دل کا فیصلہ یا دماغ کا

مصنف : خطیب احمد

سلسلہ : سماجیات

شمارہ : جنوری 2022

لیڈی ولنگڈن ہسپتال لاہور کے لیبر وارڈ میں دو درجن کے قریب خواتین درد زہ سے شور مچا رہی ہیں۔ جن لڑکیوں کی پہلی ڈیلیوری ہے وہ پہلے سے داخل شدہ ڈیلیوری کے انتظار میں آہ و بکا کرتی خواتین کو دیکھ کر گھبرا رہی ہیں۔ ان کے بلڈ پریشر بڑھ رہے ہیں اور وہ یہاں سے جانا چاہتی ہیں۔ 2 دسمبر سال 2020 کی ایک یخ بستہ رات کے بارہ بجے گھڑی سے تاریخ بدل کر 3 ہو گئی ہے۔ حافظ آباد سرکاری ضلعی ہسپتال سے 220 بلڈ پریشر کی وجہ سے ریفر ہوکر 1122 کی ایمبولینس میں ایک حاملہ لڑکی شمامتہ العمبر بھی اسی لیبر وارڈ میں ابھی ابھی آئی ہے۔ دیگر خواتین کو دیکھ کر اسکا دل گھبرا گیا ہے۔ ساتھ والے بیڈ پر لیٹی لڑکی نے اسے بتایا کہ وہ تین دن سے اسی حالت میں ہے۔ ڈاکٹر نہ ڈیلیوری کر رہی ہیں نہ چھٹی دے رہے ہیں۔ کہتی ہیں انتظار کرو۔ تم میری مانو تو فوراً یہاں سے چلی جاؤ۔ شمامہ اپنے خاوند کو بلاتی ہے اور وہاں سے کہیں اور جانے کا کہتی ہے۔ مگر وہ اسے بتاتا ہے کہ میں نے ہسپتال کے ایم ایس کو ایک فون کروایا ہے۔ آپ صبر کریں کچھ ہی دیر بس۔ 
چند منٹ میں لیبر وارڈ سے شمامہ کے خاوند کو لیبر وارڈ کے پاس بلانے کا پیغام لے کر ایک نرس باہر آتی ہے۔ وہ فوراً وہاں جاتا ہے تو ایک پروفیسر ڈاکٹر اسے کڑوے سے لہجے میں بتاتی ہے آپ کی سفارش آگئی ہے۔ اب بتائیں کیا کرنا ہے۔ وہ اسے کہتا ہے کہ حالات کیا ہیں؟ وہ بتاتی ہے کہ لائیکر ختم ہے۔ حمل کا دورانیہ بھی پورا ہو چکا۔ بچے کا وزن 900 گرام کے قریب ہے۔ بچے کی مناسب گروتھ نہیں ہو سکی۔ IUGR بچہ ہے۔ کچھ اور ایسے مسائل بھی ہیں جن کی وجہ سے بچے کا زندہ رہنا کسی طرح بھی ممکن نہیں ہے۔ ہمارا ایک پرو ٹو کول ہے کہ ہم ماں کو بچاتے ہیں۔ آپ کا بیٹا زندہ نہیں بچنا آپریشن کریں یا نارمل ڈیلیوری۔ بلڈ پریشر نارمل کرنے کی کوشش شروع کر دی ہے۔ آپ کی اہلیہ یہاں سے جانا چاہتی ہے یا اپنا آپریشن کرانا چاہتی ہے اس نے مجھ سے بڑے سخت لہجے میں بات کی ہے۔ اسی کا اثر میرا آپ کے ساتھ بدلہ ہوا لہجہ ہے۔ آپکی سفارش نہ بر وقت آتی تو آپ کو ڈسچارج کیا جا چکا ہوتا۔ آپ ٹیچر ہیں محترم ہیں پرائیویٹ والے دو منٹ میں چیرا دے کر بچہ نکالیں گے اور شیشے میں لگا کر پیسے لینے کا میٹر آن کر دیں گے۔ دو چار لاکھ دے کر چند دن میں مردہ بچہ آپکے ہاتھ میں پکڑا دیں گے۔ اور آپکی اہلیہ کا فضول میں آپریشن کر دیں گے جو اس کیس میں ایک کریمینل ایکٹ ہے۔ آپ ہماری طرح سفید پوش سرکاری ملازم ہیں۔ آپ کا تعارف بڑے اچھے الفاظ میں کرایا گیا ہے   آپ کو میں مشورہ بھی دے سکتی ہوں مگر زور دے کر کہوں گی آپریشن کی طرف نہ جائیں  میں پروفیسر ہوں اور پروفیسر سے اوپر ڈاکٹر نہیں ہوتا یہ ماہرانہ رائے ہے جو آپ کو دے دی ہے۔ میں فارم بھیجتی ہوں اس پر سائن کر دیں۔ شمامہ کے خاوند نے نم آنکھوں سے ڈاکٹر کا شکریہ ادا کیا اور اسے کہا کہ میری اہلیہ کو ایک منٹ یہاں بھیجیں۔ اس نے کہا اوکے بھیجتی ہوں۔ اگلے ہی لمحے ڈری سہمی روتی ہوئی شمامہ اپنے خاوند کے رو برو کھڑی تھی۔ دیکھیں مجھے ابھی یہاں سے لے کر چلیں۔ یہ لوگ کہہ رہے ہیں آپ کے بچے کے زندہ بچنے کے چانسز کم ہیں اور ہم آپریشن نہیں کریں گے۔ بچہ تو درد سہ نہیں سکتا بڑا کمزور ہے۔ میں تو آپریشن کا درد سہہ سکتی ہوں۔ کیا پتا ہمارا بیٹا بچ جائے۔ اس طرح تو با لکل بھی نہیں بچے گا۔ بس آپ چلیں یہاں سے۔ اسکے خاوند نے اسکا ہاتھ پکڑا اور خود کو نارمل رکھتے ہوئے کہا کہ میری ڈاکٹر سے بات ہوگئی ہے۔ آپریشن وہ صرف اس لیے نہیں کر رہے کہ بلڈ پریشر بہت زیادہ ہے۔ زندگی اور موت تو میرے مالک کے اختیار میں ہے۔ ڈاکٹر وہ ہیں ہم نہیں۔ انہیں انکا کام کرنے دیں آپ پریشان نہ ہوں۔ آپ کے ساتھ یہاں کچھ بھی غلط نہیں ہوگا۔ وہ رونے لگتی ہے کہ آپ چلیں اور آپریشن ہی کروائیں کسی پرائیویٹ ہسپتال سے۔ وہ منتیں کرتی ہے کہ میرے بیٹے کو بچا لو چاہے میں زندہ رہوں یا نہیں۔ اسکا خاوند اسے جھوٹی سچی تسلی دے کر اندر بھیجتا ہے۔ اور فارم منگوا کر سائن کر دیتا ہے کہ نارمل ڈیلیوری کریں۔ اسی اثنا میں ایک لڑکی اندر سے باہر آتی ہے۔ وہ اسے کہتی ہے آپ شمامہ کے خاوند ہیں؟ وہ کہتا جی۔ تو وہ اسے کہتی ہے کہ میرا بھی بالکل آپ والا ہی مسئلہ ہے۔ میں تو جا رہی ہوں آپریشن کروانے۔ زندگی موت اللہ کے ہاتھ میںہے ہم کیسے اپنے ہاتھوں سے بچہ مار دیں؟ آپ باہر آئیں اور میرے خاوند کو اپنا نمبر دیں ہم آپکو صبح بتائیں گے کہ آپ کیا کریں۔ وہ باہر آتا ہے اسکے خاوند کو نمبر دیتا ہے۔ اور ویٹنگ ایریا میں بیٹھ جاتا ہے۔ رات کے 3 بجے اسے ایک کال آتی ہے کہ آپکا بیٹا ہوا ہے۔ میں لیبر وارڈ میں ہی ایک مریض کے ساتھ ہوں۔ مگر مجھے نہیں معلوم وہ زندہ یا فوت شدہ۔ نارمل ہی ہوا ہے۔ چند منٹ بعد نرس باہر آکر بتاتی ہے کہ آپکا بچہ دوران پیدائش وفات پا گیا ہے۔ اور دوسری نرس آنسو روکتے ہوئے باپ کو اسکا بیٹا پکڑا دیتی ہے۔ وہ اسے کچھ پیسے دینے کے لیے پرس نکالنے لگتا ہے مگر وہ انکار کرکے روتے ہوئے واپس چلی جاتی ہے اور کہتی ہے کہ آپکی بیگم کو ابھی کچھ نہیں پتا اسے ابھی چھٹی نہیں ملنی۔ڈاکٹر بڑھے ہوئے بلڈ پریشر کی وجوہات تلاش کریں گے کہ آئندہ ایسا ہونے سے روکا جا سکے۔ آپ بیٹے کو لے جا کر دفن کر دیں۔ 
