خضور كا سفر ہجرت

مصنف : منصور ندیم

سلسلہ : سیرت النبیﷺ

شمارہ : نومبر 2022

الھجرۃ علی خطی رسول اللہ ﷺ 
Hijrah In the footsteps of Prophet (Part one)
چونکہ الھجرۃ علی خطی رسول اللہﷺ کی نمائش ''اثراء'' میں ہورہی ہے تو سب سے پہلے بلڈنگ کا تعارف اور اس نمائش کا تعارف اس کے اگلے حصوں میں نمائش کے بارے میں لکھوں گا۔ یہ الھجرہ پروجیکٹ کنگ عبدالعزیز انٹرنیشنل کلچرل سینٹرل King Abdulaziz Center for World Culture (اثرا) ''Ithra'' میں ہورہا ہے۔ اس وقت یہ عمارت سعودی عرب کی تمام ثقافت و روایات کے مرکزی منبع کے طور کام کررہی ہے۔ سال بھر یہاں مختلف اقسام کے کلچرل ایونٹس ہوتے ہیں، سعودی فلم سازی، عربی خطاطی، پینٹنگز وغیرہ کے علاوہ سیاحت کی تربیت، مقامی ہنرمندی، فیشن انڈسٹری کے علاوہ حجاز کے تاریخی پہلوؤں کو بھی اجاگر کرنے پر کام ہورہا ہے۔ سعودی عرب اپنے زرخیر ورثے کی روایات، کلچر ثقافت کو دنیا کے سامنے اور مقامی سطح پر پیش کرنے کے لئے اور ثقافتی ترقی کو فروغ دینے کے لئے سعودی آرامکو کمپنی Saudi Aramco Co کے تحت ایک عمارت کو عالمی ثقافت کے لئے شاہ عبدالعزیز سینٹر فار ورلڈ کلچر (اثرا) King Abdul Aziz Centre for World Culture کے نے نام سے اس کا آغاز کیا تھا۔ یہ دنیا کی ان چند عجیب و غریب ساخت کی اور انتہائی مہنگی اور جدید ترین عمارتوں میں سے ایک ہے، جس میں اکثر عرب ممالک کے اجلاس کے علاوہ اہم وفود کے اجلاس بھی ہوتے ہیں۔
۳۰۰ ملین امریکی ڈالر کی لاگت سے تیار ہونے والے اس منصوبے کو سنہء ۲۰۰۷ میں یہاں پر دنیا بھر سے مدعو آرکیٹیکچرل ڈیزائن مقابلہ کے بعد، ناروے کی ایک تعمیراتی کمپنی سنویوٹا نامی کو یہ منصوبہ ثقافتی مرکز بنانے کے لئے منتخب کیا گیا تھا۔عرصہ ۱۰سال، سنہء ۲۰۱۷ کے وسط میں سعودی پچھترویں یوم الوطنی پر یہ منصوبہ مکمل ہوا تھا۔ سعودی عرب کے مشرقی صوبے ظھران میں واقع یہ ثقافتی مرکز مقامی آبادی کے لئے ثقافتی خدمات انجام دے رہا ہے اور علاقائی، قومی اور عالمی افق پر ایک ثقافتی علامت ہے۔اس منصوبے میں متعدد ثقافتی سہولیات شامل ہیں۔جن میں آڈیٹوریم، سنیما، لائبریری، نمائش ہال، میوزیم اور آرکائیو شامل ہیں۔آڈیٹوریم ۹۳۰ سیاحوں کی نشست کرے گا اور اوپیرا، سمفونی کنسرٹ، موسیقی اور لیکچرز وغیرہ سے متعلق واقعات کی وسیع پیمانے پر فراہم کرے گی. ساتھ ساتھ چھوٹے سنیما کے ساتھ، مستقبل میں یہ سعودی مملکت میں پرفارمنس آرٹس کے لئے ایک غیر معمولی جگہ ہوگی۔اس میں ایک لائبریری بھی ہے، جس میں ۲۰۰۰۰۰ (دولاکھ )کتب بھی موجود ہیں جو ہر طبقے اور عمر کے مقامی شہریوں کی رسائی میں ہیں. اس میں نمائش کے لئے ایک وسیع ہال ہے جس میں بڑے پیمانے پرسیاحتی اور ثقافت کی نمائشوں کو منعقد کیا جارہا ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ سماجی میٹنگ، روابط اور بین الاقوامی کانفرنسوں کے لئے بھی استعمال کیا جائے گا۔عجائب گھر اور ثقافتی میوزیم بھی یہاں کی ثقافت کو دنیا بھر میں متعارف کرنے کا کام کرے گا۔ اس عمارت کا رقبہ قریب ۱ لاکھ مربع میٹر ہے۔
اثراء Ithra ایک مختلف نوعیت کا تاریخی کام کررہا ہے، جو ''ھجرہ مبارکہ نمائش کارواں'' ہے، جو رسول اللہﷺ کے مکہ سے مدینہ منورہ ہجرت کے تاریخی واقعات کو آج کے عہد میں نمایاں کرنے کیلیے اپنی نوعیت کی پہلی متحرک نمائش ہوگی۔ رسول اللہﷺ کی ہجرت مبارکہ اسلامی تاریخ کا ایسا واقعہ ہے، جس نے بنی نوع انسان کی تاریخ کا دھارا موڑا تھا۔ اس نمائش کا عنوان (ھجرۃ رسول اللہ صلیٰ علیہ وسلم کے نقش قدم) کے نام سے رکھا گیا ہے۔ اس کا آغاز ۸ اگست سنہء ۲۰۲۲ کے اواخر سے شروع ہوچکا ہے اور اثراء میں یہ اکتیس اگست تک جاری رہے گا لیکن ملک بھر میں یہ سنہء ۲۰۲۳ تک جاری رہے گا۔ 
اس شاندار نمائش کے لئے کنگ عبدالعزیز انٹرنیشنل کلچرل سینٹرل King Abdulaziz Center for World Culture نے ایک پورا سیکشن الھجرہ کے نام سے بنایا ہے، جس میں اسلام کے ابتدائی دور میں حجاز کی تاریخ اور اسی عہد کے اہم نوادرات کو شامل کیا گیا ہے۔ اس نمائش میں اسلامی تہذیب و تمدن کی ابتداء و اہمیت کو دکھایا گیا ہے، خصوصاً رسول اللہﷺ کے ورثے کے تنوع کو نمایاں کیا ہے۔ نمائش کے ذریعے ہجرت مبارکہ سے تعلق رکھنے والے واقعات کو مختصر فلموں اور تصویری مناظر کے ذریعے نمایاں کیا گیا ہے، اس کی چند خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ ماضی کی تاریخی کتب میں اس سفر کے معجزات کے بجائے اسے زمینی حقائق کی بنیاد پر دکھایا جارہا ہے۔ جو شائد اس سے پہلے کبھی نہیں سمجھایا گیا۔ 
