جوزف مسیح

مصنف : خطیب احمد

سلسلہ : چھوٹے نام بڑے لوگ

شمارہ : فروری 2022

میری کئی سال سے ایک عادت ہے کہ رکشہ ڈرائیوروں، پیدل پھیری کرنے والوں، چھوٹے سکیل کے ملازمین سے کسی بھی محکمہ میں سامنا ہو جائے ، بچوں کے لیے سائیکل پر غبارے پاپڑ وغیرہ بیچنے والوں یا کوئی اور پھیری کرنے والوں، ریڑھی پر چنے مکئی یا چھلی بیچنے والوں، گلی محلے کے چھوٹے دوکانداروں، مساجد کے امام صاحبان، خادمین وغیرہ میں سے کسی کو کچھ پیسے ہر ماہ دیتا ہوں۔ مطلب ہزار دو ہزار یا پانچ ہزار جتنا بھی دے سکوں۔ یہ کوئی زکوۃ خیرات نہیں ہوتی نفلی صدقہ ہوتا ہے کہ یہ سفید پوش لوگ مانگتے نہیں ہیں محنت کرکے اپنا پیٹ پالنے کی کوشش میں ہوتےہیں تو انکی کچھ مدد ہوجائے۔ میرا مالک میری ضرورت اور قابلیت سے کہیں زیادہ رزق مجھے دے رہا ہے۔ 
آج زندگی میں پہلی بار کسی نے مجھ سے پیسے لینے سے انکار کیا۔ مطلب صحیح والا انکار فارمیلٹی نہیںجسکا مطلب انکار ہی تھا ورنہ لوگ لے لیتے ہیں۔ حافظ آباد کے ایک نواحی گاؤں میں آج جانا ہوا ۔ بارش کیوجہ سے کپڑے کچھ بھیگے ہوئے تھے۔ ایک گلی میں موجود چھوٹی سی دوکان پر رکا۔ جس میں کل ملا کر کوئی دس ہزار کا سودا سلف ہوگا۔ کچھ بھی نہیں لینا تھا۔ دیکھا دوکاندار میری طرح ہی جوان لڑکا ہے اور سموسے بنا رہا ہے۔ میں نے اپنے دستانے ہیلمٹ اتارا اور بائیک بند کرکے دوکان کے اندر چلا گیا۔ مجھے سموسے نہیں پسندنہ جانے کیوں اسے کہا کہ ایک سموسہ دے دو بھائی۔ اس نے پوچھا یہیں کھائیں گے؟ میں نے کہا جی۔ اس نے مجھے اپنی کرسی پیش کی کہ اس پر بیٹھ جاؤں۔ اس نے پلاسٹک کی عام سے سلیپر پہنی ہوئی تھی۔ پاؤں کی انگلیاں ٹھنڈ سے سرخ ہو رہی تھیں۔ میں نے پوچھا بھائی جان شوز پہنیں تو کہا سر یہیں اندر ہی رہنا ہوتا ہے تو کم ہی پہنتا ہوں ابھی اتارے ہیں۔ دوکان کے اندر لگی ایک کھڑکی پر اس نے دستک دی اور دور سے بارش میں بھیگتی  ہوئی ایک لڑکی آئی۔ اسے اس نے کہا کہ ایک پلیٹ اور چمچ دو، اچھی طرح دھو کر دینا۔ دو منٹ میں پلیٹ اور چمچ آگئی۔ میں نے کہا دو سموسے کر دو بھائی۔ کتنے کا ہے ایک؟ بولا سر پندرہ روپے کا ایک ہے۔ میں نے کہا ہمارے پاس تو بیس کا ہے۔ وہ بولا یہاں تو لوگ دس کا مانگتے ہیں اس لیے بیس کا نہیں بیچ سکتے۔ خیر میں نے سموسے کھائے۔ دہی کی چٹنی بہت اچھی بنی ہوئی تھی۔ میں نے حسب عادت 1 ہزار کا نوٹ اسے دیا اور دوکان سے فوراً باہر نکل آیا۔ اس نے آواز دی کہ سر بقایا نہیں لینا؟ میں نے کہا نہیں۔ بولا ایک منٹ اندر آئیں ذرا
