خالق کا سراغ ‘ مقصد تخلیق

مصنف : ڈاکٹر طفیل ہاشمی

سلسلہ : دین و دانش

شمارہ : مارچ 2022

خالق کا سراغ
کائنات اور اس میں موجود اشیاء کی تخلیق کے اسباب کی نقاب کشائی کوانٹم تھیوری اور نطریہ ارتقاء کے ذریعے ہو گئی ہے کچھ سائنس دان یہ کہتے ہیں کہ ہم نے تخلیق سے تمام پردے سرکا دئیے ہیں اور پس پردہ کسی خالق کا کوئی سراغ نہیں ملا. تمام نتائج سائنسی فارمولوں کے رہین منت ہیں- کل ہم یہ کہتے تھے کہ زمین سے روئیدگی اللہ کی تخلیق ہے، آج ہمیں اس کیمیائی عمل کا مکمل ادراک ہے جس کے نتیجے میں زمین نباتات پیدا کرتی ہے- دن اور رات کے ادلنے بدلنے، ہواؤں کے چلنے، بارشیں برسنے اور سمندروں میں جہازوں کے دوڑنے اور فضاؤں میں مشینوں کے تیرنے کے اسباب سے ہم نہ صرف واقف ہیں بلکہ بے شمار چیزیں ہم خود ایجاد کرتے ہیں لہذا خدا کے وجود کے تمام دلائل قصہ پارینہ ہوگئے- لیکن اس ساری بحث میں جو چیز نظر انداز ہو جاتی ہے وہ یہ ہے کہ جن فارمولوں کے تحت یہ سب کچھ ہوتا ہے وہ فارمولے کس نے تخلیق کئیے اور وہ کیوں ہمیشہ یکساں نتائج دیتے ہیں اور کیوں اس کے برعکس نتائج نہیں دیتے-پانی کا نشیب کی طرف بہنا ایک نیچرل phenomenon ہے، اسے کس نے تخلیق کیا اور ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ گاہے ایسا ہو گاہے اس کے برعکس ہوجائے-اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جدید سائنس نے اسباب کے بے شمار پردے ہٹا دئیے ہیں لیکن وہ سوال جو پہلے بعد کے درجوں کے بارے میں تھا ٹھیک وہی سوال اولین معلوم سبب کے بارے میں اسی شدت سے موجود ہے-انسان ایک طرف Nothingness سے مادے کی تخلیق نہیں کر سکتا دوسرے وہ متعین phenomenal circle سے باہر نہیں جا سکتا-اللہ کا تعارف یہ ہے کہ اس نے ایک تو مادہ تخلیق کیا اور دوسرے سانچے، رجحانات اور phenomenal circle بنا دئیے جنہیں قرآن نے سنت اللہ کہا اور الا لہ الخلق والأمر میں الأمر سے تعبیر کیا-اللہ انسانوں کی قوت تخلیق کو رد نہیں کرتا بلکہ تبارک اللہ احسن الخالقین کے الفاظ سے انسانوں کے حسن تخلیق کو سراہتا ہے- یاد رہے کہ معجزات، کرامات، استدراج، وغیرہ میں سے کوئی شے اس سانچے سے باہر نہیں ہوتی معجزہ ، کرامت، سحر اور شعبدے قانون فطرت کے استعمال کے بارے میں علم کی مختلف سطحیں ہیں- ان میں سے کوئی شے قانون فطرت کے خلاف نہیں ہے-البتہ عام لوگ التباس فکری کا شکار ہو جاتے ہیں-جو لوگ قانون فطرت کے استعمال کے بارے میں علم کی مختلف سطحوں سے آگاہ نہیں ہوتے وہ یا تومعجزات و کرامات کا انکار کر دیتے ہیںیا انہیں خرق عادت قرار دیتے ہیں اورلا تبدیل لخلق اللہ میں ایسی تاویلات کرتے ہیں جو ما لا یرضی بھا قائلہ کے زمرے میں آتی ہیں- مولانا مناظر احسن گیلانی کی رائے یہ ھے کہ معجزہ میں سنت اللہ تبدیل نہیں ہوتی بلکہ طویل process کو  Speed up کرکے فوری نتائج حاصل کر لئےجاتے ہیں مثلاً بجائے اس کے کہ درخت کی شاخ کو جانور کھاتا، اس کا گوشت چڑیا کھاتی، اسکے انڈے سانپ کھاتا اور اس کی نسل سے سانپ پیدا ہوتا جو طویل پراسیس کے نتیجے میں درخت کی شاخ سےہی پیدا ہوا اسی پراسیس کو Expedite کرکے شاخ کی چھڑی کو سانپ بنا دیا گیا ۔
مقصد تخلیق
