ظاہری حلیہ اور سیرت رسولﷺ

مصنف : نگہت خان جتوئی

سلسلہ : دین و دانش

شمارہ : فروری 2021

ہماری ساری توجہ ظاہری حلیے پر رہتی ہے۔ کیا قرآن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ظاہری حلیہ بیان کیا ہے یا ان کی شخصیت کے اصاف بیان کئے گئے ہیں؟
ہمیں ظاہری حلیہ اپنانا ہے یا اوصاف؟
انسان کا ظاہری حلیہ اس کی پہچان نہیں ہے۔اس لیے قرآن میں رسول اللہ ﷺ کا ظاہری حلیہ نہیں بلکہ ان کی شخصیت کے اصاف بیان کئے گئے ہیں۔ یادرہے اگر وہ اوصاف نہیں تو ہم رسول اللہ ﷺ کی پیروی سے بہت دور ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان اوصاف کے حامل تھے۔ 
أَعوذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطانِ الرَّجیم
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
فَبِمَا رَحمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنتَ لَہُم وَلَو کُنتَ فَظًّا غَلِیظَ القَلبِ لَانْفَضُّوا مِن حَولِکَ فَاعفُ عَنہُم وَاستَغفِر لَہُم وَشَاوِرہُم فِی الاَمرِ فَاِذَا عَزَمتَ فَتَوَکَّل عَلَی اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ المُتَوَکِّلِینَ
اللہ تعالیٰ کی رحمت کے باعث آپ ان پر نرم دل ہیں اور اگر آپ بد زبان اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے، سو آپ ان سے درگزر کریں اور ان کے لئے استغفار کریں اور کام کا مشورہ ان سے کیا کریں، پھر جب آپ کا پختہ ارادہ ہو جائے تو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کریں، بے شک اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔القرآن - سورۃ 3 - آل عمران - آیت 159
 ہمارا سارا فوکس ظاہری حلیہ ہے اوصاف نہیں۔کیسا لباس پہنتے تھے؟کیا کھاتے تھے؟ داڑھی کیسی تھی؟کیسے اٹھتے بیٹھتے تھے وغیرہ وغیرہ ان باتوں پر جھگڑتے رہتے ہیں۔ جبکہ جس چیز پر زیادہ فوکس ہو نا چاہیے تھا اس پر نہ توجہ ہے نہ اس کو اہم سمجھتے ہیں۔کس قدر ناقص علم ہے ہمارا۔
اتنی سمجھ نہیں کہ یہ ظاہری لباس اور وضع قطع تو رسول اللہ ﷺ کے اردگرد رہنے والے سب لوگوں کی ایک جیسی تھی ان کی اصل پہچان تو ان کی شخصیت کے اصاف تھے۔
جو انہیں منفرد بناتے تھے۔ تو بنیادی تعلیم ایک مہذ ب مسلمان کے لیے ان اوصاف کا حامل ہونا ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ خوش اخلاق اور نرم خو ہو، در گزر کرنے والا۔نہ صرف آپس میں بلکہ تمام انسانوں کے ساتھ ۔احسن طریقے سے گفتگو ہونی چاہئیے 
تلخ اور طنزیہ لب و لہجہ یا پھر بد زبانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نہ ان کی اولاد کا نہ ان کے اصحا بہ اور نہ ہی ان کی پیروی کرنے والوں کا شیوا تھا۔اور مسلمان کا امتحان تو اس وقت ہوتا ہے جب اسے اختلاف رائے یا پھر ایسی بات سے واسطہ پڑے جو اس کے نزدیک نا گوار ہو تب اس کو برداشت اور تحمل سے کام لینا چاہئیے۔ 
اور یہ احسن طریقے سے گفتگو اور حسن اخلاق تمام انسانوں کے لئے اختیار کرنا ہے۔ دلیل یہ ہے کہ سورہ بقرہ میں ارشاد ہے۔اور انسانوں سے خوش اسلو بی سے بات کیا کرو۔ 2: 83
لفظ انسان استعمال ہوا ہے مسلمان نہیں۔
مطلب تمام انسانوں سے احسن طریقے سے بات کیا کرو قطع نظر رنگ نسل زبان اور مذہب کے۔٭٭٭