیں۔ چہرے میں دیکھنے کا مفہوم بھی ہے تو ‘‘اس کی رُو سے ’’ یا ‘‘ازروئے شرع ’’جیسی تراکیب پیدا ہوتی ہیں۔ اس کی تقریباً مترادف تعبیرات عربی میں ‘‘نظرا الی ذلک ’’اور انگریزی میں in view of کی صورت میں ملتی ہیں۔ اسی سے ‘‘رُو بہ کار’’یا ‘‘بروئے کار’’جیسی ترکیبات سمجھی جا سکتی ہیں، یعنی کسی کام کی طرف متوجہ یا اس کے قریب۔ رُوبصحت یعنی صحت کی طرف مائل، رُو بہ تنزل یعنی تنزل کی طرف بڑھتا ہوا۔ آبرو بھی آب اور رُو سے مرکب ہے، یعنی چہرے کی چمک اور تابانی۔ یہیں سے یہ عزت اور وقار کے معنی میں مستعمل ہے۔
رُو کا دوسرا مطلب ‘‘اگنے والا’’ہے۔ اس مفہوم میں یہ ‘‘روئیدن ’’سے اسم فاعل ہے۔ روئیدن کا مطلب اگنا، زمین کی روئیدگی یعنی زرخیزی۔ خودبخود اگنے والے پودوں کو خودرُو نباتات کہا جاتا ہے۔ اس کو خودرَو پڑھنا غلط ہے، کیونکہ وہ ایک الگ ترکیب ہے جس کی تشریح آگے آ رہی ہے۔
رَو، رفتن سے اسم فاعل ہے۔ تیز رَو یعنی تیز چلنے والا، راہرو یعنی مسافر، خود رَو یعنی ازخود (آٹومیٹک) چلنے والی کوئی چیز۔ اسی سے میانہ روی، سست روی، راست روی اور کج روی وغیرہ تراکیب بنی ہیں، یعنی درمیانی یا سست چال چلنا، صحیح یا غلط راستے پر گامزن ہونا۔ اردو میں اسی سے ایک ترکیب ‘‘روا روی ’’بن گئی ہے، یعنی چلتے چلتے، جلد بازی میں۔ رَو کے ساتھ فارسی قاعدے کے مطابق ش لگانے سے حاصل مصدر بن جاتا ہے۔ (جیسے کشیدن سے کشش، باریدن سے بارش اور خواہیدن سے خواہش)۔ رَوش یعنی چلنے کا انداز اور طور طریقہ۔ کلاسیکی اردو میں روش، چلنے کے لیے بنائے گئے راستوں یعنی فٹ پاتھ کے لیے بھی مستعمل ہے۔ رَوانہ، رَوانگی، رَواں اور رَوانی کا اشتقاق بھی اسی سے ہوا ہے۔
ذی اور زی
ذی اور زی دو الگ لفظ ہیں۔ ذی عربی لفظ ہے بہ معنی ''والا''، جیسے ذی وقار، ذی شان، ذی علم اور ذی استعداد وغیرہ۔ ذی نفس، یعنی جاندار۔ یہ اصل میں ذو ہے جو عربی میں بعض حالتوں میں ذی بن جاتا ہے۔ اردو میں عربی کا قاعدہ تو لاگو نہیں ہوتا، لیکن استعمال کے لحاظ سے کچھ تراکیب ذی کے ساتھ رائج ہو گئی ہیں اور کچھ ذو کے ساتھ، جیسے ذومعنی یعنی مختلف معنوں کا احتمال رکھنے والی بات، ذوالوجوہ یعنی کئی پہلو رکھنے والا معاملہ۔ ریاضی میں ذو اضعاف اقل کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے ذو اضعاف یعنی اپنے سے بڑے کئی اعداد کو پورا تقسیم کر دینے والا عدد، اور اقل یعنی سب سے چھوٹا۔ذو الجلال اللہ تعالی کی صفت ہے۔ ذوالفقار حضرت علیؓ کی تلوار کا لقب تھا، لفظی مطلب پشت کے مہروں والی۔ کہتے ہیں، اس تلوار کی سطح پر پشت کے مہروں جیسی دھاریاں سی تھیں۔ ذوالقرنین اردو میں تو اسم علم کے طور پر آتا ہے، لیکن عربی میں یہ توصیفی ترکیب ہے جس کا مطلب ہے، دو سینگوں والا۔ جس بھی بادشاہ (اسکندر مقدونی یا کیخسرو) کا یہ لقب تھا، اس کو کسی مناسبت سے دو سینگوں والا کہا جاتا تھا۔ ذوالنورین یا ذی النورین، حضور علیہ السلام کا دوہرا داماد ہونے کی مناسبت سے حضرت عثمان کا لقب ہے۔ ذو الحجہ یا ذی الحجہ، یعنی حج والا مہینہ۔ ذو الجناح، حضرت حسینؓ کے گھوڑے کا لقب، یعنی پروں یا بازوؤں والا۔
زی فارسی کے زیستن سے فعل امر ہے۔ زیستن، زندگی گزارنا۔ زیست، زندگی اور زی یعنی زندہ رہو۔ اردو میں بہت نادر ہے اور کہیں شعر وغیرہ میں آ جاتا ہے۔ جیسے 
شاد باش وشاد زی اے سرزمین دیوبند 
ہند میں تو نے کیا اسلام کا جھنڈا بلند
بوسہ
بوسہ، فارسی کے بوسیدن سے ہے۔ اس کا ایک اور مشتق بوس ہے۔ اس میں چونکہ چھونے کا معنی ہے تو فلک بوس کا مطلب ہوگا آسمان کو چھوتا ہوا، اور زمیں بوس یعنی زمین پر گرا ہوا۔ دست بوسی اور قدم بوسی یا پابوسی میں البتہ چومنے ہی کا معنی ہے۔
بوس کے ساتھ حرف عطف سے کنار کو ملا کر بوس وکنار یا کنار وبوس کی ترکیب بنتی ہے۔ کنار کا ایک معنی بغل اور آغوش ہے۔ تو بوس وکنار کا مطلب ہوا چومنا اور چمٹنا، انگریزی میں جس کے لیے billing and cooing کی تعبیر ہے۔
فارسی میں بوسیدن کا اصل معنی چومنا ہی ہے۔ لب ہائے تازہ بوسیدہ کا مطلب تر وتازہ ہونٹ جن کا بوسہ لیا گیا ہو۔ لیکن یہاں ایک اشتباہ پیدا ہو جاتا ہے، کیونکہ بوسیدہ کا مطلب پرانا اور ازکاررفتہ بھی ہوتا ہے۔ اردو میں تو اس کا یہی ایک معنی رائج ہے، جبکہ فارسی میں یہ ''بوسہ دیا ہوا'' اور ''پرانا'' دونوں معنوں میں مستعمل ہے۔ اصل میں کہنگی کے مفہوم میں فارسی کا لفظ پوسیدہ ہے جو پھر کثرت استعمال سے بوسیدہ بولا جانے لگا اور یوں دو الگ الگ لفظ مشتبہ ہو گئے۔ پس ذہن میں ہونا چاہیے کہ اردو کا بوسیدہ دراصل فارسی کا پوسیدہ ہے۔ فارسی میں بوسیدہ، بوسیدن سے اسم مفعول ہے جس کا اصل معنی ''بوسہ دیا ہوا'' ہے۔
بوسے کا ذکر چلا ہے تو کچھ اس کے اشتقاق واستعمال کا بھی ذکر ہونا چاہیے۔فارسی لفظ ہے اور اردو میں دو افعال کے ساتھ استعمال ہوتا ہے، یعنی بوسہ لینا اور دینا۔ لیکن محل استعمال بہت مختلف ہے۔ بوسہ لینا عموماً'' محبوب ومعشوق کے لیے استعمال ہوتا ہے، جبکہ بوسہ دینا تقدیس وتعظیم کے مقام پر آتا ہے۔ حجر اسود یا کتاب مقدس کو بوسہ دیا جاتا ہے، لیکن محبوب کا بوسہ لیا جاتا ہے۔ اسی لیے عشاق کے مذہب میں بوسے کو محبوب کی طرف سے دل دادگی کا صلہ مانا جاتا ہے، کیونکہ بوسہ اس نے ''دینا'' ہوتا ہے۔ غالب فرماتے ہیں، 
