سید نا عثمانؓ

مصنف : تنزیل الرحمان

سلسلہ : سیرت صحابہؓ

شمارہ : اگست 2022

آج 18 ذوالحجہ 1443 ہجری ہے- 
آج سے 1408 سال قبل امت مسلمہ ایک ایسے جانکاہ حادثے سے دوچار ہوئی کہ •جس کے نشانات آج بھی اس امت کے جسم پر نمایاں ہیں۔ایک ایسا زخم جس سے آج بھی خون رِس رہا ہے-ایسا درد جس کی ٹیسیں آج بھی کم ہونے کا نام نہیں لے رہیں -ایک ایسا حادثہ جس کے اثر سے امت کی وحدت پارہ پارہ ہوئی- ایسا حادثہ جس کے بعد امت مسلمہ فرقوں میں بٹی تو اتحاد امت ایک خواب بن کر رہ گیا- ایسا حادثہ جس کے بعد ریاست مدینہ کا دارالخلافہ مدینہ سے منتقل ہوا تو پھر آج تک اس کی واپسی نہیں ہوئی۔یقیناً ایک بہت بڑا سانحہ تھا -یہ  ایسی شخصیت کی شہادت کا سانحہ ہے جو اسلام لانے میں چوتھے نمبر پر ہیں -•جن کے نکاح میں نبی کریم ﷺ نے اپنی بیٹی دی- جن کو پہلی بیٹی کی وفات کے بعد دوسری بیٹی بھی نکاح میں دے دی -جنہوں نے پوری زندگی (اسلام سے پہلے بھی) گانا نہیں سنا- •جنہوں نے پوری زندگی (اسلام سے پہلے بھی) کبھی برائی کی خواہش کا اظہار نہیں کیا جس ہاتھ سے نبی کریم ﷺ سے بیعت فرمائی کبھی اس سے شرم گاہ کو نہیں چھوا- جو ساری زندگی ہر جمعہ کو غلام آزاد کرتے رہے اگر کبھی ناغہ ہوا تو اس کی قضا فرمائی -•جنہوں نے پوری زندگی (اسلام سے پہلے بھی) کبھی زنا نہیں کیا -جنہوں نے کبھی چوری نہیں کی -جنہوں نے عہد رسالت میں ہی مکمل قرآن کریم حفظ کیا -جانتے ہیں یہ شخصیت کون ہے ؟
یہ شخصیت پیکر شرم و حیا ، منبع جود و سخا ، نمونہ حلم و وفا ، خلیفہ ثالث ، داماد نبی ، ناشر قرآن سیدنا عثمان بن عفان ذوالنورین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شخصیت ہے۔
سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فضائل و مناقب اور آپ کے مقام و مرتبہ کی بلندی کے لیے قرآن و حدیث ، اقوال صحابہ و سلف اور تاریخ اسلامی میں نظر کی جائے اور پھر آپ کی شہادت کے المناک سانحے کو دیکھا اور پڑھا جائے تو اس بات کا یقین ہونے لگتا ہے کہ تاریخ اسلامی میں سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے زیادہ مظلومانہ شہادت اور کسی کی نہیں ہے۔
ہم پہلے آپ کے چند مناقب کا تذکرہ کرتے ہیں اور پھر آپ کی شہادت کا مختصر قضیہ آپ کے سامنے رکھیں گے۔
•لَقَدْرَضِیَ اللہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِہِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْہِمْ وَ اَثَابَہُمْ فَتْحًا قَرِیْبًا (سورۃ الفتح ، آیت # 18)
ترجمہ:(اے پیغمبر) جب مومن تم سے درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے تو اللہ ان سے خوش ہوا۔ اور جو (صدق وخلوص) ان کے دلوں میں تھا وہ اس نے معلوم کرلیا۔ تو ان پر تسلی نازل فرمائی اور انہیں جلد فتح عنایت کی۔
تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے ہم حدیبیہ کے میدان میں دوپہر کے وقت آرام کر رہے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے منادی نے ندا کی کہ لوگو بیعت کے لئے آگے بڑھو روح القدس آچکے ہیں ۔ ہم بھاگے دوڑے حاضر ہوئے ، آپ ﷺ اس وقت ببول کے درخت تلے تھے ہم نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی (جس کا ذکر آیت مذکورہ میں ہے) حضرت عثمان کی طرف سے آپ نے اپنا ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھ کر خود ہی بیعت کر لی ، تو ہم نے کہا عثمان بڑے خوش نصیب رہے کہ ہم تو یہاں پڑے ہوئے ہیں اور وہ بیت اللہ کا طواف کر رہے ہوں گے یہ سن کر جناب رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا بالکل ناممکن ہے کہ عثمان ہم سے پہلے طواف کر لے گو کئی سال تک وہاں رہے ۔
