طارق جمیل اور خلفائے بنو امیہ

مصنف : محمد فہد حارث

سلسلہ : تاریخ

شمارہ : مئی 2022

طارق جمیل صاحب نے ستائیسویں شب میں ایک بیان دیا اور دعا کروائی جس میں پی ٹی آئی کے تمام اراکین بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ طارق جمیل صاحب کی سیاسی نسبت سے ہمیں کچھ لینا دینا نہیں لیکن محض موجودہ اپوزیشن یعنی سابق حکومت کے عمائدین کو خوش کرنے واسطے انہوں نے ظالم حکمرانوں پر بات کرتے ہوئے اپنی پرانی تشیع پسندی کے زیرِ اثر خلفائے بنو امیہ پر جو غیر ثابتہ طعن دھرا اور ان کی جناب میں جو کچھ ہفوات بیان کیں انہوں نے ہمیں مجبور کیا کہ ہم ان سطور کے ذریعے قسط وار موصوف کا علمی تعاقب کریں۔
طارق جمیل صاحب نے اموی خلیفہ عمر بن عبدالعزیز ؒکے ذکر میں عبدالملک بن مروانؒ، ولید بن عبدالملک اور سلیمان بن عبدالملک سے متعلق یہ ہرزہ گوئی کی کہ  مذکورہ تینوں خلفاء کے اپنی بدسیرتی اور ظلم و جور کے سبب مرنے کے بعد چہرے سیاہ پڑگئے تھے اور قبور میں ان کے رخ کعبہ سے پھِر گئے تھے۔ یہاں تک کہ سلیمان بن عبدالملک کو تو قبرمیں دفنانے سے قبل ہی  عذاب ِ قبر جاری ہونے کی خبر عمر بن عبدالعزیز نے دیدی تھی۔ معذرت کے ساتھ لیکن طارق جمیل صاحب کی مثال اس مکھی کی مانند ہے جو وسیع و عریض صاف میدان چھوڑ کر اکا دکا پڑے گند او ر گوبر کے ڈھیر پر بیٹھتی ہے۔ معلوم نہیں خلفائے بنو امیہ کے چہرے سیاہ ہونے والی یہ غیر ثابتہ روایات طارق جمیل صاحب نے کہاں سے اخذ کیں تاہم ہم ان کو بتانا چاہتے ہیں کہ حدیث و تاریخ کی امہات الکتب ان خلفاء کی نیک سیرتی اور عوام کے لیے ان کے فلاح و بہبود کے کارناموں سے بھری پڑی ہیں۔ صحیح البخاری کتاب الاحکام اور صحیح المسلم کتاب الامارۃ کی روایت میں  قریش میں سے جن بارہ خلفاء کے زمانے میں نبیﷺ نے اسلام کے مامون اور غالب ہونے کی بات کی ہے عبدالملک بن مروان، ولید بن عبدالملک اور سلیمان بن عبدالملک رحمہم اللہ ان خلفاء میں بعض شارحینِ حدیث کے تحت بالترتیب ساتویں، آٹھویں اور نویں نمبر پر آتے ہیں جبکہ بعض شارحین کے نزدیک نویں، دسویں اور گیارہویں نمبر پر آتے ہیں۔ نبی ﷺ تو ان خلفاءکے دور میں اسلام کو مامون، غالب اور ترقی کرنے والا بتائیں اور ہمارے طارق جمیل صاحب اپنے پسندیدہ سیاستدانوں کے سامنے بیان بازی کرنے  کے واسطے ان خلفاء پر تبرّے پڑھیں۔  استغفرللہ من ہفوات ذلک۔ ان خلفاء میں  جن پہلے صاحب پر طارق جمیل برسے ہیں وہ امیر المومنین عبدالملک ؒ بن مروانؓ ہیں جن کے بارے میں ڈاکٹر حمید اللہ اور ڈاکٹر محمود احمد غازی دونوں تصریح کرتے ہیں کہ بڑے  پائے کے  صاحب علم انسان اور سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کے شاگرد تھے۔ جب سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کے انتقال کے وقت ان سے پوچھا گیا کہ آپ ؓ کے بعد فتاویٰ کے لئے کس سے رجوع کیا جائے تو انہوں نے عبدالملک بن مروانؒ کا نام لیا۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی ان عبدالملک بن مروان کی  بابت اپنے محاضرات سیرت کے تیسرے لیکچر میں بتاتے ہیں کہ عبدالملک بن مروان علمی اور دینی اعتبار سے اس درجہ اور مقام و مرتبہ کے انسان تھے کہ امام مالک نے موطا میں کئی جگہ کسی چیز کا سنت ہونا عبدالملک کے طرز عمل کے حوالہ سے بیان کیا ہے۔ مثلاٰ کہا ہے کہ فلاں چیز سنت ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اہل علم نے عبدالملک بن مروانؒ کواس طرح کرتےدیکھا ہے۔ علامہ ابن سعد نے طبقات کے حصہ پنجم میں تابعین  کے ذیل میں آپ کا ذکر کیا ہے اور آپ سے متعلق روایت نقل کی ہے کہ  ایک دفعہ سیدنا معاویہؓ اور سیدنا عمرو بن العاصؓ ساتھ تھے کہ عبدالملک بن مروان ؒ ان دونوں کے پاس سے گزرے ۔ سیدنا معاویہؓ نےعبدالملک کو دیکھ کر کہا کہ یہ نوجوان کس قدر با ادب اور مروت والا ہے۔ سیدنا عمرو بن العاصؓ اس پر سیدنا معاویہؓ سے عرضداشت ہوئے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نوجوان نے چار اچھی عادتیں اختیار کرلیں اور تین بُری خصلتیں ترک کردیں۔ یہ جب بات کرتا ہے تو خوش گفتاری سے کرتا ہے اور جب اس سے بات کی جاتی ہے تو ہمہ تن سماعت بن جاتا ہے۔ جب ملاقات کرتا ہے تو خندہ پیشانی سے کرتا ہے اور اس کی مخالفت کی جاتی ہے تو بردباری کا مظاہرہ کرتا ہے۔ جو گفتگو قابلِ عذر ہوتی ہے اسے ترک کردیتا ہے۔ کمینہ صفت لوگوں کی صحبت سے احتراز کرتا ہے اور ایسے شخص سے مزاح کو ترک کردیتا ہے جس کی عقل و مروت پر بھروسہ نہ کیا جاسکتا ہو۔ اسی طرح ابن سعد آگے جاکر ان کے حالات میں لکھتے ہیں کہ عبدالرحمٰن بن ابی الزناد نے اپنے والد سے روایت کیا ہے کہ امیر عبدالملک بن مروانؒ وہ پہلے مسلمان خلیفہ تھےجنہوں نے مملکتِ اسلامیہ میں اسلامی کرنسی رائج کی اور ۷۵ ہجری میں درہم و دینار ڈھلوائے۔ ابن سعد نے طبقات میں آپ کے عمل کو بطور سنت پیش کرتے ہوئے نقل کیا ہے کہ ابن جریج سے مروی ہے کہ میں نے سونے کے دانت لگانے کے بارے میں ابن شہاب زہری سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی حرج نہیں، عبدالملک بن مروانؒ نے سونے کے دانت لگوائے تھے۔
حافظ ابن کثیر اپنی تاریخ البدایہ و النہایہ  جلد ۹  صفحہ ۷۷ سے ۸۲ تک میں امیر عبدالملک بن مروان ؒ کا شجرہ لکھنے کے بعد بیان کرتے ہیں کہ ان کا سیدنا عثمانؓ بن عفان سے سماع ثابت ہے اور یہ وہ پہلے شخص ہیں جو لوگوں کو اپنے ساتھ لیکر ۴۲ھ میں روم کے علاقوں میں چل پھر کر آئے تھے۔ سولہ سال کی عمر میں سیدنا معاویہؓ نے انکو امیر مدینہ مقرر کیا۔ ان کا اٹھنا بیٹھنا فقہاء، علماء اور عابد و زاہد لوگوں میں ہوتا تھا۔ اپنے والد سیدنا مروانؓ کے علاوہ انہوں نے سیدنا جابرؓ، ابو سعید الخدریؓ، ابو ہریرہؓ، عبداللہ بن عمرؓ، معاویہ بن ابو سفیانؓ، سیدہ ام سلمہؓ اور بریرہؓ سے حدیث کی سماعت  اور روایت کی۔ جبکہ خود ان سے ایک عظیم جماعت نے روایت حدیث کی جن میں خالد بن معدان، عروہ بن زبیر، امام زہری، عمرو بن الحارث، رجاء بن حیوۃ اور جریر بن عثمان شامل ہیں۔
عبدالملک بن مروانؒ کی ولادت ۲۶ ھ میں ہوئی۔ خلیفہ بننے سے قبل ان کا شمار عباد اور زہاد میں ہوتا تھا اور یہ ان فقہاء میں شمار ہوتے تھے جو ہر وقت مسجد میں قائم اور تلاوت قرآن پاک میں مشغول رہتے تھے   امام نافعؒ  مولیٰ عبداللہ بن عمرؓ کا کہنا ہے کہ میں نے مدینہ میں عبدالملک بن مروان سے زیادہ چاق و چوبند سیرو سیاحت کرنے والا اور کتاب اللہ کا قاری کسی کو نہیں دیکھا۔ امام اعمشؓ ابو الزناد سے روایت کرتے ہیں کہ مدینہ کے فقہاء چار اشخاص تھے، ایک سعید بن المسیبؒ، دوسرے عروہؓ، تیسرے قبیصہ بن زویبؒ اور چوتھے عبدالملک بن مروانؒ۔ دور خلافت میں  یہ قبیصہ بن زویب عبدالملک بن مروان کے وزیر تھے۔ 
امیر عبدالملک بن مروانؒ اس پائے کے انسان تھے کہ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ جیسے زاہد و عابد صحابی نے ان کے متعلق فرمایا کہ لوگوں نے بیٹے جنے ہیں جبکہ مروانؓ نے باپ جنا ہے یعنی عبدالملک۔ یہی وجہ تھی کہ ایک دن جب سیدنا عبداللہ بن عمرؓنے لوگوں کا عبدالملک کی امارت میں اختلاف دیکھا تو کہا کہ کاش! اس لڑکے کی امارت پر سب کا اتفاق ہوتا۔ ابن سعد طبقات الجز السابع میں لکھتے ہیں کہ سیدنا ابن زبیرؓ کی شہادت کے بعد فلما اجتمع الناس علی عبدالملک و بایع ابن عمر قال ابن عمر لابن الحنفیہ ما بقی شی فبائع۔ فکتب ابن الحنفیہ الی عبدالملک : بسم اللہ الرحمن الرحیم لعبد اللہ عبدالملک امیر المومنین من محمد بن علی ۔۔۔الخ یعنی  جب سب لوگ بشمول سیدنا عبداللہ بن عمرؓ امیر عبدالملک بن مروانؒ کی بیعت پر مجتمع ہوگئے تو ابن عمرؓ نے محمد بن علیؒ سے کہا کہ اب بیعت کرنے میں کوئی عذر باقی نہیں رہا جس پر جناب محمد بن علیؒ نے عبدالملک بن مروانؒ کی طرف خط لکھ کر بیعت کرلی۔ بعینہ یہی بات علامہ ابن کثیر نے بھی "البدایہ و النہایہ" میں سن ۸۱ ہجری کی وفیات کے ذیل میں جناب محمد بن علی کی  عبدالملک بن مروان کی بیعت کرنے کے حوالے سے لکھی ہے۔ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ خلیفہ عبدالملک بن مروانؒ سیدنا علیؓ کے داماد تھے کہ ان کو سیدنا علیؓ کی صاحبزادی بیاہی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ابن سعد لکھتے ہیں کہ ۷۸ ہجری میں سیدنا علیؓ کے غیر فاطمی بیٹے جناب محمد بن علیؒ الحنفیہ نے مدینہ سے دمشق کا سفر اپنے بہنوئی اور خلیفہ عبدالملک بن مروانؒ سے ملاقات کرنے کی غرض سے کیا۔ اس ملاقات میں امیر عبدالملک بن مروانؒ نے جناب محمد بن علیؒ کا نہایت اعزاز و اکرام کیا اور ابن الحنفیہؒ جتنے دن دمشق ٹھہرے رہے خلیفہ کے خصوصی مہمان کے طور پر رہے۔ ایک دن موقع تنہائی پاکر جناب محمد بن علیؒ نے اپنے دمشق آنے کی وجوہات ذکر کیں جن میں کچھ قرض کی ادائیگی ، اپنی بعض ضروریات، اپنی اولاد اور اپنے موالی کے لیے وظائف کی درخواست تھی۔ عبدالملک نے ان کی تمام باتوں کو منظور کیا۔ ابن سعد لکھتے ہیں کہ فلم یبق لہ حاجۃ الا قضاھا یعنی ان کی کوئی حاجت ایسی نہ رہی جس کو عبدالملک بن مروانؒ نے پورا نہ کردیا ہو۔ زید بن عبدالرحمٰن بن زید بن خطاب کہتے ہیں کہ محمد بن علیؒ کے پاس نبیﷺ کی ایک تلوار تھی جو امیر عبدالملک بن مروانؒ کی درخواست پر جناب محمد بن علیؒ نے ان کو ہدیہ کردی تھی: قال عبدالملک یا محمد ھب لی ھذا السیف۔ فاعطاہ۔