الھجرہ کے سفر کو بنانے کا خیال اور تکمیل قریب قریب ایک عشرے کی داستان ہے۔ عہد رسول اللہ ﷺ میں مکہ سے مدینہ منورہ جانے کے لیے رسول اللہ نے الگ راستہ اختیار کیا تھا۔ اس عہد میں شام، فلسطین اور یمن وغیرہ کی طرف جانے والے تجارتی قافلے مدینہ سے ہو کر گزرتے تھے۔ مکہ سے مدینہ جانے کے لئے جو راستہ معروف تھا وہ حدیبیہ فُلیص، اور بدر ہوتا ہوا مدینے پہنچتا تھا۔ مگر رسول اللہﷺ نے مشرکین کے شر سے بچنے کے لئے مختلف راستہ اختیار کیا تھا۔ اس سے پہلے شاید ہی کسی شخص نے عموماً مکہ سے مدینہ جانے کے لئے یہ راستہ اختیار کیا تھا، ویسے مکہ سے مدینہ کی مسافت قریب تین سو اسی کلو میٹر ہے۔ تاریخ میں سیرت ابن ہشام میں جن مقامات کے نام موجود ہیں، جن کے قریب سے یا جن سے ہو کر یہ کاروانِ ہجرت گزرا، یہ تقریباً انتیس مقامات ہیں، اس کے علاوہ دیگر سیرت کے مصنفین اور مورخین جیسے حافظ ابن سعد، علامہ طبری، ابن حبان، حاکم، ابن حزم، ابن عبدالبر، ابن الاثیر، حموی، ابن منظور، ابن کثیر، علامہ ذہبی وغیرہ نے بھی اپنی کتابوں میں ان مقامات کی تفصیل بیان کی ہے۔
اس سلسلے میں سعودی عرب میں سب سے پہلی کاوش سنہء ۲۰۱۱ میں ہوئی جب سعودی حکومت کی جغرافیائی پیمائش کی وزارت نے ایک خصوصی ٹیم تشکیل دی تھی، اور اس ٹیم کے کچھ افراد نے خصوصی طور پر بالکل ان ہی راستوں پر پیدل اور جانوروں کی مدد سے کھینچنے والی گاڑیوں کے ذریعہ ایک تجرباتی سفر کیا تھا۔ اس ٹیم نے یہ مسافت اس وقت گیارہ دن میں طے کی۔ اس کے بعد سنہء ۲۰۲۰ میں سفر ہجرت کے راستے کو دستاویزی شکل دینے کا خیال تب آیا جب وہ اس بات پر غور کر رہے تھے کہ جبل ثور ثقافتی سنٹر میں رسول اللہﷺ کی ہجرت کے واقعے کو کس انداز میں پیش کیا جائے۔ اس کے بعد ۲۰ دسمبر سنہء ۲۰۲۰ کو لانچ ہونے والے پراجیکٹ کے پہلے مرحلے میں ٹیم نے ان تمام مقامات کی نشاندہی کی جو ہجرت کے سفر کا حصہ تھے جن میں غار ثور سے لے کر مدینہ میں مسجد قبا تک تمام چالیس جگہیں شامل ہیں۔ 
یہ ایک انتہائی مشکل پروجیکٹ رہا، کیونکہ اس پراجیکٹ کے دوران سب سے زیادہ مشکلات ناہموار سڑکوں کے باعث پیش آئیں اور اس وجہ سے بھی کہ بہت سے تاریخی مقامات کے نام وقت کے ساتھ تبدیل ہو گئے ہیں۔ الھجرہ پروجیکٹ کے سفر کو فضا سے فلم بند کرنے اور پینورامک فوٹوگرافی کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے۔ یعنی پورے سفرکے تمام مقامات کی فور کے ڈرونز کے ذریعے فضائی ریکارڈنگ کی گئی ہے۔ اس پراجیکٹ کی تحقیق کے لیے اسلامی تاریخ اور رسول اللہ ﷺ کی سوانح عمری کے متعدد ماہرین سے مدد حاصل کی گئی جس میں پروفیسر محمد بن سامل السلامی اور مکہ کی ام القری یونیورسٹی کے پروفیسر سعد بن موسیٰ الموسی، ریاض کی امام محمد ابن سعود اسلامک یونیورسٹی کے پروفیسر سلیمان بن عبداللہ السویکت اور پروفیسر عبدالعزیز بن ابراہیم العمری نے بھی اپنی خدمات پیش کیں جو ایٹلس بائیوگرافی آف پرافٹ کی سائنسی کمیٹی کے ممبران بھی ہیں۔ رسول اللہﷺ کی سوانح عمری اور مدینہ کے اہم مقامات پر مہارت رکھنے والے پروفیسر عبداللہ بن مصطفی نے بھی پراجیکٹ کے کچھ حصوں میں حصہ لیا۔ 
عموماً ہم اپنے بہترین دوست کے لئے اک لفظ ''یار غار'' استعمال کرتے ہیں، لفظ ''یار غار'' آج ہمارے ہاں بہترین رازدان، ہم عصر دکھ درد شریک دوست کے لئے استعمال ہوتا ہے، اس لفظ کی نسبت رسول اللہﷺ کے سفر ہجرت کے ساتھی سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ سے ہے، جو سفر ہجرت میں آپ ﷺ کے ساتھ غار ثور میں رکے تھے۔ غار ثور میں سیدنا ابو بکر کے ایثار و دوستی کے جذبے نے اس لفظ کو ایک استعارہ بنادیا۔ جب آج سے ۱۴۰۰ برس پہلے رسول اللہﷺ کو مدینہ کی جانب ہجرت کرنے کا حکم ملا تھا, آپ ﷺ کے اس سفر کا علم بہت ہی کم لوگوں کو تھا جن میں سیدنا ابوبکر اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما شامل تھے۔ کفار نے حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے گھر کا محاصرہ کر لیا تھا تاکہ آپ کو شہید کر دیا جائے۔ اس لئے آپ ﷺ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اہل مکہ کی امانتیں واپس کرنے کی ذمہ داری دے کر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ روانہ ہوئے تھے۔