نوٹ: اس آیت سے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی کئی فضیلتیں معلوم ہوتی ہیں- 
نبی کریم ﷺ کی ان سے محبت و تعلق ، آپ علیہ السلام کا اپنے ہاتھ کو عثمان کا ہاتھ قرار دینا ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی حسرت کے وقت نبی کریم ﷺکا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی وفا پر یقین و بھروسہ رکھنا ، سیدنا عثمان غنی کی جان کا بدلہ لینے کے لیے چودہ سو صحابہ کا بیعت کرنا اور اس بیعت پر ان کو رضائے خداوندی کا پروانہ حاصل ہونا یہ سب سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی فضیلت پر دلالت ہے۔
صحیح مسلم میں سیدتنا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ایک طویل روایت ہے جس کے آخر میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: میں اس شخص ( حضرت عثمان) سے کیسے حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔ (مسلم6209)
تذکرہ کیسے کرے میری زباں عثمان کا 
مدح خواں ہے خود خدائے دوجہاں عثمان کا 
آپ کی شرم وحیا کے تذکرے ہیں عرش پر 
کیوں نہ ہو تنویر گوہر مدح خواں عثمان کا
•سیدنا حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے صحیح  بخاری اور صحیح مسلم میں ایک طویل روایت ہے جس میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ان ( عثمان) کو ایک آزمائش پر جنت کی بشارت دے دو ( بخاری 3674 و مسلم6214) 
•صحیح بخاری میں سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کو ساتھ لے کر احد پہاڑ پر چڑھے تو احد کانپ اٹھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”احد! قرار پکڑ کہ تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔“ (بخاری 3675) 
•جامع الترمذی میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک جنازہ لایا گیا تاکہ آپ اس پر نماز جنازہ پڑھیں تو آپ نے اس پر نماز نہیں پڑھی، آپ سے عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! اس سے پہلے ہم نے آپ کو نہیں دیکھا کہ آپ نے کسی پر جنازہ کی نماز نہ پڑھی ہو؟ آپ نے فرمایا: ”یہ عثمان سے بغض رکھتا تھا، تو اللہ نے اسے مبغوض کر دیا“۔(ترمذی 3709) 
•سیدنا طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر نبی کا ایک رفیق ہوتا ہے، اور میرے رفیق یعنی جنت میں عثمان ہوں گے“۔ (ترمذی3698)
• نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یکے بعد دیگرے دو بیٹیوں کو سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے نکاح میں دیا اور یوں سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو نبی کریم ﷺکی دوہری دامادی کا شرف حاصل ہوا اسی وجہ سے آپ کو ذوالنورین( دو نوروں والا) کہا جاتا ہے، اور یہ ایسی فضیلت ہے جو روئے زمین پر سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے علاؤہ کسی اور کو حاصل نہیں ہوئی۔
 حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے خود بتایا کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی دوسری صاحبزادی میرے نکاح میں دی تو فرمایا کہ اگر میری دس بیٹیاں بھی ہوتیں تو میں ایک کے بعد ایک تمہارے نکاح میں دے دیتا اس لیے کہ میں تم سے راضی ہوں ۔
(المعجم الاوسط جلد نمبر 6 صفحہ 176 حدیث نمبر 6116) 
زمیں والے تو داماد نبی پر ناز کرتے ہیں
فلک والے بھی عثمان غنی پر ناز کرتے ہیں
نبی کی آئی ہیں دو بیٹیاں عثمان کے گھر میں
مرے آقا بھی اس کامل ولی پر ناز کرتے ہیں
•خلفائے راشدین میں سب سے طویل عرصہ مسند خلافت پر فائز رہنے کا شرف حاصل ہوا اور اس کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ اور تیز ترین فتوحات بھی سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہوئیں 
12 سال مسند خلافت پر فائز رہنے والے خلیفہ ثالث کے دور خلافت میں 44 لاکھ مربع میل پر اسلامی سلطنت قائم ہوئی اور جب آخری دو سال آپ رضی اللہ عنہ کے خلاف مختلف قسم کے پروپیگنڈوں کا آغاز ہوا اور آپ کو منصب خلافت سے معزول کرنے کی مہم چلی تو ایک کھلی کچہری کا انعقاد کیا اور خود پر لگنے والے تمام سوالات کا جواب دیا جس سے آپ کے چاہنے والے تو مطمئن ہو گئے لیکن آپ کے مخالفین اور شرپسند عناصر آپ کی مخالفت پر مزید کمر بستہ ہوئے اور بڑی شدت سے استعفے کا مطالبہ کرنا شروع کیا تو سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے استعفی دینے سے انکار کر دیا۔
حضرت ابو سہلہ فرماتے ہیں کہ عثمان رضی الله عنہ نے مجھ سے جس دن وہ گھر میں محصور تھے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے عہد لیا تھا اور میں اس عہد پر صابر یعنی قائم ہوں ( ترمذی 3711) 
اس عہد کی وضاحت اس حدیث مبارکہ سے ہوتی ہے -حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عثمان! شاید اللہ تمہیں کوئی کرتا (خلافت کا لباس)  پہنائے، اگر لوگ اسے اتارنا چاہیں تو تم اسے ان کے لیے نہ اتارنا“ (ترمذی3705) 
فتنوں کے اس زمانہ میں سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے حق پر ہونے کا اعلان بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زبان مبارک سے فرما چکے تھے- 
ملاحظہ ہو . حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فتنہ کا ذکر کیا تو فرمایا: ”اس فتنہ میں یہ عثمان بھی مظلوم قتل کیا جائے گا“  (ترمذی 3708)اپنے آخری ایام میں سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ایک دن اپنے مکان کے بالا خانے سے جھانکا اور باغیوں سے خطاب فرمایا امام ترمذی نے اپنی کتاب میں صحیح سند سے اس کو روایت کیا ہے- ثمامہ ابن حزن القشیری فرماتے ہیں کہ میں اس وقت گھر میں موجود تھا جب عثمان رضی الله عنہ نے کوٹھے سے جھانک کر انہیں دیکھا اور کہا تھا: تم میرے سامنے اپنے ان دونوں ساتھیوں کو لاؤ، جنہوں نے میرے خلاف تمہیں جمع کیا ہے، چنانچہ ان دونوں کو لایا گیا گویا وہ دونوں دو اونٹ تھے یا دو گدھے یعنی بڑے موٹے اور طاقتور، تو عثمان رضی الله عنہ نے انہیں جھانک کر دیکھا اور کہا: میں تم سے اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو یہاں بئررومہ کے علاوہ کوئی اور میٹھا پانی نہیں تھا جسے لوگ پیتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کون بئررومہ کو جنت میں اپنے لیے اس سے بہتر چیز کے عوض خرید کر اپنے ڈول کو دوسرے مسلمانوں کے ڈول کے برابر کر دے گا؟“، یعنی اپنے ساتھ دوسرے مسلمانوں کو بھی پینے کا برابر کا حق دے گا، تو میں نے اسے اپنے اصل مال سے خریدا اور آج تم مجھ ہی کو اس کے پینے سے روک رہے ہو، یہاں تک کہ میں سمندر کا  ( کھارا )  پانی پی رہا ہوں؟ لوگوں نے کہا: ہاں، یہی بات ہے، انہوں نے کہا: میں تم سے اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ مسجد لوگوں کے لیے تنگ ہو گئی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کون آل فلاں کی زمین کے ٹکڑے کو اپنے لیے جنت میں اس سے بہتر چیز کے عوض خرید کر اسے مسجد میں شامل کر دے گا؟