شاید آپ نے سنا ہو کہاللہ نے انسانوں اور جنات کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا قرآن میں یہی مقصد تخلیق بتایا گیا ہےہم سوچتے ہیں کہ یہ تو بہت مشکل کام ہےکتنا وقت کوئی عبادت کر سکتا ہےاس کی عملی تعبیر میں لوگوں نے بے حساب پریشاں گوئی کی ہےآئیے جانتے ہیں کہ اس کا مطلب کیا ہے-ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بہت مشکل کام ہے
حالانکہ یہ بہت آسان کام ہے-آئیے ایک دو مثالوں سے سمجھتے ہیںایک مرد اور عورت جب رشتہ ازدواج میں منسلک ہوتے ہیں تو کس مقصد کے لیےتاکہ دونوں اپنی جنسی ضرورت ایک دوسرے کے ذریعے پوری کریں-ایسا عمر کے ایک خاص حصے میں اور کبھی کبھی ہوتا ہے لیکن وہ ہمہ وقتی ایک دوسرے کو میسر رہتے ہیں اور رشتہ ازداوج سے وابستہ -پس ان میں سے ہر ایک پوری زندگی اس تعلق کے مقصد کو پورا کر رہا ہے. 
یا ایک فرد فوج میں بھرتی ہوتا ہےاس کا مقصد ملک کا دفاع ہے، اس کی وہ تربیت حاصل کرتا ہے-عین ممکن ہے کہ اسے اپنی پوری سروس کے دوران کبھی جنگ کی نوبت نہ آئے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے اپنے فرائض ادا نہیں کئیے یا مقصد پورا نہیں کیا کیونکہ اس نے ان تمام سالوں میں اپنے آپ کو دفاع کے لئے مستعد رکھا-پس عبادت کا یہی مطلب ہے کہ ہم اپنے آپ کو جب، جس وقت، اللہ کا جو حکم ہو اسے بجا لانے کے لیے available رکھیں-اس طرح ساری زندگی اور زندگی کا ہر کام عبادت ہو جاتا ہے-
احادیث کا مطالعہ بہتر بنانے کی ضرورت
قرآن اور فقہ کے مقابلے میں علم حدیث میں مہارت حاصل کر کے بلند علمی مقام پر فائز ہونا آسان تر تھا. اس علم کی جس طرح روایت اور تعلیم ہوتی تھی اس میں کوئی چیلنجز درپیش نہیں تھے کون سی روایت کس درجے کی ہے اور کس کس راوی کے حق میں یا خلاف کیا اقوال ہیں، بس انہیں جان لینا کافی تھا. آپ ان میں کوئی اجتہاد کر سکتے تھے نہ تبدیلی. دراصل یہ حافظہ یا دستاویزات کا کام تھا. جہاں تک فہم حدیث اور اس سے مسائل کا استنباط و استخراج کرنے کا کام تھا تو وہ فقہاء کا اختصاص تھا. جس پر فقہی مسائل کے حوالے سے فقہاء کا غیر معمولی کام ہے. لیکن کبھی کبھی مجھے خیال آتا ہے کہ شاید احادیث کا ایک بڑا ذخیرہ ایسا ہے جسے اس کے علمی پس منظر کے مطابق نہیں دیکھا گیا بلکہ انہیں فضائل و مناقب کے تناظر میں پڑھا گیا ہے-مثلاًتمام ادعیہ ماثورہ شاید چند کلمات کو دھرانے کا عمل نہیں بلکہ اس کیفیت سے گزر کر اپنے اندر آخری درجے کی تڑپ پیدا کر کے کائنات کی واحد قوت محرکہ کو اپنے حق میں جنبش دینے کی کاوش ہے. یااللہ کے نام یاد کر کے دوڑ لگا کر جنت میں جانے کے بجائے اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو کوئی تخلق بأخلاق اللہ سے متصف ہو جائے اسے جنت میں جانے سے کوئی نہیں روک سکتا. استغفار پڑھنے سے گناہ جھڑنے کے بجائے اللہ سے منصوص طریقے سے گناہ معاف کروانے سے گناہوں سے پاکی ملتی ہے.یا قسطنطنیہ کی فتح کی اہمیت کا کوئی تعلق ترک قوم یا اس سرزمین سے نہیں بلکہ وہ شہر براعظم یورپ کا گیٹ وے ہے اور وہاں سے اسلام کی دعوت پورپ لے جانے والوں کے لیے خوش خبری ہے.احادیث نبوی جو کتاب اللہ کی طرح حقیقی علم ہے اس میں غواصی سے ہی لولوئے لالہ ہاتھ آئیں گے.