بوسہ دیتے نہیں اور دل پہ ہے ہر لحظہ نگاہ 
جی میں کہتے ہیں کہ مفت آئے تو مال اچھا ہے
اس فرق سے شوہر حضرات کو بھی اپنے متعلق یہ جاننے میں آسانی ہوگی کہ وہ زن مرید بن چکے ہیں یا نہیں۔ جب تک آپ بوسہ لے رہے ہیں، عاشق ہیں اور جب بوسہ دینے کا مقام آ جائے تو سمجھیے، مریدی کی حدود میں داخل ہو گئے ہیں۔
خوردن’ خوار ’ خور
فارسی میں خوردن (کھانا) سے فاعل کے معنی میں خورندہ، خوار اور خور کے الفاظ مستعمل ہیں۔ اردو میں خورندہ کا رواج نہیں، لیکن خوار اور خور مختلف ترکیبات کا حصہ بن کر مستعمل ہیں۔ تاہم ایک زبان سے ہم معنی الفاظ لے کر دوسری زبان کیسے ان کے استعمال میں اپنا ایک عرف بنا لیتی ہے، یہ الفاظ اس کی ایک اچھی مثال پیش کرتے ہیں۔
فارسی میں کھانے والے کے معنی میں زیادہ تر خوار مستعمل ہے، چنانچہ بادہ خوار، بسیارخوار، حرام خوار، خون خوار، سودخوار، شیرخوار، غم خوار، گوشت خوار، مردارخوار، مفت خوار، مے خوار سب ترکیبات میں خوار شامل ہے۔ لیکن اردو میں زیادہ تر ترکیبات میں خوار اور خور کے استعمال میں ہمیں ایک لطیف فرق نظر آتا ہے۔ خور کا استعمال ہمیں عموماً ان ترکیبات میں ملتا ہے جن میں طعن اور تحقیر کا مفہوم شامل ہو، جیسے حرام خور، مفت خور، سود خور، بسیار خور وغیرہ۔ (تاہم بعض ترکیبات جیسے گوشت خور یا مردار خور میں طعن کا مفہوم نہیں ہے۔ یہ صرف کچھ جانوروں کی جبلت بیان کرنے کے لیے آتی ہیں۔) باقی ترکیبات جن میں طعن کا مفہوم نہیں، ان میں عموماً خوار ہی کا استعمال ہوتا ہے، جیسے بادہ خوار، مے خوار، شیر خوار، غم خوار، خونخوار، وظیفہ خوار وغیرہ۔
خوار کا ایک دوسرا معنی ذلیل اور رسوا بھی ہے، لیکن وہ الگ لفظ ہے۔
نساء اور نسوۃ
 جب خواتین کا ذکر (مردوں کے مقابلے میں یا شوہروں کے تقابل میں) بطور جنس کیا جاتا ہے تو نساء استعمال ہوتا ہے، جیسے رجالا ونساء، فان کن نساء، نساؤکم حرث لکم وغیرہ۔ لیکن خواتین کی کسی خاص جماعت کا ذکر کیا جائے جو ایک جگہ موجود ہوں یا کوئی مشترک نسبت رکھتی ہوں تو وہاں نسوۃ بولا جاتا ہے، جیسے وقال نسوۃ فی المدینۃ۔ اسی طرح احادیث میں اسلمت وعندی خمس نسوۃ، فوجدت نسوۃ من الانصار اور توفی عن تسع نسوۃ جیسی تراکیب آتی ہیں۔ ان سب تراکیب میں نساء موزوں نہیں ہوگا، کیونکہ جنس خواتین کا نہیں، بلکہ خواتین کی کسی خاص جماعت کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ واللہ اعلم

لسانیات
رُو اور رَو ذو اور ذی
عمار خان ناصر