انشورنس

مصنف : قاری محمد حنیف ڈار

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : جنوري 2023

انسان اپنی خواہشات کو کچل سکتا ہے مگر اولاد کی خواہش کو کچلنا بہت مشکل ہے۔ جب عید کے دن بچے اڑوس پڑوس کے بچوں کی دیکھا دیکھی باپ سے نئے کپڑے اور کھلونے مانگتے ہیں اور وہ فراہم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا تو سوچتا ہے میرے ہوتے ہوئے بھی یہ بیچارے ہر چیز کو ترس رھے ہیں، تو پھر میرے ہونے کا کیا فائدہ؟ شاید میں مر جاؤں تو لوگ یتیم سمجھ کر ان کی مدد کر دیں، یوں وہ پھندہ لگا لیتا ہے اور بچوں کو باپ کھو کر چند دن یا چند ماہ کے لئے لوگوں کی توجہ اور نئے کپڑے،جوتے مل جاتے ہیں مگر باپ کی فقط موجودگی جو سکون اور تحفظ کا احساس دیتی ہے وہ بچے اور بیوہ اس احساس سے ہمیشہ کے لئے محروم ہو جاتے ہیں۔
آپ تصور کریں کہ ایک باپ عید کے دن یا عید سے دو چار دن پہلے پھندہ لینے کا پروگرام بنا رھا تھا کہ آپ آئے اور اس کو دس بیس ھزار روپیہ دیا کہ بچوں کو عید کے نئے کپڑے لے دینا۔ ذرا باھر گھما پھرا دینا، اور وہ باپ مرنے کی پلاننگ کرتے کرتے جینے کے منصوبے بنانے لگتا ہے۔ یہ وہ زندگی ہے جسکے بارے میں کہا گیا ہے کہ جس نے کسی کو زندگی دی گویا اس نے پوری انسانیت کو زندگی دی۔ 
ایک بیوہ ہے جو کسی سے مشین ادھار لے کر لوگوں کے کپڑے سیتی ہے،عید کے کپڑوں کا رش ہے، وہ سلے ہوئے سوٹ پڑوس میں دینے جاتی ہے،پیچھے سے کوئی مشین اٹھا کر لے جاتا ہے، اس بیوہ کی چار بچیاں ہیں، اس نے ان کی عید کی فرمائشیں پوری کرنی تھیں مگر اب سیاپا پڑ گیا، جس کی مشین دس دن کے لئے مانگی تھی وہ گھر آ کر گالیاں دے رھا ہے کہ شام تک مشین نہ ملی تو جو کرونگا وہ سارا محلہ دیکھے گا، وہ عورت ساتھ کی دکان سے گندم میں رکھنے والی گولیاں لاتی ہے، اور سویاں پکا کر ان میں گولیاں ڈال کر خود بھی کھا لیتی ہے اور بچیوں کو بھی کھلا دیتی ہے, اور یوں پانچ جانیں چلی جاتی ہیں۔ اگر آپ اس دن اس گھر آ جاتے اور دروازہ بجا کر دس بیس ھزار دے جاتے تو موت کا وہ لمحہ ٹل جاتا اور آپ کو پوری انسانیت کی جان بچانے کا اجر مل جاتا۔ مگر آپ محروم اب بھی نہیں رہے۔پوری انسانیت کے قتل کی ایف آئی آر اللہ کے یہاں کٹ گئی ہے اس محلے کے تمام اصحابِ ثروت کے خلاف جن کو اس عورت کے حالات کا علم تھا۔ اس حادثے کے بعد پچ پچ کر کے اظہار افسوس کرنا منافقت ہے اور رب کے غضب کو مزید بھڑکانا ہے۔اب اس عورت پر نہیں اپنے اوپر رونے کا وقت ہے۔
یہ جو رمضان کے آخری عشرے لاکھوں لگا کر مکے مدینے سیر کرنے جاتے ہیں، کئی لوگوں کو زندگی دے سکتے تھے، مگر انہوں نے ذاتی چسکے اور واہ واہ کو ترجیح دی۔ اگر رب کی رضا مقصود تھی تو وہ آپ کے پڑوس میں تھی۔اور آپ ھزاروں میل دور برانچ میں رضا کیش کرانے گئے اور وہاں سے خالی ہاتھ بھیج دیئے گئے کہ آپ کے مقدر کی رضا فلاں غریب کے گھر رکھی گئی تھی میرے گھر نہیں۔ اس گھر میں خوشی دے کر وہاں سے میری خوشی وصول کر لو۔
