ڈیپریشن ، ایک خوفناک مرض

مصنف : وقاص نواز

سلسلہ : طب و صحت

شمارہ : مارچ 2021

آج ایک دلخراش واقعہ ہوا جس میں ایک نفسیاتی امراض کے ڈاکٹر ''ڈاکٹر اظہر حسین '' نے اپنی ڈاکٹر بیٹی '' ڈاکٹر علیزے حیدر'' جو کہ خود بھی ایک سایکٹرسٹ تھیں ' کو گولی مار کر ہلاک کردیا اور پھر خود کو گولی مارکر خود کشی کرلی - یہاں بتاتا چلوں کہ ڈاکٹر اظہر حسین پچھلے کئی ماہ سے خود ڈپریشن کا شکار تھے - 
 آج صبح آنکھوں کے سامنے سے اس واقعہ سے متعلق ایک تحریر گزری تو اس تحریر نے جنم لیا - اس تحریر میں یہ لکھا تھا کہ ''جب ڈپریشن کا علاج کرنے والے خود ڈپریشن کا شکار ہیں اور خود کشی کر لیتے ہیں تو پھر کوئی فائدہ نہیں ان کے پاس جانے کا۔ نماز پڑھیں، اللہ سے دعا مانگیں کیوں کہ طبی علاج وہم و گمان ہیں - اور اس کے بعد نیچے واہ واہ ،سبحان اللہ شروع ہوگئی'' ------! 
اس تحریر کو پڑھنے کے بعد میں بہت دیر تک ڈھونڈتا رہا کہ کوئی اور بھی تحریر مل جائے جہاں لکھا ہو کہ ''فلاں ہارٹ سپیشلسٹ دل کا دورہ پڑنے سے فوت ہو گیا - لوگو! دل کا دورہ پڑے اور سینے میں درد اٹھے تو کوئی فایدہ نہیں دل کے ہسپتال اور ہارٹ سپیشلسٹ کے پاس جانے کا ۔ مسجد جاؤ ، دو نفل نماز حاجت پڑھو اور سینے پر ہاتھ رکھے ہوئے واپس آ کر سو جاؤ ۔ ای سی جی کروانا اور سٹینٹ ڈلوانا وہم و گمان ہے '' - ایسی تحریر مجھے ڈھونڈنے سے نہیں ملی اس کے برعکس مجھے پنجاب کارڈیالوجی لاہور اور ''ایف ای سی'' فیصل آباد کے باہر دل کے مریضوں کی لمبی قطار نظر آئی جو اس بات پر لڑ رہے تھے کہ پہلا نمبر ان کا تھا ۔ 
میں یہ سب کیوں لکھ رہا ہوں؟ کچھ جلد باز اور ججمینٹل ذہنوں نے اب تک فتوی لگا دیا ہوگا کہ مجھے اللہ پرتوکل نہیں اور میں بس اللہ کے ذکر سے ہی ڈپریشن کا علاج نہیں کرنا چاہتا - ایسے لوگ بھی جب سڑک عبور کرتے ہیں تو پہلے دونوں طرف دیکھتے ہیں اور پھر آگے بڑھتے ہیں ۔ اس واقعہ سے بھی ہمارے معاشرے نے الٹا سبق سیکھا ، کجا کہ یہ سیکھتے کہ یہ کتنی خطرناک بیماری ہے جو جب اپنے ہی سپیشلسٹ ڈاکٹر کو اس نہج پر لے جاسکتی ہے کہ وہ خود اپنی اور اپنی بیٹی کی زندگی کا خاتمہ کر ڈالے تو اس کا ایک عام مریض پر کتنا جان لیوا اور خطرناک اثر ہو سکتا ہے ۔ پتا نہیں ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ ڈاکٹر بھی پہلے انسان اور پھرمسیحا ہوتا ہے ۔ جیسے وکیل کے گھر میں بھی قانون شکنی ہوسکتی ہے ' مکینکل انجینیر کے گھر میں بھی موٹر خراب ہوسکتی ہے اسی طرح ایک نفسیاتی ڈاکٹر کا جسم بھی بیمار ہو کر ڈپریشن اور دیگر نفسیاتی امراض کا شکار ہوسکتا ہے کیوں کہ مرض ڈگری اور نام دیکھ کر حملہ نہیں کرتا ۔
