پراني اردو ميں قرآن شريف كے ترجمے

مصنف : مولوی عبدالحق

سلسلہ : قرآنیات

شمارہ : دسمبر 2022

آسمانی صحیفوں کے ترجمے کی مخالفت تقریباً ہر مُلک اور ہر قوم میں کی گئی ہے اور یہ مخالفت ہمیشہ علمائے دین کی طرف سے ہوئی وجہ یہ کہ یہ لوگ اپنے کو علوم دینیہ کا خاص ماہر اور اسرار الٰہی کا وارث خیال کرتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ یہ باتیں عام ہو جائیں۔ عام ہوئیں تو لوگ ایک حد تک ان بزرگوں سے بے نیاز ہو جائیں گے اور اس سے ان کی بڑائی اور فضیلت میں فرق آ جائے گا۔ بعض اوقات مخالفت اس لئے بھی کی گئی کہ ترجمے اور تفسیریں ان کے منشا کے خلاف تھیں اور ایسے مترجمین اور مفسرین کو تکلیفیں اور عقوبتیں پہنچائی گئیں۔ یہ روش کسی خاص ملک یا قوم سے مخصوص نہ تھی بلکہ ہر جگہ پائی جاتی ہے چنانچہ زمانہ وسطی ٰ میں یورپ میں انجیل و توریت کے مترجمین کو طرح طرح کی ایذائیں دی گئیں اور علما کی مجلس نے ان صحیفوں کے ترجموں کے متعلق امتناعی احکام جاری کئے۔ ریمس (علاقہ فرانس) کے ایک نان بائی ایشارڈ نامی کو بعض عقائد کی بنا پر جن کی وہ تلقین کرتا تھا علما کی مجلس نے مردود ٹھہرایا، کفر کا فتویٰ صادر کیا اور زندہ جلا دیا اور اس کے ساتھ مجلس نے فرانسیسی زبان میں بائبل کے ترجمے کی ممانعت کر دی۔ ترجمہ کرنا تو در کنار کسی کے پاس دیسی زبان میں ترجمے کا پایا جانا بھی جرم تھا۔ آکسفورڈ میں آرچ بشپ ارنڈل کی زیر سرپرستی 1408 میں ایک مجلس منعقد ہوئی اور اس میں یہ احکام صادر کئے گئے کہ ''کوئی شخص اپنے اختیار سے بائبل کے کسی نسخے کا ترجمہ انگریزی یا کسی دوسری زبان میں کتاب یا کتابچے یا رسالے کی صورت میں کرنے کا مجاز نہیں ہے نیز کوئی شخص ایسی کتاب یا کتابچے کا نجی طور پر عام طور پر پڑھنے کا مجاز نہیں جو جان و کلف یا اس کے بعد یا اب لکھا گیا ہو خواہ وہ ترجمہ کُلاً ہو یا جزواً ورنہ اس کی خلاف ورزی میں وہ کفر و معصیت کا حامی تصور کیا جا ئے گا اور قابل سزا سمجھا جائے گا۔ اس زمانے میں انگریزی بائبل کے بعض ترجمے ہوئے لیکن کسی مطبع کو اُن کے چھاپنے کی جرأت نہ ہوئی مثلاً ولیم ٹنڈیل نے ایک ترجمہ کیا اور جب اس نے دیکھا کہ یہاں اس کا چھپنا ممکن نہیں تو بھاگ کر ہیمبرگ میں پناہ لی اور کولون میں اپنا ترجمہ چھپوانا شروع کیا۔ ابھی کتاب زیر طبع تھی کہ فرینکورٹ کے ڈین کو اس کی سُن گن معلوم ہوئی اس نے نہ صرف کولون کی سینٹ کے ذریعے اس کی طباعت روک دی بلکہ ہنری ہشتم اور ولزی کو لکھا کہ انگلستان کی بندرگاہوں میں خاص طور پر نگرانی رکھی جائے کہ اس ترجمے کا کوئی نُسخہ وہاں داخل نہ ہونے پائے ٹنڈیل نے یہ رنگ دیکھا تو وورمز بھاگ گیا اور جس قدر چھپے ہوئے فرمے ہاتھ لگے ساتھ لیتا گیا وہاں یہ ترجمہ طبع ہوا سن 1526 میں اس کے نُسخے انگلستان پہنچے لیکن ان کے برباد اور تلف کرنے میں اس قدر سعی اور جدو جہد کی گئی کہ سوائے چند ناقص اجزا کے جو برٹش میوزیم میں موجود ہیں اس کا کوئی نُسخہ نہیں ملتا اس کی عمر زیادہ تر جلاوطنی میں گزری۔ پادری اور حکومت اس کے در پئے تھے آخر سن 1535 میں گرفتار ہوا۔ہندوستان میں شاہ ولی اللہ نے سب سے پہلے سنہ 1150 ھ میں قرآن شریف کا ترجمہ فارسی زبان میں کیا۔ مولف حیات ولی نے شاہ صاحب کے ایک فاضل ہم عصر کی زبانی بیان کیا ہے کہ جب '' اس کی اشاعت ہوئی تو ایک تہلکہ عظیم کٹ ملانوں کے گروہ میں برپا ہو گیا اور علاوہ کفر کے فتوے دینے کے وہ شاہ صاحب کے جانی دشمن ہو گئے اور ان کے قتل کی فکر میں رہنے لگے۔ یہ ترجمہ شایع کرنے کا ذکر ہے۔ زبانی ترجمہ پڑھانے کے بھی ہمارے ملا اور علماء شدید مخالف تھے میرے ایک دوست جن کے خاندان زمانہ دراز سے علم و فضل کا چرچا چلا آرہا ہے فرماتے تھے کہ ان کے جد امجد علاوہ دوسرے علوم کے درس کے قرآن مجید کا ترجمہ بھی پڑھایا کرتے تھے جب شہر کے علما کو یہ معلوم ہوا تو وہ سخت برہم ہوئے ان کے گھر پر چڑھ آئے اور زد و کوب پر اُتر آئے فورٹ ولیم کالج میں جب بعض مولویوں کو قرآن شریف کے ترجمے کے لئے متعین کیا گیا تو اسی قسم کا ہنگامہ برپا ہواابھی حال کا ذکر ہے کہ جب مسٹر پکتھال نے قرآن کا ترجمہ انگریزی زبان میں کیا اور علمائے مصر سے مشورہ کرنے کے لئے مصر تشریف لے گئے تو علمائے مصر نے ترجمے کے لفظ پر سخت اعتراض وارد کیا اور اس بحث نے اس قدر طول کھینچا کہ آخر مسٹر پکھتال کو مجبور ہو کر ترجمے کے لفظ سے احتراز کرنا پڑا اور اس کا نام
Meaning of the Kora''معانی قران'' رکھنا پڑا بات یہ ہے کہ پٗرانی ریت مشکل سے جاتی ہے۔خیر یہ تو ملاؤں اور مذہبی پیشواؤں کی کوتاہ اندیشی ہے لیکن ایک مشکل اور بھی ہے وہ یہ کہ ان صحیفوں کا ترجمہ آسان کام نہیں۔

قرآنیات
قرآن شریف کے ترجمے 
بابائے اردو مولوی عبد الحق