پارٹی گرل کا قبول اسلام

مصنف : بی بی سی

سلسلہ : من الظلمٰت الی النور

شمارہ : نومبر 2021

پرسیفون رضوی ایک پارٹی گرل تھی۔ ان کے ویک اینڈ کلبوں میں پارٹی کرتے گزرتے تھے۔ لیکن وہ اس زندگی سے خوش نہیں تھی۔ بی بی سی تھری کی ڈاکومینٹری میں وہ بتاتی ہیں کہ کیسے قبولِ اسلام نے ان کو ایک نئی اور بامقصد زندگی عطا کی ہے۔

جب میں نوجوان تھی تو میں ایک بہت لاپرواہ اور بے ہنگم انسان تھی۔اختتام ہفتہ بس پارٹی ہوتی تھی۔ دن اس میں گزر جاتے تھے کہ کلب میں گھسنے کے لیے کس کی شناخت استعمال کرنی ہے، کونسا لباس زیب تن کرتا ہے۔ پھر پارٹی پر جانے سے پہلے شراب نوشی ۔ کلب میں پارٹی صبح چار پانچ بجے تک چلتی۔ جب وہاں سے نکالا جاتا تو کسی کے گھر میں جا کر پارٹی ہوتی۔ رات بھر پارٹی کرنے کے بعد اگلے روز سو کر اٹھتی تو سر درد ہو رہا ہوتا تھا۔مجھے یاد ہے میری کئی بار لڑکیوں سے لڑائی ہوئی اور مجھ پر جلتے ہوئے سگریٹ بھی پھینکے گئے۔ لیکن جب یہ سب کچھ حد سے بڑھ گیا تو پھر اسے رکنا ہی تھا۔میں ایسے حالات سے گزر رہی تھی جو جذباتی طور پر بہت تھکا دینے والے تھے۔ میں ان حالات سے فرار کے لیے شراب کا سہارا لے رہی تھی۔میری زندگی بے مقصد تھی، مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں کیا کر رہی ہوں۔ پھر میں مسلمان ہو گئی۔

یونیورسٹی جانے سے ایک سال پہلے میں نے ایک کال سنٹر میں نوکری کی۔ وہاں میری ایک مسلمان سہیلی تھی جس کا نام حلیمہ تھا۔ میں نے حلیمہ کے ساتھ پہلی بار روزہ رکھا۔ یہ مذہب اسلام سے میری پہلی مڈبھیڑ تھی۔جب میں نے پہلی بار روزہ رکھا تو میں اسلام قبول کرنے کے بارے نہیں سوچ رہی تھی ۔ روزہ تو میں نے خود کو چیلنج کرنے کے طور لیا تھا۔ میں نے سوچا روزے صرف 30 ہی تو ہیں، میں بھی روزہ رکھ سکتی ہوں۔جب میں نے روزے رکھنے شروع کیے تو میں اس وقت بھی شراب نوشی کر رہی تھی، پارٹیوں میں بھی جاتی تھی لیکن پھر مجھ میں تبدیلی آنا شروع ہوئی۔

پھر مجھ میں ایسے خیالات ابھرنے لگے، ’کہ میں اس سے بہتر ہوں‘ جو میں اب ہوں۔ ایک مہینے کے روزوں نے مجھے میں اخلاص اور تشکر کے جذبوں کو جنم دیا ۔ روزوں کے تجربے نے مجھے ذاتی تحفظ کا ایک ایسا پیکج فراہم کیا جس کی مجھے اشد ضرورت تھی۔یہ وہ موقع تھا جب میں اسلام کی طرف راغب ہوئی۔

جب میں بڑی ہو رہی تھی تو ہم باقاعدگی سے سنڈے سکول جاتے تھے۔ میرے والدین اور میری بڑی بہن چاہتی تھیں کہ مجھے اپنے عقیدے کا پتہ ہو۔ میرے والد ایک سیاہ فام برطانوی شہری ہیں جو ہمیشہ چرچ جاتے تھے۔ میری والدہ چاہتی تھیں کہ مجھے اپنے عقیدے کے بارے میں معلومات ہوں لیکن انھوں نے مجھے کبھی مجبور نہیں کیا۔والدین کو ڈر تھا کہ ان کی بیٹی بدل جائے گی لیکن ان کی بیٹی پہلے سے زیادہ مؤدب اور ہمدرد ہو گئی ہے-

