تعمق اور تشدد

مصنف : ڈاکٹر مولانا محمد عمار خان ناصر

سلسلہ : دین و دانش

شمارہ : مارچ 2022

یہ حجۃ اللہ البالغہ کے المبحث السادس میں باب احکام الدین من التحریف سے اقتباس ہے۔ شاہ صاحب نے اس میں تحریف کے اسباب میں سے دو اسباب یعنی تعمق اور تشدد کا ذکر کیا ہے۔
تعمق یہ ہے کہ شارع نے کسی چیز سے منع کیا ہو اور کوئی شخص اپنے تئیں تقوی اور احتیاط کی بنا پر اس سے ملتی جلتی چیزوں یا اس کے بعض مظان ودواعی کو بھی ممنوع سمجھنے لگے اور جہاں روایات میں تعارض کی وجہ سے اشتباہ ہو تو وہ مشکل حکم کو اختیار کرنے کو ترجیح دے اور اسے واجب قرار دے دے۔ شاہ صاحب نے اس کی مثال روزے میں سحری نہ کھانے اور بیوی سے بوس کنار کو حرام سمجھنے سے دی ہے جس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اصلاح فرمائی۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر عمل کو دینی عمل سمجھنا اور اسے شرعی مامورات ومنہیات کے اسلوب میں بیان کرنا بھی شاہ صاحب کے نزدیک تعمق میں داخل ہے، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے کام عام انسانی تقاضوں کے تحت یعنی عادت کے طور پر بھی کیے ہیں۔
تشدد یہ ہے کہ عبادت اور قرب الہی کے ایسے طریقے اختیار کیے جائیں جن کا شریعت نے حکم نہیں دیا، جیسے ترک نکاح، خود کو خصی کر لینا، ہمیشہ روزے رکھنا وغیرہ، یا سنن وآداب کو بھی واجب کا درجہ دے کر اسی طرح ان کا التزام کیا جائے۔
اقتباس کے آخر میں شاہ صاحب ایک اہم بات واضح کرتے ہیں جس کی طرف مذہبی پیشوائی کے منصب پر فائز حضرات کو توجہ دلانا اس پوسٹ کا اصل مقصد ہے۔ شاہ صاحب کہتے ہیں کہ تعمق یا تشدد کوئی عام آدمی اپنے لیے اختیار کرے تو یہ بھی تحریف ہے، لیکن قوم کے پیشوا اور معلمین اگر یہ رویہ اختیار کریں تو یہ دین کی اجتماعی تحریف کا ذریعہ بن جاتا ہے، کیونکہ لوگ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ یہی شارع کی مرضی ہے۔ شاہ صاحب کہتے ہیں کہ یہود ونصاری کے رہبان کا اصل مرض یہی تھا۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں کے مروجہ تصورا ت کے برعکس، مذہبی پیشوائی اور راہنمائی کے منصب کے حاملین کی ترجیح یہ نہیں ہونی چاہیے کہ وہ لوگوں کے سامنے سنن ومستحبات کی پابندی کے باب میں آئیڈیل نمونہ بن کر رہیں، چہ جائیکہ
 باقاعدہ تعلیم وتلقین سے آداب ومستحبات کو لوگوں کے سامنے واجب کے درجے میں بیان کرنے لگیں۔ یہ کام وہ اپنی ذاتی اور نجی زندگی میں کر سکتے ہیں، لیکن لوگوں کے سامنے نمونہ بنتے ہوئے انھیں اس کو ملحوظ رکھنا ہے کہ فرائض وواجبات اور آداب ومستحبات کا امتیاز مٹنے نہ پائے اور لوگ ان کے شخصی نمونے کو آئیڈیلائز کرتے ہوئے تعمق یا تشدد کی صورت میں دین میں تحریف کے مرتکب نہ ہوں۔


 

بشکریہ : 10