آپ کے مصیبت میں مبتلا ہو جانے سے کتنے گھروں کے چولہے بجھیں گے۔ کتنے بچوں کی تعلیم رک جائے گی۔کتنے مریض دوا سے محروم ہو جائیں گے، یہ وہ چیز ہے جس کے پیش نظر اللہ پاک آپ سے مصائب اور بیماریاں ہٹاتا رھتا ہے،آپ کے کاروبار کی حفاظت فرماتا ہے کہ اس کے ساتھ ڈھیر سارے غریبوں کی روٹی جڑی ہوتی ہے۔ وہ آپ کے بعض گناھوں کی سزا روک دیتا ہے کہ یہ تو اجتماعی سزا collective punishment بن جائے گی۔ آپ کو صحت اور کاروبار کی انشورنس کرانے کی ضرورت نہیں،آپ پہلے سے خالق کائنات اور خیر الرازقین کے یہاں انشورڈ اور کورڈ ہیں اگر کچھ غریب آپ کے یہاں انشورڈ ہیں۔
(نوٹ) اوپر بیان کردہ دونوں واقعات حقیقی ہیں۔
وڈیو لیک
طفیل ہاشمی
آپ کو ہر لمحے وڈیو کیمرے کی آنکھ دیکھ رہی ہے اورہر بات، عمل اور سوچ ریکارڈ کر رہی ہے۔ساری زندگی کی آلودگیوں کی کوئی ایک آدھ وڈیو آجائے تو بندہ لمحہ لمحہ مرتا ہے.
لیکن پہلے صرف مقدس کتاب کہتی تھی اب کتاب کائنات بھی یہی کہتی ہے کہ یہ ساری فضا ایک کیمرہ ہے جو ہر لمحے ہر فرد کی ہر حرکت و سکون کو ریکارڈ کرتی ہے۔اس کے لئے روشنی کی ضرورت نہیں بلکہ بدن سے خارج ہونے والی حرارت لگا تار تصاویر بناتی چلی جاتی ہے اور ہر ہر لمحہ کی فلم بنتی ہے.
من یعمل مثقال ذرۃ خیرا یرہ ومن یعمل مثقال ذرۃ شرا یرہ 
جو الفاظ ہم بولتے ہیں یا جو آوازیں اس فضائے بسیط میں پھیلتی ہیں وہ کبھی فنا نہیں ہوتیں۔اگر بگ بینگ کی آواز ریکارڈ کر لی گئی ہے تو وہ دن دور نہیں جب ہم اپنے موبائل پر صدیوں پرانی گفتگو سن سکیں گے اور صداقتیں اپنی آخری حد تک برہنہ ہو جائیں گی۔ہماری گفتگو ہی نہیں بلکہ ہر نوع کی آواز کا ریکارڈ موجود ہے اورما یلفظ من قول إلا لدیہ رقیب عتید کی صداقت پر ایک میٹرک پاس طالب علم بھی گواہ ہے۔
ہم حواس خمسہ کے ذریعے جو معلومات حاصل کرتے ہیں وہ سارا ڈیٹا ہمارے شعور سے ہو کر لاشعور کی ڈسک میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جاتا ہے۔ہم اپنی شعوری کاوش، غور و فکر سے جو کچھ اپنے دماغ کے نہاں خانہ میں تخلیق کرتے ہیں اس میں سے کوئی شمہ تک ضائع نہیں ہوتا
ان تبدوا ما فی انفسکم او تخفوہ یحاسبکم بہ اللہ.
میدان حشر میں ہر فرد کو اس کی زندگی کی مکمل فلم دکھا دی جائے گی۔وہ اصل دن ہوگا جب ہر شخص کی ہر وڈیو لیک کر دی جائے گی.
ذرا اس منظر کو چشم تصور سے دیکھیں اور بتائیں کہ قرآن جب انسان کے بارے میں کہتا ہے انہ کان ظلوما جھولا
تو یہ کتنی بڑی صداقت ہے.
اصلاح و دعوت
انشورنس
حنیف ڈار