سورہ اخلاص، ایک تہائی قرآن کے برابر ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ تین بار سورہ اخلاص پڑھنے سے پورے قرآن کی تلاوت کا ثواب مل جاتا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کا خلاصہ تین امور ہیں-توحید، رسالت اور معاد-سورہ اخلاص توحید کا مکمل تعارف ہونے کی وجہ سے ایک تہائی کے برابر ہے-سورہ الکہف پڑھنے سے فتنہ دجال سے تحفظ کا مطلب یہ ہے کہ جب ساری دنیا دجال کے فتنہ کی زد میں ہو گی تو ایمان بچانے کا وہی طریقہ رہ جائے گا جس طریقے سے اصحاب کہف نے ایمان بچایا-مزید یہ بھی جاننے کی ضرورت ہے کہ کون سی حدیث کا پس منظر کیا ہے مثلاً
رسول اللہ سے متعدد لوگوں نے پوچھا کہ
سب سے افضل عمل کون سا ہے؟آپ نے ہر ایک کو مختلف جواب دیا-ان جوابات کا تعلق اس شخص میں موجود کسی ایسی عادت یا خصلت سے تھا جس کی اصلاح سے اس شخص کی تربیت مکمل ہو سکتی تھی.مثلاً لاحول ولا قوۃ الا باللہ کے بارے میں ارشاد ہے کہ اس کی وجہ سے ہرقسم کا غم اور پریشانی دور ہو جاتی ہے اور ہم نے یہ سمجھا کہ اس کی تسبیح کے یہ اثرات ہیں جبکہ آپ یہ بتا رہے تھے کہ پریشانی میں "تفویض" یعنی اپنی بے بسی کا اعتراف کر کے سب کچھ اللہ پر چھوڑ دینا آخری درجے کی پریشانی کا آخری مداوا ہے. استغفار سے رزق میں برکت اور اضافے کا تعلق اصلاح احوال سے ہے. حیرت ہے کہ اساتذہ حدیث بھی علوم نبوت کی تعلیمات عام کرنے کے بجائے وظائف کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں-
بکری کا کچھ اوراق کھا جانے کا افسانہ 
اس میں کوئ شبہ نہیں کہ ابن ماجہ کی وہ روایت جس میں کچھ آیات بکری کھا جانے کا ذکر ہے بلاشبہ غلط ہے۔کیونکہ اسے درست ماننے کا مطلب ان علینا جمعہ و قرآنہ اور انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون کا غلط ہونا ھے جو قرآنی آیات ہیں ۔یہی نہیں بلکہ اس روایت کا دوسرا حصہ یعنی رضاعت کبیر اپنے تمام مالہ وما علیہ کے ساتھ سیدہ عائشہ کا کردار داغ دار کرنے کی مجوسی سازش ہے جس کے لئے سہلہ کی روایت وضع کی گئ اور سیدہ عائشہ کے ذمے یہ بہتان کہ وہ اپنی بھانجیوں بھتیجیوں سے اجنبی جوان مردوں کو دودھ پلایا کرتی تھی اور وہ بھی پانچ دس گھونٹ ۔ اسی تسلسل میں رضاعی چچا والی روایت اور بخاری میں رضاعی بھائ کی تعلیم کے لئے پس پردہ غسل والی روایت سبحانک ھذا بھتان عظیم 
بدائع الصنائع کی تصریح بلاشبہ Valid ہے کہ جب سیدہ عائشہ سے انما الرضاعہ من المجاعہ والی روایت موجود ہے تو کیسے ممکن ھے کہ وہ رصاعت کبیر پر یقین رکھیں ۔پھر جو عائشہ انک لا تسمع الموتی اور لاتز روازرہ وزر اخری کی بنا پر ان احادیث کی صحت کا انکار کر دیتی ہیں جو سماع موتی اور بکاء اہل سے میت کے عذاب سے متعلق ہیں ان کے بارے میں کوئ احمق ہی یہ سوچ سکتا ھے کہ والوالدات یرضعن کے بعد وہ رضاعت کبیر کی قائل ہوں ۔آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے ۔
نماز جنازہ اور اہل حدیث 