اس سفر کا آغاز ۱۲ربیع الاول ۱۳ اور عیسوی سنہء 622 ستمبر جمعے کے دن حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کے مکان سے شروع ہوا تھا رسول اللہﷺ سب سے پہلے حضرت ابوبکرؓ کے مکان کی طرف تشریف لے گئے جو حضرت خدیجہؓ کے مکان سے قریب ۳۰۹ میٹر کے فاصلے پر اس جگہ واقع تھا جہاں آج کل کعبہ میں باب فہد کے سامنے Hilton hotel کی بلڈنگ بنی ہوئی ہے۔ اسی کے راستے میں آپ اپنی چچازاد بہن حضرت ام ہانیؓ کے گھر کے سامنے پڑے ہوئے میدان میں حَزْورَۃ نامی مقام پر بھی کچھ دیر کے لئے رکے، اس میدان میں قبل از اسلام اور دورِ نبوت میں مکہ کا معروف تجارتی بازار لگا کرتا تھا۔ یہاں کھڑے ہو کر آپ نے دعا بھی فرمائی، اس کے بعد آپ سیدنا ابوبکرؓ کے مکان پر تشریف لے گئے، یہاں سے رسول اللہﷺ نے مدینہ جانے کے لئے تجارتی قافلوں والے عام راستے کی بجائے ایک علیحدہ راستہ اختیار کیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے مکہ مکرمہ کو چھوڑتے وقت ابتداً مدینہ کی بجائے اس کی مخالف سمت میں سفر کیا تھا اور آکر غار ثور میں پناہ لی تھی، سیدنا ابو بکر کے گھر سے غار ثور کا فیصلہ قریب ۵۵۰۰ میٹر کی مسافت پر تھا۔ 
غار ثور میں قیام کے دوران رسول اللہﷺ کے ساتھ صرف سیدنا ابوبکر تھے، اور یہ غار پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہے۔ آج کل یہ پہاڑ مکہ کی معروف زیارات میں آتا ہے۔ جہاں پہاڑ پر غار ثور تک جانے کے لئے کچھ راستہ ہموار کیا گیا ہے اور کچھ ابتدائی سیڑھیاں بھی بنائی گئی ہیں۔ چونکہ قریش کے مشرکین آپ ﷺ کی جان لینے کے درپے تھے، اس لئے یہ مدینہ کے مخالف راستے کی جانب تین دن تک غار ثور میں مقیم رہے کہ جب قریش کے لوگ ٹھنڈے ہو کر بیٹھ گئے اور یہ سمجھ لیا گیا کہ تین دن گزر چکے ہیں۔ اس عرصے میں یقیناً وہ دونوں یہاں سے نکل کر بہت دور پہنچ چکے ہوں گے، قریش کے سرداروں کی جانب سے رسول اللہﷺ کو تلاش کرنے والے بھی تیز رفتار سواریوں پر گئے اور ناکام واپس آچکے تھے۔ ان تین دنوں کے قیام میں کچھ لوگ اس غار ثور تک بھی پہنچ گئے تھے، لیکن حکم ربی کی وجہ سے جب غار کے دھانے پر مکڑی نے جالابن دیا تو انہیں گمان ہوا کہ چونکہ یہاں مکڑی کا جالا موجود ہے تو اس میں کوئی داخل نہیں ہوا ہوگا۔ غار ثور میں ان تین دنوں کے قیام میں سیدنا ابو بکر صدیق کے بیٹے حضرت عبداللہ، اور بیٹی حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ اور غلام عامر رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ اور سیدنا ابو بکر کے لئے خوراک کا انتظام کرتے تھے کہ عبداللہ بن ابی بکر روزانہ رات کو غار کے منہ پر سوتے اور صبح سویرے ہی مکہ چلے جاتے اور پتہ لگاتے کہ قریش کیا تدبیریں کر رہے ہیں۔ جو کچھ خبر ملتی شام کو آکر رسول اللہﷺ کو اطلاع کرتے۔ سیدنا ابوبکر صدیق کے غلام حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رات گئے چراگاہ سے بکریاں لے کر غار کے پاس آ جاتے اور ان بکریوں کا دودھ سیدنا ابوبکر صدیق اور رسول اللہﷺ پی لیتے۔ 
الھجرہ علی خطی رسول اللہﷺ نمائش میں یہ ویڈیو میں نظر آنے والا مصنوعی غار آپ دیکھ سکتے ہیں۔ جسے میں داخلے کے بعد اس کے دھانے پر مکڑی کا جالا بھی دکھایا گیا ہے۔ 
نوٹ: غار ثور پہنچ کر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہلے خود غار میں داخل ہوئے تھے اور اچھی طرح غار کی صفائی کی تھی تب اپنے بدن کے کپڑے پھاڑ پھاڑ کر غار کے تمام سوراخوں کو بند کیا۔ پھر رسول اللہﷺ غار کے اندر داخل ہوئے تھے، اور سیدنا ابوبکر صدیق کی گود میں اپنا سر رکھ کر سو گئے۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک سوراخ کو اپنی ایڑی سے بند کر رکھا تھا ۔ سوراخ کے اندر سے ایک سانپ نے بار بار یار غار کے پاؤں میں کاٹا مگر سیدنا صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس خیال سے پاؤں نہیں ہٹایا کہ رسول اللہﷺ کی نیند میں خلل نہ پڑجائے مگر درد کی شدت سے یار غار کے آنسوؤں کے چند قطرات سرور کائنات کے رخسار پر گرگئے۔ جس سے رسول اللہﷺ کی آنکھ کھل گئی، اپنے یارِ غار کو روتا دیکھ کر بے قرار ہو گئے پوچھا ابوبکر! کیا ہوا؟ عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے سانپ نے کاٹ لیا ہے۔ یہ سن کر رسول اللہﷺ نے زخم پر اپنا لعاب دہن لگا دیا جس سے فوراً ہی سارا درد جاتا رہا۔ رسول اللہﷺ تین رات اس غار میں موجود رہے۔ریفرنس (زرقانی علی المواہب جلد اول صفحہ ۲۲۳)
غار ثور میں تین ایام کا قیام صرف مشرکین کی توجہ بانٹنے کے لئے تھا۔ سیدنا ابوبکر صدیق نے پہلے سے ہی انتظام کررکھا تھا۔ ہجرت کے لئے مکہ سے نکلنے کے بعد تین دن کے قیام کے بعد غار ثور سے مدینہ کی جانب سفر کے لئے چوتھے دن صبح سویرے سیدنا ابو بکر صدیق نے عبداللہ بن اریقط کو پہلے سے ذمہ داری دی ہوئی تھی کہ وہ دو اونٹنیاں لے کر وہاں پہنچ جائے۔یہ دونوں اونٹنیاں پہلے سے ہی عبداللہ بن اریقط کے سپرد کی گئیں تھیں، جو انہیں لے کر پہاڑ پر آگیا، حالانکہ عبداللہ بن اریقط نے اس وقت تک اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ وہ ابھی مشرک ہی تھا، مگر مکہ میں ایک انتہائی معتبر شخص تھا اور سیدنا ابو بکر صدیق کے ساتھ ان کا اچھا تعلق تھا۔ سیدنا ابو بکر صدیق کے اعتماد کا دوست ہونے کی نسبت سے سیدنا ابو بکر صدیق کو پورا یقین تھا کہ وہ شخص ان کے سفر کا راز فاش نہیں کرے گا۔ چونکہ عبداللہ بن اریقط مکہ سے مدینے کے لئے راستے کی آگاہی بھی رکھتا تھا، اس لئے اسے اونٹنیاں پہنچانے کی ذمہ داری دی گئی تھی، اس سفر میں عملًا تین افراد تھے۔ رسول اللہﷺ کے علاوہ سیدنا ابوبکر صدیق اور ان کا غلام عامر بن فہیرہؓ بھی تھا، ایک اونٹنی پر رسول اللہﷺ تنہا تشریف فرما تھے، اور دوسری اونٹنی پر سیدنا ابوبکر صدیق اور ان کے ساتھ اس اونٹنی پر ان کے پیچھے عامر بن فہیرہؓ بیٹھے، اور ان کے ساتھ عبداللہ بن اریقط راستہ بتلاتے ہوئے پیدل چل رہے تھا۔
غار ثور سے نکل کر یہ کارواں جو آٹھ روز میں مدینہ پہنچا۔یہ ایک ایسا سفر تھا جو دنیا کی تاریخ کو بدلنے والا تھا۔ غار ثور سے صبح نمودار ہونے سے کچھ پہلے اندھیرے میں غار سے نکل کر مدینے کی طرف کارواں روانہ ہوا۔ غار ثور سے رسول اللہﷺ کا کارواں مکہ کے زیریں حصے کی طرف ساحل سمندر کی سمت سے عُسفان کی طرف بڑھا، پھر یہ کارواں اَمَج کے نچلے حصے سے ہوتے ہوئے قُدَید کے قریب سے گزرا۔ الھجرہ پروجیکٹ کی نمائش میں ہر روز کے سفر کے راستے کو مکمل طور پر فضائی ڈرون سے فلمایا گیا ہے اور ہر روز کے سفر کے راستے کی مکمل ویڈیو ان مقامات کی تفصیلات کے ساتھ اس نمائش میں قد آدم اسکرینوں پر الگ الگ تسلسل سے چل رہی ہیں۔ ان تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پہلے روز کے سفر میں مسلسل کارواں دن ورات چلتا رہا تھا اور اس سفر میں ہجرت کا کارواں جن علاقوں سے گزرا ان میں آغاز جبل ثور سے ہوکر الخشعہ پہاڑی سلسلہ، الحدیبیہ، الغمیم کا مغربی کنارہ، صخرہ بارزہ کی وادی شامل رہی۔ 
رسول اللہﷺ کا کارواں پہلے روز تقریباً تمام دن اور رات سفر میں رہا، اگلا دن بھی دن بھر یہ سفر جاری رہا۔ جب دوپہر کا وقت شروع ہوا تب تک تھکان بہت بڑھ چکی تھی، اس وقت کارواں نے آرام کی غرض سے کسی مناسب جگہ پر رہنے کا فیصلہ کیا، جہاں تھوڑا آرام کیا جاسکے۔ اس اثناء میں سیدنا ابو بکر صدیق کی نگاہ ایک چٹان پر پڑی، وہ چٹان کچھ سایہ کئے ہوئے تھی، سیدنا ابو بکر صدیق نے اس جگہ کو رسول اللہ ﷺ کے لئے ہموار کردیا۔ رسول اللہﷺ کے لئے چمڑے کا بنایا ہوا ایک فرش بچھا دیا اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! آپؐ یہاں پر آرام فرمائیں۔ رسول اللہﷺ وہاں لیٹ گئے، پھر سیدنا ابو بکر صدیق نے تھوڑا الگ ہو کر اِدھر اُدھر دیکھا کہ کوئی ہماری تلاش میں تو نہیں ہے، اچانک ان کی نگاہ ایک شخص پر پڑی جو بکریاں چرا رہا تھا، سیدنا ابو بکر صدیق نے اس سے پوچھا اے غلام! تیرے مالک کا کیا نام ہے؟ اس نے ایک قریشی شخص کا نام بتایا جسے سیدنا ابوبکر صدیق جانتے تھے۔سیدنا ابو بکر صدیق: کیا تمہارے پاس دودھ دینے والی بکری ہے؟
غلام: ہاں! سیدنا ابو بکر صدیق: کیا تم میرے لئے اس کا دودھ نکال سکتے ہو؟
غلام: ہاں (اثبات میں سر ہلاتے ہوئے).
پھر سیدنا ابوبکر صدیق نے اس کی بکریوں میں سے ایک بکری کا پاؤں باندھ کر اس غلام سے کہا کہ وہ اس کے تھنوں کو دھولے اور اپنے دونوں ہاتھ بھی پاک کرلے، میرے پاس ایک برتن تھا جس کے منہ پر کپڑا بندھا ہوا تھا، غلام نے اس میں کچھ دودھ دوہا، پھر سیدنا ابو بکر صدیق نے برتن میں کچھ پانی بہایا یہاں تک کہ اس برتن کی تلی ٹھنڈی ہوگئی۔ تب سیدنا ابو بکر صدیق نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ آپؐ دودھ نوش فرمالیں۔ رسول اللہﷺ نے کچھ دودھ پی لیا۔ وہاں سے یہ کارواں اک بار پھر جانب منزل چل پڑا، دوسرے روز سفر میں وادی الجعفہ، اسفل عسفان، حجر میلی القرب من حرہ المشلل، سے گزرے۔ دوسرے دن ہی مقام قدید بھی راہ سفر میں گزرا جس کا تذکرہ اگلے حصے میں ہوگا۔ سفر الھجرہ علی خطی رسول اللہﷺ کی نمائش میں دوسرے دن راستے کی بھی فضائی ڈرون ویڈیو ایک قد آدم اسکرین پر موجود ہے۔ 