میں دوبارہ اندر گیا۔ اس نے پوچھا آپ کن کے گھر مہمان آئے ہیں؟ میں نے کہا سوری برادر یہ نہیں بتا سکتا۔ اس نے کہا  کوئی بات نہیں۔ بولا سر میری ایک دن کی سیل مشکل سے ہزار 15 سو ہوتی ہے۔آپ ہزار دے رہے ہیں اتنی بچت تو عید والے دن ہی شاید ہوتی ہو۔ میں نہیں لے سکتا یہ پیسے۔ آپ تو پیسے دے کر چلے جائیں گے۔مجھے پھر روز امید رہے گی کہ کوئی آپ جیسا آئے یا آپ دوبارہ بھی آئیںاور میں ایسی محنت نہیں کروں گا جیسی اب کرتا ہوں۔ میں جتنا کما لیتا ہوں خدا کا شکر ہے میرے لیے بہت ہے۔ میں اس پر قناعت کیے ہوئے ہوں۔ میری ضروریات بڑی اچھی چل رہی ہیں۔ ایک بھینس ہے دو بکریاں ہیں گزارہ اچھا ہو رہا ہے۔ یہ پیسے کسی ایسے فرد کو دیجئے گا جو واقعی ضرورت مند ہو۔ مجھے نہ بگاڑیں۔ برا بھی نہ منائیے گا۔ میں نے بڑا اصرار کیا مگر وہ نہ مانا۔ اور میرا جوتا جو اگلے ٹائر سے اڑنے والے کیچڑ سے خراب ہوا تھا اسنے دیکھ لیا۔ ایک کپڑا لیکر فوراً نیچے بیٹھ گیا اور صاف کرنے لگا۔ میں نے فوراً اسے روکا کہ یہ کیا کر رہے ہو؟ اٹھو۔ بولا آپ مہمان آئے ہیں جوتا صاف کر لیں۔ میں نے ناراض ہوتے ہوئے کہا مجھے کہو نا خود کیوں کر رہےہو؟ بولا سر آپ کے ہاتھ گندے ہوجائیں گے میں تو ابھی بھینس کو چارہ ڈالنے جانا ہے ہاتھ دھو لوں گا۔ کپڑا بھی گندہ ہی ہے۔ میں نے کہا نہیں تم رہنے دو ابھی پھر جوتا گندہ ہی ہوناہے-
میں نے پوچھا یہاں مسجد ہے کوئی پاس؟ مجھے عصر پڑھنی ہے۔ بولا سر یہ تو مسیحی بستی ہے۔ یہ دو گلیاں مسیحی برادری کی ہیں۔ گاؤں کے عین وسط میں مسجد ہے وہ دیکھیں 
مینار نظر آرہا ہے۔ میں نے کہا آپ کا نام کیا ہے؟ بولا جوزف مسیح۔ میری آنکھیں پانی سے بھر آئیں۔ اسے گلے لیا۔ مجھے جوزف کی طرح کے ہی نوشہرہ میں ملنے والے چاچا ایمان المسیح یاد آگئے۔ انکا قصہ بھی چند ماہ پہلے لکھا تھا۔ اور بے ساختہ نہ جانے کیوں میں رونے لگ گیا۔ وہ نہیں سمجھ پا رہا تھا مجھے کیا ہوا ہے۔ نہ مجھے کچھ پتا تھا۔ میں نے اسکے بڑے ہی ترلے لیے کہ یار یہ پیسے رکھ لو مجھے اچھا لگے گا۔ مگر جوزف نہ مانا۔ اور ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے لگ گیا کہ خداوند آپکی نیت کو قبول کرے۔ اسنے بتایا کہ سر بائبل مقدس میں کئی جگہ لکھا ہے ہم کسی حقدار کا حق نہیں لے سکتے۔ لے لیں گے تو وہ چیز ہمارے لیے باعث برکت نہیں ہوگی۔ بلکہ دنیا میں ہی سخت سزا ملے گی۔ مجھے وہاں جو کام تھا وہ کیا اور واپس آگیا۔
 جوزف ایک سادہ لوح نوجوان دلیل کے ساتھ مجھے انکار کرنے کی وجہ سے ہمیشہ میری یادداشت میں رہے گا۔ اور میرے پاس اسے قائل کرنے کے لیے کوئی دلیل نہیں تھی۔