تمام اہل علم و تحقیق اس امر پر متفق ہیں کہ فہم حدیث اور دور حاضر کے اہل حدیث میں پنبہ وآتش کا رشتہ ہے. لیکن جنازہ کی نماز جو اصلاً میت کے لیے دعا ہے اہل حدیث حضرات کے ہاں مقاصد دعا سے ہم آہنگ اور مطابق سنت ہے. اس میں بطور خاص میت کے لئے اس کا نام لے کر یا ذکر کر کے دعا کی جاتی ہے. بر صغیر کے حنفیہ ایک لگی بندھی دعا جس میں میت کا براہ راست کوئی ذکر نہیں ہوتا کرتے ہیں، البتہ اس کے لیے بطور خاص دعا کی کمی کو محسوس کرتے ہوئے جنازے کے بعد اس کے لیے دعا کی جاتی تھی اور اس میں دیوبند اور بریلوی کا جھگڑا نہیں تھا. متاخرین دیوبندی علماء نے اسے زور بازو سے بدعت قرار دے کر میت کو اہل ایمان کی دعاؤں سے محروم کر دیا. میرا معمول یہ ہے کہ جہاں مجھے جنازہ پڑھانا ہو اور متشدد دیوبندی ماحول ہو تو میں نماز کے اندر تمام مسنون دعائیں پڑھنے پر اکتفا کر تا ہوں اور جہاں زندگی معمول پر ہو وہاں جنازہ کے بعد بھی اجتماعی دعا کروا دیتا ہوں. کیونکہ اگر پنجگانہ فرائض کے بعد اجتماعی دعا اس لیے بدعت نہیں کہ دعا فی الجملہ مامور بہ ہے اوربعداز نماز قبولیت کا وقت ہے تو جنازہ کے بعد یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ دعا فی الجملہ مامور بہ ہے اور اس وقت میت شدید احتیاج کی حالت میں ہے.
اجتہادی امور میں دور خلافت راشدہ  کے فیصلے
خلافت راشدہ کے دور میں مختلف اجتہادی امور میں باہمی مشاورت یا صواب دیدی اختیارات کے تحت مختلف فیصلے ہوتے تھے جنہیں بعد میں کبھی کبھی تبدیل بھی کر دیا جاتا تھا. مثلاً حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو مانعین زکوۃ کے خلاف جنگ کرنے اور ان کے ساتھ مرتدین کا سا برتاؤ کرنے میں تردد تھا. حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی قطعی رائے کی وجہ سے انہوں نے خلیفہ کا ساتھ دیا لیکن جب وہ خود خلیفہ ہوئے تو ان قبائل کی ایسی خواتین جو باندیاں تھیں لیکن کسی مالک سے صاحب اولاد نہیں ہوئی تھیں آزاد کر دیں اور انہیں واپس ان کے قبائل میں بھیج دیا. حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح پر پابندی عائد کر دی تھی لیکن بعد میں اس پر عمل درآمد نہیں ہوا. حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور تک خمس کے حصہ داروں میں ذوی القربی سے مراد رسول اللہ کے ذوی القربی رہے جبکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ذوی القربی سے خلیفہ کے ذوی القربی مراد لئیے کیونکہ آیت میں یہ واضح نہیں ہوتا تھا کہ یہ رسول اللہ کا شخصی استحقاق ہے یا ریاستی منصب کا.ہمارے لٹریچر میں بعض مسائل میں اجماع صحابہ سے استدلال کیا جاتا ہے اور جہاں کوئی دوسری دلیل نہ ہو وہاں اس کو مضبوط ترین دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جیسے یک بارگی طلاق ثلاثہ کا نفاذ-یہ دلیل کس قدر موثر ہے؟ تحقیق کے طلبہ کو عہد صحابہ کرام کے اجتہادات کو امام شافعی کے اس بیان کی روشنی میں از سر نو دیکھنا چاہئیے. امام لکھتے ہیں
فی ھذا دلالۃ علی انھم یسلمون لحاکمھم وان کان رایھم خلاف رایہ، وان کان حاکمھم قد یحکم بخلاف ارائھم، لا ان جمیع احکامھم من جھۃ الإجماع عنھم...... لا یقال لشئ من ھذا اجماع ولکن ینسب کل شئ الی فاعلہ، فینسب الی ابی بکر فعلہ والی عمر فعلہ والی علی فعلہ، ولا یقال لغیرھم ممن اخذ عنھم :موافق لھم ولا مخالف
یہ مثال اس امر کی دلیل ہے کہ صحابہ کرام اپنے حاکم کی اطاعت کرتے تھے خواہ ان کی اپنی رائے حاکم کی رائے کے برعکس ہو 