موجودہ حالات میں جب ایک سال سے پوری دنیا میں کرونا کی وباء نے سکول سے لیکر کالج، اسمبلی سے لیکر شادی ہال، کاروباری سے لیکر دیہاڑی دار ہر شعبہ زندگی کو متاثر کیا ہوا ہے تو ایسے میں اس مرض میں جسے ''ڈپریشن'' کہتے ہیں شدید اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جی ڈپریشن! یہ وہی بیماری ہے جس کی علامات سنتے ہی ہماری زبان پر ''ڈرامہ اور اداکاری '' کے الفاظ جاری ہوجاتے ہیں - جو تشخیص سے پہلے '' نظر لگنا '' اور تشخیص ہو بھی جائے تو '' پاگل پن '' قرار پاتی ہے - جس کے نتیجے میں ہونے والے شخصی زوال کو ''کوئی صدمہ '' اور خود کشی کو '' کمزور اعصاب'' کی نشانی مان کر باقی بچوں کو فلموں ڈراموں سے پرہیز کرنے کی تلقین کر کے کام مکا دیا جاتا ہے - قلم کی جسارت کے اس سلسلے ''تحریرجو کسی کی جان بچا لے '' کا آج موضوع ہے ''ڈپریشن'' - 
ہر گھر میں ڈپریشن کی مختلف تعریف اور پہچان ہے ۔بیٹے کو ہوجائے تو ایموشنل بلیک میلنگ سے ماں باپ کو ڈرانا اور بہو کو ہوجائے تو ''ماں کا سکھایا ہوا ڈرامہ'' سمجھا جاتا ہے۔ ماں باپ کو ہوجائے تو بڑھاپے کا ''سٹھیانہ'' اور ملازم کو ہوجائے تو کام سے بچنے کا ''بہانہ'' قرار پاتا ہے ۔ ہمارے معاشرے صحت اور طب کی معلومات کے بارے میں شدید گمان اور کم علمی کا شکار ہیں جہاں آج بھی شوگر کا علاج شہد اور ہیپاٹایٹس کا علاج کبوتر سے کیا جاتا ہے وہاں ڈپریشن جیسی پیچیدہ بیماری کو پکڑ پانا اور کنٹرول کرنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا عوام کو یہ سمجھانا مشکل ہے کہ شوگر اور بلڈ پریشر کی طرح یہ بھی ایک بیماری ہوتی ہے ۔ جیسے شوگر میں انسان کے جسم میں انسولین بننا بند ہوجاتی ہے ویسے ہی ڈپریشن میں بھی انسان کے دماغ میں بہت سے کیمیکل جن کو '' نیورو ٹرانسمٹر '' کہتے ہیں ان کا توازن بگڑجاتا ہے ۔ جیسے شوگر کی علامات ہوتی ہیں جیسے کہ '' بہت پیاس لگنا؛ وزن کم ہونے لگنا ' بہت پیشاب آنا '' ویسے ہی ڈپریشن کی بھی علامات ہوتی ہیں جو کہ یہ ہیں: 
۱۔ کسی کام میں خوشی محسو س نہ ہونا۔
 ۲۔مایوسی محسوس کرنا ۔
۳۔ نیند کا نہ آنا یا بہت زیادہ آنا۔ 
۴۔ بھوک نہ لگنا ۔
۵۔ بولتے ہوئے نظر نہ ملا پانا یا بہت تیز تیز بولنا جس سے بے چینی ظاہر ہو۔ 
۶۔ ہر وقت جسم کا تھکا تھکا محسوس ہونا۔ 
۷۔ اپنی ذات کے بارے میں اس وہم کا شکار رہنا کہ میں ایک ناکام انسان ہوں اور میری وجہ سے میرے خاندان کو بدنامی دیکھنا پڑ رہی ہے ۔
۸۔ کسی بھی کام میں دل نہ لگنا ۔
۹۔ خود کشی کے خیال آنا 
ان میں سے کل چار علامات ہفتے میں زیادہ تر دن موجود ہوں اور انسان کی زندگی اور روز مرہ کاموں میں فرق ڈالیں تو آپ کو کوئی نظر ، کوئی جادو ، کوئی وہم یا کوئی ڈرامہ نہیں لاحق ہوا بلکہ آپ اس بیماری کا شکار ہیں جو'' ڈپریشن'' کہلاتی ہے اور قابل علاج ہے جس کیلیے آپ کو کسی بابے کے تعویز، کسی جوگی کے جھاڑدم اور کسی آنٹی کی ''میں بھی کبھی بہو '' والی نصیحت کی نہیں بلکہ ایک ڈاکٹر ایک ماہر نفسیات کی ضرورت ہے بالکل ویسے ہی جیسے شوگر کیلیے آپ کو شوگر کے ماہر کی ضرورت پڑتی ہے ۔ایسے میں اگر آپ کی دلیل یہ ہے کہ ماہر نفسیات تو خود ڈپریشن سے خود کشی کر لیتا ہے تو میری دلیل وہی ہوگی جو اوپر پہلے پیرا میں بیان کر چکا ہوں۔ جیسے شوگر دعا اور انسولین سے کنٹرول رہتی ہے ویسے ہی ڈپریشن ''دعا ' کونسلنگ اور میڈیسن '' سے کنٹرول رہتا ہے ۔ ڈپریشن کی اکثر دوائیں کم از کم چھ مہینوں بعد اپنا اثر دکھانا شروع کرتی ہیں اس لیے فوراً نتیجہ نہ ملنے پر ڈاکٹر کو ''ساہوکار''اور دواؤں کو ''کاروبار'' قرار دینے سے پہلے یہ کالم پڑھ لیں۔
 جیسے شوگر کنٹرول نہ ہو تو گردے فیل ہوسکتے ہیں اور پاؤں بھی کاٹنا پڑ سکتا ہے اسی طرح ڈپریشن کا ٹھیک علاج نہ ہو تو انسان مایوسی کا اس حد تک شکار ہو سکتا ہے کہ وہ خود کو گولی مار کر یا کسی پھندے پر لٹکا کر کوئی تیزاب پی کر کسی چھت سے چھلانگ لگا کر اپنی زندگی کا دھاگہ کاٹ سکتا ہے اور وہ عام عوام تو کیا ڈاکٹر بھی ہو سکتا ہے۔ 
ایک اعداد و شمار کے مطابق ہر سال پاکستان میں تین سو سے زیادہ لوگ ڈپریشن کی وجہ سے خود کا خاتمہ کر لیتے ہیں لیکن ظلم یہ ہے کہ شوگر میں تو گھرکے ملازم تک کو علم ہوتا ہے کہ''صاحب جی کو شوگر آتی تھی اس لیے پاؤں کٹ گیا'' لیکن اس بیماری میں کسی اللہ والے کو نہیں پتا چلتا کہ یہ جو خود کشی ہوئی ہے یہ بیوی سے جھگڑے ' امتحان میں ناکامی ؛ باس سے تو تو میں میں اور محبت میں نامرادی کی وجہ سے نہیں بلکہ کبھی تشخیص نہ ہو سکنے والے ڈپریشن کی وجہ سے ہوئی ہے ۔ 
 ایک ریسرچ کے مطابق ڈاکٹروں میں ڈپریشن کی شرح 16 فیصد ہے۔اک سروے کے مطابق پاکستان میں ۳۵ فیصد لوگوں میں ڈپریشن پایا گیا ہے جن میں اکثریت خواتین اور کم تعلیم یافتہ لوگوں کی ہے ۔ خاندانی رویے ' معاشرتی پابندیاں' کم تعلیم، معاشی وسایل کی کمی اور آس پاس بڑھتی ہوئی انتہا پسندی وہ عوامل ہیں جن سے اس خود بخود ہونے والی بیماری میں بڑھاوا آتا ہے اور پھر بس تابوت میں آخری کیل کی طرح کسی ایک ہٹ کی ضرورت پڑتی ہے جو اس ڈپریشن کے مریض کو موت تک لیجاتی ہے اور یہ ہٹ کسی امتحان میں ناکامی؛ طلاق؛ ملازمت سے برخاستگی اور محبوب کی بیوفائی جیسی کوئی بھی بات ہوسکتی ہے جو ایک عام تندرست انسان کیلیے بہت معمولی اور روز مرہ کی بات جیسی ہی ہوتی ہے۔ خاص طور پر عورتوں میں بچے کی پیدایش کے فوراً بعد ڈپریشن کا ایک دور آسکتا ہے جس کو ''پوسٹ پارٹم ڈپریشن '' کہتے ہیں جس میں وہ بات بات پر رونے لگتی ہیں اور چڑچڑی ہوکر کبھی کبھی بچے کی بھی ٹھیک سے دیکھ بھال نہیں کر پاتیں۔ اس کی وجہ پیدایش کے فوراً بعد جسم میں پیدا ہونے والے ہارمونز کی تبدیلی ہے جو چار پانچ ہفتوں میں ٹھیک ہوجاتی ہے لیکن اس دوران ''اکھڑ؛ بد مزاج اور ڈرامہ '' کہنے کی بجائے اس کو علاج اورکونسلنگ کی ضرورت ہوتی ہے جو اکثر پڑھے لکھے اور اونچے گھرانوں میں بھی نظر نہیں آتی ۔ 
اس بیماری کو بیماری نہ سمجھنے کے رجحان کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ شوگر اورٹی بی کی طرح اس بیماری کا کوئی بلڈ ٹیسٹ کوئی ایکسرے نہیں ہوتا بلکہ بس علامات کی بنیاد پر ایک ماہر کے انٹرویو کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں ڈپریشن کے ہر دس ہزار میں سے بس ایک مریض
 اس کی تشخیص کیلیے کسی ماہر نفسیات ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے جب کے باقی نو ہزار نو سو ننانوے لوگ یا تو اس کو ڈرامہ اور ایک بہانہ قرار دیے جا نے کے ڈر سے کبھی اظہار ہی نہیں کر پاتے یا کر بھی دیں تو بس کسی بابے؛ جوگی، مولوی صاحب یا خاندان کی سب سے تجربہ کار خاتون سے نصیحت ڈھونڈتے نظر آتے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ جب اس بیماری کی وجہ سے وہ خود کشی کر کے موت کے منہ میں چلے جائیں تو وہی مولوی صاحب اور آنٹی اس موت پر حرام ہونے کا فتویٰ دے کر کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے اپنے اپنے کاموں پر چلے جاتے ہیں اور پیچھے رہ جاتی ہیں مرنے والے کی چھوڑی ہوئی وہ کاغذ کی چٹھیاں جو لواحقین کو رہتی عمر تک اس کی ذہنی بیماری کو اداکاری ' نظر اور بہانہ سمجھنے کی غلطی پر کوستی رہتی ہیں ۔ 
میں نے اکثر یہ بھی دیکھا ہے کہ اس معاملے میں بس پانچ وقت نماز اور دعا کی نصیحت کر کے بات ختم کردی جاتی ہے اور اس بیماری کو محض نا امیدی قرار دیکر اس کو مسلمانیت سے جوڑ دیا جاتا ہے کہ '' مسلمان کبھی نا امید اور ڈیپریس نہیں ہوسکتا '' - جیسے ایک مسلمان جسم میں انسولین کی کمی ہونے سے شوگر اور کولسٹرول بڑھنے سے ہارٹ اٹیک کا شکار ہوسکتا ہے اسی طرح ایک مسلمان جسم میں کیمیکل کے توازن بگڑنے سے اس مرض ڈپریشن کا شکار بھی ہوسکتا ہے ۔ ہارٹ اٹیک ہونے کی صورت میں یہ معاشرہ سٹنٹ اور ای سی جی کیلیے ہسپتال کیوں بھاگتا ہے؟ بس پانچ وقت نماز اور قرآن کی تلاوت کا درس دے کر بات ختم کیوں نہیں کر دیتا جیسا ڈپریشن میں کرتا ہے؟ ڈپریشن کو مایوسی قرار دیکر بس ذکر و دعا کا درس دینے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ''مایوسی اور ڈپریشن میں فرق ہے ۔ڈپریشن ایک پوری بیماری ہے جس کی نو علامتوں میں سے بس ایک علامت مایوسی ہے ۔ جیسے شوگر میں دعا کے ساتھ ساتھ انسولین کی بھی ضرورت ہوتی ہے ویسے ہی اس بیماری میں دعا اور ذکر کے ساتھ ساتھ دوا کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔
اس تحریر کی وساطت سے التماس یہ ہے کہ ہر ذہنی بیماری بشمول ڈپریشن پاگل پن نہیں ہوتی بلکہ ویسی ہی ایک بیماری ہوتی ہے جیسے شوگر ' دمہ اور بلڈ پریشر بیماریاں ہیں۔ یہ بالکل قابل علاج ہوتی ہے اور اس علاج سے انسان کی ملازمت؛ تعلقات؛ جذبات
 اور زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں۔اس کیلیے ملک میں بہت سے فری کلینیک بھی قائم
 ہیں۔ 
اگر کسی ایک مریض کی وقت سے پہلے تشخیص ہوگئی اور اس سے اس کو خودکشی سے روک کر اس کی جان بچا لی گئی تو یہ ایک انسان نہیں بلکہ پوری انسانیت پر رحم ہوگا کیوں کہ قران فرماتا ہے:''جس نے ایک انسان کی جان بچائی اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی'' (المایدہ)