ھجرہ رسول اللہﷺ کا کارواں دوسرے روز وادی العویجا کو عبور کرتے ہوئے خیمہ ام معبد سے ہوتے ہوئے شمال کی طرف ساحل کا رخ کیا تھا، ام معبد کا خیمہ وہ مقام تھا جس کا ذکر اس ہجرت کے سفر کا ایک بے مثال واقعہ ہے، جہاں رسول اللہﷺ نے سفر ہجرت میں قیام فرمایا تھا۔ یہ مقامِ قدید تھا جہاں پر اُمِ معبد عاتکہ بنت خالد خزاعیہ کا خیمہ تھا جنہیں رسول اللہﷺ کا میزبان بننے کا شرف حاصل ہوا تھا۔ اُمِ معبد ایک ضعیفہ عورت تھی جو اپنے خیمہ کے صحن میں بیٹھی رہا کرتی تھی اور مسافروں کو کھانا پانی دیا کرتی تھی۔ ام معبد کا تعلق عرب کا ایک اہم قبیلے بنو خزاعہ سے تھا اور ام معبد اپنی شعر و شاعری کی وجہ سے پورے علاقے میں مشہور تھیں۔ رسول اللہ ﷺ اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ہجرت کے سفر کے دوران جب ان کے خیمے کے پاس پہنچے تو رسول اللہﷺ نے ام معبد سے کچھ کھانا خریدنے کا قصد کیا مگر ام معبد کے پاس اس وقت کوئی چیز موجود نہ تھی۔ رسول اللہﷺ نے دیکھا کہ اس کے خیمے کے ایک جانب ایک بہت ہی لاغر بکری ہے۔ دریافت فرمایا کیا یہ دودھ دیتی ہے؟ اُمِ معبد نے کہا: ''نہیں۔''رسول اللہﷺ نے ام معبد سے فرمایا کہ: اگر تم اجازت دو تو میں اس کا دودھ دوہ لوں۔ اُمِ معبد نے اجازت دے دی، رسول اللہﷺ نے ‘‘بسم اللہ‘‘پڑھ کر جو اس کے تھن کو ہاتھ لگایا تو اس کا تھن دودھ سے بھر گیا اور اتنا دودھ نکلا کہ سب لوگ سیراب ہو گئے اور اُمِ معبد کے تمام برتن دودھ سے بھر گئے۔ معبد اس معجزے کو دیکھ کر بہت متاثر ہوئیں اور انہوں نے بعد میں آپ کے بارے میں ایک فی البدیہہ نظم کہی۔ 
ام معبد کی نظم اور ترجمہ: 
قالت أُمِّ مَعْبَدٍ فی وصف النبی صلی اللہ علیہ وسلم:رَأَیْتُ رَجُلًا ظَاہِرَ الوَضَائَۃِ، أَبْلَجَ الوَجْہِ، حَسَنَ الخَلْقِ،لَمْ تَعِبْہُ ثُجْلَۃٌ، وَلَمْ تُزْرِیہِ صُعْلَۃٌ، وَسِیمٌ قَسِیمٌ، فِی عَیْنَیْہِ دَعَجٌ، وَفِی أَشْفَارِہِ وَطَفٌ، وَفِی صَوْتِہِ صَہَلٌ، وَفِی عُنُقِہِ سَطَعٌ، وَفِی لحْیَتِہِ کَثَاثَۃٌ، أَزَجُّ، أَقْرَنُ، إِنْ صَمَتَ فَعَلَیْہِ الوَقَارُ، وَإِنْ تَکَلَّمَ سَمَاہُ وَعَلَاہُ البَہَاءُ،أَجْمَلُ النَّاسِ، وَأَبْہَاہُ مِنْ بَعِیدٍ، وَأَحْسَنُہُ وَأَجْمَلُہُ مِنْ قَرِیبٍ، حُلْوُ المَنْطِقِ، فَصْلًا لَا نَزْرَ وَلَا ہَذَرَ، کَأَنَّ مَنْطِقَہُ خَرَزَاتُ نَظْمٍ یَتَحَدَّرْنَ، رَبْعَۃٌ لَا تَشْنَؤُہُ مِنْ طُولٍ، وَلَا تَقْتَحِمُہُ عَیْنٌ مِنْ قِصَرٍ، غُصْنٌ بَیْنَ غُصْنَیْنِ، فَہُوَ أَنْضَرُ الثَّلَاثَۃِ مَنْظَرًا، وَأَحْسَنُہُمْ قَدْرًا، لَہُ رُفَقَاءُ یَحُفُّونَ بِہِ،إِنْ قَالَ سَمِعُوا لِقَوْلہِ، وَإِنْ أَمَرَ تَبَادَرُوا إِلَی أَمْرِہِ، مَحْفُودٌ مَحْشُودٌ، لَا عَابِسَ، وَلَا مُفَنِّدَ.(الطبقات الکبری لابن سعد، ذکر خروج رسول اللہ ﷺ، ۱/240)
ترجمہ: 
میں نے ایک شخص کو دیکھا جس کی نظافت نمایاں، جس کا چہرہ تاباں، اور جس کی ساخت میں تناسب تھا۔ پاکیزہ اور پسندیدہ خو، نہ فربہی کا عیب نہ لاغری کا نقص، نہ پیٹ نکلا ہوا، نہ سر کے بال گرے ہوئے، چہرہ وجیہہ، جسم تنومند، اور قد موزوں تھا۔ آنکھیں سر مگیں، فراخ اور سیاہ تھیں۔ پتلیاں کالی اور ڈھیلے بہت سفید تھے۔ پلکیں لمبی اور گھنی تھیں۔ ابرو ہلالی، باریک اور پیوستہ، گردن لمبی اور صراحی دار، داڑھی گھنی اور گنجان، سر کے بال سیاہ اور گھنگھریالے، آواز میں کھنک کے ساتھ لطافت، بات کریں تو رخ اور ہاتھ بلند فرمائیں۔ کلام شیریں اور واضح، نہ کم سخن اور نہ بسیار گو، گفتگو اس انداز کی جیسے پروئے ہوئے موتی۔ دور سے سنو تو بلند آہنگ، قریب سے سنو تو دلفریب، کلام نہ طویل نہ بے مقصد بلکہ شیریں، جامع اور مختصر، خاموشی اختیار کرے تو پر وقار اور تمکین نظر آئے۔ قد نہ درازی سے بد نما اور نہ اتنا پستہ کہ نگاہ بلند تر پر اٹھے۔ لوگوں میں بیٹھے تو سب سے جاذب، دور سے نظریں ڈالیں تو بہت با رعب، دو نرم و نازک شاخوں کے درمیان ایک شاخِ تازہ جو دیکھنے میں خوش منظر، چاند کے گرد ہالے کی طرح رفیق گرد و پیش۔ جب کچھ کہے تو سراپا گوش۔ حکم دے تو تعمیل میں ایک دوسرے پر سبقت لے جائیں۔ سب کا مخدوم، سب کا مطاع، مزاج میں اعتدال، تندی اور سختی سے دور۔
بعد میں ام معبد اور ان کے شوہر نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ الھجرہ علی خطی رسول اللہﷺ نمائش میں دوسرے روز کے سفر کے لئے یہاں پر باقاعدہ ام معبد کا خیمہ بنایا گیا ہے، جس میں اندر بیٹھنے کا انتظام موجود ہے اور بڑی اسکرین پر ام معبد سے ہونے والی گفتگو اور ام معبد کی شاعری کو بہت دلکش انداز سے دکھایا گیا ہے۔ 