یونیورسٹی کے پہلے سال میں اسلام کے بارے میں تحقیق کر رہی تھی اور میں سنجیدگی سے اسلام قبول کرنے کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ جب میں یونیورسٹی سے واپس سیلفورڈ میں اپنے والدین کے پاس آتی تھی تو وہ اسلام کے بارے میں میری دلچسپی سے لا علم تھے۔ میں نے اس کو تقریباً چھپائے رکھا اور پھر ایک روز سکارف پہنے گھر میں داخل ہوئی کہ میں اب مسلمان ہوں چکی ہوں۔میرے والدین حیران و پریشان ضرور تھے لیکن وہ ناراض نہیں تھے۔ انھوں نے میرے انتخاب کے بارے سوالات اٹھائے۔ وہ چاہتے تھے کہ میں صحیح فیصلہ کروں۔میرے والد کا خیال تھا کہ میں بہت جذباتی ہو رہی ہوں۔ اور جب اب میں اس کے بارے میں سوچتی ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ میں زیادہ معتدل نہیں تھی۔میں قرآنی احکامات کی صحیح تشریح کو سمجھے بغیر ہر چیز کتابی انداز میں کرنا چاہتی تھی۔ میں ہر چیز عقیدے کے مطابق کرنا چاہتی تھی۔اب مرد مجھے تنگ نہیں کرتے، میں حجاب پہنتی ہوں-میں نے ایسے لباس پھینک دیئے جنھیں میں اب نامناسب سمجھتی تھی۔ میں نے نقلی ناخن اتار پھینکے اور سوشل میڈیا پر اپنا نام تبدیل کر لیا۔ میں نے ایسی تمام تصاویر کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے ہٹا دیا جو میرے خیال میں نامناسب تھیں اور فیس بک کا نیا پیچ تیار کیا۔ میں نے سوچا کہ مغربی لباس حرام ہے۔ میں سوچتی تھی کہ میں ایسے لوگوں کے قریب نہیں رہ سکتی ہوں جو شراب نوشی کر رہے ہوں۔ میں نے ایسی جگہوں پر جانا ختم کر دیا جہاں مرد اور عورت دونوں ہوتے تھے۔اس وقت میں اپنے مذہبی رجحانات کے بارے میں کھل کر بات نہیں کرتی تھی اور کوئی مجھ سے اس بارے میں سوال کرتا تو میں مجھے اچھا نہیں لگتا تھا۔لیکن اب مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر کوئی دوست شراب نوشی کرنا چاہتا ہے تو میں اسے مسئلہ نہیں بناتی۔ مسلمان کیمونٹی میں ہر فرد کی اپنی رائے ہے اور ان کی اپنی حدود ہیں۔ لیکن جب بھی نیا سکارف پہنتی ہوں تو وہ ایسا ہوتا ہے جس سے میرا سینہ ڈھانپ جائے۔جب سے میں اپنا لباس تبدیل کیا ہے تو میں بڑی آسانی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتی ہوں، مجھے کوئی نہیں روکتا۔ پہلے جب میں یونیورسٹی جا رہی ہوتی تھی مجھے دس منٹ کی واک کے دوران پانچ بار روکا جاتا تھا۔ اب مرد مجھے بالکل تنگ نہیں کرتے۔میں یہ نہیں کہہ رہی ہوں کہ میرے فیصلے غلط تھے لیکن فیصلے یقیناً اچانک تھے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے میں نے محسوس کیا کہ میں اپنی دنیا میں فٹ نہیں ہوں، میں سوچتی تھی کہ میں مسلمان ہوں اور ایک مخصوص قسم کا لائف سٹائل اپنانے کی کوشش کر رہی ہوں اور میرے دوست ایسا نہیں کر رہے تھے۔

میں ابھی یونیورسٹی میں ہی تھی جب میں نے باقاعدہ طور پر اسلام قبول کیا۔ میں نے اس کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی تھی۔ میں ایک روز سیلفورڈ کی مسجد میں امام کے لیے کچھ سوالات لے کر گئی۔ امام نے میرے تمام سوالوں کے جواب دیئے اور کہا کہ جو میں پڑھ رہا ہوں، وہ تم بھی ادا کرو۔ جب میں نے ایسا کیا تو امام نے کہا :” مبارک ہو اب آپ مسلمان ہیں۔ میں بہت جذباتی ہو گئی، لیکن خوش تھی کہ آخر کار یہ ہو گیا۔

مسلمان کیمونٹی نے میرا خیر مقدم کیا۔ میں کچھ ایسے دوستوں سے ملی جو اب میرے زندگی بھر کے دوست ہیں۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ بہناپا (سسٹرہڈ) کیا ہوتا ہے۔ ہم ایک دوسرے سے بغیر کسی جھجک سے بات کر سکتے ہیں۔ مشکل وقت میں ہم ایک دوسرے کی دلجوئی کرتے ہیں۔ میرے دوست میرے سب سے مضبوط سہارا ہیں۔ ہم نے یہ سیکھا ہے کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ کے گرد کون لوگ ہیں۔

میں نے ہمیشہ سب کچھ ٹھیک نہیں کیا۔ میں کئی بار واپس پرانے راستے پر چلی گئی۔ جب میری ذہنی صحت خراب ہوئی تو میں نے شراب نوشی بھی کی لیکن وہ دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے ابتدائی دور کی بات ہے۔ ایک لمبے عرصے سے میرے ساتھ یہ نہیں ہوا ہے۔ میرے پختہ عزم نے ہمیشہ واپس آنے میں مدد کی اور اب تو میں اس راستے پر چلنے کے بارے میں سوچتی بھی نہیں ہوں۔ ہر کام ٹھیک نہیں ہوتا لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ میں اسلامی عقیدے سے مخلص نہیں ہوں۔

میرے والدین میرے بہت مددگار ہیں۔ انھوں نے کئی بار میرے ساتھ روزہ بھی رکھا ہے۔ ان کا واحد خدشہ یہ تھا کہ ان کی بیٹی شاید وہ نہ رہے جسے وہ جانتے تھے۔ لیکن اب وہ برسوں سے دیکھ رہے ہیں کہ ان کی بیٹی وہی ہے، لیکن دوسرے روپ میں جو پہلے سے زیادہ مؤدب، پرسکون اور اپنے آپ پر مہربان اور اس حقیقت سے آگاہ کہ آپ کے اقدام سے آپ کے ارگرد کے لوگ کیسے متاثر ہوتے ہیں۔

میرے خیال میں میری ماں میرے لیے ایسا لباس تیار کرنے کا چیلنج قبول کرتی ہے جو میرے لیے قابل قبول ہو۔ میری ماں میری پرسنل سٹائلسٹ ہے۔ میرے مسلمان دوستوں کو یقین نہیں آتا کہ میں اپنی ماں کی الماری سے ایسا لباس نکال کر پہن لیتی ہوں جو میرے لیے مناسب ہو۔

میں ہڈرزفیلڈ کے گرین پارک کو دوبارہ دیکھنے گئی ہوں جہاں میں نے بہت اچھا وقت اور کچھ بہت ہی برا وقت دیکھا ہے۔ جب میری ذہنی صحت کے مسائل عروج پر تھے تو میں نے اسی پارک میں اپنی زندگی ختم کرنے کی کوشش کی تھی۔ شراب کے نشے میں دھت ہو کر میں نے بہت ہی تاریک جگہوں کو دیکھا ہے۔ایک بار جب میں کچن کے فرش پر ننگے سوئے رہنے کے بعد جب اٹھی تو مجھے محسوس ہوا کہ مجھے کچھ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ میں شراب کے نشے میں بہت آگے چلی گئی تھی۔ یہ میرے لیے جنہم بن چکا تھا۔

میں اسی لیے کہتی ہوں کہ اسلام نے میری زندگی بچائی ہے۔ اب میں تاریک لمحات سے بہتر طور پر نمٹ سکتی ہوں۔ اگر میں مسلمان نہ ہوتی تو میں اس طرح اپنی ذہنی، جسمانی صحت کے مسائل پر قابو نہ پا سکتی۔ (بشکریہ ‘بی بی سی 19 نومبر 2021)