جبکہ حاکم بارہا ان کی رائے کے برعکس فیصلے کر دیتے تھے. یہ کہنا درست نہیں کہ ان تمام آراء پر صحابہ کا اجماع ہوتا تھا. ان میں سے کسی بات کو بھی اجماع صحابہ کہنا درست نہیں بلکہ ہر فرد کے عمل کو اس فرد کی طرف منسوب کرنا چاہئیے. حضرت ابوبکر کے فعل کو ان کی طرف، حضرت عمر کے فعل کو ان کی طرف اور حضرت علی کے فعل کو ان کی طرف. دوسرے اہل علم ان میں سے کسی رائے کو ترجیح دیں تو یہ کہنا درست نہیں کہ فلاں ان کے مخالف ہے یا موافق ہےامام شافعی نے کتاب الام 10:109-110 میں متعدد مثالوں سے اپنا نقطہ نظر واضح کیا
اگر امام شافعی کی اس رائے کو بنیاد بنا کر عہد خلفاء راشدین بلکہ دور ملوکیت کے فیصلوں کا جائزہ لیا جائے اور لوگوں کے فکری اور نظریاتی اختلافات بلکہ طرز عمل کے تضادات کا مطالعہ کیا جائے تو بہت سی مفید معلومات سامنے ا سکتی ہیں
حفاظتی حصار
جب ہم گاڑی چلا رہے ہوں تو یہ خوف کسی نہ کسی درجے میں ہوتا ہے کہ میں لاکھ احتیاط کروں کوئی بھی کسی نہ کسی طرف سے کچھ بھی غلط کر کے نقصان کر سکتا ہے. اس کے لئے آپ کوئی مادی تدبیر نہیں کر سکتے.میں سواری پر بیٹھنے کی دعافالله خیر حافظا وھو ارحم الراحمين اور لہ معقبت من بین یدیہ ومن خلفہ یحفظونہ من امر اللہ پڑھ لیا کرتا تھا
ایک روز میں نے سیرت طیبہ سے ایک واقعہ پڑھاحضرت حذیفہ کہتے ہیںغزوہ خندق کی آخری رات بھوک سے نڈھال تھا اور سخت سردی سے کانپ رہا تھا. بیوی کا ایک دوپٹہ اوڑھ رکھا تھا کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے بلایا اور کہا باہر سے لمبا چکر لگا کر خندق کے اس پار جاؤ اور دیکھو کہ اس سردی اور شدید آندھی میں مشرکین کا لشکر کیا کرنے جا رہا ہے، لیکن کوئی گڑ بڑ نہ کرنا، پھر آپ نے میرے لیے دعا فرمائیاللھم احفظہ من بین یدیہ و من خلفہ و عن یمینہ و عن شمالہ ومن فوقہ و من تحتہ
دعا کا یہ اثر ہوا کہ سردی اور بھوک کا نام و نشان بھی نہیں رہا.میں بے خوف و خطر لشکر کفار میں جا پہنچااتنے میں ابوسفیان تقریر کے لیے کھڑا ہوا اور کہاہر شخص اپنے ساتھ والے کو پہچان لے مبادا مسلمانوں کا کوئی جاسوس موجود ہومیں نے فوراً ساتھ والے کا ہاتھ پکڑا اور پوچھا، کون ہواس نے بتا دیا، لیکن مجھ سے نہیں پوچھا-پھر ابوسفیان نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ،زاد راہ ختم ہو رہا ہے، یہود کی طرف سے سپلائی لائن قابل اطمینان نہیں اور ان کے وعدوں کا بھی اعتبار نہیں-میں تو واپس چلا، تم سب اپنے اپنے جتھے کے ساتھ واپس چلے جاؤ- حذیفہ کہتے ہیں، اگر رسول اللہ نے روک نہ دیا ہوتا تو ابوسفیان مجھ سے بچ کر نہیں جا سکتا تھا.میں واپس آ گیا اور آکر رسول اللہ کو مکمل رپورٹ دی-حفاظت کی جو دعا رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حذیفہ کے لیے کی تھی بہت تیر بہدف دعا ہے- اب میں جب بھی گاڑی پر بیٹھتا ہوں تو یہی دعا پڑھ کر مطمئن ہو جاتا ہوں-البتہ اس کے صیغے حسب حال تبدیل کر لیتا ہوں اور وہ یوں کہاللھم احفظنی من بین یدی ومن خلفی و عن یمینی و عن شمالی ومن فوقی ومن تحتی
اے اللہ، آگے، پیچھے، دائیں، بائیں اور اوپر، نیچے سے میری حفاظت فرما.
