باغ کلاں کی آب پارہ

مصنف : آصف محمود

سلسلہ : سچی کہانی

شمارہ : جنوری 2021

اسلام آباد کی تاریخ میں باغ کلاں نامی گاؤں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اسلام آباد کی شروعات اسی گاؤں سے ہوئی۔ کٹاریاں گاؤں یعنی جی فائیو سے تھوڑا پیچھے باغ کلاں نام کا یہ گاؤں تھا۔ اسے باگاں بھی کہا جاتا تھا۔ اسی گاؤں میں سیکٹر جی سکس آباد ہوا۔ ادھر ہی اسلام آباد کا سب سے پہلا کمرشل زون تعمیر کیا گیا۔ سرکاری ملازمین کے لیے سب سے پہلے رہائشی کوارٹرز بھی اسی گاؤں میں تعمیر کیے گئے۔ انہی زیر تعمیر کوارٹرز میں سے ایک میں اسلام آباد کا پہلا پولیس اسٹیشن اور پہلا بنک قائم کیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دونوں ایک چھوٹے سے کوارٹر میں قائم تھے۔ یہ کوارٹرز آج بھی موجود ہیں اور انہیں لال کوارٹر کہا جاتا ہے۔ 1961 کی مردم شماری میں راولپنڈی کی حدود میں باغ کلاں یعنی باگاں نام کا یہ گاؤں موجود تھا۔ اس کا رقبہ 698 ایکڑ تھا اور اس کی آبادی 663 افراد پر مشتمل تھی۔ باگاں بعد میں دارالحکومت بن گیا مگر 1961 کی مردم شماری تک یہ جی سکس نہیں، باغ کلاں تھا۔
 بری امامؒ کے والد گرامی سید محمود شاہ کاظمیؒ ہجرت کر کے اہل خانہ کے ساتھ اسی گاؤں میں آباد ہوئے تھے اور یہیں وہ مدفون ہیں۔ شاہراہ کشمیر (سری نگر ہائی وے کہلاتی ہے) اور خیابان سہروردی کے بیچ گرین بیلٹ میں ان کی آخری آرام گاہ ہے۔ بری امامؒ کی والدہ، بہن اور بھائی بھی یہیں دفن ہیں۔ ماسٹر پلان کے نقشے میں سڑک مزار کے اوپر سے گزر رہی تھی۔ اس مزار کے احترام میں ماسٹر پلان کو بدلتے ہوئے شاہراہ کشمیر کو روز اینڈ جیسمین گارڈن کی طرف موڑ کر گزارا گیا اور مزارات محفوظ رکھے گئے۔ یہ اہتمام بھی کیا گیا ہے کہ دائیں بائیں سے سڑک اتنے فاصلے سے گزرے کہ اس مدفن اور اس سے ملحقہ تکیے کا سکون ممکن حد تک برقرار رہے۔ آج بھی یہاں زائرین ہر وقت موجود ہوتے ہیں۔ یہیں شمال کی جانب بوڑھ کے ایک اور گھنے درخت کے نیچے اسلام آباد کا پہلا بس اسٹاپ قائم کیا گیا۔
اسلام آباد کی باقاعدہ شروعات باگاں سے ہوئیں اور یہاں سرکاری ملازمین کے کوارٹر بنا کر کراچی سے ملازمین کو یہاں بھیجا گیا۔ ان ملازمین میں بڑی تعداد مشرقی پاکستان کے لوگوں کی تھی۔ ان میں سے عبد الواحد کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی۔ یہ اس نئے شہر میں جنت سے آنے والا پہلا ننھا وجود تھا جس سے تمام ملازمین اور ان کے گھرانوں میں خوشی کی لہردوڑ گئی۔ بیٹی کو اللہ کی رحمت سمجھتے ہوئے اسے اسلام آباد کے لیے برکت قرار دیا گیا۔ سب نے مل کر خوشی منائی جیسے سب کے گھرانوں پر رحمت اتری ہو۔والدین نے بیٹی کا نام ‘‘آب پارہ’’ رکھا۔ چیئر مین سی ڈی اے کی اہلیہ مبارک دینے عبد الواحد کے گھر آئیں تو پوچھا بیٹی کا کیا نام رکھا ہے بتایا گیا کہ اس کا نام آب پارہ ہے۔انہی دنوں باگاں گاؤں میں اسلام آباد کی پہلی مارکیٹ تعمیر ہو رہی تھی۔ سی ڈی اے نے یہ مارکیٹ اپنے اس بیٹی سے منسوب کر دی اور آج ہم اسے آب پارہ مارکیٹ کہتے ہیں۔ 71ء کی جاڑے کی یخ بستگی میں ہم ایسے برفاب ہوئے کہ بیٹی گنوا دی اور ہمارے حصے میں مارکیٹ رہ گئی ۔