یہاں رسول اللہ ﷺ کا کارواں ام معبد کے گھر سے اگلے سفر کی جانب روانہ ہورہا تھا وہاں کفار مکہ کی جانب سے بھیجے گئے کچھ لوگ رسول اللہﷺ کی تلاش میں بھٹک رہے تھے۔ سوائے سُراقہ بن مالک کے ان تک کوئی نہ پہنچ سکا تھا۔ سراقہ بن مالک بن جعثم جو قوم بنو مدلج سے تعلق رکھتا تھا، وہ اپنے دوستوں کی مجلس میں بیٹھا تھا کہ ایک شخص آیا اور وہاں آکر کھڑا ہوگیا، اور بیٹھے ہوئے تمام افراد کے سامنے کہنے لگا، ''اے سراقہ میں نے ابھی تھوڑی دیر پہلے ساحل کے آس پاس کچھ انسانی سائے دیکھے ہیں، میرا خیال ہے کہ وہ محمدؐ اور ان کے ساتھی ہیں۔ سراقہ بن مالک بن جعثم نے دل میں تو یہی سوچا کہ ہو نہ ہو وہ محمد ہی کا قافلہ ہے، مگر اس شخص سے یہ کہا کہ وہ لوگ نہیں ہو سکتے، تجھے غلط فہمی ہوئی ہے، تو نے فلاں فلاں شخص کو دیکھا ہوگا جو ابھی ادھر سے گئے ہیں۔یہ بات کہہ کر کچھ دیر مجلس میں بیٹھا رہا، پھر اٹھ کر گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔ 
ادھر ابتدائی طور پر قریش مکہ یہ جان چکے تھے کہ رسول اللہﷺ اور ان کے ساتھ سیدنا ابوبکر بن ابی قحافہؓ مکہ سے نکل چکے ہیں اور ان کو مکہ سے جانے سے روکنے کی ان کی تمام تدابیر ناکام ہوچکی ہیں تو وہ مارے غصے کے پاگل ہوگئے۔ چاروں طرف گھڑ سوار اور پیدل دستے روانہ کئے گئے تاکہ انہیں پکڑ کر واپس مکہ لایا جاسکے۔ وہاں تین دن گزرجانے کے باوجود قریش کے تمام سرداروں کی نیند حرام تھی۔ دارالندوہ میں مشورے شروع ہوگئے ، اب کیا کیا جائے، محمد اور ابوبکر کو کسی طرح واپس لایا جائے، آخر کار طے پایا کہ مکے میں منادی کرادی جائے کہ جو شخص محمدﷺ اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو زندہ یا مردہ گرفتار کرکے لائے گا اس کو ایک دیت کے برابر رقم دی جائے گی، دیت کی رقم سو اونٹوں کی قیمت کے برابر ہوتی تھی۔ یہ خبر گھر جاتے ہوئے سراقہ بن مالک بن جعثم کو بھی ملی، سراقہ بن مالک بن جعثم نے گھر پہنچ کر اپنی باندی سے کہا کہ وہ اس کا گھوڑا لے کر فلاں ٹیلے کے پیچھے چلی جائے اور وہاں ٹھہر کر اس کا انتظار کرے، ادھر سراقہ بن مالک بن جعثم اپنے ہتھیار لے کر گھر کی پشت سے نکلا اور اپنے نیزے سے زمین پر نشان بناتا ہوا گھوڑے کے پاس پہنچا، اس پر سوار ہوا، اسے مہمیز کیا، گھوڑا اونچے نیچے راستوں پر برق رفتاری کے ساتھ دوڑنے لگا۔ سفر کے تیسرے دن سراقہ بن مالک بن جعثم تیز رفتار گھوڑے پر سفر کی منزل طے کرتے ہوئے رسول اللہﷺ تک پہنچ گیا۔ سیدنا ابوبکر صدیق نے دیکھا کہ ایک شخص گھوڑے پر سوار آ رہا ہے، سیدنا ابو بکر صدیق نے رسول اللہﷺ سے کہا: یارسول اللہ! وہ شخص ہم تک پہنچ گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لاَ تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا۔ترجمہ ‘‘غم نہ کرو، بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔’’
سراقہ بن مالک نے قریب پہنچ کر حملہ کرنے کا ارادہ کیا مگر اس کے گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور وہ گھوڑے سے گر پڑا مگر سو اونٹوں کا انعام کوئی معمولی چیز نہ تھا، انعام کے لالچ نے اسے دوبارہ اُبھارا اور وہ حملہ کی نیت سے آگے بڑھا تو رسول اللہﷺ کی دعا سے پتھریلی زمین میں اس کے گھوڑے کا پاؤں گھٹنوں تک زمین میں دھنس گیا۔ سراقہ یہ معجزہ دیکھ کر خوف و دہشت سے کانپنے لگا اور امان! امان! پکارنے لگا۔ رسول اللہﷺ کا دل رحم و کرم کا سمندر تھا۔ سراقہ کی لاچاری اور گریہ زاری پر رسول اللہﷺ کا دریائے رحمت جوش میں آ گیا۔ دعا فرما دی تو زمین نے اس کے گھوڑے کو چھوڑ دیا۔ اس کے بعد سراقہ نے عرض کیا کہ مجھ کو امن کا پروانہ لکھ دیجیے۔ رسول اللہﷺ کے حکم سے حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سراقہ کے لئے امن کی تحریر لکھ دی۔ سراقہ نے اس تحریر کو اپنے ترکش میں رکھ لیا اور واپس لوٹ گیا۔ راستہ میں جو شخص بھی رسول اللہﷺ کے بارے میں دریافت کرتا تو سراقہ اس کو یہ کہہ کر لوٹا دیتے کہ میں نے بڑی دور تک بہت زیادہ تلاش کیا مگر رسول اللہﷺ اس طرف نہیں ہیں۔ واپس لوٹتے ہوئے سراقہ نے کچھ سامان سفر بھی رسول اللہﷺ کی خدمت میں بطور نذرانہ کے پیش کیا جسے رسول اللہﷺ نے قبول نہیں کیا۔ 
سراقہ بن مالک نے اس وقت تو اسلام قبول نہیں کیا تھا مگر رسول اللہﷺ کی عظمت نبوت اور اسلام کی صداقت کا سکہ ان کے دل پر بیٹھ گیا۔ جب رسول اللہﷺ نے فتح مکہ اور جنگ طائف و حنین سے فارغ ہو کر’’جعرانہ‘‘میں پڑاؤ کیا تو سراقہ اسی پروانہ امن کو لے کر بارگاہِ نبوت میں حاضر ہو گئے اور اپنے قبیلہ کی بہت بڑی جماعت کے ساتھ اسلام قبول کر لیا تھا۔ 
تیسرے روز کے سفر کو الھجرہ پروجیکٹ نے ویسے ہی قد آدم اسکرینوں پر ڈرون سے فضائی ویڈیو مکمل سفر کے لیے الگ اسکرین پر بنائی ہوئی ہے، جس میں تیسرے روز کے سفر میں آنے والے علاقوں میں ماء احیاء (جہاں نخلستان اور پانی کے چشمے موجود ہیں)، وادی الفرع اور جبل الملیساء کے پہاڑی سلسلے تھے، ان کو عبور کیا جبل الملیساء بھی نخلستانی علاقہ ہے۔ 
ہجرت رسول اللہﷺ کے کارواں میں پیش آنے والے بڑے واقعات یہی تھے، اس کے بعد کے مختلف تاریخی کتب کی روایات میں چوتھے روز سے آٹھویں روز تک ان مقامات کا ذکر ملتا ہے، کہ چوتھے روز سے ضرار اور ثنیۃ المرۃ نامی مقامات، اس کے بعد مدلجہ حجاج، پھر دَحَجْ مَجَاحْ، پھرمَرْجَحْ ذی العَضْوَین، پھر بَطْنْ ذِیْ کَثُرْ، پھرجَدْاجَدْ، پھرذوسُلم نامی مقامات سے گزرنا ہوا، اس کے بعد مَدْلجہ تِعھَنْ، عَبَابِیْدْ، فَاجَّہْ، عَرج،رَکُوْبَۃ ثَنِیَّۃ ُالعَائد، بَطْنِ رِءْم اور مَلَلْ سے ہوتے ہوئے بستی قباء تک یہ قافلہ پہنچا۔ مگر ایک بات یہ بھی رہی کہ موجودہ تحقیقی پروجیکٹ نے جن راستوں کا ذکر کیا ہے وہ یوں ہیں۔ جن مقامات سے کارواں رسول اللہﷺ ہجرت کے دوران گزرا تھا۔ 
چوتھے دن: 
ربع و وادی قم کشد، وادی اجیرد، مدلجہ تعھن، الغثریانہ
پانچویں دن: 
جبل ام اصیبع، وادی القاحتہ
چھٹے دن:
قریہ اثریہ (قدس) فی وادی القاحتہ, جبل ورقان 
ساتویں دن: 
ربع الصھوہ، وادی العقیق، جبال عوف و جبل رکوں ہ، الجنجاثہ، وادی ریم
آٹھواں دن: 
العصبتہ، جبل ام نثیلہ البرکانی، جبل عیر، بستی قباء
ایک بات یہ بھی ہے کہ عہد رسول اللہﷺ میں اور آج تک کئی بستیوں کے نام بھی تبدیل ہوچکے ہیں اس لئے تاریخی کتب کے ناموں میں اور حالیہ ناموں میں کچھ فرق ہوسکتا ہے۔ رسول اللہﷺ جب پہلی ہجرت کے وقت مدینہ میں داخل ہوئے تو وہ آج کے مدینہ سے بہت مختلف تھا، اس وقت مدینہ منورہ آج کی مسجد نبوی کے رقبے پر ہی محیط تھا، حتی کہ اس وقت قباء کی آبادی بھی مدینہ میں نہیں آتی تھی بلکہ مدینہ منورہ سے باہر سمجھی جاتی تھی۔ معروف یہی ہے کہ قباء کی بستی کے مقام پر رسول اللہﷺ نے پہلی نماز ادا کی تھی، مگر پہلی نماز علی الصباح مدینے کے قریب کھجوروں کے باغات کے وسط میں ایک جگہ ادا کی تھی، جہاں آج بھی ایک چھوٹا سا کچا مصلہ ہے، اس کی دیواریں بھی تقریباً اسی حالت میں موجود ہیں۔ اس مقام کو یہاں مقامی لوگ مسجد مصباح بھی کہتے ہیں، عربی میں مصباح کے معنی '' لیمپ، روشنی یا، قندیل کے ہیں، چونکہ رسول اللہﷺ یہاں وقت فجر پہنچے تھے اور طلوع سحر کا وقت قریب تھا،،اسی نسبت سے اسے مصباح کہا جاتا ہے۔
ویڈیوز کے چھوٹے چھوٹے کلپس اور تصاویر میں یہ تمام راستہ فضائی ڈرون سے کور کیا گیا ہے۔ 
رسول اللہﷺ جس کسمپرسی کے حالات میں مکہ سے ہجرت کرکے نکلے تھے، اس سے زیادہ عجیب بات یہ تھی کہ مدینہ میں رسول اللہﷺ کی آمد کا اتنی ہی بے چینی سے انتظار ہوتا تھا۔ مگر ایک عجیب واقعہ ضرور ہوا کہ مدینہ میں جہاں لوگ رسول اللہﷺ کی آمد کے مشتاق تھے وہیں پر قبیلہ بنی سہم کے ایک سرداربریدہ اسلمی اپنے ساتھ ستر سواروں کو لے کر اس لالچ میں رسول اللہﷺ کی گرفتاری کے لئے پہنچا کہ قریش سے ایک سو اونٹ انعام مل جائے گا۔ مگر جب رسول اللہﷺ کے سامنے آیا اور پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ''میں محمد بن عبداللہ ہوں اور خدا کا رسول ہوں۔''
بریدہ اسلمی کے دل پر رسول اللہﷺ کے جمال و جلال نبوت کا ایسا اثر ہوا کہ فوراً ہی کلمہ شہادت پڑھ کر دامن اسلام میں آ گیا اور کمال عقیدت سے یہ درخواست پیش کی کہ ''یا رسول اللہ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میری تمنا ہے کہ مدینہ میں حضور کا داخلہ ایک جھنڈے کے ساتھ ہونا چاہیے، یہ کہا اور اپنا عمامہ سر سے اتار کر اپنے نیزے پر باندھ لیا اور رسول اللہﷺ کے علمبردار بن کر مدینہ تک آگے آگے چلتا رہا۔
بریدہ اسلمی نے رسول اللہﷺ سے پھر دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) آپ مدینہ میں کہاں اتریں گے تاجدار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے
 ارشاد فرمایا:کہ میری اونٹنی خدا کی طرف سے مامور ہے۔ یہ جہاں بیٹھ جائے گی وہی میری قیام گاہ ہے۔
 مدینہ میں رسول اللہﷺ کی آمد کی خبر پہلے سے پہنچ چکی تھی، اس لئے اہل مدینہ آپ کے دیدار کے لئے انتہائی مشتاق و بے قرار تھے۔ روزانہ صبح سے نکل نکل کر شہر کے باہر سراپا انتظار بن کر استقبال کے لئے تیار رہتے تھے اور جب دھوپ تیز ہو جاتی تو حسرت و افسوس کے ساتھ اپنے گھروں کو واپس لوٹ جاتے۔ ایک دن اپنے معمول کے مطابق اہل مدینہ رسول اللہﷺ کی راہ دیکھ کر واپس جا چکے تھے کہ ناگہاں ایک یہودی نے اپنے قلعہ سے دیکھا کہ رسول اللہﷺ کی سواری مدینہ کے قریب آن پہنچی ہے۔ اس نے بہ آواز بلند پکارا کہااے مدینہ والو! لو تم جس کا روزانہ انتظار کرتے تھے وہ کاروانِ رحمت آگیا۔ یہ سن کر تمام انصار بدن پر ہتھیار سجا کر اور وجد و شادمانی سے بے قرار ہو کر دونوں عالم کے رسول ﷺ کا استقبال کرنے کے لئے اپنے گھروں سے نکل پڑے اور نعرہ تکبیر کی آوازوں سے تمام شہر گونج اُٹھا۔
