سوشل میڈیا ‘ دل فریب تماشا

مصنف : سید مہدی بخاری

سلسلہ : سماجیات

شمارہ : جولائی 2022

بات یہ ہے کہ یہ سب سوشل میڈیائی فین فالونگ، یہ سب آن لائن محبتیں و دم بھرنے کے دعوے۔ یہ سب کچھ ہوا میں ہے۔ حقیقی زندگی کا ساتھی کوئی کوئی ہوتا ہے۔ کاندھا دینے کو چار لوگ چاہیئے ، وہی چار لوگ انسان پوری زندگی لگا کر کماتا ہے۔ باقی کوئی نہیں آیا کرتا۔ کوئی نہیں پوچھا کرتا۔ 
لوگ صرف انٹرٹینمنٹ مانگتے ہیں۔ ان کا آپ سے تعلق محض کانٹینٹ تک کا تعلق ہے۔لوگ آپ کے نظریئے یا سوچ سے میل رکھتے ہیں۔ یا ان کو فن و آرٹ و انٹرٹینمنٹ سے واسطہ ہے جو آپ ان کو دے رہے ہوتے ہیں۔ لوگوں کو مفت کی تفریح، مفت کا کتھارسس، مفت کے قیمتی مشورے چاہیئے ہوتے ہیں اور بس۔ 
یہ تلخ حقیقت ہے اور یہی موجودہ دور کا حرفِ آخر ہے۔ توقعات پالنا یا فین فالونگ کے نشے میں دھت ہو کر ڈولتے پھرنا، خود کو بے بدل و لازوال و بے مثال سمجھ لینا، چند تالیوں کی گونج میں اپنا وجود نائب خدا لگنا، یہ سب سراب ہے۔ انا و غرور میں جب انسان بہتا ہے تو اک دن اس پر آشکار ہوتا ہے کہ حال پوچھنے کو بھی کوئی نہیں آیا کرتا۔ یہ سب سوشل میڈیا تو اک دلفریب سا تماشہ ہے جو روز لگا کرتا ہے۔آج آپ ہیں اور آپ کا فن ہے تو سب موجود ہیں۔ آپ اوجھل ہو جائیں تو کوئی پوچھے گا بھی نہیں۔ آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل۔
نیا دن ،نیا فنکار ، نیا تماشہ۔ اس سمندر میں کوئی کمی ہے کسی کی ؟ آپ نہیں نہ سہی، اور بہتیرے۔لوگوں کو بس انٹرٹینمنٹ چاہیئے سالی آدھی زندگی چکی کی مشقت کی نذر ہو گئی اب جب وقت کے ساتھ بہت کچھ قربان کرتے، اپنی خوشیوں و سہولتوں کی قربانی دیتے، انسان کی گاڑی پٹری پر آ جاتی ہے تو لایعنی ٹینشنز نہیں پالی جاتیں، فضول کے بوجھ نہیں ڈھوئے جا سکتے۔ بلآخر انسان کو کاندھے کے واسطے چار بندے ہی چاہیئے ہوتے ہیں ، لاکھوں کی فالونگ نہیں۔ یہی دنیا کی اصل حقیقت ہے۔ 
فالونگ کے زیر اثر ایک دوسرے سے رنجش پال لینا، واہ واہ سمیٹنے کو دوسرے کی دکھتی رگ پر انگلی رکھ دینا۔ یہ سب مسلسل کار زیاں ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ میرے دوست اس کار زیاں میں روز بروز ترقی کرتے جا رہے ہیں۔ دنیا کے سٹیج پر اپنے رنگین پنکھ دکھلاؤ، اپنا ہنر پیش کرو اور بس اپنے حال میں مست رہو یہ ساری فالونگ ، فینز یہ سب دھندے، سب لکھا پڑھا، سب دیکھا بھالا یہیں رہ جاتا ہے۔ کوئی آپ کی مصیبت میں دو حرف تسلی نہیں دینے آتا اور کوئی آپ کی کامیابی و ترقی پر دل سے خوش نہیں ہوتا معدودے ان چند کے جن کے ساتھ آپ کا ذاتی و دیرینہ تعلق رہا ہے۔ آن لائن افسوس و واٹس ایپ مبارکوں کے اس دور میں اس زعم میں جیتے جانا کہ آپ کوئی توپ شے ہیں، یہ محض خام خیالی ہے۔ 
تم کونسے پیغمبر ہو کہ دنیا تمہارا کلمہ پڑھے گی اور بالفرض ہوتے بھی تو انسانوں نے پیغمبروں کو بھی نہیں بخشا۔ یہاں کونسے پھپھو یا ماموں کے بچے ہیں یا فرسٹ کزنز ہیں جن کو برداشت کرنا مجبوری ہو ؟ ۔۔ ایک ہی رشتہ ہے اور وہ ہے باہمی دلچسپی و عزت کا رشتہ۔ اس دائرے کے اندر ہی تعلقات ہیں۔ اس کے باہر کچھ نہیں۔ کسی کو اتنی ہی سپیس دیں جتنا اگلا حقدار ہو۔ اور کسی کی سپیس پر قبضہ نہ جمانا چاہیں۔ آپ کسی سے متاثر ہوتے ہیں تو اس کی قدر کیجئیے مگر اس کی زندگی میں گھسنے کی راہ نکالنے کی کوشش تو نہ کیجئیے۔
عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے
اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے