جرابوں پر مسح

مصنف : ڈاکٹر مولانا تہامی بشر علوی

سلسلہ : دین و دانش

شمارہ : دسمبر 2021

مولانا مودودی ؒ کی رائے:
سوال: موزوں اور جرابوں پر مسح کے بارے میں علما میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ میں آج کل تعلیم کے سلسلے میں اسکاٹ لینڈ کے شمالی حصے میں مقیم ہوں۔ یہاں جاڑے کے موسم میں سخت سردی پڑتی ہے اور اونی جراب کا ہر وقت پہننا ناگزیر ہے۔ کیا ایسی جراب پر بھی مسح کیا جاسکتا ہے؟ براہ نوازش اپنی تحقیق احکام شریعت کی روشنی میں تحریر فرمائیں؟
جواب: جہاں تک چمڑے کے موزوں پر مسح کرنے کا تعلق ہے، اس کے جواز پر قریب قریب تمام اہل سنت کا اتفاق ہے مگر سوتی اور اونی جرابوں کے معاملہ میں عموماً ہمارے فقہا نے یہ شرط لگائی ہے کہ وہ موٹی ہوں اور شفاف نہ ہوں کہ ان کے نیچے سے پاؤں کی جلد نظر آئے، اور وہ کسی قسم کی بندش کے بغیر خود قائم رہ سکیں۔میں نے اپنی امکانی حد تک یہ تلاش کرنے کی کوشش کی کہ ان شرائط کا ماخذ کیا ہے مگر سنت میں ایسی کوئی چیز نہ مل سکی۔ سنت سے جو کچھ ثابت ہے، وہ یہ ہے کہ نبیﷺ نے جرابوں اور جوتوں پر مسح فرمایا ہے۔ نسائی کے سوا کتب سنن میں اور مسند احمد میں مغیرہؓ بن شعبہ کی روایت موجود ہے کہ نبیﷺ نے وضو کیا اور مسح علی الجوربین والنعلین (اپنی جرابوں اور جوتوں پر مسح فرمایا)۔
ابو داؤد کا بیان ہے کہ حضرت علیؓ، عبداللہ بن مسعودؓ، براء بن عازبؓ، انس بن مالکؓ، ابو امامہؓ، سہلؓ بن سعد اور عمروؓ بن حریث نے جرابوں پر مسح کیا ہے۔ نیز حضرت عمرؓ اور ابن عباسؓ سے بھی یہ فعل مروی ہے بلکہ بیہقی نے ابن عباسؓ اور انس بن مالکؓ سے اور طحاوی نے اوس بن ابی اوس سے یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ حضورﷺ نے صرف جوتوں پر مسح فرمایا ہے۔ اس میں جرابوں کا ذکر نہیں ہے اور یہی عمل حضرت علیؓ سے بھی منقول ہے۔ ان مختلف روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف جراب اور صرف جوتے اور جرابیں پہنے ہوئے جوتے پر مسح کرنا بھی اسی طرح جائز ہے جس طرح چمڑے کے موزوں پر مسح کرنا۔ ان روایات میں کہیں یہ نہیں ملتا کہ نبیﷺ نے فقہا کی تجویز کردہ شرائط میں سے کوئی شرط بیان فرمائی ہو اور نہ ہی یہ ذکر کسی جگہ ملتا ہے کہ جن جرابوں پر حضورﷺ نے اور مذکورہ بالا صحابہ کرامؓ نے مسح کیا، کس قسم کی تھیں۔ اسی لیے میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ فقہا کی عائد کردہ ان شرائط کا کوئی ماخذ نہیں ہے اور فقہا چوں کہ شارع نہیں ہیں، اس لیے ان کی شرطوں پر اگر کوئی عمل نہ کرے تو وہ گناہگار نہیں ہوسکتا۔
امام شافعیؒ اور امام احمدؒ کی رائے یہ ہے کہ جرابوں پر اس صورت میں آدمی مسح کرسکتا ہے جبکہ آدمی جوتے اوپر سے پہنے رہے۔ لیکن اوپر جن صحابہ کے آثار نقل کئے گئے ہیں، ان میں سے کسی نے بھی اس شرط کی پابندی نہیں کی ہے۔مسح علی الخفین پر غور کرکے میں نے جو کچھ سمجھا، وہ یہ ہے کہ دراصل یہ تیمم کی طرح ایک سہولت ہے جو اہل ایمان کو ایسی حالتوں میں دی گئی ہے جبکہ وہ کسی صورت سے پاؤں ڈھکے رکھنے پر مجبور ہوں اور بار بار پاؤں دھونا ان کے لیے موجب نقصان یا وجہ مشقت ہو۔ اس رعایت کی بنا اس مفروضے پر نہیں ہے کہ طہارت کے بعد موزے پہن لینے سے پاؤں نجاست سے محفوظ رہیں گے، اس لیے ان کو دھونے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ بلکہ اس کی بنا اللہ کی رحمت ہے جو بندوں کو سہولت عطا کرنے کی مقتضی ہوئی۔ لہٰذا ہر وہ چیز جو سردی سے یا راستے کے گردو غبار سے بچنے کے لیے یا پاؤں کے کسی زخم کی حفاظت کے لیے آدمی پہنے اور جس کے بار بار اتارنے اور پھر پہننے میں آدمی کو زحمت ہو، اس پر مسح کیا جاسکتا ہے، خواہ وہ اونی جراب ہو یا سوتی، چمڑے کا جوتا ہو یا کہ مچ کا، یا کوئی کپڑا ہی ہو، جو پاؤں پر لپیٹ کر باندھ لیا گیا ہو۔
میں جب کبھی کسی کو وضو کے بعد مسح کے لیے پاؤں کی طرف ہاتھ بڑھائے دیکھتا ہوں تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا یہ بندہ اپنے خدا سے کہہ رہا ہے کہ ’’ حکم ہو تو ابھی یہ موزے کھینچ لوں اورپاؤں دھو ڈالوں مگر چوں کہ سرکار ہی نے رخصت فرمادی ہے، اسی لیے مسح پر اکتفا کرتا ہوں‘‘۔ میرے نزدیک دراصل یہی معنی مسح علی الخفین وغیرہ کی حقیقی روح ہیں اور اس روح کے اعتبار سے وہ تمام چیزیں یکساں ہیں جنہیں ان ضروریات کے لیے آدمی پہنے جن کی رعایت ملحوظ رکھ کر مسح کی اجازت دی گئی ہے۔(ترجمان القرآن، رمضان، شوال ۱۳۷۱ھ، جون جولائی ۱۹۵۲ء)
جرابوں پر مسح معاصر اہلِ علم کا رجحان
مفتی محمد تقی عثمانی  : 
لیکن یہ یاد رکھنا چائیے کہ مسح علی الجوربین کا جواز در حقیقت تنقیح المناط ( علت ) کے طریقہ پر ہے ، یعنی جن جوارب میں مذکورہ تین شرائط پائی جاتی ہوں ان کو خفین ہی میں داخل کر کے اُن پر مسح کا  حکم لگایا گیا ہے ، ورنہ جن روایات میں مسح علی الجوربین کا ذکر ہے وہ سب ضعیف ہیں ، ورنہ کم از کم خبر واحد ہیں ، جن سے کتاب اللہ پر زیادتی نہیں  ہوسکتی، بلکہ اس کا جواز مسح علی الخفین کی احادیثِ متواترہ ہی سے تنقیحِ مناط کے طور پر ثابت ہوا ہے.(درس ترمذی ، باب المسح علی الجوربین و النعلین ، ج : 1 ، ص : 335 ، ناشر :  مکتبہ دار العلوم کراچی ، الطبعة: جدید، 1431 هـ - 2010 م  ۔) واللہ اعلم"
ڈاکٹر طفیل ہاشمی :
کتاب اللہ پر زیادتی کا حنفیہ کے ہاں یہ مفہوم ہے کہ خبر واحد سے ثابت ہونے والا حکم اس درجے میں نہیں ہو سکتا جس میں قرآن سے ثابت ہونے والا حکم ہوتا ہے۔ اگر قرآن سے عزیمت اور خبر واحد سے رخصت ثابت ہو رہی ہو تو اسے کتاب اللہ پر زیادتی کیسے کہیں گے ۔؟یا ضیعہ العلم
کیا مسح علی الجبیرہ کو بھی تنقیح مناط کے طور پر انہیں سہ گونہ شرائط سے جائزقرار دیں گے ۔؟"
مفتی محمد زاہد صاحب :
فقہا کی ایک بڑی تعداد کے نزدیک جوربین ثخینین پر مسح کرنا جائز ہے، صاحبین اور امام صاحب کا قول مرجوع الیہ قول بھی یہی ہے۔ اب رہ جاتا ہے مسئلہ ثخانت کے معیار کا تو اصل معیار تو فی معنی الخفین ہونا ہے، فی معنی الخفین کیسے ہوگی زیادہ تر حضرات نے جرابوں کی ظاہری ہیئت یا میٹریل وغیرہ کو بنیاد بنایا ہے ، یقیناً انہوں نے اپنے اپنے زمانوں کے امر واقعہ کے اعتبار سے درست کیا تاہم اس طالب علم کے ناقص سے خیال میں اصل معیار یا تو لبس خفین کے مقصد کو بنایا جائے جو اس زمانے میں دو ہوتے تھے ، ایک جوتے کی جگہ استعمال کرنا دوسرے سردی سے بچنا ، آج کل صرف دوسرا مقصد رہ گیا ہے ، یا معیار جواز مسح کے مقصد کو بنایا جائے جو ظاہر ہے کہ بار بار اتارنے کی زحمت سے بچانا ہے، یا ان دونوں یعنی لبسِ خفین کے مقصد اور جواز کے مقصد کو پیشِ نظر رکھا جائے۔ بادی النظر میں اس کے نتیجے میں یہی بات سامنے آئے گی کہ وہ جرابیں جو سردی سے بچاؤ کے لئے پہنی جاتی ہیں انہیں ثخیننین شمار کیا جائے۔ کافی عرصے سے خیال تھا کہ اس مسئلے پر پورے مواد کو سامنے رکھ کر غور کیا جائے لیکن فرصت نہیں مل سکی ، یہاں ڈاکٹر صاحب کے ’’جوابِ شکوہ‘‘ کے طور پر ایک Hypothesis کے طور پر مختصراً عرض کردیا تاکہ شاید کوئی اور صاحبِ علم بہتر کام کرلیں۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ علامہ انور شاہ کشمیری کے بقول وضو میں غسل وجہ و یدین اصل اور راس و رجلین اضافی ہیں، اسی لیے تیمم میں ساقط ہوجاتے ہیں۔ بہر حال تقصیل کا موقع نہیں۔ یہ چند نکات محض غور کے لئے اشارۃً پیش کئے ہیں اب دیکھتے ہیں کیا درگت بنتی ہے"۔
استاذ عمار :
شریعت نے نے موزوں پر مسح کی اجازت اس لیے نہیں دی کہ چمڑا اتنے سنٹی میٹر موٹا ہوتا ہے، اس لیے دی ہے کہ سردی میں پاؤں دھونے کی مشقت سے بچا جا سکے۔ یہ حکم شریعت کے مسلمہ اور عام اصول تیسیر کے عین مطابق ہے۔ اس میں کوئی پہلو خلاف قیاس نہیں۔ ہر علاقے کے لوگ اپنے مقامی رواج اور موسمی ضروریات کے لحاظ سے پاؤں کے لیے جو بھی لباس استعمال کرتے ہوں، وہ موزوں ہی کے حکم میں ہے۔ واللہ اعلم"