تصاویر عہد نبوی میں موجود اشیاء اور قرآن کے مخطوطات کی ہیں۔ جو الھجرہ رسول ﷺ کی نمائش میں رکھی گئی ہیں۔ 
قربان جائیے محمد ﷺ کے، کہ مکے کا ایسا پردیسی جو زخمی پاؤں سے ہجرت کے دوران مدینہ پہنچا جس پر اس کے آبائی وطن کے رہنے والوں نے ہمیشہ زمین تنگ کئے رکھی، جس نے اپنے ہم وطنوں کی دی گئی تکلیف کے باعث پہلے شعب ابی طالب کی گھاٹی میں اپنے چاہنے والوں کے ساتھ شدید تکلیف دہ وقت گزارا، پھر اپنے ساتھیوں کی جان کی بقا کے لئے انہیں دو بار حبشہ کی طرف ہجرت کروائی، پھر اپنی جان کے پیاسوں سے اپنی جاں محفوظ کرنے کے لئے اپنے ننھیالی رشتے داروں کی طرف طائف میں جاکر پناہ لینے کہ کوشش کی، مگر وہاں سے بھی شدید تکلیف اٹھا کر واپس آنا پڑا، بالآخر حکم ربی سے اب جب رات کے اندھیرے میں مکہ سے مدینہ کی ہجرت کی تواک بار پھر پاؤں زخموں سے چور تھے۔ 
مگر اس دفعہ رسول اللہﷺ کو قرار آگیا، مدینہ منورہ سے تین میل کے فاصلہ پر جہاں آج’’مسجد قبا‘‘بنی ہوئی ہے۔ ۱۲ ربیع الاول کو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم رونق افروز ہوئے، مدینہ والوں نے ایسی خاطر تواضع اور محبت دی کہ جب رسول اللہﷺ جب مدینہ میں داخل ہوئے تو مدینے کی بچیوں نے اس قصیدے سے رسول اللہﷺ کا استقبال کیا تھا۔ 
طلع البدر علینا
من ثنیات الوداع
وجب الشکر علینا
ما دعا للہ داع
أیہا المبعوث فینا
جئت بالأمر المطاع
جئت شرفت المدینۃ
مرحباً یا خیر داع۔
ترجمہ: ''ہم پر وداع کی چوٹیوں سے چودھویں رات کا چاند طلوع ہوا، جب تک لوگ اللہ کو پکارتے رہیں گے ہم پر اس کا شکر واجب ہے۔ اے ہم میں مبعوث ہونے والے نبی! آپ ایسے اَمر کے ساتھ تشریف لائے ہیں جس کی اِطاعت کی جائے گی۔''
یہ نغمہ و نشید ۱۴۰۰سال گزرجانے کے بعد بھی آج بھی محبت رسول ﷺ میں ایسے ہی پڑھا جاتا ہے، پہلے قبیلہ عمرو بن عوف کے خاندان میں حضرت کلثوم بن ہدم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مکان میں تشریف فرما ہوئے اہل خاندان نے اس فخر و شرف پر کہ دونوں عالم کے میزبان ان کے مہمان بنے اللہ اکبر کا پر جوش نعرہ مارا۔ چاروں اطراف انصار جوشِ مسرت میں آتے اور بارگاہ رسالت میں صلاۃ و سلام کا نذرانہ عقیدت پیش کرتے، اکثر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم جو رسول اللہﷺ سے پہلے ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئے تھے وہ لوگ بھی اس مکان میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی حکم نبوی کے مطابق قریش کی امانتیں واپس لوٹا کر تیسرے دن مکہ سے چل پڑے تھے وہ بھی مدینہ آ گئے اور اسی مکان میں قیام فرمایا اور حضرتِ کلثوم بن ہدم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے خاندان والے ان تمام مقدس مہمانوں کی مہمان نوازی میں دن رات مصروف رہنے لگے۔ رسول اللہﷺ کے قیام کے لئے مدینے کے ہر گھر والا چاہتا تھا کہ رسول اللہﷺ اس کے گھر کو مہمان نوازی کا شرف بخشیں، آپ ﷺ نے فرمایا میری اونٹنی جہاں رکے گی، میں وہیں قیام کرونگا، یہ میزبانی کا شرف حضرت ابو ایوب انصاری کے حصے میں آیا، اونٹنی ان کے دروازے پر جا بیٹھی تھی۔ یوں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کے گھر سے شروع ہونے والا یہ سفر حضرت ابو ایوب انصاری کے گھر تک تمام ہوا۔ 
رسول اللہﷺ کی مکہ کی تمام نبوت کی محنت کو قرار مدینہ میں ملا، مدینہ سے ہی پھر بالآخر فتح مکہ ہوا، اور یہ دین ساری دنیا تک پھیلا، یہ ہجرت کے تین ابتدائی دن یعنی قیام غار ثور اور ہجرت کے سفر کے وہ آٹھ دن ہیں جو مکہ تا مدینہ تک نہیں بلکہ پورے عالم میں تبدیلی کا باعث بنے۔ 
الھجرہ علی خطی رسول اللہﷺ پروجیکٹ نے جتنی وضاحت سے ہجرت رسول اللہﷺ کو سمجھایا ہے، اسے کسی مبالغہ آمیز داستانوں یا معجزاتی تقریروں کے طرز کے بجائے مکمل سفر کو جس طرح دستاویزی حقائق سے پیش کیا ہے آپ اس سفر میں خود اپنے آپ کو محسوس کریں گے۔ جو لوگ سعودی عرب میں مقیم ہیں انہیں ضرور اس الھجرہ پروجیکٹ سے استفادہ کرنے کا مشورہ ہے۔ اَللّٰہمَّ صَلِّ وَ سَلِّمْ وَ بَارِکْ عَلٰی سَیِّدِنَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ آلِہ وَ صَحْبِہ وَ بَارِکْ وَ سَلِّمْ

سیرت النبیﷺ
حضور ﷺکا سفر ہجرت
منصور ندیم