ٹنڈل رام کا قبول اسلام

مصنف : شرمین زیب

سلسلہ : من الظلمٰت الی النور

شمارہ : مئی 2021

جہلم کا سب سے بڑا قبرستان کسی مسلمان نے نہیں وقف کیا تھا۔ لیکن وقف کرنے والے کی زندگی کا خاتمہ مسلمان ہونے پر ہوا تھا۔ محسن جھلم ٹنڈل رام پرشاد بہت ہی کم افراد نے یہ نام سُنا ہوگا۔۔یہ واقعہ ہے 1933...کا۔جناب ٹنڈل رام پرشاد نواب آف دکن جس کی تقریباً‘‘پونے دو مربہ زمین جھلم میں موجود تھی اور ان کی زیادہ تر اراضی دکن بھارت میں موجود تھی ۔ان کی ایک رہایش جو کہ اس زمانے میں بہت عالیشان رہایش گاہ باغ محلہ نزد صرافہ بازارجہلم میں برلب دریائے جہلم یہ عمارت ابھی بھی واقع ہے۔نواب آف دکن ٹنڈم رام پرشاد ایک انتہائی رحم دل اور درویش صفت انسان تھا۔گو کہ یہ شخص انتہائی امیر کبیر اور نواب خاندان کا اکلوتا وارث تھا جو کہ سونے کا چمچ لے کر پیداہوا تھا۔اہل جہلم میں صرف چند افرادہی جانتے ہوں گے۔نواب آف دکن اکثر اوقات اپنی اراضی دیکھنے دکن سے جہلم تشریف لاتے اور ان دنوں بھی وہ جہلم ڈھوک عبداللہ کے نزدیک اپنی زمینوں کی دیکھ بھال کر رہے تھے کہ کچھ لوگ ایک بوڑھی عورت کا جنازہ لیے ان کے پاس سے گزرے۔نواب آف دکن سمجھے کہ شاید یہ کوئی بیمار آدمی ہے اور اسے کسی حکیم کے پاس لے کر جا رہے ہیں۔تھوڑی دیر گزری تھی کہ وہی باغ محلے کے افراد اسی طرح جنازہ لے کر واپس آ گئے۔ نواب ٹنڈل رام پرشاد بھی اسی راستہ پر کھڑے اپنی سواری کا انتظار کر رہے تھے ازراہ ہمدردی انہوں نے ان افراد میں سے کسی سے پُوچھا کہ اب اس مریض کا کیا حال ہے ۔ مرحومہ کے ایک بچے نے رو رو کے ساری داستان سنائی کہ ان کے دو تین جاننے والوں نے اپنی زمین میں اسکی والدہ کی قبر بنانے سے صاف انکار کر دیا ہے اور اب ہمارے لیے ان کی قبر اپنے گھر بنانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔نواب صاحب یہ سن کر بہت رنجیدہ ہوئے ۔ اللہ پاک نے ٹنڈل رام پرشاد کے دل میں اس مرحومہ کے لیے رحم ڈالا اور نواب صاحب نے مرحومہ کے بچوں کو پاس بلایا اور یکدم حیرت انگیز پیشکش کر دی کہ اگر آپکے مسلمان بھائیوں نے میت دفنانے سے انکار کیا ہے توآپ پریشان نہ ہوں یہ زمین یہ جایداد ادھر ہی رہ جانی ہے البتہ ہم سب انسانوں نے جلد یا دیر سے ضرور اس دنیا سے چلے جانا ہے آپ لوگ میری اس زمین پر جس جگہ چاھتے ہیں اپنی والدہ کو دفن کر دیں ۔ اور آج سے میں اپنی یہ پونے دو مربع زمین مسلمانوں کے قبرستان کیلیے وقف کرتا ہوں یہ بات سنتے ہی سب مسلمانوں کی آنکھوں میں تشکر سے آنسو آ گئے اور مرحومہ کو دفنانے کے بعد فاتحہ خوانی کی گئی اور ٹنڈل رام پرشاد کے لیے بھی خصوصی طور پر بہت سی دعائیں مانگی گئیں چنانچہ یہ دعا بارگاہ الہی میں جلدہی قبول کر لی گئی اور چند روز بعد ہی ٹنڈل رام پرشاد نے ایک ولی کامل سید بخاری شاہ صاحب کے ہاتھوں اس شرط پر اسلام قبول کیا کہ میں اپنا نام تبدیل نہیں کروں گا چنانچہ اللہ رب العزت نے ٹنڈل رام پرشاد کے لیے رشدو ھدایت کے دروازے کھول دیے اور نواب صاحب اسلام قبول کرنے کے کچھ عرصہ کے بعد دکن تشریف لے گئے اور اپنے وکیل کو وصیت کی کہ میرے مرنے کے بعد مجھے جہلم کے قبرستان میں دفنایا جائے۔چنانچہ چند سال بعد یعنی قیام پاکستان سے 5سال قبل 1942کو جہلم اور پاکستان کے مسلمانوں کے محسن اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے اور انکی میت دکن سے انکی ذاتی گاڑی میں جہلم لائی گئی اور جہلم میں بہت بڑی تعداد میں مسلمانوں نے جنازہ میں شرکت کی اور جہلم کے اس عظیم قبرستان میں سپردٍ خاک کیا گیا آج جہلم کے تقریباً ہر گھر کا کوئی نہ کوئی فرد اس قبرستان میں سپردٍ خاک ہے اور آج بھی جہلم کے باسی اس عظیم ٹنڈل رام پرشاد کی محبتوں اور احسان کے قرضدار ہیں۔
٭٭٭