وہ کہتا ہے کہ نہیں ماں کو ایک بار بیٹا دکھانا اسکی گود میں رکھنا ضروری ہے۔ اسے ساری عمر سکون نہیں ملے گا کہ میں نے اپنے چاند کو دیکھا بھی نہیں۔ صبح آٹھ بجے ڈاکٹر نے چھٹی دے دی۔ شمامہ باہر آئی تو اپنے خاوند سے پوچھا کہ ہمارا بیٹا کیسا ہے دکھنے میں؟ آپ پر گیا ہے ناں؟ وہ کہتا ہے ہاں سارے کا سارا ہی مجھ پر گیا ہے۔ آؤ آپ کو دکھاتا ہوں۔ وہ لوگ پارکنگ میں کھڑی کار میں بیٹھتے ہیں اور فرنٹ سیٹ پر بیٹھی شمامہ کی ساس بچہ اپنی بہو کی گود میں رکھ دیتی ہے۔ وہ اس بات سے لاپروا کہ بچہ فوت ہوچکا ہے۔ اسے چومتی ہے۔ اور وہاں اسکا خاوند خود پر ضبط نہیں رکھ پاتا۔ رونے لگ جاتا ہے۔ شمامہ بچے کی آنکھیں کھولتی ہے اسکے دل کی دھڑکن سننے کی کوشش کرتی ہے جو خاموش ہے۔ اور رونے لگ جاتی ہے۔ گاڑی چلتی ہے۔ وہ لوگ گھر آجاتے ہیں۔ 
شمامہ اپنے خاوند سے کئی ماہ ناراض رہتی ہے۔ ٹھیک سے بات نہیں کرتی۔ کہ اسنے آپریشن کیوں نہ کروایا۔ کیا معلوم ہمارا بیٹا اپنی اکلوتی بہن کے پانچ سال بعد پیدا ہونے والابھائی زندہ بچ جاتا۔ 
دو ماہ بعد شمامہ کے خاوند کو ایک فون کال آتی ہے کہ آپ کو لیڈی ولنگڈن ہسپتال میں ہم ملے تھے۔ آپ کے بچے کے ساتھ کیا ہوا؟ وہ بتاتا ہے کہ وہ تو اسی رات پیدا ہو کر وفات پا گیا تھا۔ وہ شخص روتے ہوئے بتاتا ہے کہ ہم نے جذباتی ہوکر آپریشن کروا لیا۔ آپریشن ٹھیک نہیں ہوا تھا آج تک بیگم ٹھیک نہیں ہو سکیں۔ ایک ماہ بچہ شیشے میں لگا
 رہا اور 4 لاکھ روپے ہسپتال والوں کو دے کر ایک ماہ چٹائیوں پر دن رات بیٹھ کر ہم بچے کی لاش گھر لائے تھے۔ میری بیگم نے آج مجھے کہا کہ اس حافظ آباد والی لڑکی کے خاوند کو تو پوچھیں انہوں نے جذبات میں آکر ہمارے والی غلطی تو نہیں کر دی تھی۔ وہ اب پچھتا رہی ہے کہ کیوں ڈاکٹرز کی بات نہ مانی۔ پیسے تو ضائع ہوئے مگر جو آپریشن ہم نے اپنی مرضی سے کرایا وہ غلط تھا۔ ایک ماہ جو ہم بچے کو زندگی موت کی کشمکش میں دیکھ کر ہسپتال میں خوار ہوئے وہ ایک ایک  دن ہم پر قیامت تھا۔ 
شمامہ کا خاوند کوئی اور نہیں میں خود ہوں۔
 ایک سال بعد برف پوش پہاڑ کی چوٹی پر گزری رات میں یہ واقع اس لیے لکھ سکا ہوں اور اپنی کتاب میں بھی شامل کر رہا ہوں کہ کچھ فیصلے ہمیں دل سے نہیں بلکہ دماغ سے کرنے ہوتے ہیں۔ وقتی دکھ درد ہمیں آنے والی بڑی آزمائش اور تکلیف سے بچا سکتا ہے اگر ہم جذبات کو خود پر حاوی نہ ہونے دیں۔ لکھا اسلیے ہے کہ شاید کسی کو آنے والے وقت میں ایسا کوئی مشکل فیصلہ کرنے میں آسانی ہو جو میں نے دل کی آواز کو نظر انداز کرکے کیا تھا۔