اناڑی بلماں

مصنف : لالہ صحرائی

سلسلہ : حالاتِ حاضرہ

شمارہ : فروری 2019

حالات حاضرہ
اناڑی بلماں
لالہ صحرائی

                                                                                                                         گھر میں دو ریموٹ ہوں، ایک خراب ہو جائے تو دوسرا کام میں آجاتا ہے لیکن جب ایک ہی ہو اور وہ بھی خراب ہو جائے تو پھر اسے ہی دھپے مار مار کے کام چلایا جاتا ہے۔ اسد عمر وہی دھپے مار اکلوتا ریموٹ ہے جس نے بلاوجہ ایک انوکھی ترمیم کرکے بزنس سرکل کو ایک ایسے چینل پر ٹیون کر دیا ہے جو کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا۔
غیر منطقی یا بے ہنگم معاشی نظام کا درد کیا ہوتا ہے، یہ عام آدمی کو صرف مہنگائی کی حد تک پتا ہوتا ہے، اس سے زیادہ آپ محسوس ہی نہیں کر سکتے۔اس نظام کا حقیقی کرب بزنس مین کے اوپر گزرتا ہے جس نے اپنے سرمائے کو گھما کر نہ صرف اپنے گھر کا خرچہ نکالنا ہوتا ہے بلکہ اپنے سسٹم اور جملہ اسٹاف کا خرچہ بھی وہیں سے نکالنا ہوتا ہے۔
جس طرح تنخواہ دار یہ جانتا ہے کہ آندھی آئے یا طوفان اس کی تنخواہ پکی ہے اسی طرح بزنس مین بھی یہ جانتا ہے کہ آندھی آئے یا طوفان، سسٹم کا خرچہ اور اسٹاف کی دو چار لاکھ تنخواہ تو ادا کرنی ہی کرنی ہے۔
بزنس سرکل کے فیل ہونے کی صورت میں جملہ اخراجات، اپنے گھر کا خرچ اور اسٹاف کی تنخواہ نکالتے نکالتے وہ اذیت کے کس کس دھارے سے گزرتا ہے یہ جاننے کیلئے کوئی دوسرا راستہ نہیں سوائے اس کے کہ آپ بزنس کرکے دیکھ لیجئے۔
بزنس جب پھنستا ہے تو اس کی سب سے بڑی زد کیش فلو پر پڑتی ہے، بالکل اسی طرح جیسے چلتے ہوئے جم غفیر میں جب کوئی بندہ گرجائے تو وہ اکیلا نہیں گرتا بلکہ اس کے ارد گرد کا پورا سرکل گرپڑتا ہے اور باقی ان کے اوپر سے گزر جاتے ہیں۔بزنس سرکل رک جانے کی صورت میں بھی یہی ہوتا ہے کہ اگر ایک سیکٹر کے لوگ بھی کسی وجہ سے بیٹھ جائیں تو ملک گیر کیش فلو دھکم پیل کا شکار ہوجاتا ہے تاکہ بند ہوتی یا سکڑتی ہوئی مارکیٹ سے اپنا پیسہ بہرصورت ریکوور کرلے اور جب تک حالات ٹھیک نہیں ہوتے تب تک گھر بیٹھ کے کھائے۔
موجودہ حالات میں بزنس کمیونیٹی اپنا کیپیٹل سرمایہ کھا رہی ہے یا لوگوں کا روکا ہوا پیسہ کھا رہی ہے، یہ سلسلہ کچھ عرصہ مزید اسی طرح چلتا رہا تو آئندہ چھ ماہ میں بزنس سرکل کو مزید کمزور کردے گا کیونکہ بزنس کمیونیٹی جب اپنی کیپٹل انویسٹمنٹ ہی آدھی کھا چکی ہوگی، آدھوں کی رقم دوسرے کھا چکے ہوں گے تو یہ کمیونیٹی کاروبار کس چیز سے کرے گی؟
ان حالات میں جب ہم کچھ لکھتے ہیں تو اس پر فوراً کف لپیٹ کر گالیاں دینے والے آٹپکتے ہیں، یہ سوچے بغیر کہ کیا آپ نے خود کشی کا ارادہ کرلیا ہے؟
ہمیں یہ سمجھانے کی ضرورت نہیں کہ یہ سب کچھ پچھلوں کا کیا دھرا ہے، اس سے صرف انجان لوگ ہی متاثر ہو سکتے ہیں، اس آرگومنٹ سے آپ کسی بھی واقف حال کو قائل کرسکتے ہیں نہ کسی بزنس مین کو، ہمیں اس بات کا بہت اچھی طرح سے پتا ہے کہ موجودہ حکمران اپنے اناڑی پن کی بدولت صرف اپنے دعووں اور زمینی حقائق کے بیچ پھنسے ہوئے ہیں۔
الیکشن کے دعووں کو ایک طرف رکھ کے انہیں آتے ہی سچ بولنا چاہئے تھا، اور قرض اٹھا کے اپنا سرکلر ڈیبٹ پورا کرلیتے اس پر جاہلوں کے سوا کوئی بھی انہیں مطعون نہ کرتا کیونکہ معاشی نظام کو سمجھنے والوں کو پتا تھا کہ اس کا دوسرا حل کوئی نہیں، اب تو خیر جاہلوں کو بھی سمجھ آرہی ہوگی جب سارا گند کرنے کے بعد بھی بلآخر اسی واحد حل کی طرف ہی جانا پڑ رہا ہے۔
کسی بلڈنگ میں آگ لگ جائے تو سیڑھی کا انتظام کیا کرتے ہیں تب تک تپش بھگتنی ہی پڑتی ہے۔ اس حکومت نے سیڑھی لگانے کی بجائے وہ ہاہا کار مچا دی کہ پورا نظام ہی چھت سے کودنے پر مجبور ہو گیا ہے۔
عوام کے حساب سے یہ بات میں نے کچھ ایڈوانس میں لکھ دی ہے، خواص اس صورتحال کو بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں بلکہ بھگت رہے ہیں۔ عوام اس بات کو دوچار ماہ بعد جان پائے گی جب پرائیویٹ سرکل میں ڈاؤن سائزنگ، شیک ہینڈ یا چھانٹی شروع ہوگی۔
بزنس کمیونیٹی اپنی سیٹ کی ہوئی ٹیم کو عارضی تنگی کے پیش نظر کبھی بھی برخاست نہیں کرتی، کیونکہ اپنے کام کی ٹیم سیٹ کرنا بھی کامیابی کے فیکٹرز میں سے ایک اہم فیکٹر ہوتا ہے، اس وقت سب اپنی ٹیم کا خرچہ، اپنا خرچہ اور اپنے سسٹم کے اخراجات اپنی جیب سے برداشت کر رہے ہیں۔ یہ سلسلہ چھ ماہ سے زیادہ جاری رکھنا کسی کیلئے بھی ممکن نہیں ہوتا۔ اس میں سے تین ماہ تقریباً گزر چکے ہیں، اس سے آگے اب سیچوریشن کا پیرئیڈ شروع ہونے والا ہے جس میں لامحالہ ڈاؤن سائزنگ ہی شروع ہو گی۔
اس پر دوسری بڑی غلطی یہ کی ہے کہ ایف ۔ بی۔آر نے کلیکشن کیلئے ڈنڈا دے مارا ہے، ایف۔ابی۔آر کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اس سسٹم میں مزید کلیکشن کی گنجائش ہی نہیں ہے لیکن جب آپ کے پاس ٹیکس نیٹ بڑھانے کا کوئی پلان ہی نہیں تو مجبوراً موجودہ ٹیکس پئیرز کو ہی مزید رگیدنا پڑے گا۔ایف۔بی۔آر نے اس وقت ایک کمپین لانچ کردی ہے جس میں لیٹ فائلرز کو آڈٹ میں لیا جا رہا ہے تاکہ کچھ پیسہ اکٹھا ہو جائے، اس سلسلے میں سسٹم کو جن شرائط پر کمانڈ دی گئی اس نے سال 2016 کیلئے دس لاکھ سے زیادہ ٹیکس گزاروں کو سیکشن 214 کے تحت نوٹس بھیج دئے ہیں، ٹیکس گزار اپنے آئیرس کے انبوکس میں یہ نوٹس دیکھ سکتے ہیں۔بیس لاکھ ٹوٹل ٹیکس پئیرز ہیں، ان میں دس لاکھ آڈٹ میں آچکے ہیں، ان میں تین چار لاکھ تنخواہ گزار بھی ہیں، اب تنخواہ گزاروں کو پہلے تو یہ کہا گیا ہے کہ بیس ہزار روپے فکس دے کر آڈٹ سے نکل جائیں، پھر شائد لیٹسٹ آرڈر آگیا ہے کہ تنخواہ دار اس نوٹس کو نظر انداز کردیں لیکن بزنس مین اس سال میں دئے جانے والے ٹیکس کا پچیس فیصد مزید دے کر چاہیں تو آڈٹ سے نکل سکتے ہیں یا پھر آڈٹ کرالیں۔جن لوگوں نے اس سال ایک لاکھ روپیہ دیا تھا وہ تو پچیس ہزار میں نکل جائیں گے جنہوں نے اس سال میں ایک ایک کروڑ روپیہ ٹیکس دیا ہے وہ پچیس لاکھ روپے مزید کہاں سے دیں گے، نہ دیں گے تو آڈٹ میں ایک ایک کروڑ کی مزید ڈیمانڈ نکل سکتی ہے، کسی بھی بزنس کو ایک کروڑ کی غیر منصفانہ ڈیمانڈ نکال دینا یہاں بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔
اگر آپ اندھی عقیدت کے چشمے اتار سکتے ہیں تواپنے جاننے والے بزنس مین، مینو فیکچرنگ سیکٹر کے ملازمین اور ٹیکس گزار تنخواہ دار طبقے کو مینشن کرکے صورتحال کا کاؤنٹر ورژن لے سکتے ہیں تاکہ آپ کی آنکھیں کھل جائیں۔حکومت کو کچھ سمجھ نہیں آرہی تو بزنس کمیونٹی سے کم از کم مشورہ ہی کرلے، ہم ان کو سیچوریشن سے نکلنے کے گر سکھا دیں گے مگر یہ اپنے دعووں، حقیقت اور انا کے درمیان معلق ہوئے پڑے ہیں یہ سوچے بغیر کہ قوم عنقریب کسی بڑے معاشی بحران میں بھی پڑسکتی ہے جس سے نکلنے کا راستہ ہی نہ ملے گا۔ ان دس لاکھ ٹیکس گزاروں کا کیا قصور ہے جنہوں نے 2016 میں کم و بیش سینتیس سو ارب روپیہ ٹیکس دیا تھا، اب یہ مزید ٹیکس کیوں دیں؟آپ کا وزیر خزانہ اس بات کو قوم کے سامنے جسٹیفائی کردے یا آپ خود کردیں تو بڑی مہربانی ہوگی ورنہ پوری قوم سے بھی 2016 کی مد میں تین تین ماہ کا بجلی کا بل دوبارہ لے لینا چاہئے۔

***