الله كريسي

مصنف : محمد سلیم

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : ستمبر 2022

میرے ایک مہربان نے اپنی غیر ملکی بیوی کی ڈیلیوری اسلام آباد کے ایک پوش ہسپتال میں کرائی۔ بچی دن کے دو بجے پیدا ہوئی اور شام کو چھ بجے تک والد کو بچی کی شکل تک نہ دکھائی گئی۔ شام کو چھ بجے بچی کا والد پھٹ پڑا کہ کہ میری بچی کو مجھ سے کیوں نہیں ملوایا جا رہا؟ میں نے بچی کے کان میں اذان دینی ہے اور اسے مسنون گھٹی لگانی ہے۔ ہسپتال کے عملے نے بچی کے والد کو بتایا کہ اپ سب سے پہلے کاؤنٹر پر جا کر اپنا بل ادا کریں اور آپ کی بچی بھی آپ کو دے دی جائیگی۔ گھنٹہ بھر کے شور شرابے کے بعد ایک میڈم نمودار ہوئیں اور فرمایا کہ آپ کی بچی خیریت سے ہے بس آپ جلدی سے بل ادا کریں اور زچہ بچہ دونوں لے جائیں۔ بچی کے والد نے کہا کہ یہ بات آپ کے ہسپتال کا نچلا عملہ مجھے پچھلے چار پہانچ گھنٹوں سے بتا رہا ہے اور آپ بھی یہی کچھ کہہ رہی ہیں تو اس میں نیا کیا ہے؟ لایعنی گفتگو کے بعد بڑی میڈم بھی غائب ہو گئیں اور رات کے آٹھ بجے بچی کی ماں کو سٹریچر پر بٹھائے ہوئے، بچی کو ماں کے بازوؤں میں دیکر، ایک کمرے کے اندر لایا گیا جس کی بیرونی دیوار شیشے کی تھی۔ بچی کے والد کو باہر سے دکھا کر، پھر یہی کہا گیا کہ وہ دیکھیں وہ رہی اپ کی بیوی اور آپ کی بچی، جائیں کاؤنٹر پر پیسے دیں اور دونوں کو گھر لیجائیں۔ اس بار صاحب کا صبر جواب دے گیا اور ڈاکٹروں سے الجھ پڑا کہ حقیقت کیا ہے اسے بتایا جائے؟ میڈم نے اس بار آ کر بتایا کہ لاکھوں کیسز میں ایسے ہو جایا کرتا ہے کہ پیدائش کے وقت بچے کا کندھا اتر جاتا ہے اور آپ کی بچی کے ساتھ بھی ایسا ہوا ہے۔ آپ بس اللہ سے دعا کیجیئے ان شاء اللہ چند سالوں میں کچھ مناسب ایکسرسائزز سے اپ کی بچی تندرست ہو جائیگی۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ ڈاکٹروں کی بے احتیاطی سے ڈیلیوری کے وقت جھٹکا دینے سے (غیر محتاط اور نان پروفیشنل طریقے سے بچہ نکالنے کے چکر میں) کسی کسائی ڈاکٹر نے بچی کا کالر بون توڑ دیا تھا۔ اللہ سے دعا کیجیئے کا اتنی بار تذکرہ کیا گیا کہ صاحب پھٹ پڑے کہ تمہارا ہسپتال اللہ واسطے کا ہسپتال ہے کہ میں تمہاری اس بے احتیاطی اور اس نیگلی جینس کے بارے میں اللہ سے دعا کروں؟ ہائی پیڈ ہسپتال اور ڈاکٹر ایسے نان پروفیشنل اور ایسے بے حس قصائی؟ 
کسی مہذب ملک میں ایسا ہوا ہوتا تو اس ڈاکٹر نے ساری عمر کیلیئے ناصرف بین ہونا تھا بلکہ جیل بھی جاتا اور بچی کا لائف ٹائم ذمہ داری بھی اٹھاتا۔ کیونکہ پاکستان میں کسی علاج سے پیسے کاغذ پر لکھوا کر مریض کو کسی قانونی کاروائی کرنے کے قابل بھی نہیں چھوڑا جاتا اس لیئے ہسپتال میں کسی قسم کا دنگا کرنا کئی مسائل کھڑا کر سکتا تھا۔ جبکہ ہسپتال والے کسی بھی قسم کی صورتحال سے نمٹنے کیلیئے بالکل تیار کھڑے تھے۔ ہمارے صاحب نے کاؤنٹر پر پیسے ادا کیئے، ڈاکٹر کو جھولیاں اٹھا اٹھا کر بد دعائیں دیں اور روتے ہوئے زجہ بچہ کو لیکر گھر آ گئے۔ 
بچی اس وقت 13 سال کی ہے۔ ایک ہاتھ لاغر اور کمزور سینے کی طرف سے اندر جھکا ہوا رہتا ہے۔ بچی سمجھدار ہے اور اب اپنی اس کیفیت سے انتہائی پریشان ہے اور نا سمجھ آنے والے اور نا جواب دیئے جا سکنے والے سوالات کرتی ہے۔ 
 انتظامی خرابیوں اور سماجی جرائم کو اللہ کی طرف سے امتحان کہہ کر جان چھڑانے والوں کا اپنا ہی لیول ہوتا ہے۔ فیلڈ میں جا کر لوگوں کے مصائب کو دیکھیئے کہ یہ لوگ آپ کی مجرمانہ غفلتوں کا شکار ہیں۔ سوکس کی ساری کتابوں میں انہیں بھی اتنے ہی حقوق دیئے گئے ہیں جتنے کوئی بھی مہذب شہری لے رہا ہے۔ ہر اس کمبخت وڈیرے اور بے شرم صاحب اقتدار کو کیفر کردار پر پہنچنا چاہیئے جو مصائب میں ڈوبے لوگوں کو آ کر بتاتا ہے کہ یہ سب کچھ تمہارے گناہوں کی شامت ہے۔
کیا آپ کو یاد ہے سن 2009 میں ایک ایرانی پائلٹ نے پرواز میں کچھ فنی مشکلات کے دوران مسافروں سے کہا تھا کہ آپ سب لوگ اب اللہ سے دعا کیجیئے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ دوران پرواز پائلٹ اس بیان کے بعد   عالمی  سطح پر کیسے شدید ردعمل آئے تھے؟
کچھ ایسا ہی دو ہزار پانچ کے زلزلے کے دوران ایک مذہبی جماعت کے کارکنان کے ساتھ ہوا تھا جو متاثرین کے خیموں اور گھروں کے باہر کھڑے ہو کر نعت خوانی کرتے تھے۔ متاثرین نے ان نعت خوانوں کے ساتھ جو سلوک کیا تھا وہ نااابل بیان ہے۔
آفات اور بلیات  کا فلسفہ ہر ذی شعور جانتا اور سمجھتا ہے مگر اس پر بات کرنے کا وقت سوچنا بھی ضروری ہے۔
ملتان کی  ایک نواحی بستی میں ہونے والی عظیم الشان قل خوانی کا ذکر سناتے ہوئے ایک مہربان نے بتایا کہ حضرت صاحب نے شیعوں کی ایسی دھلائی کی کہ وہ صدیوں تک روتے رہیں گے۔ میں نے پوچھا بستی میں اہل تشیع کے کتنے گھرانے ہیں؟ بتانے لگے کہ ایک بھی نہیں۔ میں نے  حضرت صاحب کے قل خوانی پر موضوع کے انتخاب پر حیرت کا اظہار کیا۔ڈیزاسٹرز ہر دور میں ہوتے رہے ہیں۔ عشرہ مبشرین بالجنہ میں سے کائنات کے افضل ترین لوگ وبائی آفات اور امراض کا شکار ہو کر وفات پا گئے۔ دور عمر میں ایسا قحط پڑا کہ سیدنا عمر کو اعلان کرنا پڑا کہ  سب دور دراز بسنے والے لوگ مدینے میں ہی آ کر پڑاؤ ڈال لیں، کچھ ہوا تو مل کر کھائیں گے اور کچھ نہ ملا تو اکٹھے بھوکے رہیں گے۔بڑے بڑے علماء کے پاکستان پر آئی آفت پر دیئے گئے بیانات بیشک سچ ہونگے کہ یہ ہمارے گناہوں کے شامت اعمال ہیںمگر ان باتوں کو  بیان کیلئے ان کے الفاظ کا چناؤ اور بیان کرنے کا وقت غلط ہے۔ بھوک بہت نامراد چیز ہے، غربت کفر کرا دیتی ہے۔مذہب کا اس وقت استحصال نہ کرائیے-ورنہ عوام آپ کی اپروچ بنوں میں دیکھ چکی ہے خواتین کیلئے ایک فیمیلی پارک بننے سے آپ کے دس لاکھ علماء کا ایمان خطرے میں پڑا ہوا ہے۔