امام شعبی ؒ نے عبدالملک کی بابت فرمایا کہ میں نے کسی مجلس میں اپنے سے زیادہ فضیلت والا کسی کو نہیں پایا سوائے عبدالملک بن مروان کے، اس لئے کہ جب بھی میں کوئی بات کرتا تو وہ اس میں اضافہ کرتے اور جب بھی کوئی شعر کہتا تو وہ اس میں اضافہ کرتے۔ سیدنا معاویہؓ نے ۵۰ھ میں امیر مدینہ سیدنا مروانؓ کو خط لکھا کہ معاویہ بن خدیجؓ کی معیت میں جو وفد مغرب کے شہروں کی طرف جارہا ہے اس میں اپنے بیٹے عبدالملک بن مروانؒ کو بھی شامل کردو، نیز اس خط میں سیدنا معاویہؓ نے عبدالملک بن مروان کی ان علاقوں میں مجاہدانہ صلاحیت و اہلیت کا بھی ذکر کیا تھا۔ امام اصمعیؒ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ عبدالملک بن مروانؒ نہایت فصاحت و بلاغت کے ساتھ خطبہ دے رہے تھے، اچانک خطبہ روک کر رونے لگے اور پھر کہا یارب! ان ذنوبی عظیمۃ و ان قلیل عفوک اعظم منھا، اللھم فامح بقلیل عفوک عظیم ذنوبی یعنی اے میرے رب! میرے گناہ بہت زیادہ ہیں اور یقیناً تیرا کم از کم معاف کرنا ان گناہوں سے کہیں زیادہ ہے، اے میرے اللہ! اپنے قلیل عفو سے میرے عظیم گناہوں کو معاف فرمادے۔ راوی کا کہنا ہےکہ جب حسنؒ کو یہ خبر ملی تو وہ رونے لگے اور پھر کہا کہ لو کان کلام یکتب باطل بالذھب لکتب ھذا الکلام یعنی اگر کوئی کلام سونے سے لکھنے کے قابل ہوتا تو یہ کلام سونے سے لکھا جانا چاہیے۔ حسنؒ کے علاوہ دیگر لوگوں نے بھی اس دعا کے بارے میں یہی رائے دی۔ 
علامہ شاہ معین الدین احمد ندوی اپنی مشہورِ زمانہ کتاب "تاریخِ اسلام" کی جلد دوم میں اموی خلیفہ عبدالملک بن مروانؒ کی حکومت پر تبصرہ کرنے کے بعد صفحہ ۴۳۵ پر ذاتی حالات کی سرخی قائم کرکے لکھتے ہیں کہ عبدالملک عقل و دانش، تدبیر و سیاست، شجاعت و شہامت اور علم و فضل، جملہ اوصاف میں کامل تھا۔ کان عبدالملک لبیبا عاقلا عالما قوی الھیبۃ  شدید السیاسۃ حسن تدبیر اللدنیا۔ علم و فضل کے اعتبار سے اپنے عہدکے اکابر علماء میں تھا۔ اگر وہ  حکومت کی آزمائشوں میں نہ پڑ گیا ہوتا تو مدینہ کی
 مسندِ علم کی زینت ہوتا۔ اس کا شمار مدینہ کے ممتاز فقہاء میں تھا (ابن اثیر جلد ۴ صفحہ ۱۹۹)۔ سیدنا زید بن ثابتؓ انصاری کے بعد مدینۃ الرسولﷺ کے منصب قضا و افتا پر فائز تھا۔ اس عہد کے اکابر علما و ائمہ اس کے علمی کمالات کے معترف تھے۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کے آخری زمانہ میں لوگوں نے پوچھا کہ آپ کا آفتابِ عمر لب بام ہے، آپ کے بعد ہم  (علم و فتاویٰ کے لیے ) کس کی طرف رجوع کریں؟ فرمایا مروان کا لڑکا فقیہ ہے، اس سے پوچھنا (تاریخ الخلفاء صفحہ ۲۱۶)۔امام شعبیؒ کہتے تھے کہ میں جن جن علما سے ملا، عبدالملک  کے سوا اپنے کو سب پر فائق پایا۔ اس سے جب حدیث یا شاعری وغیرہ پر گفتگو ہوتی تھی تو وہ معلومات میں کچھ اضافہ ہی کردیتا تھا (ابن سعد جلد ۵ صفحہ ۱۷۴) ۔ اس کی انگوٹھی کا نقش "آمنت باللہ مخلصاً" تھا یعنی میں خلوصِ دل سے اللہ پر ایمان لایا (کتاب التنبیہ و الاشراف مسعودی صفحہ ۳۱۶) ۔ مشہور صاحب علم تابعی حضرت سعید بن المسیبؒ سے درخواست کرکے کلام اللہ کی تفسیر لکھائی (میزان الاعتدال جلد ۲ صفحہ ۱۹۷)۔ خلافت ملنے کے کئی سال بعد ۷۵  ہجری میں حج کے لیے گیا اور خود امیر الحج کے فرائض انجام دئیے اور ۸۱ ہجری میں اپنے لڑکے سلیمان کو امیر الحج  بنا کر بھیجا ( یعقوبی  جلد اول ۳۲۶)۔ اس کے مذہبی جذبات کا اس واقعہ سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ وہ اہم فرامین اور مراسلات کے سرنامے قل ھو اللہ احد اور نبیﷺ کے نام مبارک لکھا کرتا تھا۔ سلاطین اور فرمانرواؤں کے مراسلات میں بھی یہ تحریر ہوتی تھی۔ قیصر روم نے اس پر اعتراض کیا کہ شاہی مراسلات میں آپ نے جو نیا طریقہ جاری کیا ہے، اسے بند کردیجئے۔ ورنہ ہم سِکّوں پر ایسی تحریر نقش کریں گے جو آپ کو ناگوار ہوگی۔ اس کے جواب میں عبدالملک نے رومی سکہ ہی منسوخ کردیا اور اسلامی سکہ جاری کیا جس پر قل ھو اللہ اور لا الہ الا اللہ نقش تھا (تاریخ الخلفاء صفحہ ۲۱۸)۔ امام شعبیؒ جیسے امام اس کے ہم جلیس و ہم نشین تھے۔ امام زہریؒ اس کے عمل کے مطابق فتویٰ دیتے تھے۔ ایک مرتبہ کسی  نے ان سے سونے کے تار سے دانت کسنے کے متعلق استفسار کیا۔ انہوں نے جواب دیا کہ کوئی مضائقہ نہیں، عبدالملک ایسا کرتا تھا (ابن سعد جلد ۵ صفحہ ۱۷۴)۔ اگر