دیوبند 
ایک علمی، فکری اور مزاحمتی تحریک کا نام ہے جس کے پس منظر میں تاریخ کا گہرا شعور کارفرما تھا. دیوبند کے بانیان معاشی طور پر خوش حال اور سماجی اعتبار سے اشرافیہ میں شامل تھے. برٹش انتداب، سرکاری زبان کی تبدیلی، مسلمانوں کے خلاف انگریزوں کے رویوں اور مسلمانوں کی جائدادوں کی قرقیوں نے واضح کر دیا تھا کہ یہاں بھی اندلس کی داستان ستم دھرائی جا سکتی ہے. اس کے مداوا کے لیے ان اہل دانش نے فیصلہ کیا کہ اقتدار آنی جانی شے ہے لیکن اگر یہاں بھی سپین کی طرح کلمہ، قرآن، دین اور اسلام کا کوئی نام لیوا نہ رہا تو ہم نبی امی کا سامنا کیسے کریں گے. یہ فیصلہ کیا گیا کہ اصل دین کو باقی رکھنے کے لیے درس گاہ قائم کی جائے اور اس کے توسط سے آزادی کی جد و جہد کو زندہ رکھا جائے. شروع کے لوگوں نے پتے اور درختوں کی جڑیں کھا کر دین پڑھا اور پڑھایا. مسلمانوں کی قربانیاں رنگ لائیں اور بتدریج حالات برصغیر کی آزادی کی طرف اور تقسیم ہند کے رخ پر آنے شروع ہو گئے. یہ ایک نازک مرحلہ تھا. اگر دیوبند پورا تقسیم ملک کے خلاف ہوتا تو پاکستان میں غدار کے مترادف ہو جاتا اور اگر مکمل پاکستان کے حق میں ہوتا تو انڈیا میں اس کا وجود ناممکن ہو جاتا. قدرت کا انتظام تھا یا اہل علم کی دانش تھی کہ مولانا تھانوی اپنے تمام متعلقین کے ساتھ تحریک پاکستان کی حمایت میں 
تھے اور مولانا مدنی اپنے پورے حلقے کے ساتھ گانگریس کے ساتھ تھے. میرے خیال میں یہ بحث دماغی کمزوری کی علامت ہے کہ ان میں سے کون درست تھا. میری رائے میں ان کا اختلاف ہی راہ صواب تھا. تھانوی مکتب فکر علمی اور فکری اپج رکھتا تھا اس لیے مدارس کے قیام اور تعلیمی مشاغل کی طرف متوجہ رہا. مدنی مکتب فکر سیاست میں دلچسپی رکھنے کے باعث ملکی سیاست میں سرگرم ہو گیا. چھوٹے چھوٹے اختلافات کے باوجود اس طبقے کو اہل علم ہونے کے باعث عوام کا اعتماد حاصل رہا. پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کے اقتدار نے ان میں امید کی یہ کرن روشن کی کہ جس اسلامی نظام کا ہم نے خواب دیکھا تھا وہ اس مرد حق کے ذریعے پورا ہو سکتا ہے. بھٹو کی روش بھی علماء کے تنفر کا باعث تھی اور جنرل صاحب کو بھی حمایت کی ضرورت تھی. یہ دونوں طبقے یعنی آرمی اور علماء دیوبند ایک دوسرے کے قریب ہوتے گئے اور
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائ تھی 
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا