الٹا چاند

مصنف : ابو یحییٰ

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : جولائی 2022

یہ ایک تجربہ ہے جو قمری مہینے کے بیشتر ایام میں کیا جاسکتا ہے لیکن مہینے کی سات اور اکیس تاریخ اس تجربے کے لیے بہترین ہیں۔ ان دو تاریخوں میں چاند بالکل آدھا نظر آرہا ہوتا ہے۔ سات تاریخ کو آپ آسمان پر نظر ڈالیں اور چاند کو غور سے دیکھیں۔ چاند انگریزی زبان کے حرف D کی مانند نظر آئے گا۔ یعنی اس آدھے چاند کاروشن حصہ دائیں طرف ہوگا۔ یہی تجربہ قمری مہینے کی اکیس تاریخ کو دہرائیں تو اب آپ کو چاند انگریزی حروف تہجی کے C کی مانند نظر آئے گا۔ یعنی اس کا روشن حصہ بائیں آچکا ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مہینے کے نئے چاند یا ہلال کے ساتھ جب چاند کا دائرہ بڑھنے لگتا ہے تو اردو کے حرف د سے اپنا سفر شروع کرتا ہے۔ پھر بتدریج روشن چاند کا دائرہ داہنی سمت سے بھرتا ہے اور سات تاریخ کو انگریزی کے حرف D کی طرح نصف روشن ہوجاتا ہے۔ چودھویں کو چاند مکمل دائرے کی شکل میں بھر جاتا ہے اور اس کے بعد داہنی سمت ہی سے چاند کا روشن حصہ کم ہونے لگتا ہے۔ اکیس تاریخ کو یہ حرف C کی طرح آدھا رہ جاتا ہے۔ مگر سات تاریخ کے چاند کے برعکس اس آدھے چاند کا پیٹ دائیں کے بجائے بائیں طرف ہوتا ہے۔ اور پھر اسی سمت میں یہ کم ہوتا ہوا غائب ہوجاتا ہے۔
اگر آپ زمین کے نصف جنوبی کرے (Southern Hemisfhere) کے کسی ملک جیسے آسٹریلیا یا نیوزی لینڈ میں موجود ہیں تو یہ تحریر پڑھتے ہوئے آپ میرے مشاہدے کو بالکل غلط قرار دیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ مجھے جھوٹی معلومات فراہم کرنے والا ایک دھوکے باز شخص سمجھیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ آپ میرے بیان کردہ طریقے کے مطابق چاند کو ساتویں اور اکیسویں شب کو دیکھیں گے تو چاند بالکل برعکس جگہ پر ہوگا۔ یعنی ساتویں کو وہ C اور اکیسویں کو D کی مانند ہوگا۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ آپ بھی ٹھیک ہیں اور میں بھی غلط نہیں۔ میرے جیسے وہ تمام لوگ جو زمین کے شمالی نصف کرے (Northern Hemisphere) پربستے ہیں، وہ چاند کو ایسا ہی دیکھتے ہیں جیسا میں نے بیان کیا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ چاند زمین کے مرکز یا خط استوا کے گرد گردش کرتا ہے۔ خط استوا (equator) کے شمال میں واقع لوگوں کو وہ اس کے بالکل برعکس نظر آتا ہے جیسا کہ وہ خط استوا کے جنوب میں واقع لوگوں کو نظر آتا ہے۔ یوں دونوں خطوں کے لوگ ایک ہی حقیقت کو مختلف انداز میں دیکھتے ہیں۔
انسانی زندگی میں جو اختلافات پیش آتے ہیں، ان میں سے کچھ ایسے ہوتے ہیں جہاں فرق صحیح اور غلط اور حق و باطل کا ہوتا ہے۔ تاہم اکثر اوقات دونوں فریق اپنی اپنی جگہ ٹھیک ہوتے ہیں۔ لیکن وہ معاملے کو اپنے اپنے زاویے اور اپنے اپنے مقام سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے بعض اوقات ایک ہی حقیقت بالکل مختلف بلکہ متضاد نظر آتی ہے۔ یوں اختلاف رائے بلکہ بارہا فساد ، لڑائی جھگڑے اور تعلقات کی خرابی کی نوبت آجاتی ہے۔
اس اختلاف کی ایک مثال مسلمان فقہا کے مابین ہونے والا اختلاف رائے ہے۔ یہی معاملہ ساس بہو کے جھگڑے کا ہے۔ اس میں بھی دونوں فریق اکثر اپنی اپنی جگہ کھڑے ہوکر معاملات کو دیکھتے ہیں اور نتیجے کے طور پر اختلاف ہوجاتا ہے۔ اس طرح کے اختلافات کو رفع کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ دوسرے شخص کا زاویہ نظر سمجھا جائے۔ اگر معاملہ حق و باطل کے بجائے زاویہ نظر کا ہے تو یہ مان لیا جائے کہ اس معاملے میں ایک سے زیادہ رائے قائم کرنا ممکن ہے۔ اگر معاملہ ساس بہو کی طرح عملی نوعیت کا ہے تو پھر زاویہ نظر کے اختلاف کو حل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہر فریق دوسرے کی رعایت کرے۔ اس سے درگزر کرے۔ یہ نہ ہوسکے تو کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر ایسے مسائل حل کیے جاتے ہیں جس میں ہرفریق کچھ نہ کچھ پیچھے ہٹتا ہے۔ اس کے سوا ہر دوسرا راستہ اختلاف کو فساد میں بدل دیتا ہے۔
اڑنے والا گھوڑا ۔ ابویحییٰ
 پچھلے دنوں انٹرنیٹ پر ایک وڈیو دیکھی۔ یہ ایک طوفانی رات کی وڈیو تھی جس میں مکہ کی فضاؤں میں ایک اڑتے ہوئے گھوڑے کے منظر کو ریکارڈ کرلیا گیا تھا۔ بجلی کی چمک اور کڑک میں گھوڑا اڑ رہا ہے اور ساتھ میں لوگ سبحان اللہ، لا الہ الا اللہ اور اللہ کبر کہہ رہے ہیں۔یہ وڈیو جنگل کی آگ کی طرح مشہور ہوگئی اور ہر طرف لوگ اسے اسلام کی سچائی کا ثبوت قرار دینے لگے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ جدہ میں کھلونوں کی دکان پر رکھا ایک گھوڑا تھا۔ اس میں گیس بھری تھی اور ایک ڈور کی مدد سے اسے ہوا میں اڑایا جاتا تھا۔ طوفانی ہوا میں ڈور ٹوٹ گئی اور یوں گھوڑا واقعی اڑنے لگا۔ لوگوں نے یہ منظر اور اس کی وڈیو بنا کر نیٹ پر ڈال دی۔ پھر جدہ مکہ بن گیا اور اسلام کی حقانیت ایک نئے پہلو سے ثابت کر دی گئی۔
اس طرح کے واقعات نہ صرف یہ بتاتے ہیں کہ مسلمانوں میں ہر سنی سنائی بات بلاتصدیق آگے بڑھانے کا کتنا ’’ذوق‘‘ ہے بلکہ یہ بھی بتاتے ہیں مسلمان اپنی کتاب قرآن مجید سے کس درجہ میں ناواقف ہیں جو ہوا میں اڑتے ہوئے گھوڑوں کے بجائے زمین پر چلنے والے گھوڑوں اور ہوا میں اڑتے پرندوں کو اپنی حقانیت کا ثبوت بنا کر پیش کرتا ہے۔ بلاشبہ زمین پر چلنے والے گھوڑے اور ہوا میں اڑتے پرندے ایک عظیم معجزہ ہیں، مگر چونکہ یہ معمول کے واقعات ہیں اس لیے کوئی نہیں جو ان کو دیکھ کر سبحان اللہ، لا الہ الا اللہ اور اللہ کبر کہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی خدا کی کتاب قرآن مجید توہمات کی نہیں علم کی کتاب ہے۔ اس میں گھوڑوں اور پرندوں پر ہی نہیں بلکہ شہد کی مکھی اور صحرا کے اونٹ سے لے کر زمین و آسمان کی ہر نشانی پر تفکر کی دعوت دی گئی۔ یہ بتایا گیا ہے کہ ان چیزوں کا ہونا خدا کے ہونے اور تنہا رب ہونے کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں چلنے والے گھوڑوں، اڑنے والے پرندوں اور زندگی کی ہر قسم کا ہونا ایک معجزہ ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہم جن چلنے والے گھوڑوں اور اڑنے والے پرندوں کو دیکھتے ہیں، وہ ایک ایسی کائنات کے باسی ہیں جو ہر اعتبار سے زندگی کی ہر قسم کے لیے ایک قاتل کائنات ہے۔ آج کا انسان یہ بات سب سے بڑھ کر جانتا ہے کہ اس کائنات میں زیادہ تر وہ مہیب خلا ہے جہاں نہ سانس لینے کو آکسیجن ہے، نہ پینے کو پانی ہے، نہ کھانے کو غذا ہے۔ اس خلا میں اگر سیارے ہیں تو ان کا درجہ حرارت اتنا کم ہے کہ زندگی کی ہر قسم کو وہ فوراً ختم کر دے گا۔ اگر چٹانیں ہیں تو زندگی کی ہر قسم کے لیے موت کا پیغام ہیں۔
باقی کائنات ستاروں یا بلیک ہول پر مشتمل ہے۔ ستارے اتنی گرم اور ایسی خوفناک آگ اگل رہے ہیں کہ ان سے لاکھوں میل کے فاصلے پر موجود ہر گھوڑے، انسان اور پرندے کی ہڈیاں بھی پگھل جائیں گی۔ جبکہ بلیک ہولز مادہ کی ہر شکل ہی کو نہیں روشنی اور توانائی کو بھی اپنے اندر نگل کر موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ یہاں زندگی کا کیا سوال۔ اس کے علاوہ بھی کائنات میں اگر کچھ ہے تو زندگی کی ہر قسم کے لیے اس کا مطلب موت کے سوا کچھ اور نہیں۔
یہ ہے وہ کائنات جس میں استثنائی طور پر کرہ زمین پایا جاتا ہے۔ کائنات کے اس قبرستان میں زندگی کا یہ گہوارا تن تنہا کھڑا اپنے خالق و مالک، اپنے حاکم و ناظم اور رب مہربان کا زندہ تعارف بن کر کھڑا ہے۔ اس کرہ ارض پر پانی ہے۔ یہاں ہریالی ہے۔ کھلی فضا ہے۔ سمندر اور دریا ہیں۔ زرخیر مٹی اور برف سے لدے پہاڑ ہیں۔ حیات کی باقی اقسام کو چھوڑیئے یہاں زمین پر چلنے والے گھوڑے ہیں اور آسمان پر اڑنے والے پرندے ہیں۔ پھر یہاں قرآن مجید ہے جو لوگوں کے سامنے ان چلنے والے گھوڑوں اور اڑنے والے پرندوں کو بطور نشانی پیش کرتا ہے۔
آہ! مگر یہ بدنصیب حاملین قرآن اڑنے والے پرندوں اور زمین پر چلنے والے گھوڑوں کو دیکھتے ہیں اور چیخیں مار کر نہیں روتے۔ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری نہیں ہوتے۔ ان کی زبان سے سبحان اللہ، لا الہ الا اللہ اور اللہ کبر کے الفاظ نہیں نکلتے۔ وہ اڑتے ہوئے گھوڑے تلاش کرتے اور ان کو اسلام کی سچائی کا ثبوت بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔کوئی ان عقلمندوں سے پوچھے کہ کسی روز ایسا کوئی گھوڑا اگر واقعی نظر آگیا اور ویٹیکن میں نظر آگیا تو کیا مسیحیت سچا مذہب بن جائے گی؟ ہمیں جان لینا چاہیے کہ اسلام توہمات کی نہیں، علم کی بنیاد پر کھڑا ہے۔ اس کی دعوت ایک ایسے دور کے لیے ہے جب علم سچائی کی بنیاد بن چکا ہے۔ جدید انسان اب توہمات کی نہیں علم کی بنیاد پر جیتا ہے۔ اور قرآن مجید اس کی طلب کا بہترین جواب ہے۔