“، تو میں نے اسے اپنے اصل مال سے خریدا اور آج تم مجھ ہی کو اس میں دو رکعت نماز پڑھنے نہیں دے رہے ہو، لوگوں نے کہا: ہاں، بات یہی ہے، پھر انہوں نے کہا: میں اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر تم سے پوچھتا ہوں: کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے پہاڑ ثبیر پر تھے اور آپ کے ساتھ ابوبکر، عمر رضی الله عنہما تھے اور میں تھا، تو پہاڑ لرزنے لگا، یہاں تک کہ اس کے کچھ پتھر نیچے کھائی میں گرے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے پیر سے مار کر فرمایا: ”ٹھہر اے ثبیر! تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہیدوں کے سوا کوئی اور نہیں“، لوگوں نے کہا: ہاں بات یہی ہے۔ تو انہوں نے کہا: اللہ اکبر! قسم ہے رب کعبہ کی! ان لوگوں نے میرے شہید ہونے کی گواہی دے دی، یہ جملہ انہوں نے تین بار کہا۔ ( ترمذی 3702) 
18 ذوالحجہ 35 ہجری سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ روزہ سے تھے ، بیس غلام آزاد کیے ، تہ بند کی بجائے پاجامہ زیب تن فرمایا کہ کہیں حملے کا شکار ہوتے وقت ستر نہ کھل جائے اور قرآن کریم کی تلاوت میں مشغول ہو گئے- شب گزشتہ حضور سرورِ دوعالم ﷺ کی خواب میں زیارت ہو چکی تھی جس میں آپ ﷺ نے شہادت کی بشارت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا کہ عثمان آج روزہ ہمارے ساتھ افطار کرنا ۔
مکان کے دروازے پر صحابہ و تابعین کا ایک سر بکف مجمع حفاظت کے لیے موجود تھا جن میں حضرت ابو ہریرہ ، حضرت حسن بن علی ، حضرت حسین بن علی ، حضرت عبداللہ بن زبیر ، حضرت سعید بن العاص، حضرت محمد بن طلحہ اور مروان بن حکم جیسے جری افراد شامل تھے حضرت عبداللہ بن عمر دہری زرہ پہنے ہوئے موجود تھے-باغیوں نے حملہ کیا تو ان حضرات نے بھرپور دفاع کیا اور دست بدست لڑائی شروع ہو گئی ، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ بھی زرہ پہنے کر آ گئے اور تیر چلانے لگے ، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو جب پتہ چلا تو اپنے حامیوں کو قسم دے کر روک دیا اور محافظوں سے بھی فرمایا کہ پہرہ ختم کر کے اپنے اپنے گھروں کو چلے جائیں 
دراصل یہ اس عملاً اس بات کا اظہار تھا کہ خلافت کو آپ نے اللہ اور رسول کی امانت کے طور پر سنبھالا ہوا ہے یہ کوئی بادشاہت نہیں ہے کہ اپنے عیش و آرام کی خاطر لوگوں کا خون بہایا جائے -
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اس وقت موجود جمعیت قطعاً سیدنا عثمان غنی کو تنہا چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھے لیکن امیر المؤمنین کی اطاعت اور فرمانبرداری کی وجہ سے تعمیل حکم میں پہرہ چھوڑا اور حفاظت کا عمل ترک کیا سب سے آخر میں سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہما حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے مکان سے نکلے اور یوں باغیوں کو اپنے مذموم عزائم پورے کرنے کا موقع ملا مکان کی دیوار سے اندر داخل ہوئے تلاوت میں مشغول 82 سال کے بوڑھے کو انتہائی ظالمانہ انداز میں شہید کیا ، ان کو بچانے کی خاطر آنے والی ان کی اہلیہ نائلہ کی انگلیاں کٹیں خون کے قطرے مصحف پر اس مقام پر گرے جہاں یہ آیت رقم تھی " فَسَیَکْفِیْکَہُمُ اللہُ " (عنقریب آپ کو ان لوگوں سے اللہ ہی کافی ہو جائے گا )اور یوں سیدنا عثمان کی شہادت پر قرآن کریم کی گواہی ثبت ہوئی روز قیامت رب کا قرآن بھی سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی مظلومیت و شہادت کی گواہی دے گا۔
بیر روما سے عیاں دریا دلی عثمان کی
حوض کوثر پر بجھے گی تشنگی عثمان کی
خود ہے قرآن مبیں ان کی شہادت کا گواہ
ہے فضیلت دیکھیے کتنی بڑی عثمان کی