 دسمبر کے ٹھٹھرتے موسم میں ٹریل فائیو کے بوڑھے برگد کے ساتھ بیٹھ کر دھوپ تاپتے جب سی ڈی اے کے ایک بزرگ ریٹائرڈ افسر مظفر قزلباش صاحب نے مجھے یہ کہانی سنائی تو کچھ یاد نہیں کہ حیرت زیادہ تھی یا دکھ زیادہ تھا۔
 بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں لیکن حالات کی ستم ظریفی دیکھیے یہ بیٹی صرف گیارہ سال بعد پرائی ہو گئی اور اس کے اور پاکستان کے بیچ نفرتوں کی خلیج حائل ہو گئی۔ دسمبر کے ان ایام میں جب میں اسلام آباد میں بیٹھا اس بیٹی کو یاد کر رہا ہوں کیا عجب ڈھاکہ، راجشاہی، سلہٹ، نرائن گنج یا کسی اور شہر میں کہیں یہ بیٹی بھی جو ،اب نانی اور دادی اماں بن چکی ہو گی، اپنے بچوں نواسوں اور پوتوں پوتیوں کو بتا رہی ہو کہ پاکستان کے دارالحکومت میں، جب میں پیدا ہوئی تھی تو اس قدر خوشی منائی گئی تھی کہ اسلام آباد کی سب سے مشہور جگہ مجھ سے منسوب کر دی گئی اور وہ آج تک میرے نام سے پکاری جاتی ہے۔
اب مجھے اس داستان کی پوری تفصیل جاننا تھی۔ آرکائیوز اور لائبریریوں کا رخ کیا، 
 تھوڑی سی مشقت تو اٹھانا پڑی لیکن خبر بھی
 مل گئی اور تصویر بھی۔ ایک بنگالی افسر اپنی بیٹی کو ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے ہے اور اس کے چہرے پر ایسی خوشی ہے کہ اس سے گویا سنبھالی نہیں جا رہی۔ ساتھ ہی ایک خاتون کھڑی ہیں جن کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ چیئر مین سی ڈی اے کی اہلیہ ہیں۔ نام نہیں لکھا، صرف یہی لکھا ہے کہ چیئر مین سی ڈی اے کی اہلیہ اسلام آباد میں پیدا ہونے والے پہلے بچے کے گھر مبارک دینے پہنچی ہیں۔ سی ڈی اے کے پہلے چیئر مین یحیی خان تھے۔ یا تو یہ ان کی اہلیہ ہیں یا پھر ڈبلیو اے شیخ کی اہلیہ ہیں جو 1961میں چیئر مین سی ڈی اے بنے۔سوال مگر یہ نہیں کہ چیئرمین سی ڈی اے کی اہلیہ کون تھیں۔ سوال یہ ہے کہ اسلام آباد کی یہ بیٹی، باغ کلاں کی یہ آب پارہ اب کہاں ہوگی؟ دسمبر میں جیسے ہم اسے یاد کرتے ہیں کیا وہ بھی ہمیں یاد کرتی ہو گی؟ اب تو وہ نانی یا دادی بن چکی ہو گی کیا وہ بھی بنگلہ دیش کے کسی شہر یا گاؤں میں، کسی آتش دان کے پاس بیٹھ کر، اس موسم میں اپنے پوتوں پوتیوں اور نواسوں نواسیوں کو بتاتی ہو گی کہ ہزاروں میل دور مارگلہ کے جنگل میں جب ایک شہر بس رہا تھا تو اس شہر کی پہلی مارکیٹ مجھ سے منسوب کی گئی تھی اور آج بھی اسلام آباد نام کے اس شہر میں آب پارہ نام کی وہ مارکیٹ موجود ہے؟ کیا میری طرح اس کے سینے سے بھی ہوک اٹھتی ہوگی؟ 
کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ اسلام آباد میں کبھی کوئی تقریب سجائی جائے اور بنگلہ دیش میں ایک دعوت نامہ بھیجا جائے کہ پیاری بیٹی آب پارہ،ایک بار آ کر اپنا آب پارہ تو دیکھ جاؤ۔ دیکھو اب یہاں کتنی رونق ہو چکی ہے۔ آجاؤ کہ تمہارا آب پارہ آج بھی تمہارا منتظر ہے؟ 
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
٭٭٭