مگر بدقسمتی سے سر دست یہ قرآن مجید بغیر سمجھے پڑھنے کے کام آتا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ اب مسلمان قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنا شروع کر دیں۔ جس کے بعد وہ اڑنے والے گھوڑوں کے بجائے چلنے والے گھوڑوں میں خدا کی عظمت کو تلاش کریں گے اور اسے دنیا کے سامنے بیان کریں گے۔ مسلمانوں کو یہ کرنا ہوگا۔ یہ ان کی ذمہ داری ہے۔ وہ یہ نہیں کریں گے تو غیرمسلم خدا کا انکار کر کے مسلمانوں کی دنیا اور اپنی آخرت دونوں خراب کرتے رہیں گے۔
انسان اور جانور کا فرق ۔ ابویحییٰ
میرے ایک قریبی دوست ہیں۔ ان کے سامنے اگر کوئی یہ کہہ بیٹھے کہ اسے مطالعے کی عادت نہیں یا مطالعے کے لیے وقت نہیں ملتا تو وہ پلٹ کر جواب دیتے ہیں، اطمینان رکھیے! آپ اس معاملے میں تنہا نہیں ہیں۔ دیگر جانور بھی کتابیں نہیں پڑھتے۔
حقیقت یہ ہے کہ جانور اور انسان دونوں کو بہت سے کام جبلت سکھاتی ہے۔ بہت سے افعال ایسے ہیں جو حواس سے حاصل شدہ علم کی بنا پر ہوتے ہیں۔ بہت سی چیزیں دونوں ماحول سے اخذ کرتے ہیں۔ لیکن یہ صرف انسان کا خاصہ ہے کہ وہ اپنے علم کے خزانے کو الفاظ کی صورت دیتا اور اسے کتاب کی تجوری میں محفوظ کر دیتا ہے تاکہ دوسرے لوگ علم کے اس خزانے سے استفادہ کرسکیں۔ قلم و کتاب کی یہی وہ سلطنت ہے جس کی تسخیر، انسانوں پر، تسخیرِ کائنات کے تمام دروازے کھول دیتی ہے۔کتاب پڑھنا صرف انسان اور جانور ہی کا فرق نہیں بلکہ ایک قوم اور دوسری قوم کا بھی فرق بن جاتا ہے۔ جس قوم میں قلم و کتاب کی حکومت ہو وہ قوم دوسری اقوام پر اسی طرح حکومت کرتی ہے جس طرح انسان جانوروں پر حکومت کرتے ہیں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ قرآن کریم نے مسلمانوں میں لکھنے پڑھنے کا ایک غیرمعمولی ذوق پیدا کر دیا تھا۔ یہ ذوق مذہب کے پس منظر میں پیدا ہوا تھا۔ مگر ایک دفعہ پیدا ہوگیا تو صرف مذہب تک محدود نہیں رہا، بلکہ علم کی تمام شاخوں تک پھیل گیا۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہزار برس تک مسلمان دنیا پر حکومت کرتے رہے۔ مسلمانوں کا زوال بھی جس واقعہ سے شروع ہوا وہ یہی تھا کہ بغداد اور اسپین میں مسلمانوں کی کتابوں کے ذخیرے یا تو جلا
 دیے گئے یا پھر مسلمانوں کی شکست کے بعد عیسائیوں کے ہاتھ لگ گئے۔ یہی کتابیں یورپ پہنچیں تو وہ آنے والے دنوں میں دنیا کی حکمران بن گئے۔
آج بھی اگر ہم ترقی کی شاہراہ پر قدم رکھنا چاہتے ہیں تو اس کا ذریعہ صرف یہ ہے کہ لوگوں میں پڑھنے کی عادت پیدا کریں۔ کیونکہ علم کی فصل قلم و کتاب کی جس زمین پر اگتی ہے اسے پڑھنے کا شوق رکھنے والے لوگ سیراب کرتے ہیں۔اور جس معاشرے سے مطالعے کا ذوق اور عادت ختم ہوجائے وہاں علم کی پیداوار بھی ختم ہوجاتی ہے۔ جس قوم میں علم نہ ہو اس کا انجام سوائے مغلوبیت کے کچھ اور نہیں ہوسکتا۔