حجاز كے مدائنن شعيب كي تاريخ

مصنف : منصور ندیم

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : دسمبر 2022

فلسطین، اردن و شام کے بعد اگر تاریخ میں انبیاء کے تاریخی حوالہ جات اور مقامات کے لئے سرزمین حجاز یا آج کے سعودی عرب کا ذکر کیا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔ مدائن شعیب بھی ایسا ہی ایک تاریخی شہر ہے، جو سعودی عرب کے شمال مغربی علاقے ضلع تبوک کے موجود علاقے ‘البدع’ میں واقع عظیم تمدن کی عظمت رفتہ کا ثبوت ہے۔ یہ سعودی عرب کے نئے بننے والے جدید ترین اور معاشی صنعتی شہر ''نیوم'' کے تحت تبوک ضلع کے علاقے میں پائے جانے والے اہم اور نمایاں ترین تاریخی مقامات میں سے ایک ہیں۔ اس تاریخی مقام کے کئی نام ہیں۔ انہیں ‘مدائن شعیب’ کے علاوہ ‘مدین’ اور ‘مغایر شعیب’ بھی کہا جاتا ہے۔مدائن شعیب کی تاریخ ہزاروں برس پرانی ہے۔ یہ سیلاب کا مقابلہ کرنے کے لیے سطح مرتفع پر تعمیر کیے گئے غار یا رہائشی جگہیں ہیں۔مدائن شعیب چٹان تراش کر بنایا ہوا ایک قدیم نخلستان ہے اور یہاں پہاڑوں اور چٹانوں میں متعدد گھر اور تاریخی عبادت گاہیں تراش کر بنائی گئی ہیں۔کچھ مورخین کے مطابق نبطی تمدن سے اس کا تعلق ہے- ماہرین آثار قدیمہ اسے نبطیوں کے تمدن کا نام دیتے ہیں۔ یہاں تاریخی تہذیب الانباط کے آثار قدیمہ اور غاروں کے بیرونی حصے بے حد مقبول ہیں۔ اگرچہ ''مدائن صالح'' اور ''مدائن شعیب'' تعمیراتی لحاظ سے خاصے ملتے جلتے ہیں۔ تعمیراتی مماثلت اور ناموں کی مماثلت کی وجہ سے بہت سے لوگ اس بات سے ناواقف ہیں کہ یہ دونوں مختلف مقامات ہیں اور ان کے درمیان ۴۰۰ کلومیٹر کا فاصلہ پایا جاتا ہے۔ تبوک صوبے میں واقع ''مدائن شعیب'' سعودی عرب کے شہر تبوک سے تقریبا ۲۲۵ کلومیٹر شمال مغرب میں واقع ہے۔ جبکہ ''مدائن صالح'' مدینہ منورہ ضلع کے علاقے العلاء میں واقع ہے۔ مدائن شعیب ایک بڑی وادی ‘وادی عفال’ میں واقع ہے۔ مدائن شعیب یا مغایر شعیب میں جو آثار قدیمہ پائے جاتے ہیں وہ العلا شہر میں تراشے ہوئے تاریخی مقامات سے کسی طرح بھی کم اہم نہیں ہیں اور العلا بھی عمارتوں کے بیرونی حصے کو چٹانیں تراش کر بنایا گیا ہے۔ یہی کام مدائن شعیب میں بھی کیا گیا ہے۔ تاریخ میں اس جگہ کے لئے کئی روایات موجود ہیں،معروف یونانی مورخ بطلیموس نے اس علاقے کو سبز نخلستان کا نام دیا تھا۔
 مغرب میں سب سے پہلے اسے برطانوی سیاح روپیل نے سنہء ۱۸۵۰ میں مدائن شعیب کا ذکر کیا تھا اور مدائن شعیب کا سفر کیا تھا- یہ پہلے مغربی سیاح ہیں جنہوں نے اس علاقے کا تذکرہ کیا اور پھر بعد میں بہت سارے مغربی سکالرز نے ان کی تحریریں پڑھ کر اس کی خطے کی سیاحت کی تھی، اور بہت سارے سیاحوں اور مستشرقین نے بعد میں اپنے سفرناموں اور کتب میں غارِ شعیب کے مقام کا ذکر کیا ہے۔ ان میں عرب دنیا کے امور کے معروف ماہر (Arabist, adviser, explorer, writer) اور مستشرق (Orientalist)جان فِلبی (Harry St John Bridger Philby) بھی شامل ہیں جو ''عبداللہ فِلبی'' (Jack Philby or Sheikh Abdullah) کے نام سے بھی معروف ہوئے، جان فِلبی نے غارِ شعیب کے مقام کا تفصیلی جائزہ لے کر اس کو حضرت موسیٰ اور حضرت شعیب علیہما السلام کے قصے کے ساتھ جوڑا ہے۔ (جان فلبی برطانوی حکومتی جاسوس اور ترک خلافت کے خلاف اس خطے میں ایک اہم کردار سمجھے جاتے ہیں). 
 سعودی مورخ حمد الجاسر نے بھی اپنی تصنیفات میں مدائن شعیب کا ذکر البدع کے نام سے کیا ہے۔ انہوں نے اس کا تعارف کراتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ مغایر شعیب قدیم نخلستان ہے۔ البدع، مدین کی سرزمین میں واقع ہے اور ‘الایکۃ’ کا نام اب تک وادی النمیر کے لیے بولا جاتا ہے۔ (اصحاب الایکہ سے مراد حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم ہے، وہ جنگلوں، باغوں اور پھلدار درختوں کے مالک لوگ تھے۔ اور الایکہ سے مراد الغیضۃ ہے اور اس سے مراد درختوں کا جھنڈ ہے۔ اور جمع الایک ہے۔ روایت ہے کہ ان کے درخت کھجور کے درخت کے مشابہ تھے, روایت ہے کہ الأیکہ بستی کا نام ہے)۔ معروف مورخ الیعقوبی نے بھی اپنی تصنیف میں تحریر کیا ہے کہ یہ قدیم شہر ہے۔ کھیتی باڑی، کثیر تعداد میں چشموں اور میٹھے پانی والے دریاؤں کی سرزمین ہے۔ 
بعض ماہرین آثار قدیمہ کا خیال ہے کہ یہ ۲ ہزار قبل مسیح پرانے ہیں۔ یہاں مدین قبیلہ آباد تھا۔ مدین کا ذکر توریت میں کئی جگہ مذکور ہے۔ سعودی عرب کی شاہ سعود یونی ورسٹی میں شعبہ آثاریات کے مطابق یہی وہ مقام ہے اور مذکورہ مقام ''مدائنِ صالح'' کے مقام سے زیادہ پرانا ہے جہاں حضرت موسی علیہ السلام کو نبوت ملی، حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قصہ قرآن کریم میں مختلف جگہ اور شخصیات کے ناموں کے ساتھ بیان ہوا ہے۔اس مقام کی اہمیت حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سُسر اور اللہ کے نبی حضرت شعیب علیہ السلام کے نام کے ساتھ مذکور ہے۔ یہاں پر واقع کندہ پہاڑ اُس جاوِداں کہانی کے گواہ ہیں جو بحیرہ احمر کے نزدیک تاریخی حیثیت سے مالامال اس علاقے یعنی ''البدع'' صوبے میں پیش آئی۔ مدائن شعیب ابھی تک اپنی پرانی صورت میں باقی ہے۔ 
 شاہ سعود یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر العبودی کے مطابق یہ مقام، اس کا نام اور یہاں موجود تاریخی اثاثے اُن امور کا بہت بڑا ثبوت ہیں، جو کچھ حضرت موسیٰ اور حضرت شعیب علیہما السلام کے قصے میں قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے۔اسی مقام پر قرآن میں مذکورہ حضرت شعیب علیہ السلام اور ان کی دونوں بیٹیوں کا قصّہ منطبق ہوتا ہے اور ایسی کوئی دوسری جگہ نہیں جہاں قرآن کی روشنی میں ان واقعات کا وقوع ثابت ہو سکے۔ قرآن کریم کی آیات میں اس پورے قصے کو بہت تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے اپنے ہاتھوں ایک قِبطی کے ہلاک ہونے کے بعد مدین کی جانب پیدل سفر کیا تھا۔
 سمندر عبور کرنے کے دوران وہ مدین کے نزدیک رُکے اور وہاں کچھ لوگوں کو کنویں سے پانی بھرتے ہوئے دیکھا۔ اس دوران دو لڑکیاں ان تمام لوگوں سے دُور اپنی باری آنے کا انتظار کر رہی تھیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پانی بھرنے میں دونوں لڑکیوں کو اپنی مدد کی پیش کی۔ لڑکیوں نے واپس آ کر اپنے والد ''شعیب'' علیہ السلام کو پورے واقعے سے آگاہ کیا جس پر انہوں نے حضرت موسی علیہ السلام کو بدلہ دینے کے واسطے بُلا لیا۔ ملاقات ہونے پر حضرت شعیب علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دیانت اور کردار سے بہت متاثر ہوئے اور ان سے اپنی ایک بیٹی کی شادی کر دی۔ مہر کے طور پر موسیٰ علیہ السلام نے طے کردہ مدت یعنی آٹھ سے دس برس حضرت شعیب علیہ السلام کے
 پاس خدمت میں اسی جگہ گزارے ٹھے۔ بعد ازاں حضرت موسیٰ فرعون اور بنی اسرائیل کو دین کی دعوت دینے کے لیے مصر لوٹ گئے۔
 ڈاکٹر العبودی کے مطابق یہ مقام اہم تاریخی زاویے کا حامل ہے۔تاہم اس کو بڑے تحقیقی پیمانے پر زیرِ مطالعہ نہیں لایا گیا۔ متعلقہ اداروں کی جانب سے بھی اس کو زیادہ توجہ نہیں ملی۔ جزیرہ نما عرب کا شمال مغربی حصّہ تاریخی اور آثاریاتی مقامات کے بڑے رازوں کا حامل ہے اور ان مقامات کا کوئی شمار نہیں۔ انھوں نے واضح کیا کہ ''ان میں سے بہت سے رازوں کا ابھی تک انکشاف نہیں ہوا ہے''-
تاریخ
حجاز کے مدائن شعیب کی تاریخ
منصور ندیم