 عبدالملک کی زندگی غیر مذہبی ہوتی تو امام زہریؒ ہرگز اس کے فعل کو سندِ جواز نہ بناتے۔  (تاریخِ اسلام از شاہ معین الدین احمد ندوی  جلد دوم صفحہ  ۴۳۵ تا ۴۳۶)
اسی طرح  پروفیسر محمد یٰسین مظہر صدیقی صاحب  امیر عبدالملک بن مروانؒ کی بابت  لکھتے ہیں:بلاشبہ خلافتِ عبدالملک میں عمالِ حکومت زیادہ تر تابعی طبقہ کے تھے لیکن صحابہ کرامؓ کے بارے میں ان کا رویہ بہت احترام و عقیدت کا تھا۔ خلیفۂ وقت خود ان سے دینی رہنمائی حاصل کرتے تھے۔ حالانکہ وہ خود اپنے وقت کے ایک عظیم فقیہ تھے اور حضرت ابن عمرؓ نے ایک سوال کے جواب میں لوگوں کو دین و شریعت اور فقہ و سنت میں جناب عبدالملکؒ سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ خلیفۂ اموی کا عالمِ احترام و عقیدت یہ تھا کہ اپنے عظیم ترین و محبوب و متعمد ترین نائب الملک حجاج بن یوسف ثقفیؒ کو بھی صحابہ کرامؓ بالخصوص سیدنا ابن عمرؓ سے مشورہ لینے بلکہ ان کی پیروی و متابعت کرنے کا حکم دیا تھا۔" (خلافت اموی، خلافت راشدہ کے پس منظر میں صفحہ ۲۵۰)
اس جلیل القدر خلیفہ سے متعلق طارق جمیل صاحب جیسے تشیع پسند حضرات بے سند اور شیعی گپ کے تحت فرماتے ہیں کہ اس کا چہرہ مرتے ہوئے سیاہ پڑگیا تھا اور رخِ کعبہ سے پھِر گیا تھا کہ وہ ظالم و جابر تھا۔ استغفرللہ۔ معلوم نہیں طارق جمیل صاحب اپنی شیعیت  پسندی اور سیاسی عصبیت میں  کس حد تک نیچے کی طرف جائیں گے۔
پی ٹی آئی کی پوری کابینہ کو سامنے بٹھا کر طارق جمیل صاحب نے  ستائیسویں شب والے اپنے  بیان میں جس دوسرے خلیفہ  کا مرتے وقت چہرہ سیاہ کروایا ہے وہ امیر المومنین ولید بن عبدالملک ہیں جو بقول ان کے ظالم و جابر تھا کہ عوام اس کے دور میں پِس رہی تھی۔ اب ذرا  ولید کے "ظلم والے جابرانہ" دور کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ طبری ولید بن عبدالملکؒ کے دور میں صراحت سے لکھتے ہیں کہ ۸۸ ہجری میں ولید نے تمام ممالک محروسہ میں سڑکیں درست کروائیں اور ان پر سنگِ میل نصب کروائے۔  تمام راستوں پر کنویں بنوائے اور مختلف بلاد و امصار میں نہریں جاری کروائیں۔ پورے ملک میں جابجا مسافروں کی سہولت کے لئے مہمان خانے قائم کئے۔ ولید بن عبدالملک ؒ وہ پہلے مسلم  حکمران تھے جنہوں نے مسلم بلاد میں شفا خانے بنوائے۔اس سے پہلے اسلامی حکومت میں سرکاری شفا خانوں کا رواج نہ تھا (یعقوبی جلد ۲ صفحہ ۳۴۸)۔  طبری لکھتے ہیں کہ ولید بن عبدالملکؒ کا یہ کارنامہ قابلِ فخر ہے کہ اس نے تمام ممالک ِاسلامیہ میں معذور، ناکارہ اور اپاہج لوگوں کے روزینے مقرر کرکے انہیں بھیک مانگنے کی ممانعت کردی اور ساتھ ہی اندھوں کی رہنمائی اور معذوروں کی خدمت کے لئے آدمی مقرر کئے ۔ ولید ؒبازار کے نرخ بھی قابو میں رکھتا تھا اور خود بازاروں میں جاکر چیزوں کی قیمت دریافت کرکے ان کے نرخ کم کرواتا تھا(طبری ۸/۱۲۷۱، تاریخ الخلفاء السیوطی صفحہ ۲۲۵)۔ اسی ذیل میں طبری لکھتے ہیں کہ ولید بن عبدالملک قرآن کی تعلیم کی طرف خصوصی توجہ دیتا تھا۔ وہ ہمیشہ لوگوں کو حفظِ قرآن کی ترغیب دیتا ہے اور جو لوگ حفظ کرتے تھے، ان کو عطیات سے نوازتا تھا اور جو لوگ تعلیمِ قرآن سے غفلت برتتے تھے، انہیں سزا دیتا تھا۔ حجاج بن یوسفؒ نے اسی کے زمانے میں اہل عجم کے لئے قرآن پر نقطے اور اعراب لگوانے کا کام کیا تھا (البدایہ و النہایہ جلد ۹  تحت الترجمۃ حجاج بن یوسف ثقفیؒ)۔ امیر ولید کے دور میں ہی مسجدِ نبویﷺ میں اس دور کی سب سے بڑی توسیع ہوئی۔ امیر ولیدؒ کے حکم سے عمر بن عبدالعزیزؒ نے فقہاء و علماء مدینہ قاسم بن محمد بن ابی بکر، سالم بن عبداللہ، ابو بکر بن عبدالرحمٰن، عبیداللہ بن عبداللہ، خارجہ بن زید اور عبداللہ بن عبداللہ بن عمر رحمہم اللہ کی موجودگی میں مسجدِ نبویﷺ کی پرانی عمارت گروا کر ان بزرگوں کے ہاتھوں سے نئی عمارت کی داغ بیل ڈلوائی (طبری۸/۱۲۷۴)۔ امیر ولید ؒنے بڑے اہتمام اور ذوق و شوق سے مسجدِ نبویﷺ کی تعمیر کا کام شروع کروایا، ایک ایک نقش پر کاریگروں کو مزدوری کے علاوہ ۳۰ درہم انعام دیا جاتا تھا (خلاصۃ الوفا صفحہ ۱۳۹)۔ صرف قبلہ رخ دیوار اور اس کے طلائی کام پر ۴۵۰۰۰ اشرفی خرچ آیا (خلاصۃ الوفا صفحہ ۱۴۰)۔ تمام عمارت کو پتھر کی بنایا گیا جبکہ درو دیوار اور چھت پر اعلیٰ درجہ کی میناکاری کی گئی، مسجد کے ساتھ ہی ایک فوارہ بھی تعمیر کیا گیا۔ اس پوری توسیع میں تقریباً ۳ سال کا وقت لگا یہاں تک ۹۱ ہجری میں مسجدِ نبویﷺ کی توسیع کا کام مکمل ہوا اور ولید دمشق سے مدینہ خود اس کے ملاحظہ کے لئے آیا۔ یہاں آکر کام سے مطمئن ہوکر مسجد کی نگرانی اور دیکھ بھال کے لئے خُدّام مقرر کیے (ابن اثیر جلد ۴ صفحہ ۲۰۴) اور اس تعمیر و توسیع کی خوشی میں اہل مدینہ میں نقد روپیہ اور طلائی اور نقرئی ظروف تقسیم کئے (کتاب العیون و الحدائق صفحہ ۱۱)۔ یہ تمام کام عمر بن عبدالعزیز اور فقہائے مدینہ کی زیرِ نگرانی کروائے گئے تاکہ کسی بھی خلافِ شرع چیز پر ان کی طرف سے ٹوک و تنبیہ آسکے۔ ساتھ ہی قبر ِنبویﷺ  اور حجرۂ عائشہؓ کی مرمت کا بھی حکم دیا جس پر امیر ولیدؒ کے حکم سے عمر بن عبدالعزیزؒ نے حجرے کے چاروں طرف دوہری دیوار تعمیر کروادی تاکہ اگر ایک کمزور پڑے تو دوسری اس کو سہارا دے سکے (کتاب العیون و الحدائق صفحہ ۹)۔ کیا طارق جمیل صاحب نے اس زیادہ "ظلم و جور اور شقاوت" کا مظاہرہ دیکھا ہے اپنی عوام پر کسی حکمران کی طرف سے ؟
بقول ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر صاحبہ ایک بات جو ولید کے دور خلافت کے بارے میں کہی جاسکتی ہے وہ یہ کہ اس کی ریاست فلاحی ریاست تھی،human development  کا جو کام اس نے کیا، اس سے قبل نہیں ہوا تھا ۔ہر نابینا اور معذور کو ایک ملازم حکومت کی طرف سے ملتا تھا ۔جو صبح قبل از نماز فجر تا بعد از نماز عشا اس معذور شخص کی خدمت پر مامور ہوتا تھا ۔اس ملازم کو تنخواہ سرکاری خزانے سے ملتی تھی مسافروں کے لئے اس نے جو سرائیں تعمیر کرائیں وہاں ایک مقررہ مدت تک بلا معاوضہ ٹہر سکتے تھے ۔جن لوگوں کو حکومت کی طرف سے وظائف ملتے تھے، ان کی وصولی کے لئے انہیں کہیں جانا نہیں پڑتا تھا، نہ قطار میں کھڑا ہو نا پڑتا تھا، بلکہ سرکاری اہلکار گھر آ کر وظیفے کی رقم ادا کرتا تھا ایسی بہت سی باتیں ہیں ۔سرکاری ہسپتال میں داخل ہونے والوں کا علاج، دوا اور خوراک حکومت کی ذمہ داری تھی ۔ولید کی حکومت اللہ کا انعام تھی ۔اس میں کوئی شک نہیں۔ لیجئے طارق جمیل صاحب جس حکومت اور حکمران کو اللہ کا عذاب باور کروائے دے رہے ہیں، ڈاکٹر نگار تو اس کو اللہ کا انعام بتارہی ہیں!!
سیدنا عمرؓ کے دور کے بعد ولید بن عبدالملک کا دور فتوحات کے سلسلے میں تاریخ میں اپنی نظیر نہیں رکھتا۔ خوش قسمتی سےامیر ولیدؒ کو حجاج بن یوسف ثقفی جیسا مدبر گورنر نصیب ہوگیا جس کے ماتحت محمد بن قاسم، قتیبہ بن مسلم اور مسلمہ بن عبدالملک نے اپنے گھوڑوں کے سموں تلے یورپ اور ایشیا کے میدانوں کو روند ڈالا۔ ولید کے دور میں ہندوستان، ترکستان اور اندلس فتوحات ہوئیں( معجم البلدان جلد ۱ صفحہ ۲۶۲)۔ علامہ ابن کثیرؒ ۹۵ ہجری کے واقعات کی سرخی قائم کرکے لکھتے ہیں :اسی سال عباس بن ولید نے بلاد روم میں جنگ کرکے بہت سے قلعے فتح کئے، اسی زمانہ میں مسلمہ بن عبدالملک ؒنے بلاد روم کا ایک شہر فتح کیا۔ اسی برس محمد بن قاسم ؒنے بلاد ہند کے شہر ملتان کو فتح کیا اور وہاں سے بہت سا مال غنیمت حاصل کیا۔ سال رواں ہی میں موسیٰ بن نصیرؒ بلاد اندلس میں جہاد کرتے ہوئے افریقہ پہنچ گئے، واپسی میں اس کے ساتھ تیس ہزار قیدی تھے۔ اسی زمانے میں قتیبہ بن مسلم ؒنے بلادِ شام میں قتال کیا  اور بہت سے شہر اور علاقے فتح کئے۔" ( البدایہ و النہایہ جلد ۹ صفحہ ۱۱۴)
امیر ولید ؒنے اسلامی فوجی نظام کو بے انتہا ترقی دی جس کی وجہ سے ایک ہی وقت میں اسلامی فوجیں ہندوستان سے لیکر چین تک اور افریقیہ سے لیکر ہسپانیہ تک بلا کسی رکاوٹ کے برسرِ پیکار تھیں۔ سیدنا معاویہؓ  نے اپنے دور میں جہاز سازی کی جس صنعت کا اجراء کیا تھا، ولید بن عبدالملک ؒنے اپنے دور میں اسکو چار چاند لگادئیے۔ ولید ؒکی معاونت و سرپرستی کے زیرِ اثر امیر موسیٰ بن نصیر ؒنے تونس میں جہاز سازی کا جو کارخانہ قائم کیا تھا ، اس میں صرف ولید ؒکے زمانے میں ہی ۱۰۰ جہاز تیار کردئیے گئے تھے۔  
معین الدین شاہ ندوی ولید بن عبدالملک کے دور ِ خلافت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ولید کے پورے دور میں ملک میں کامل امن و امان رہا اور کسی قسم کا اندرونی خلفشار نہیں ہوا۔ ایک آدھ خوارج ضرور اٹھے لیکن معمولی سرزنش کے بعد خاموش ہوگئے ۔"(تاریخِ اسلام جلد دوم صفحہ ۴۶۵)
 ولید کا دور فتوحات کی کثرت، دولت کی فراوانی، امن و رفاہیت کی ارزانی اور دوسری ملکی اور تمدنی ترقیوں کے لحاظ سے بنی امیہ کا عہدِ زریں ہے۔" (تاریخ اسلام جلد دوم صفحہ ۴۶۶)
حکومت کے شعبوں میں ترقی کے علاوہ رفاہ عام کے اتنے کام ہوئے اور رعایا کی راحت و آسائش کے اتنے سامان مہیا کیے گیے کہ خلفائے راشدین کے زمانے کے علاوہ اس کی نظیر نہیں ملتی، بلکہ ولید کے بعض کارنامے اس دور سے بھی بڑھ گئے۔" (تاریخِ اسلام جلد دوم صفحہ۴۷۱)
یہ ولید کا قابلِ فخر کارنامہ ہے کہ اس نے تمام ممالکِ محروسہ کے معذور، ناکارہ اور اپاہج لوگوں کے روزینے مقرر کرکے انہیں بھیک مانگنے کی ممانعت کردی۔ اندھوں کی رہنمائی اور اپاہجوں کی خدمت کے لیے آدمی مقرر کیے (تاریخ الخلفاء صفحہ ۲۴۴، طبری جلد ۸ صفحہ ۱۲۷۱)۔ یہ وہ کارنامہ ہے جس سے آج کل کی متمدن حکومتیں بھی عاجز ہیں۔ یتیموں کی کفالت اور ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام کیا (تاریخ الخلفاء صفحہ ۲۲4)۔ اشیاء کے نرخ کی نگرانی بھی رعایا کی بڑی خدمت ہے، ولید خود بازاروں میں جاکر چیزوں کی قیمت دریافت کرکے ان کو کم کراتا تھا (طبری جلد ۸ صفحہ ۱۲۷۱) ۔ رمضان میں تمام مسجدوں میں روزہ داروں کے لیے کھانے کا انتظام کراتا تھا( کتاب العیون و الحدائق صفحہ ۱۷) ۔" (تاریخِ اسلام جلد دوم صفحہ ۴۷۲)
طارق جمیل صاحب جن کے سامنے ظلم کی یہ داستانیں بیان کررہے تھے، سنا ہے کہ ان حکمرانوں کے دور میں ولید کے دور سے زیادہ سستائی ہوئی تھی۔۔
خلفائے بنی امیہ کے متعلق عام طور سے یہ غلط شہرت ہے کہ مذہب کی جانب ان کا رجحان کم تھا۔ ولید کی پرائیوٹ زندگی بھی مذہبی تھی۔ہر دن ایک ایک قرآن ختم کرتا تھا (دول الاسلام ذہبی جلد ۱ صفحہ ۴۸)۔ دو سنبہ اور پنجشنبہ کو پابندی کے ساتھ روزہ رکھتا تھا (یعقوبی جلد ۲ صفحہ ۳۴۸)۔ رمضان میں روزہ داروں کے لیے کھانا بجھواتا تھا (یعقوبی جلد ۲ صفحہ ۳۴۸)۔ صلحا اور اخیار میں روپیہ تقسیم کراتا تھا (دول الاسلام ذہبی جلد ۱ صفحہ ۴۸)۔ (تاریخِ اسلام جلد دوم صفحہ۴۷۸)
کاش کہ یہ سب لکھنے سے قبل معین الدین ندوی مرحوم طارق جمیل صاحب سے مشورہ لے لیتے۔
امیر ولید بن عبدالملکؒ پر اپنی ان گزارشات کو ہم علامہ اکبر شاہ نجیب آبادی  کے اس تبصرے پر ختم کرتے ہیں :
ولید کے عہدِ خلافت میں سندھ، ترکستان، سمر قند و بخارا وغیرہ، اندلس، ایشیائے کوچک کے اکثر شہر و قلعے اور بعض جزیرے حکومتِ اسلامی میں شامل ہوئے۔ ولید کی خلافت مسلمانوں کے لیے ایک طرف راحت و آرام اور خوش حالی کا زمانہ تھا تو دوسری طرف فتوحاتِ ملکی کا خاص زمانہ تھا۔ حضرت عمر فاروقؓ کے بعد اس قدر عظیم فتوحات و اہم فتوحاتِ ملکی اور کسی خلیفہ کے زمانے میں اب تک مسلمانوں کو حاصل نہ ہوئی تھیں۔ " (تاریخِ اسلام از علامہ اکبر شاہ نجیب آبادی جلد دوم صفحہ ۱۵۹ ۔ ۱۶۰)
لیجئے اکبر شاہ نجیب آبادی سے بھی چُوک ہوگئی، ان کو بھی چاہیئے تھا کہ کم از کم ولید بن عبدالملک سے متعلق طارق جمیل صاحب سے شیعی تاریخ کے پروپیگنڈے کی ٹیوشن لے لیتے تاکہ ولید کے دور کو "راحت و آرام اور خوشحالی" کے بجائے "ظلم و جور" والا باور کرواتے۔
ویسے  اگر طارق جمیل صاحب کے ممدوح سیاست دان ولید بن عبدالملک کی "طرح ہی  کا ظلم و جور"  پاکستانی عوام پر روا کردیں تو یقین کریں ہمارے لیے کافی ہوجائے گا۔پاکستانی عوام "ظلم کی اس چکی" میں خوشی خوشی پِسنے کو تیار ہوجائے گی۔
طارق جمیل صاحب نے ستائیسویں شب کے بیان میں جس تیسرے خلیفہ کا نہ صرف چہرہ کالا کروایا بلکہ دفنانے سے قبل ہی اسکو عذاب قبر بھی شروع کروادیا یعنی سلیمان بن عبدالملک، ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ اس کے بیان سے قبل اموی خلافت کی بابت طارق جمیل صاحب کو کچھ بیک گراونڈ دیکر انکی معلومات میں اضافہ کردیں۔ غیر ثابتہ تاریخی روایات کے تحت خلفائے بنو امیہ کا دامن داغدار کرنے والے طارق جمیل صاحب کو معلوم ہو کہ صحیح بخاری کی روایت  خیر القرون قرنی، ثم الذین یلونھم، ثم الذین یلونھم اور لایزال الاسلام عزیزاً الی اثنی عشر خلیفۃ کی برکت ہی تھی کہ اموی خلافت ایک طرح سے خلافتِ راشدہ کا تتمہ و تکملہ ثابت ہوئی جس پر قرآن و حدیث کی شہادتوں کے علاوہ سب سے بڑی شہادت  صحابہ کرامؓ کی اس سے وابستگی و تعاون ہے۔ پوری کی پوری پہلی صدی ہجری اور دوسری صدی ہجری کا عشرۂ اوّل صحابہ کرام کے وجودِ مسعود سے منور رہا۔ اس باب میں خلافتِ راشدہ اور خلافتِ امویہ میں کوئی فرق نہیں۔ صحابہ کرامؓ دونوں ادوارِ خلافت میں نہ صرف موجود تھے بلکہ حکومت کی طرف سے مختلف عہدوں پر سیاسی خدمات بھی انجام دے رہے تھے۔ ان میں عشرہ مبشرہ بھی شامل تھے تو بدری صحابہ بھی، حدیبی بھی تھے تو فتح مکہ کے موقع پر ایمان لانے والے صحابہ بھی شامل تھے۔ سیدنا معاویہؓ و یزید بن معاویہ کے دور میں تو بکثرت عہدے صحابہ کرامؓ کے پاس تھے تاہم جیسے جیسے زمانہ گزرتا گیا اور صحابہ کرامؓ ایک ایک کرکے دنیا کو خیرباد کہتے چلے گئے، حکومتی مناصب میں ان کی جگہ تابعین نے لے لی۔ البتہ جب تک صحابہ کرام ؓ زندہ رہے انہوں نے اموی خلفاء سے بھی اسی طرح تعاون کیا اور ان کی طرف سے اسی طور سے سیاسی خدمات سرانجام دیتے رہے جس طور سے وہ خلفائے اربعہ کے زمانے میں سیاسی خدمات انجام دیا کرتے تھے۔ ان اموی خلفاء اور ان کی طرف سے مقرر کردہ عمال کی زیر نگرانی صحابہ کرامؓ تمام جنگی و جہادی محاذوں پر مصروفِ عمل رہے چاہے وہ ایران و خراسان کے محاذ ہوں یا پھر رومی و بازنطینی سلطنت کے خلاف کی گئی لشکر کشی ہوں ۔ ان جہادی سرگرمیوں کے لئے انہوں نے اموی خلفاء کی طرف سے پیش کردہ تمام عہدوں کو قبول کیا چاہے وہ برّی فوجوں کی سپہ سالاری ہو یا پھر سمندروں کی امیر البحری۔ اسی طرح صوبوں کی گورنری، صدقات کے عمالی اور قضاء و افتاء تمام شعبوں پر صحابہ کرام اموی خلفاء سے بھرپور تعاون کرتے آئے۔ اموی خلفاء کے ساتھ صحابہ کرامؓ کا یہ تعاون و مشارکت ثابت کرتا ہے کہ ان کی نظروں میں بھی امرائے بنو امیہ اسی طور کے جائز خلفاء تھے جس طور کہ خلفائے اربعہ تھے اور اصحابِ رسولﷺ کے نزدیک اسلامی خلافت افراد و اشخاص اور ان کی حیثیتوں اور مرتبوں پر منحصر نہیں تھی بلکہ وہ اصولِ اسلام اور اقدارِ خلافت پر استوار تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اموی خلافت میں اسلام کا نورِ آفتاب آدھی سے زیادہ معلوم دنیا پر چھا گیا اور صرف چند دہائیوں میں مسلمانوں کی تعداد کروڑوں تک پہنچ گئی۔ ترکستان، چین، افریقہ، ہندوستان، یورپ وغیرہ غرض دنیا کے ہر متمدن خطے میں اسلام کا پیغام پہنچ گیا۔ نبی کریمﷺ کے دورِ مسعود اور دورِ صحابہؓ سے جو وراثت اموی خلفاء کو ملی تھی، اسے انہوں نے اپنی کمائی سے اضعافاً و مضاعفۃً کردیا۔ خلافتِ یزید بن معاویہ کے دور میں افریقہ کے بربر قبائل تقریباً سب کے سب مشرف بہ اسلام ہوگئے تھے۔ ہندوستان میں محمد بن قاسمؒ کی جہادی مساعی کے نتیجے میں دیکھتے ہی دیکھتے کئی بلاد میں اسلام پہنچ گیا۔ قتیبہ بن مسلم کے ذریعے چین کی سرحدوں تک اسلام پہنچا تو طارق بن زیاد کے قدموں نے اسے ہسپانیہ تک راہ دکھائی۔ المختصر خلافتِ اسلامیہ کے اس مبارک دور میں اسلام کی اشاعت روزافزوں ہوئی اور اتنی کثیر تعداد میں غیر مسلموں نے اسلام قبول کیا کہ عقل حیران و ششدر رہ جاتی ہے۔ اب اگر اس مبارک دور کے حکمران ظالم و فاسق تھے جیسا کہ طارق جمیل صاحب باور کروارہے ہیں تو انہیں یا ان کے عمال کو دیکھ کر اتنی کثیر تعداد میں لوگ مشرف بہ اسلام کیسے ہوگئے؟ اسلام کا عملی نمونہ دیکھے بغیر اور زاہد و متقی مسلم حکمرانوں کی تبلیغی مساعی کے بغیر لوگوں کو اسلام کی طرف کشش و رغبت کیسے ہوئی؟ اس مبارک دور میں اس سرعت کے ساتھ اسلام کا پھیلنا اور  بکثرت غیر مسلموں کا شرح صدر کے ساتھ اسلام قبول کرلینا، اس حقیقت کی واضح دلیل ہے کہ یہ اموی خلفاء و عمال متقی، رعایا پرور اور اعلیٰ کردار کے حامل تھے جن کے کردار و اعمال اور طریقۂ حکومت سے متاثر ہوکر غیر مسلم حلقہ بگوش اسلام ہوتے گئے۔
اموی دور میں مسلم تہذیب و تمدن اپنے عروج کو پہنچا، کئی شعبوں میں مسلمانوں نے ترقی کی۔ امیر عبدالملک بن مروانؒ اور امیر ولید بن عبدالملک کے ادوار کی بابت تو ہم اپنی پچھلی دو پوسٹس میں صراحت کرچکے ہیں۔  امیر ولید بن عبدالملکؒ کے بعد ان کے بھائی سلیمان بن عبدالملکؒ کا دور آتا ہے جن کو طارق جمیل صاحب اسکی بدسیرتی اور ظلم و جور کے سبب قبر سے باہر ہی عذاب قبر شروع کروادیتے ہیں جبکہ سلیمان بن  عبدالملک کے خیر کے کاموں کی وجہ سے لوگ اس کو "مفتاح الخیر" یعنی بھلائی کی کنجی کے نام سے یاد کرتے تھے ( تاریخ الخلفاء لسیوطی صفحہ ۲۲۴)۔ مکہ المکرمہ میں پانی کی کافی قلت ہوجاتی تھی، اس پریشانی کے سدِ باب کے لئے سلیمان بن عبدالملکؒ نے مکہ میں میٹھے پانی کا ایک چشمہ جاری کروایا۔ اس کام کے لئے کوہِ ثبیر کے دامن میں ایک بڑا تالاب بنایا گیا جس سے سیسہ کے نل کے ذریعے حرم میں پانی لایا گیا جو زمزم کے کنویں کے درمیان سنگ رخام کے فوارے میں گرتا تھا۔ اس چشمہ کی وجہ سے مکہ میں میٹھے پانی کی افراط ہوگئی (یعقوبی جلد ۲ صفحہ ۵۳۵)۔ اسی طرح شام میں شہر رملہ کی تعمیر بھی سلیمان بن عبدالملک کا ایک قابلِ فخر کارنامہ ہے۔ دراصل یہ شہر بسایا تو ولید بن عبدالملکؒ نے تھا لیکن ولید نے یہاں صرف چند عمارتیں بنوا کر اس کو چھوڑ دیا تھا۔ سلیمان بن عبدالملکؒ نے  اس شہر کو بہت ترقی دی، یہاں بہت سی عمارتیں، جامع مسجد اور تالاب بنوائے اور جو لوگ یہاں منتقل ہونا چاہتے تھے، سلیمان ان کو حکومتی خرچ پر گھر بنواکر دئیے(معجم البلدان ذکر رملہ، للیاقوت الحموی)۔
سلیمان بن عبدالملک ؒکے بعد عمر بن عبدالعزیزؒ کا دور آتا ہے۔ ان کے دور میں ہونے والی اصلاحات کسی سے مخفی نہیں سو ان کا اعادہ کرنا  طوالت کا باعث ہوگا۔ ان کی خدمات کی بابت یہ لکھ دینا ہی کافی ہے کہ طارق جمیل صاحب جیسے کٹر بنو امیہ مخالفین بھی عمر بن عبدالعزیز کی اصلاحی مساعی کا دم بھرتے ہیں۔ عمر بن عبدالعزیز کے بعد یزید بن عبدالملک اور اس کے بعد اسکا بھائی ہشام بن عبدالملکؒ برسراقتدار آیا۔ ہشام بن عبدالملکؒ کا شمار بنو امیہ کے ان تین ممتاز خلفاء میں ہوتا ہے جنہوں نے تدبر و سیاست کا نقش تاریخ میں ثبت کردیا۔ علامہ ابن کثیرؒ ہشام  بن عبدالملکؒ کی بابت لکھتے ہیں کہ وہ بہت مدبر خلیفہ تھا، سلطنت کے چھوٹے سے چھوٹے معاملات اس کی نگاہوں سے مخفی نہ رہتے تھے، تحمل و بردباری اس کی امتیازی خصوصیات تھیں (البدایہ والنہایہ جلد ۹ صفحہ ۳۵۴)۔ ہشام بن عبدالملک نے اپنے عہدِ حکومت فوج کے شعبہ کو بہت ترقی دی۔  کئی اہم و حساس جگہوں پر مستحکم اور مضبوط قلعے قائم کئے۔ بحری بیڑے کی ترقی کے لئے شمالی افریقہ میں جہاز سازی کے مزید نئے کارخانے بنوائے (مروج الذہب جلد ۳ صفحہ ۲۱)۔ ملکی مصنوعات کی صنعت کو ترقی دی جس میں سر فہرست ریشمی کپڑوں کی صنعت تھی۔ لوگوں کے لئے روزگار کا انتظام کیا اور عوام کا طرز ِزندگی مزید بہتر بنایا (مروج الذہب جلد ۳ صفحہ ۲۱)۔ہشام نے اپنے دور میں کئی نئے شہر تعمیر کروائے جس میں سب سے مشہور سندھ کا شہر منصورہ تھا جو کہ اپنے زمانے میں ہندوستان میں اسلامی حکومت کا دارالخلافہ تھا (فتوح البلدان صفحہ ۴۴۸)۔ ہشام کا ایک بڑا کارنامہ حُجاج کے کاروانوں کے لئے مکہ کی سمت میں آنے والے راستوں پرسرائے، حوض اور تالاب بنوانا بھی ہے (مروج الذہب  جلد ۲ صفحہ ۲۱)۔ ہشام بن عبدالملکؒ کو دینی علوم و فنون سے بھی خاص شغف تھا۔ امام ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ میں لکھا ہے کہ ہشام بن عبدالملک نے امام زہریؒ سے ۴۰۰احادیث کا ایک مجموعہ مرتب کروایا تھا (تذکرۃ الحفاظ جلد ۱ صفحہ ۹۹)، عقیدہ و عمل کے لحاظ سے  تمام اموی خلفاء بشمول ہشام بن عبدالملک سچے مسلمان اور راسخ العقیدہ مومن تھے۔ اسی وجہ سے ہشام بن عبدالملک غلط عقائد رکھنے والوں پر کڑی نگاہ رکھتا تھا ۔ اس نے جعد بن درہم اور یونس بن غیلان کو خلق قرآن اور قدری عقائد رکھنے کی بناء پر قتل کروادیا تھا (ابن اثیر جلد ۵ صفحہ ۹۶)
بعض محققین کے مطابق امیر ہشام بن عبدالملک پر آکر  نبی ﷺ کی بارہ خلفاء کی پیشن گوئی پوری ہوجاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہشام بن عبدالملک کے بعد بنو امیہ کا زوال و انحطاط شروع ہوجاتا ہے اور آنے والا ہر خلیفہ پچھلے خلیفہ کے مقابلے میں کمزور ہوتا چلاجاتا ہے، یہاں تک کہ اگلے چھ سالوں میں خلافتِ بنو امیہ کا تختہ الٹ جاتا ہے۔ 
اور اسی کے ساتھ طارق جمیل صاحب کی ویڈیو کی بابت ہماری گزارشات اپنے اختتام کو پہنچیں۔